ابنائے جامعہ سلفیہ زوم میٹنگ

ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ متفرقات

کوویڈ 19 کی وجہ سے خاص طور پر اہلِ علم کی بڑھتی ہوئی وفیات کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورتحال اور چیلنجز کے پس منظر میں 2 ستمبر 2020 بروز بدھ ساڑھے نو بجے شب ابنائے جامعہ سلفیہ کی ایک ورچول نشست منعقد ہوئی، جس میں ملک اور بیرون ملک جیسےساؤتھ افریقہ، ملیشیا، قطر، دبئی، سعودیہ عربیہ، پڑوسی ملک نیپال وغیرہ سےبڑی تعداد میں ابناء جامعہ نے حصہ لیا۔
محترم جناب راشد حسن مبارکپوری صاحب کی کوشش اور مشورے، دکتور عبدالغنی القوفی حفظہ اللہ کی محنت اور لگن، شیخ عبدالجلیل انصاری مکی حفظہ اللہ( نائب ناظم صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی) کے قیمتی مشوروں اور گائیڈ لائن کے بعد مادر علمی جامعہ سلفیہ بنارس کے ناظم اعلیٰ محترم جناب مولانا عبداللہ سعود سلفی حفظہ اللہ کی اجازت اور حوصلہ افزائی سے استاد الاساتذہ دکتور عبدالرحمن بن عبدالجبار فریوائی حفظہ اللہ کی صدارت میں یہ میٹنگ آرگنائز کرنا آسان ہوا۔
یہ آن لائن زوم میٹنگ چھ نشستوں پر مشتمل تھی۔دکتور عبدالغنی القوفی حفظہ اللہ نے نظامت کی ذمہ داری نبھائی۔پروگرام کی ابتداحافظ حمید حسن سلفی مبارکپوری کی تلاوت قرآن سے ہوئی۔ اس کے بعد ناظم پروگرام دکتور عبدالغنی القوفی حفظہ اللہ نے پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور مشارکین کا استقبال کیا۔
آپ نے کہا کہ یوں تو دنیا سے ہر روز لوگ رخصت ہوتے ہیں اور یہ زندگی ہے ہی فانی، مگر جانے والوں کی زندگی سے کیا نصیحت مل رہی ہے وہ ہمارے لیے کافی اہم ہے۔ آپ نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں بتایا کہ اس میٹنگ کے انعقاد کا مقصد وفات پا جانے والے علماء کرام کے اہلِ خانہ کی پریشانیوں اور ان علماء کے نامکمل پروجیکٹس سے لے کر ان مدارس کے مشکلات پر غور وخوض ہے۔ علماء کرام کی رحلت سے پیدا شدہ مسائل سے کیسے نبٹا جائے؟موجودہ پس منظر میں کیا لائحہ عمل بنایا جائے کہ وہ مستقبل کا روڈ میپ ثابت ہو اور ہم ان خطوط پر عمل پیرا ہوکر کچھ بہتر اور مثبت کام کر سکیں۔وفات پا جانے والے علماء کرام کی وراثت علم کو کیسے محفوظ کیا جائے۔ کیا طریقہ اپنا کر ہم ان کی علمی کاوشوں اور کوششوں کو محفوظ کر سکتے ہیں تاکہ اسے عوام الناس کے لیے مفید بنایا جا سکے۔اسی طرح دینی، دعوتی اور تعلیمی اعتبار سے ہم ابناء جامعہ کیسے سماج کے لیے نفع بخش ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس بیچ جید علماء کرام کی ایک بڑی تعداد ہم سے رخصت ہوئی ۔شیخ علی حسین سلفی رحمہ اللہ، شیخ عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ، دکتور ضیاء الرحمن الاعظمی رحمہ اللہ، شیخ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ، ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ و غیرھم۔ ان علماء کرام کے رخصت ہونے کے بعد ان کے ناقص پروجیکٹس کی کیا صورتحال ہے، غیر مدون تحریروں کی تدوین پر کس حد تک توجہ دی گئی، غیر مطبوعہ تحریروں کی طباعت کا مسئلہ بھی قابل غور ہے، ان کے اہلِ خانہ کی ضروریات پر اداروں کی جانب سے کیا لائحہ عمل بنایا گیا، ان سارے امور پر تبادلہ خیال کی حاجت ہے۔
اس کے بعد مہمان اعزازی شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ نے اپنے گرانقدر خطاب کی ابتدا میں ہی واضح فرما دیا کہ گزرنے والے گزر گئے اب ہم کو کام پر توجہ دینا چاہیے، ان پاک طینت نفوس کے نقش قدم پر چل کر دین اور علم کو عام کریں، عوام کی رہنمائی کریں۔
جامعہ کے ابناء کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فارغین کی تعداد 1964 سے لے کر آج 2020 تک سینکڑوں پر مشتمل ہے۔ ان سب کا آپس میں ایک دوسرے سے کوئی مضبوط رابطہ نہیں ہے اس لیے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ فارغین جامعہ کی ایک ڈائرکٹری بنائی جائے جس میں جامعہ کے فارغین خود اپنے قلم سے اپنے بارے میں معلومات درج کریں۔ وہ سب کچھ جو اب تک انھوں نے کام کیا یا اب کر رہے ہیں۔ اس تفصیل سے کافی بڑا اور ٹھوس علمی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔اس سے علماء کے علمی تراث کو محفوظ کیا جانا آسان ہو جائے گا۔ اس ڈائرکٹری سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ غیر مطبوعہ کتابوں کی لسٹ مل جائے گی اور اس کو عملی جامہ پہنانا بھی ممکن ہو پائے گا۔ آج دیکھا جائے تو اس نوعیت کا کوئی مجموعہ دستیاب نہیں ہے۔
دوسرا اہم ترین کام یہ ہے کہ علماء کے تراجم، تصانیف اور تالیفات وغیرہ کا احصا کیا جائے، پچھلی دو صدیوں میں علماء کرام کا بہت سارا علمی ورثہ ضائع ہو گیا، اس لیے اس جانب ضرور توجہ دیں۔
اسی طرح ابناء جامعہ جو بھی لکھیں اس کا ایک نسخہ مادرِ علمی جامعہ سلفیہ بنارس میں ضرور بھیجیں تاکہ وہ محفوظ رہے اور لوگ اس سے فائدہ حاصل کریں۔ جن حضرات نے کتابیں لکھی ہیں ان سے معلومات حاصل کرکے ان کو چھپوانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
اور تیسری اہم بات آپ نے یہ بیان کی کہ ابناء جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں اور وقتاً فوقتاً زوم وغیرہ کے ذریعہ اسی طرح ایک دوسرے سے میٹنگ کرتے رہیں تاکہ سارے لوگوں سے رابطہ برقرار رہے اور آپس میں اجنبیت نہ رہے۔
آن لائن کلاسز کے لیے ایک جدید متحدہ نصاب تیار کیا جائے، نہ صرف ہند بلکہ مصر، امریکہ، افریقہ، یوروپ، برطانیہ وغیرہ کے اداروں کے ساتھ مل کر جدید ترین نصاب کو مضبوطی کے ساتھ تیار کریں مرحلہ ثانویہ تک کم از کم اس پر عمل ہو۔
سال کے شروع یا آخر میں اس طرح کی آن لائن ملاقاتیں ہوتی رہنی چاہئیں، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیا پیش رفت ہےاور کمزوری کہاں پر ہے تاکہ مشورے کے بعد حل کرکے اسے آگے بڑھایا جائے۔
آپ نے اس قیمتی خطاب میں یہ بھی مطالبہ کیا کہ تمام لوگ مل جل کر اجتماعی کام پر فوکس کریں۔ اگر اجتماعیت میں کمزور ہیں تو ان غیر مسلم ممالک اور مذاہب سے سیکھیں جو نہایت منظم طریقے سے بڑے سے بڑا کام بڑی آسانی سے اور ترتیب وار کر لیتے ہیں۔ مغربی ممالک سے سبق حاصل کریں اور اس سمت میں خاص توجہ دیں۔ اجتماعی جذبہ پیدا کریں، اچھے کاموں کو اجاگر کریں، لوگوں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا سیکھیں۔ ان پر اعتراض کرنے اور بے جا حساب لینے سے بچیں، ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا حساب لینے کے لیے ان کا رب کافی ہے۔
شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ کا خطاب کافی مؤثر، علمی اور پریکٹیکل تھا، جسے تمام مشارکین نے بغور سنا اور اسے عملی طور پر برتنے کا وعدہ بھی کیا۔
اس کے بعد ناظم پروگرام دکتور القوفی حفظہ اللہ نے ملیشیا سے شیخ انیس سلفی ازہری حفظہ اللہ کا میٹنگ کے لیے ارسال کردہ آڈیو پیغام سنایا۔ شیخ انیس ازہری صاحب نے اس لقا کی کافی تعریف کی اور سارے مشارکین کو مبارکباد پیش کیا۔ سب کو دعائیں دیں اور دلی سکون و خوشی کا اظہار فرمایا۔
بعدہ شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی حفظہ اللہ کو مدعو کیا گیا۔ آپ نے اپنے آبائی گاؤں اونرہوا سدھارتھ نگر سے اس آن لائن میٹنگ میں شرکت فرمائی۔
آپ نے اپنے مختصر خطاب میں سب سے پہلے تو منتظمہ کمیٹی کی اس پہل پر مبارکباد پیش کیا اور خوشی کا اظہار فرمایا کہ دنیا کے مختلف گوشوں سے احباب ایک دوسرے کو براہِ راست دیکھ اور سن رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت بتاتے ہوئے آپ نے اس کا بہتر استعمال کیسے منظم طریقے سے کیا جائے اس پر مشاہدین کی توجہ مبذول فرمائی۔ منظم طریقے سے دعوت و تبلیغ، تالیف و تصنیف اور مدارس و مساجد کی تنظیم پر بھی شیخ نے ابھارانیز کہا کہ ہم سب کو اپنی اخلاقی کمزوری کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ سلیقے سے یہ کام ہو سکے۔
شیخ نے مزید کہا کہ اسلاف کے نقش قدم پر چلیں، اپنے اندر سدھار لائیں اور یہ چیزیں تبھی ممکن ہوں گی جب ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں گے، اسی سے بیداری پیدا ہوگی اور حوصلہ ملے گا۔
آپ کے بعد ابناء سلفیہ کے ایک قدیم رکن شیخ عبدالحئی سلفی گجراتی حفظہ اللہ جو کہ بیس پچیس سالوں سے جنوبی افریقہ میں رہتے ہیں اور وہیں پر ایک دینی ادارہ قائم کرکے دعوت و تبلیغ اور دین کی ترویج و اشاعت کا کام کر رہے ہیں،علیل ہونے کی وجہ سے شریکِ مجلس نہ ہوسکے مگر شیخ نے اپنا آڈیو پیغام بھیجا جس میں آپ نے سارے مشارکین کو دعا دی اور اپنے لیے دعاء صحت کی گزارش کی۔ مزید آپ نے اس طرح کی میٹنگ کے انعقاد پر خوشی کا اظہار بھی فرمایا۔
ابناء جامعہ کی پہلی نشست میں شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی حفظہ اللہ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے بھی شرکت کی لیکن چونکہ آپ کچھ ہی دیر پہلے سفر سے لوٹے تھے اس لیے بقیہ نشستوں میں شرکت نہ کرسکے۔
آپ کے بعد شیخ ظفرالحسن مدنی حفظہ اللہ کو مدعو کیا گیا۔ آپ شارجہ سے اس آن لائن میٹنگ میں شریک ہوئے۔شیخ محترم نے اس طرح کی میٹنگ آئندہ بھی کرتے رہنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے ہم ایک دوسرے کے رو برو ہیں۔
علماء کی مسلسل رحلت پر آپ نے کہا کہ ان کے انتقال کے بعد ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم ان کے حق میں اخلاص کے ساتھ دعاء مغفرت کریں یہ ایمان کا تقاضہ ہے۔ بتقاضائے بشریت ہر انسان سے غلطی ہو جاتی ہے انتقال کے بعد ان کے حسنات پر ہی بات کریں ورنہ خاموش رہیں۔آپ نے ملی و سماجی طور پر مل جل کر کام کرنے پر زور دیا۔آپ نے کہا کہ شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ اور شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی حفظہ اللہ دونوں کی باتیں حد درجہ اہم ہیں، میں ان سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں۔
شخ ظفر الحسن مدنی حفظہ اللہ اس میٹنگ کی ساری نشستوں میں شامل رہے اور آخر تک حوصلہ بڑھاتے رہے۔
آپ کے بعد استاد الاساتذہ شیخ عبدالوھاب حجازی حفظہ اللہ کو دعوت سخن دیا گیا۔صدر مجلس نے حجازی صاحب کی آمد پر کافی دلچسپ کمنٹ فرما کر محفل کو شاداں و فرحاں کر دیا۔ صدر محترم شروع سے آخر تک اسی طرح سے تمام مشارکین کو کچھ نہ کچھ ہنسنے اور مسکرانے کا موقع فراہم کرتے رہے ۔
حجازی صاحب نے دوران گفتگو ایک اہم بات کی طرف سب کو توجہ دلائی کہ ہم سب اپنے منہج کی سمت کو درست بنائے رکھیں اور اسی پر لوگوں کو لانے کی خلوص کے ساتھ محنت کرتے رہیں۔
آپ نے ایک شعر پڑھ کر باہم ایک دوسرے سے مل جل کر رہنے پر زور دیا کہ:
نفسوں کو تم نہ جانچو لوگوں سے مل کے دیکھو
کیا چیز جی رہی ہے کیا چیز مر رہی ہے
لوگوں سے مل جل کر رہیں، اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ سماجی بنائیں، خیر و شر کے معرکہ کا اگر مشاہدہ کرنا ہے تو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا ہوگا۔ ایمان کے ساتھ عمل اور جد وجہد کی سخت ضرورت ہے۔
آپ کے بعد فضیلۃ الدكتور شیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ کے پیغام کو محفل میں ناظمِ پروگرام ڈاکٹر عبدالغنی القوفی حفظہ اللہ کے ذریعہ پڑھ کر سنایا گیا۔ شیخ محترم نے تمام مشارکین کو سلام پیش کیا تھا اور طبیعت کی ناسازی اور تھکاوٹ کی وجہ سے محفل میں شرکت نہ کر پانے پر معذرت کی تھی۔
اس کے بعد استادِ محترم شیخ أبوالقاسم سلفی حفظہ اللہ کو مدعو کیا گیا۔شیخ اس آن لائن میٹنگ میں گجرات سے شریک ہوئے۔ شیخ کو فی الوقت کمر میں درد کی شکایت ہے، اللہ شفائے کامل وعاجل عطا فرمائے۔ آمین
شیخ جوں ہی مدعو کیے گئے صدر محترم کی طرف سے دلچسپ کمنٹ نے محفل کو زعفران زار بنا دیا۔
استاد محترم نے اس آن لائن میٹنگ پر دلی اطمینان ظاہر کیا اور منتظمین وگرامی قدر علماء کرام کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح کی ملاقات کا موقعہ بار بار فراہم کرنے کا بھی مشورہ دیا۔
آپ کے بعد شیخ دکتور ارشد فہیم الدین سلفی مدنی حفظہ اللہ تشریف لائے۔آپ نے پروگرام کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور مقررہ وقت میں ہی اپنے قیمتی نصائح سے نوازا:
(۱)آپ نے شیخ عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا اور دعاء مغفرت کی ۔
(۲) علماء امت کی وفات پر خصوصا اہل حدیث علماء کی وفات پر باقی تمام ابناء کو سنجیدگی سے اپنا اپنا محاسبہ کرنے پر زور دیا۔
(۳) آپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جو علماء اپنے اپنے اداروں کی بےجا باز پرس کی وجہ سے عوام کے لیے دروس و محاضرات نہیں کر پاتے ہیں انھیں ان قیود سے آزاد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اداروں کے ذمہ داران کو پیغام دیا کہ آپ ان علماء کرام کو بندھوا مزدور نہ بنائیں بلکہ عام و خاص سب کے لیے انھیں نفع بخش ثابت ہونے کا موقع دیں۔
(۴) آپ نے سلمان ندوی کی ریشہ دوانیوں پر منظم طریقے سے صحابہ کرام کی شخصیت پر اعتراض کا علماء کی طرف سے علمی جواب دینے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے کہا کہ اس کی تقریروں اور تحریروں کا تعاقب کیا جائے اور ملت کو اس کے گمراہ کن عقیدے سے روشناس کرایا جائے اور ان کاوشوں کو افادہ عام کے لیے سوشل میڈیا پر بھی نشر کیا جائے۔
آپ کے بعد ناظم پروگرام نے جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال کے ناظم جناب مولانا شمیم احمد ندوی حفظہ اللہ کو مدعو کیا۔ آپ نے خرابئ صحت کے باوجود اس آن لائن میٹنگ میں شرکت فرمائی۔
آپ نے بڑے بڑے علماء کرام کی وفات کے بعد ان کی وراثت کو جیسے محفوظ کیا جانا چاہیے، نہیں کیا جارہا ہے اس پر اظہار افسوس کیا۔ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر اور جامعہ سلفیہ میں تدریسی اسٹاف کی بڑے پیمانے پر وفیات میں یکسانیت اور ابناء سلفیہ کی خدمات پر آپ نے روشنی ڈالی۔ ابناء سلفیہ سے گذارش کی کہ آپ لوگ ان کے حقیقی جانشین بنیں۔سعود اختر سلفی بن عبدالمنان سلفی سے اپنے والد محترم کا صحیح جانشین بننے کی تاکید فرمائی۔
اس کے بعد فضیلۃ الدکتور فضل الرحمن مدنی حفظہ اللہ کو مدعو کیا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم سب موت کے لیے تیار رہیں، دھوکے میں نہ رہیں کہ ابھی تو عمر ساری بچی ہے، بعد میں نیکیاں کرلیں گے، اچھے کام ہو جائیں گے، نہیں بلکہ جوانی سے دھوکہ نہ کھاتے ہوئے سفر آخرت کا توشہ تیار رکھیں۔ اس کے علاوہ اپنے سلوک ومعاملات کا جائزہ لیتے رہیں۔ اگر آپس میں کچھ چپقلش ہے تو فی الفور اسے دور کر لینا اور ناخوشگوار حالات کو درست کرلینا ہی بہتر ہے، بعد پر نہ ٹالیں۔
آپ کے بعد شیخ عبدالرشید سلفی مدنی حفظہ اللہ استاد جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کو مدعو کیا گیا۔ آپ صدر مجلس دکتور عبدالرحمن بن عبدالجبار فریوائی حفظہ اللہ کے ہم سبق ہیں۔ آپ نے اپنی طویل خدمات (جو تقریبا 41 سالہ مدت پر محیط ہیں) کاتذکرہ فرما کر جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر سے اپنی اپنائیت کا اظہار کیا اور شیخ عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کے انتقال پر کافی افسوس کا اظہار کیا۔ علماء سے گذراش کی کہ ہر اعتبار سے شیخ مرحوم کے ورثاء کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کی جائے۔
آپ کے بعد ہر دلعزیز شخصیت، اس محفل کے روح رواں اور اس مجلس کو عالمی مجلس بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے جناب شیخ عبدالجلیل انصاری مکی حفظہ اللہ تشریف لائے۔ آپ نےاپنے مختصر سے خطاب میں شیخ عبدالمنان رحمہ اللہ کے انتقال پر اظہار افسوس کیا اور واضح فرمایا کہ شیخ مرحوم کی شخصیت ہر اعتبار سے سماج کے لیے نفع بخش تھی۔ سدھارتھ نگر کی جمعیت اور جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں آپ نے کافی خدمات انجام دیں، آپ ملی، سماجی، دعوتی اور تصنیفی ہر اعتبار سے ملت کے لیے کافی بیش قیمت تھے، اللہ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے بعد دبئی سے اس محفل کی زینت بنے شیخ عبدالرزاق سلفی حفظہ اللہ اور مختصر سے وقت میں اہم ترین بات کی ۔آپ نے ذمہ داران مدارس اور بزرگوں سے اپیل کی کہ بہت سارے اساتذہ جو اپنا پورا وجود ادارے کے لیے وقف کر دیتے ہیں لیکن ان کا جس انداز سے خیال رکھنا چاہیے نہیں رکھا جاتا ہے یہ ہماری جماعت کا ایک المیہ ہے۔ اس جانب آپ لوگ توجہ ضرور دیں اور اخلاقاً ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے رہیں۔ ان کے خورد ونوش اور علاج معالجے کا حسب استطاعت انتظام ضرور کریں۔
آپ کے بعد سعود اختر بن عبدالمنان سلفی کو مدعو کیا گیا۔ آپ فی الوقت جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کے استاد ہیں۔آپ نے اپنے والد محترم کے کئی علمی پروجیکٹس پر روشنی ڈالی اور اس بات کا اظہار کیا کہ ان میں سے اکثر ابھی منظر نامے سے غائب ہیں، اس لیے انھیں چھپوا کر منظر عام پر لانا میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔شیخ عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ کی وفیات پر لکھی ہوئی تحریروں کو ایک کتاب کی شکل میں شائع کر کے جلد ہی قارئین تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔ فتنہ قادیانیت جو کہ دوسری بار چھپنے کے لیے تیار ہے اس کا بھی تذکرہ فرمایا۔شیخ کی ایک تالیف فارغین سلفیہ ضلع سدھارتھ نگر بھی بالکل چھپنے کے قریب ہے ان شاء اللہ، آپ نے اس پر بھی جلد ہی کام مکمل ہونے کی یقین دہانی کرائی۔
آپ کے بعد ایک نظم پیش کرنے کے لیے برادرم عبدالغفار سلفی کو مدعو کیا گیا۔ اس میٹنگ کو سنوارنے میں آپ نے بھی کافی اہم کردار ادا کیا ۔ برادرم نے حسب حال ایک نظم سنائی۔
ستارے زمیں کے بجھے جا رہے ہیں
ہمارے اکابر اٹھے جا رہے ہیں
کچھ اس طرح ٹوٹا ہے تسبیح کا دھاگا
کہ سارے ہی موتی گرے جا رہے ہیں
اس کے بعد پھر خطاب کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بار ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کے امیر محترم و استاد جامعہ اسلامیہ خیر العلوم ڈومریاگنج شیخ ابراہیم مدنی حفظہ اللہ کو مدعو کیا گیا۔ آپ نے اس اجتماع پر خوشی کا اظہار فرمایا۔ آپ نے کہا کہ علماء کی رحلت پر درس عبرت کیا مل رہا ہے، اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ نے ابناء سلفیہ کے روشن کردار اور ان کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے دلی سکون کا اظہار فرمایا اور مشاہدین سے مزید محنت، لگن اور جد وجہد کے ساتھ دینی تعلیم و تعلم کے حصول پر ابھارا، ساتھ ہی ابناء جامعہ سے سماج کے لیے نفع بخش بننے کی اپیل کی۔
آپ کے بعد شیخ عبدالحکیم مدنی حفظہ اللہ استاد جامعہ رحمانیہ کاندیولی تشریف لائے۔ آپ نے کہا کہ ابناء کے تعاون کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، تاکہ مشکل حالات میں ان کی مدد کی جا سکے۔ اس کمیٹی کا کام ابناء کی دیکھ ریکھ کرنا اور ان کی ضروریات کا انتظام کرنا ہوگا۔
اسی طرح علماء کرام کے جو باقی ماندہ کام ہیں، چاہے وہ تصنیف سے متعلق ہوں یا کوئی اور چھوٹا بڑا پروجیکٹ، اسے مکمل کیا جائے۔
آپ کے بعد شیخ عبدالستار سلفی حفظہ اللہ تشریف لائے۔ منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ بھی اس طرح کی نشستوں کے انعقاد کی خواہش ظاہر کی۔
ذمہ داران مدارس سے آپ نے اپیل کی کہ علماء کے تعاون کے لیے آگے آئیں۔ وفات کے بعد ان کی مدد میں ہر اعتبار سے حاضر رہیں، تاکہ غموں کے بیچ انھیں سکون حاصل ہو سکے مزید حیران و پریشان نہ ہوں۔
آپ کے بعد مہمان خصوصی شیخ عبداللہ سعود سلفی حفظہ اللہ ناظم اعلیٰ جامعہ سلفیہ بنارس کو مدعو کیا گیا۔
آپ نے ابناء کی اس آن لائن ملاقات پر خوشی کا اظہار فرمایا۔آپ نے جامعہ سلفیہ بنارس کے مختلف نشاطات پر روشنی ڈالی۔اور اس بات کا دو ٹوک اعتراف کیا کہ یہ جامعہ آپ سب کا ہے اسے بہتر سے بہتر طریقے سے چلائیں۔ آپ کے ہر مشورے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ سب ابناء کی خدمات ہمہ جہت ہیں۔ درس وتدریس، تجارت، کاروبار، سوشل و سماجی کام، یونیورسٹیز اور کالجوں میں آپ کی شرکت، حکومتی اداروں میں آپ کی ملازمت جامعہ کے سر کو فخر سے بلند کر دیتے ہیں ایسے ہی آپ سب اپنے کارناموں سے ملک و دین کا نام روشن کرتے رہیں۔
پھر آپ نے جامعہ سلفیہ بنارس میں آن لائن کلاسز کی شروعات، اس کی ضرورت اور اس کے لیے کی گئی کامیاب کوشش کا تذکرہ فرمایا۔ جامعہ کی ویب سائٹ کو اپڈیٹ کرنے اور اس پر اب آسانی سے ہر چیز کی دستیابی پر بھی روشنی ڈالی۔ بینکوں سے ویب سائٹ کا لنک کس انداز سے پر اعتماد ہوا ہے ان سب کو آپ نے واضح کیا تاکہ طلباء اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو انجام دے سکیں اور انھیں دقت بالکل نہ ہو۔
اساتذہ کرام کی آن لائن ٹریننگ اور جامعہ کے اپنے خاص سافٹ ویئر کا انتظام کرنے پر بھی روشنی ڈالی اور کافی پر امید نظر آئے۔
آپ نے کہا: ہم چاہتے ہیں ابناء جہاں کہیں ہوں ان کے شروع سے آخر تک کے حالات جمع ہوسکیں تو جامعہ کے لیے یہ بہت بہتر ہوگا اور اس طرح ہم یہ معلومات ویب سائٹ پر شئیر کر سکیں گے۔
ناظم صاحب نے ابناء کے جامعہ سے والہانہ لگاؤ کا اظہار کیا اور ہر اعتبار سے جامعہ کے ساتھ کھڑے رہنے کی تاکید بھی کی۔
آپ کے بعد صدارتی کلمات کے لیے مدعو کیا گیا فضیلۃ الدکتور عبدالرحمن بن عبدالجبار فریوائی حفظہ اللہ کو۔صدر محترم نے جدید ہندوستان میں بیسِک تعلیم، ابتدائی مدارس کے نظام کو سنبھالنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ آپ نے کہا کہ اگر ہم اسے محفوظ کر لے گئے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی، ورنہ اگر یہ جانب ہمارا ناقص رہ گیا تو بہت بڑا خسارہ ہوگا۔ اس لیے اسے محفوظ کریں، امت کے نونہالان کو بنیادی دینی تعلیمات دیں ورنہ جدید تعلیم کی فکر سے دین سے جہالت بڑے پیمانے پر بڑھ جائے گی۔
اسی طرح آپ نے مدارس کے ناگفتہ بہ حالات پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے بہتر کرنے کی اپیل کی۔آپ نے کہا کہ طلباء پر خوب محنت کی جائے، قابل طلباء بنائے جائیں۔ اساتذہ کی ٹریننگ ہونی چاہیے۔ انھیں اسلاف، علماء کرام کی تاریخ پڑھائی جائے تاکہ انھیں احساس ہو کہ ہمارے اسلاف نے کیا کیا کارنامے انجام دیے اور کس کس طرح کی قربانی پیش کی۔ ہمارے قابل اسلاف علماء کرام کی تربیت کیسے ہوئی وہ کیسے کامیاب ہوئے وہ تمام باتیں جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
آپ نے کہا کہ طلباء کو اتنا قابل بنایا جائے کہ وہ آپ کے مدرسے کی پہچان بن جائیں۔آپ نے آن لائن تعلیم پر خوشی ظاہر فرمائی اور کہا کہ اسے خوب منظم کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ہم آسانی سے پہنچ سکیں۔
آپ نے شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ کی نصاب تعلیم پر پیش کی گئی گفتگو کو بہت مفیدبتایا اور اس کی اہمیت کو سمجھنے پر زور دیا۔
صدر صاحب کے خطاب کے بعد ابناء کے اصرار پر شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ کو دوبارہ موقع دیا گیا۔
آپ نے کہا کہ سیدھی بات یہ ہے کہ آپ سب اس موبائل کا استعمال 24 گھنٹے میں صرف ایک گھنٹہ کریں، اس سے اپنے آپ کو بچا کر علمی کاموں میں اپنی انرجی لگائیں۔ آپ سب اب “نعم” کی جگہ “لا” اپنی زبان پر لائیں۔دوسروں کی ڈالی ہوئی ذمہ داری کو قبول نہ کریں کیونکہ اس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور پائیدار کام نہیں ہوتے۔کسی بھی عالم کا نام اٹھائیں اور ان کی شخصیت پر لکھنا شروع کردیں یہ بہت بڑا کام ہوگا آپ کی طرف سے۔ یاد رہے جنون ہی اس طرح کے کام کرا سکتا ہے، اگر آپ اس امید میں ہیں کہ کوئی پیسے دے گا تب آپ کام کریں گے تو اسے بھول جائیں، خود اپنے بل بوتے پر اس طرح کے بڑے بڑے کام کیے جا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔
صدر محترم کی اجازت سے ناظم پروگرام دکتور عبدالغنی القوفی حفظہ اللہ نے دعائیہ کلمات کے ساتھ محفل کے اختتام کا اعلان کیا۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
رياض الدين نصير محمد سلفي

ماشاء اللہ بہت خوب

قاری محمد نوشاد عالم

ماشاءاللہ جزاکم اللہ خیرا کثیرا

md safiur rahaman

ma sha allah

عبدالرحيم بنارسي

ماشاء اللہ