پیارے ملک کا پیارا قانون

ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ

چند اہم ترین باتیں جنہیں ہمارے ملک کی پولیس و حکومت آندولن و مظاہرے کے وقت یکسر نظر انداز کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے شانتی و سد بھاؤ سے چل رہا آندولن تشدد کا شکار ہوجاتا ہے. وہ پولیس جو عوام سے ان مظاہروں میں اپیل کرتی ہوئی نہیں تھکتی کہ عوام شانتی پوروک احتجاج کریں اگر وہ پولیس ملک کے آئین کی یہ باتیں مان لیں تو آندولنوں میں کوئی دنگا ہی نہ ہو اور نہ ہی ملک کو کوئی نقصان پہنچے.
دراصل یہ وہ چند اہم باتیں ہیں جو میں نے فیضان مصطفی وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی حیدرآباد کے یوٹیوب چینل “لیگل اویرنیس سیریز آف فیضان مصطفی” میں کل کی ایک بہت اہم موضوع پر ویڈیو سنی جس میں آپ نے ” طلباء کے احتجاج و پولیس و بھیڑ کے کنٹرول پر قانون” پر بہتر انداز سے روشنی ڈالی ہے.
مکمل پروگرام دیکھنے کے بعد اس کی اہمیت و ضرورت فی الوقت سماج میں جو محسوس کی جارہی ہے کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.

کسی بھی بھیڑ اور اس کے آندولن کو کنٹرول کرنے کے لئے جو اہم ترین باتیں ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
بھیڑ میں موجود عوام کا آئی قیو IQ لیول پانچ سال کے بچے کے برابر ہوتا ہے. یہ بات بڑے بڑے نفسیات کے ماہرین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے جیسے “لیبان و میک ڈوگال” وغیرہ. اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھیڑ کے ساتھ پولیس کا سلوک ہونا چاہئے.
جب ہم اپنے ملک کا قانون پڑھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ ہماری آئین کے حساب سے سات سال تک کے بچے کی غلطی پر اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی.
اسی طرح کبھی بھی یہ گمان نہیں رکھنا چاہئے کہ بھیڑ بہت ہی سنبھل کر اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے آندولن کرے گی، پولیس کا یہ تصور کرنا بالکل غلط ہوگا.
بھیڑ میں کوئی بھی پرابلم اگر آئے گی تو وہ بھیڑ فورا اس کا حل چاہے گی اور وہ حل کیسا بھی ہو بھیڑ اسی کے پیچھے چلنا شروع کردے گی اس لئے آندولن کرنے والوں کو اس بات کا خصوصی دھیان دینا چاہئے کہ وہ لیڈر کس کو بنارہے ہیں، کیونکہ قائد کا اچھا ہونا کامیاب احتجاج کی علامت ہے جیسے گاندھی جی نہرو و مولانا آزاد وغیرہ.  یہ وہ لوگ تھے جو آندولن تو کرتے تھے لیکن عوام کے لئے آسانی اور ان کے سکھ دکھ کے لئے کرتے تھے. ملک کے پیش رو قائدون نے ذاتی مفاد سے اٹھ کر قیادت کی بار سنبھالا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کا آندولن ہر موڑ پر کامیاب ہوا.
بھیڑ میں قائد کی بات بھی کبھی کبھی نہیں مانی جاتی تو اس وقت قائد کو چاہیے کہ بھیڑ کے ذھن کو مشغول رکھے اسے امیدیں دلائے اور کوشش کرے کہ انہیں کسی بھی طرح سے شانت کیا جائے، شانتی کا بھنگ ہونا ہی آندولن کے پھیل ہونے کی علامت ہے کیونکہ آندولن اپنے مقصد اور پیغام سے ہٹ جاتا ہے اور پھر بدامنی و ہنگامے کا ہی چرچہ چاروں طرف ہوتا ہے آندولن پر پردہ پڑ جاتا ہے.

اس وقت ملک کے اندر یہ آندولن و احتجاج کیوں ہو رہے ہیں ان کے مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

1. لوگوں کی شہریت پر خطرہ منڈلا رہا ہے
2. شہریت ترمیمی ایکٹ یعنی CAA کو عوام ملکی شہریت اندراج یعنی NRC کے ساتھ دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ خوف زدہ ہیں.
3. آسام کے حالات دیکھنے کے بعد ملک کا ہر باشندہ خوف وہراس میں جی رہا ہے.

اس میں سرکار و پولیس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ عوام سے اس خوف و ڈر کو ختم کیا جائے اور ان کے لئے آسانی پیدا کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے.

پولیس والوں کا کردار احتجاج و آندولن میں کافی زیادہ اہم ہو جاتا ہے، افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ یہ لوگ ملک کے آئین کو خود نہیں مانتے اور نہ ہی اس پر عمل کرتے ہوئے کبھی نظر آتے ہیں کیونکہ جو پولیس ڈپارٹمنٹ کی ذمہ داری ایسے موقعوں پر ہونی چاہئے وہ نہیں دکھتی اور جو اصول و ضوابط ہیں یکسر اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں.
ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہرال نہرو آئی جی IG کی ٹیم کو سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پولیس عوام پر چلاتی ہے تو وہ قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے، گویا کہ پولیس عوام کو امن و شانتی کو بھنگ کرنے پر ابھارنے کا کام کرتی ہے.
فی الوقت چل رہے آندولنوں میں پولیس کی بربرتا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء پر قاتلانہ و سفاکانہ حملہ کس بات کا ثبوت دیتا ہے.
آج کی پولیس طلباء کو اسامہ بن لادن کا ٹولہ کہتی ہے. پاکستانی ہونے کا طعنہ دیتی ہے. کٹوے ملے اور آتنکوادی بولتی ہے.
یہ عمل پولیس ان لوگوں کے ساتھ کرتی ہے جن کے ذھن کا آئی قیو لیول 5 ہے جبکہ پولیس اور حکومت کا آئی قیو لیول اس وقت بالکل ٹاپ پر ہونا چاہئے کیونکہ انہیں ان حالات کو کنٹرول کرنا ہے.
پولیس کی ذمہ داری ہے کہ بھیڑ کے جذبات کو سمجھیں اور انہیں پیار و محبت سے کنٹرول کریں.

یہ ساری تفصیلات بی پی آر ڈی کتاب جو ہوم منسٹری سے چھپی ہوئی ہے اس میں  لکھی ہوئی ہیں.

بھیڑ کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟

ایک واقعہ اس کتاب میں لکھا ہوا ہے جو بتلاتا ہے کہ پولیس کا سلوک بھیڑ والوں کے ساتھ کیسا ہو.
اترپردیش کے کسی شہر میں بار بار لائٹ جا رہی تھی جس سے وہاں کی عوام کافی زیادہ پریشان تھی بھیڑ کو غصہ آیا اور ان لوگوں نے آندولن شروع کردیا- اس وقت کے ایس پی پبلک کے ساتھ بیٹھ گئے اور بجلی جب تک صحیح نہ کر لی گئی نہیں ہٹے، لوگوں نے بہت کہا کہ آپ چلے جائیں اب تو بجلی کا کام ہوہی جائے گا، بولے کہ نہیں جب تک درست نہیں ہوگا میں آپ سب کے ساتھ ہی رہوں گا. ادھر کام ہو رہا ہے ادھر ایس پی صاحب سے بھیڑ محوگفتگو ہوگئی اس وقت فیفا ورلڈ کپ کا میچ چل رہا تھا اس پر بات شروع ہوگئی اور عوام و پولیس کے درمیان بہترین دوستانہ ماحول بن ہوگیا.
اسے کہتے ہیں اچھی پولیسنگ، اس انداز سے پولیس کو کام کرنا چاہئے لیکن آج اس کے الٹ ہو رہا ہے مزید آگ میں پٹرول ڈالنے کا کام پولیس کرتی ہے جیسا کہ ہم نے جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی میں دیکھا.
1. پولیس کو ہمیشہ دماغ ٹھنڈا رکھنا چاہئے، گالی گلوچ اور غیر اخلاقی الفاظ ان کی زبان پر قطعی نہیں آنا چاہئے.
2. پولیس کو پوری کوشش کرنی چاہئے کہ بھیڑ کو کسی کام میں مشغول کردے  مثلا. ان سے کہے کہ اپنی شکایت لکھ کر دو ہم اسے اعلی کمان تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتے ہیں.

ایک واقعہ: آزادی سے پہلے 1942 میں بہار یا بنگال میں ایک اسٹیشن پر بھیڑ نے حملہ کر دیا اس وقت بھارت چھوڑو تحریک کا زمانہ تھا، اسٹیشن پر حملہ ہوا تو پولیس والے نے ایک ہوشمندی کا کام کیا کہ اس بھیڑ میں ایک بوڑھی عورت گر گئی تھی اسٹیشن سے نکل کر فورا اس لیڈی کو اٹھایا اور فی الفور جو علاج درکار تھی اسے کیا جسے دیکھ کر بھیڑ بالکل شانت ہوگئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے.

3. افواہ نہ اڑائیں
جامعہ ملیہ کے طالب علم کی موت کی افواہ نے طلباء کے ذھن و دماغ کو ماؤف کردیا اور وہ سڑکوں پر آگئے اور پھر ان پر پولیس کی بربرتا اتنی کہ کسی کے ہاتھ ٹوٹے تو کسی کے پیر، کسی کی آنکھ پھوڑ دی تو کسی کا ہاتھ ہی اڑا دیا. یہ تمام چیزیں جب جمع ہوگئیں تو طلباء کا یہ آندولن نہ صرف ملک کے عوام اور دیگر یونیورسٹیز کا ہمدردی پا لیا بلکہ عالمی پیمانے پر تقریبا بیسویں یونیورسٹیز کے طلباء کی حمایت پا گئے اور عوام بھی تقریبا پوری دنیا میں احتجاج اور مخالفت پر اتر آئی اور طلباء جامعہ و اے ایم یو کے لئے کھڑے ہوگئے.

پولیس ایکٹ نمبر 1861 اس میں سیکشن 30 کہتا ہے کہ عوامی اجتماع میں پولیس کی اجازت لینا ضروری، کن راستوں سے آندولن کا گذر ہوگا پولیس طے کریگی اسی طرح سیکشن 31 کہتی ہے کہ وہی آمد و رفت کو بھی مینیج کرے گی.
اسی طرح سی آر پی سی کا سیکشن 129 کہتا ہے کہ پولیس یہ کہتی رہے گی کہ بھیڑ الگ الگ ٹولیاں بنا کر چلے.
اسی طرح سیکشن 153 کہتا ہے کہ پولیس کوئی ایسا جملہ نہ کہے جس سے منافرت کی بو آتی ہو کمیونل نہ ہو، حالیہ واقعات میں بالکل اس کے خلاف ہوا ہے. 153 بی B, تو یہاں تک کہتا ہے کہ کسی انڈین کو اس کی شہریت پر مشکوک نہ بنایا جائے اور طعنہ نہ دیا جائے جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جامعہ اور اے ایم یو کے طلباء پر کس کس انداز کے بھدے اور غلط کمنٹس پولیس کی طرف سے پاس کئے گئے.
اگر کوئی پولیس ایسا کرتا ہے تو وہ مجرم قرار پائے گا.

پولیس فورس:

1. آندولن اور احتجاج کی جگہوں میں پولیس فورس کم سے کم رہے .
2. فورسز کبھی بھی بھیڑ کو سزا دینے کے لئے نہیں بلکہ انہیں منتشر کرنے کے لئے ہوتی ہیں.

حالانکہ جامعہ کے واقعے میں اس طرح کی ویڈیو موجود ہے جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے گولیاں چلائیں، آگ زنی کی، پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچاتے ہوئے یہاں تک کہ لائبریری ریڈینگ روم میں پڑھ رہے بچوں پر حملہ کرکے ان کی آنکھ پھوڑ دی، ہاتھ پیر توڑ دئے جو کہ سراسر قانون کی خلاف ورزی اور ظلم کی انتہا ہے.

3. فورس کو فورا وہاں سے واپس بلا لیا جائے گا.

4. پولیس مظاہرین کومار نہیں سکتی صرف وارننگ دے سکتی ہے. جب ان تمام احتیاطات سے کام نہ چلے تو پھر آنسو گیس کا حملہ کیا جائے گا اور پانی کے فوارے سے کام چلایا جائے گا تاکہ پبلک تتر بتر ہو سکے الگ ہو سکے.

چند اہم ترین باتیں تھیں جو آپ قارئین کے حوالے کرنے کی کوشش کی ہے.

آپ کے تبصرے

3000