کنکڑ ابالنے والے

ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ عبادات

غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک

خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا

” إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّىٰ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعسْرَىٰ ” سورۃ اللیل.

ترجمہ: بیشک تمہاری کوششیں الگ الگ اور مختلف ہیں تو جس نے عطا کیا (اللہ کی راہ میں) اور تقوی اختیار کیا (اپنے رب کا) اور خیر و بھلائی کی باتوں کی تصدیق کی تو ہم اس کے لئے آسانیاں پیدا کریں گے، اور جس نے بخالت سے کام لیا اور بے پرواہی دکھائی اور خیر و بھلائی کی تصدیق نہیں کی تو ہم اس کے لئے سختی پیدا کریں گے”.
اللہ تبارک و تعالی نے ان آیات میں چند اہم ترین باتوں کا تذکرہ فرمایا ہے جو ہر سماج و معاشرے کے لئے بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل ہیں، ہم اور آپ فی الوقت جس سوسائٹی میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان میں تقریبا ستر فیصد (70%) آبادی غریب ہے، اور ان میں 30 فیصد آبادی انتہائی درجے کی غربت سے دوچار ہے یعنی فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے، زیادہ تر بھوک مری کا شکار بچے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے اموات کی شرح کافی زیادہ ہے، اس کے وجوہات چند ایک ہیں مثلاً. کھانے کی کمی، پانی کی کمی، گندگی میں رہنا جہاں پر کوڑا کرکٹ ہو، گندگی سے آلودہ پینے کا پانی، جھگی جھونپڑیوں میں رہنا، صحت مند غذائیت سے محرومی، موسمیاتی حالات یعنی انتہائی سردی و برسات و دیگر پریشانیوں میں وسائل زندگی سے محرومی.
معزز قارئین!
اپنے ملک میں ہر سال 14 لاکھ بچے پانچ سال کے اندر ہی فوت ہو جاتے ہیں، نمونیا، ملیریا اور کالرا کی وجہ سے، لگاتار غذائیت کی کمی کی وجہ سے، 200 ملین ہمارے ملک میں ایسی عوام ہے جو کہ کھانے کا بھی انتظام نہیں کرپاتی ہے جن میں 61 ملین بچے بھی شامل ہیں.

چہرہ بتا رہا تھا کہ اِسے مارا ہے بھوک نے

حاکم نے یہ کہا کہ کچھ کھا کے مر گیا

معزز قارئین!
اب ہم اندازہ کریں کہ ہمارے ملک میں غریبی کی کیا حالت ہے؟ غربت نے سماج کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے، سورہ لیل کی مذکورہ آیات کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہیں، آج ان تعلیمات کو فروغ دینا کافی اہم ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض بھی بنتا ہے کہ ہم اس پر زبردست طریقے سے محنت کریں، اور پوری توجہ کے ساتھ اس پر کام کریں.
مذکورہ آیات ہم کو سماج اور معاشرے سے غریبی ہٹانے کی ترغیب دیتی ہیں. غرباء و مساکین، بیوہ و بے سہارا افراد کی مدد کرنا، یتیموں مسکینوں و ضرورت مندوں پر خرچ کرنے پر یہ آیات ہم کو ابھارتی ہیں.
محترم قارئین!
اس لئے آج ہم کو اسے اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دینے کی سخت ضرورت ہے، ہمارے پیارے رسول اس سمت میں کافی محنت کرتے تھے جیسا کہ اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وہ مشہور روایت جس میں آپ کہتی ہیں کہ “اللہ کی قسم آپ کو اللہ ضائع نہیں کر سکتا کیونکہ آپ رشتے ناطوں کو جوڑتے ہیں سچ بولتے ہیں کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں محروموں کو کما کر کھلاتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اور لوگوں کو ان کے حقوق دلاتے ہیں”.
یہ وہ عظیم اخلاقی صفات ہیں کہ اگر آج ہم اسے اپنا لیں تو سماج میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں، غریبوں و مسکینوں کے مسیحا بن سکتے ہیں کراہتی و سسکتی انسانیت کے لئے ایک امید کا روشن چراغ ثابت ہوسکتے ہیں.

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

معزز قارئین کرام!
ہم آج دیکھتے ہیں کہ کچھ جگہوں پر لوگ شام کے وقت یا صبح کے وقت غریب و ضرورت مند افراد کو کھانا کھلاتے ہیں یہ بہت عمدہ اور قابل رشک کام ہے.
علی گڑہ میں ہم نے یہ منظر کٹھپلا پر ریلوے اسٹیشن کے پاس دیکھا، پرانی دلی میں ہوٹلوں کے باہر دیکھا، ممبئی میں بھی اس کا مشاہدہ کیا گیا، حیدرآباد میں دبیر پورا برج پر اور اس کے نیچے دیکھا، یہ بہت اچھے کام ہیں اس سے بھوکوں کو دو روٹی مل جا رہی ہے تاکہ وہ اپنی بھوک پیاس کی تکلیف کو بجھانے میں کامیاب ہو سکیں.
لیکن معزز قارئین! ذرا غور کریں اور سوچیں کہ سماج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے متعلق ظاہر نہیں ہونے دیتے، جو اپنی خودداری کی وجہ سے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے جو صبر کرتے ہوئے قناعت اختیار کرتے ہیں بھوک پیاس کی شدت کو برداشت کرتے ہیں لیکن کبھی کسی پر حقیقت حال وا نہیں کرتے. کیا سماج کے یہ لوگ ان جگہوں پر جاکر کھانا کھائیں گے؟ کیا وہ اپنی عزت نفس کا سودا کر پائیں گے؟ کیا وہ اپنی غیرت و حمیت کو قربان کر پائیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں. تو پھر ایسے حضرات کے متعلق ہمارے معاشرہ نے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہوا ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے جسے ہم سبھی کو مل کر حل کرنا ہوگا.
معزز قارئین!
ایک بات تو ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات میں گشت کرتے تھے اور عوام کے حالات کا جائزہ لیتے تھے کہ کون کس حالت میں ہے؟ کسے کیا ضروت ہے؟
ہم نے سنا ہی ہوگا کہ ایک ماں اپنے چولہے کو جلا کر کنکنڑ ابال رہی تھی اور بچے رو رہے تھے اس امید میں کہ یہ منظر دیکھ کر بچے سو جائیں کہ کھانا بن رہا ہے، حضرت عمر نے ان کے ساتھ کیا کیا اس سے ہم اچھی طرح واقف ہیں.

تسلی دے کے سلاتے تھے بھوکے بچوں کو

عجیب لوگ تھے کنکڑ ابالنے والے

آج ہم کو ایسے خوددار قسم کے افراد کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا رول ادا کرنا ہوگا،
اپنے اردگرد کا جائزہ لیں، چند افراد مل کر اس مشن کو آگے بڑھائیں، آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو آپ اہل ثروت کو اس پر آمادہ کریں انہیں اس کار خیر پر ابھاریں کیونکہ وہ لوگ جو سماج میں اہل ثروت کو غرباء و مساکین کو کھلانے پر ابھارتے نہیں وہ اللہ کی نظر میں مجرم ہیں جیسا کہ سورہ ماعون میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

“ولایحض علی طعام المسکین”

کہ یہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو مسکینوں کو کھانا کھلانے پر ابھارتا نہیں ہے.

جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا

ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اے رب رحیم و کریم ہمارے دلوں کو بھی رحم جیسی صفت سے بھر دے تاکہ ہم لوگ بھی دوسروں کے دکھ درد تکلیف کو اپنا سمجھ کر ان کے کچھ کام آسکیں..
آمین یا رب العالمین

آپ کے تبصرے

3000