“کیب CAB” سی اے بی اس کے ذریعہ سے تمام گھس پیٹھیوں کو جو دیگر ملکوں سے آئے ہیں ان کو شہریت دینے کا بل اور مسلم قوم کو اس سے محروم رکھنے کی پالیسی.
شہریت ترمیمی بل جس انداز سے مسلمانوں کو گوناگوں مسائل سے گھیر کر انہیں پریشان کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کو بروئے کار لایا جا رہا ہے وہ بہت افسوس ناک ہے. یہ بل جہاں ایک طرف ملک کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان دشمنی و عناد پیدا کرے گا وہیں ملک کی سالمیت کے لئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے. کیا موجودہ حکومت اپنے تعداد کے بل پر جو چاہے وہ کرے، ایوان زیریں میں تو بل پاس کرا لیا اپنی زیادہ تعداد ثابت کرکے وہیں ایوان بالا میں بھی تعداد ہی کے بل پر یہ بل پاس کرا لیا جائے گا،یہ انصاف کا قتل ہے اور ملک کی جمہوریت پر کالا کلنک. تعداد کبھی بھی ملکوں کی سالمیت پر صحیح فیصلہ کرنے میں قاصر رہی ہیں، دور اندیش قائد اور ملک و اقوام کے تئیں فکر مند حکمراں اور ان کے خواص ہی ملک کو امن و امان کا ماحول دے سکتے ہیں.
موجودہ حکومت دراصل اپنے وہ تمام کارنامے جو اس نے ملک میں اپنے دوران حکومت انجام دئے ہیں جس میں ہر محاذ پر ناکام ہوئے ہیں اسی ناکامی اور شرمندگی کو چھپانے کے لئے نت نئے شوشے چھوڑ کر ملک کی عوام کو گمراہ کرنا اور ملک کی سالمیت کو تباہ کرنا اپنا حقیقی ایجنڈہ بنا لیا ہے. مسلم دشمنی اس قدر ان کے سر پر سوار ہے کہ پورے ملک کو اہل دنیا کے سامنے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا.
اس بل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہندوستان کی گوناگونی تہذیب اور اخلاقیات پارہ پارہ ہو جائیں گے، آپسی دشمنیاں مزید فروغ پائیں گی اور اہم ترین بات یہ کہ اس بہانے باہری ممالک سے آنے والے باشندے جو اس بل کے ذریعہ ملک میں آسکتے ہیں ان سے ملک کا دفاعی نظام بہت زیادہ کمزور ہوسکتا ہے. آئے دن سنتے رہتے ہیں کہ راجستھان کے بارہ ہندو پاکستان کی جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے گئے، فلاں ہندو پولس والے پاکستان کے جاسوس نکلے، فلاں سفیر خاص پاکستان کی جاسوس نکلی وغیرہ وغیرہ. یہ عالم ابھی سے ہے جب ان لوگوں کو ہری جھنڈی باہر سے آنے کی دے دی جائے گی تب ملک کی سیکورٹی کا کیا عالم ہوگا، مسلم قوم سے دشمنی اتنا سر پر سوار ہے کہ اپنے ہی آپ کو تباہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.
ٹھیک ہے آپ دیگر ممالک کے پریشان حال ہندوؤں کو اپنے ملک میں پناہ دیں لیکن صرف ہندوؤں کو کیوں اپنا ملک تو عالمی گرو بننے جا رہا ہے دنیا کا واحد ملک ہے جو تمام مذاہب کی قدر کرتا ہے اور سب کو ایک ساتھ رکھتا بھی ہے تو کیوں نہ ان تمام پریشان حال باشندوں کو بھی ملک میں جگہ دی جائے جو کسی بھی مذھب ذاتی دھرم کے ہوں، چائنا میں ایغور مسلمانوں پر بھی ظلم ہو رہے ہیں سری لنکا کے تمل ہندؤں پر بھی مظالم ہو رہے ہیں ان پر بھی اپنی دریا دلی دکھائی جائے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بڑی خوش آئند بات ہوگی اور ملک کے لئے فخر کا مقام ہوگا.
دنیا کو جہاں ہمارے وزیر اعظم یہ دکھاتے ہیں کہ ہمارا ملک وہ ملک ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں جہاں نفرت و عداوت نہیں ہے ہم اس ملک سے ہیں جہاں کسی مذھب کو نہیں بلکہ قانون کو دسترس حاصل ہے، جہاں پر تمام مذاھب کو آزادی حاصل ہے اس پر عمل کرنے اسے پرموٹ کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی آزادی. اسی سال امریکا میں منعقدہ پروگرام جو ہندوستانی باشندوں کے ذریعہ منعقد کیا گیا تھا جس کا نام “ہاؤڈی مودی” تھا ذرا وزیر اعظم صاحب کے اس خطاب کو بھی سنا جائے اور آج ان کا ملک کے اندر یہ دو موہہ چہرہ کیا کہا جائے
شاعر کچھ یوں کہتا ہے کہ
فساد، قتل، تعصب، فریب، مکاری
سفید پوشوں کی باتیں ہیں کیا بتاؤں
اچھی خبر یہ ہے کہ ملک کی عوام بیدار ہے اور اپنے بیداری کا بھرپور ثبوت بھی دے رہی ہے، امت شاہ نے بل پاس کرتے ہوئے یہ بات بہت ڈرے ہوئے الفاظ میں کہی کہ شمال مشرقی ہند کی عوام سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ کوئی آندولن نہ کریں یعنی ایک بات ہے جس سے اس حکومت کو ڈر ہے اور وہ ہے سڑکوں پر اتر کر اسے ننگا کرنے کا کام، کانگریس کی پچھلی حکومت میں کیسے اور کس کس طرح سے ان لوگوں نے سڑکوں پر اتر کر حکومت کو گھیرا تھا اور حکومت سے بے دخل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے تھے اس پارٹی کو اسی سے ہی ڈر لگتا ہے باقی کسی اور چیز سے نہیں، نارتھ ایسٹ میں کل بند کا اعلان تھا زبردست غم و غصہ عوام میں دیکھا گیا، یونیورسٹی کے طلباء تنظیموں کے عہدیداران یونیورسٹی کے پروفیسران اور لفٹ اور ان کے حامی سب سڑکوں پر اتر آئے ہیں، آسام کی گوہاٹی یونیورسٹی کے طلباء کا زبردست احتجاج، علی گڑہ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کا کل شام میں مشعل نکال کر اپنا احتجاج اور ناراضگی اس بل کو لے کر جتانا. اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے حکومتی اقدامات پر جیسا گھیراؤ اس حکومت کی کرنی چائے وہ نہیں ہورہا ہے، جس کی وجہ سے یہ ہر چیز اپنی من مانی سے کر رہے ہیں. اس پر بڑے آندولن کی ضرورت ہے جسے ملک کی عوام کو سمجھنا ہوگا.
امریکی وفاقی کمیشن برائے بین الاقوامی مذھبی آزادی نے وزیر داخلہ امت شاہ کے خلاف امریکی تحدیدات نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس بل سے مسلمانوں کو ان ہی کی سرزمین میں اجنبی بنا دیا جائے گا اور انہیں ملک بدر کرنے کی سازشیں رچی جا رہی اس پر وقت رہتے ہی ٹھوس اقدام کرنا ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے. (سیاست 11 دسمبر 2019 صفحہ 3).
اسی سے متعلق ایک سابق آئی ایس آفیسر کا بھی بیان آج سیاست اردو حیدرآباد میں پڑھنے کو ملا :
“11 دسمبر 2019، صفحہ 3 (سیاست اردو حیدرآباد :
سابق آئی اے ایس آفیسر و مشہور انسانی حقوق جہد کار جناب ہرش مندر نے منگل کو بیان دیا کہ اگر شہریت ترمیمی بل پارلیمنٹ میں منظور ہوتا ہے تو وہ سرکاری طور پر اپنے آپ کو مسلمان ہوجانے کا اعلان کریں گے. اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ وہ این آر سی پر اگر عمل ہوتا ہے تو وہ اس کے لئے دستاویزات داخل نہیں کریں گے اور وہ اپنے لئے وہی سزا کا مطالبہ کریں گے جو کسی مسلم کو عدم دستاویزات پر سزا ملے گی یا پھر حراستی کیمپ میں ڈال دیا جائے گا. ”
ملک کے اندر ڈر و خوف کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے لوگ شکوک و شبہات میں پڑے ہوئے زندگی گذار رہے ہیں الگ الگ اندیشے الگ الگ خیالات زندگی مین اسٹریم سے کٹ کر ان چیزوں میں الجھ کر رہ گئی ہے، اس سے ملک کی حالت بد سے بدتر ہونے جارہی ہے.
این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزن آف انڈیا) جو کہ آسام میں لاگو کیا گیا تھا یہ کہہ کر کہ وہاں پر 2 کروڑ سے زیادہ بنگلہ دیسی گھس آئے ہیں انہیں نکال پھینکنا ہے 1600 کروڑ روپئے اس کے پیچھے خرچ ہوئے عوام کے کتنے پیسے خرچ ہوئے اس کی کوئی رپورٹ نہیں ہے کتنے سرکاری آفیسرز رشوت کھائے کتنے کروڑ وہ اپنا بنائے کچھ خبر نہیں تقریبا تین سال تک وہاں کہ عوام کی زندگی اسی کے اردگرد گھومتی رہی اور نتیجہ کیا نکلا کہ 19 لاکھ لوگ فائنل نتیجے میں این آر سی لسٹ سے باہر پائے گئے اور ان میں اکثریت ہندو بھائیوں کی ہے مسلم تقریبا 5 لاکھ پائے گئے جن میں سے ابھی کافی لوگ قانونی چارہ جوئی سے اپنا نام رجسٹر کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں.
اس نتیجے سے بوکھلائی حکمراں پارٹی اپنے فیلیور پر شرمندہ ہونے کے بجائے اب اسے پورے ملک پر تھوپنے کی بات کر رہی ہے، عجیب حالت ان کی ہوگئی ہے ایک طرف ملک مندی کا شکار ہے جی ڈی پی ریٹ دن بدن گرتی جا رہی ہے روپئے کا ویلیو پھیکا پڑتا جا رہا ہے ریلوے اپنے بدترین دور سے گذر رہا ہے نوکریاں یہاں نہیں ہیں بے روزگاری 45 سالہ ریکارڈ توڑ چکی ہے نوجوان ریکارڈ توڑ بے روزگاری کا شکار ہیں، ملک کا خزانہ خالی ہے بینک بند ہورہے ہیں بینک کے لٹیرے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک بھاگ رہے ہیں، خواتین محفوظ نہیں ہیں زنا پر زنا کی خبریں، خواتین کو زندہ جلادینے کی خبریں، عورتیں و معصوم بچے و بچیاں کہیں محفوظ نہیں ملک افرا تفری کا شکار ہے اور یہ حکومت عوام کو دوسرے طریقے سے پریشان کر رہی ہے تاکہ جنتا ان کی ناکامیوں کو نہ دیکھے اور شترمرغ کی طرح اپنے سر کو ریت میں چھپا لے.
ایک آنسو بھی حکومت کے لئے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
“منور رانا”
بڑے بڑے نیتا اس کے شکار ہیں ان پر ریپ بلاتکار کڈنیپنگ و اسمگلنگ قتل و خونریزی کے مقدمات ہیں، چوری ڈکیتی فروتی ہر میدان میں ایک سے ایک لیکن اگر وہ ان کا دامن تھام لے تو پھر وہ بالکل منزہ و پاک، ہر چیز سے صاف شفاف ایسا لگتا ہے کہ ایسی مشین ان کے پاس ہے کہ اس میں ڈاخل ہوتے ہوئے ڈرجنٹ سے ان کی گندگیاں صاف ہو جاتی ہیں اور ایسا پٹہ ان کے پاس ہے جسے اپنے گردن پر ڈال لو ہر گناہ سے پاک ہو جاؤ.
دیکھوگے ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
“ملک زادہ منظور”
آپ کے تبصرے