اسلام امن و آشتی کا دین ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے دنیا میں ظلم و بربریت کا خاتمہ کرکے اتحاد و اتفاق، عدل و انصاف اور امن وسکون کا درس دیا، اسلام کے ماننے والوں کی پہلی جماعت جسے ہم صحابہ کہتے ہیں انھوں نے من وعن آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر دکھایا۔ ان کے بعد آنے والے تابعین کرام ان کے نقش قدم پر قائم رہے۔ اسلام نے ظلم و زیادتی کی مخالفت اور سراپا امن و انصاف کی بات کی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ،صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور صالحین کی جماعت بعد والوں کے لیے اسوہ اور نمونہ ہے۔ قرآن و احادیث اور اسلام کی منجملہ تعلیمات انہی ذات مقدسات کے ذریعہ موصول ہوئیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انہی تین صدیوں پر مشتمل افراد کے زمانہ کو سب سے بہتر زمانہ قرار دیا ہے۔یہی خیرالقرون ہیں اور ان کے بعد ایک جماعت ہمیشہ سے کتاب و سنت پرقائم رہی اورخود کو خارجی عوامل سے محفوظ رکھا، یہ جماعت دیگر جماعتوں سے ممتاز رہی اور اس امتیاز کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی نسبت سلف کی طرف کرتی رہی ہے، اسی کو اہل حدیث اور سلفی کہتے ہیں۔ لفظ سلف کے لغوی معنی ’’گزرنا، آگے ہونا‘‘ کے ہیں۔ عام طور پر گزرے ہوئے آباء و اجداد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ [’’اصطلاحی معنی: سلف کا اطلاق اصطلاح میں صحابہ کرام، یا صحابہ کرام و تابعین عظام اور ان ائمہ پر ہوتا ہے جن کے علم و فضل، امامت اور اتباع کتاب و سنت کی شہادت دی گئی ہو‘‘] (سلفیت کا تعارف:از ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس مبارکپوری)
سلفیت کی مختصر تعریف یہی ہے اور اسی پاکباز گروہ کی جانب سلفی جماعت کی نسبت ہے۔ سلفی اور سلفیت کا عقیدہ عین کتاب و سنت ہے جو شخصیت پرستی، قبائلی تعصب اور فکری آوارگی سے پاک ہے۔ اس جماعت کو تعصب اور جہالت کی بنیاد پر متشدد، دہشت گرد اور امن و سکون میں مخل کہا جارہاہے، اور یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ بہت قدیم ہے کیونکہ کتاب و سنت پر عمل پیرا یہ جماعت ہمیشہ سمندر میں موتی کے مثل اپنی شناخت برقرار رکھے رہی ہے۔ فرق باطلہ اور ضالہ نیز سوادِ اعظم کی رٹ لگانے والوں نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی اور اپنے اپنے اماموں کے اقوال کو دانستہ، نادانستہ یا تجاہل عارفانہ کے تحت اللہ کے رسول ﷺ کے قول سے زیادہ اہمیت دے دی، احادیث کے بجائے فقہیات اور خود ساختہ مسائل پر زور دیا گیا، زمین و آسمان میں موجود تمام باتیں زیر بحث لائی گئیں لیکن قرآن و احادیث سے بیر کا واسطہ رکھا، یہی وجہ ہے کہ سلفی اور اہل حدیث جماعت کے علاوہ دیگر جماعتیں غیر ذی ذرع وادیوں میں بھٹکتی پھر رہی ہیں۔
پچھلی ایک دو صدی سے یہ آواز بلند کی جارہی ہے کہ اہل حدیث اور سلفی جماعت جدید پروردہ ہے، اتہام بازی اور الزام تراشی میں دو دو چار کے بجائے چھ کہنے لگے، حالانکہ سلفیت کی تعریف اور دلائل و ثبوت سے واضح ہے کہ اس جماعت کا وجود زمن نبوی سے ہے جو خالص کتاب و سنت کو اپنا پیشوا مانتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اہل حدیث کے علاوہ دیگر جماعتیں اپنی اپنی مخصوص شخصیات کے اقوال پر زور دیتی ہیں اور ان کا مرجع و مصدر وہی چیزیں ہوتی ہیں جبکہ اہل حدیثوں کا مرجع فرمان نبوی کے مطابق کتاب و سنت ہی ہے۔
یہ جماعت کتاب و سنت کے ساتھ تمام ائمہ کرام اور سلف صالحین کی تکریم کی قائل ہے انھیں محترم مانتی ہے، ان کے اقوال کو سر آنکھوں پر رکھتی ہے تاہم جہاں کتاب و سنت سے متعارض ہوں وہاں بلاتاویل و تنقیص کتاب و سنت کو مقدم رکھتی ہے، حالانکہ تمام ائمہ کرام انسان تھے جن سے نقائص کے صدور کا امکان ہے۔ ائمہ کرام کا قول ہے کہ جب میری بات حدیث سے ٹکرائے تو میری بات کو رد کرکے قرآن وحدیث کو مقدم رکھو۔ اس وجہ سے یہ جماعت تمام ائمہ، صلحاء اور امت کے پاسبانوں سے محبت و تکریم رکھتی ہے، اور ہر چیز کو اس کا اصل مقام دیتی ہے، یہی وسطیت ہے اور سلفیت اسی کا نام ہے۔
آزادی ٔ ہند کے موقع پر جماعت اہل حدیث کے جیالوں نے جان و مال کی قربانی پیش کی اور انگریزوں سے برسرپیکار رہے اس لیے انھوں نے اس جماعت کو وہابی بمعنی باغی استعمال کیا جو کہ بطور گالی استعمال کیا جاتا تھا، آج دیگر جماعتیں ان کی قربانیوں کو فراموش کرکے انھیں ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ٹھہرانے کی کوشش کررہی ہیں، اس جماعت پر بے بنیاد تہمت لگائی جارہی ہے۔ ایک شخص مسلکی تعصب اور عناد کی بنیاد پر ملک کی عزت مآب پارلیمنٹ میں سلفی جماعت کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے الزام لگاتا ہے اور انھیں دہشت گرد، دہشت گردی کی پروردہ اور ان کی اساس گردانتا ہے۔ یہ وہی مسلکی اور شخصیت پرستی کی بدبودار زبان تھی جو برسوں سے اہل حدیث اور سلفی جماعت کے بارے میں استعمال کی جارہی تھی جو یکایک برسر ایوان پورے ملک کے سامنے زبان پر آگئی۔ یہ عناد صرف اور صرف مسلکی ہی ہے جس میں خود کو سواد اعظم کہنے کا زعم ہے اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کا وہم و گمان۔ خیر انھوں نے ’’سبقت لسانی‘‘ کا نام دے کر بعد میں معافی مانگ لی، حالانکہ سبقت لسانی میں لفظ کی تحریف ہوسکتی ہے پورے افکار و نظریات کی ترجمانی نہیں۔
اس تلافی مافات سے نہ دل کی کڑھن نکل سکتی ہے اور نہ ہی زخمی دل مندمل ہوسکتا ہے۔ ہاں اگر کتاب و سنت پر عمل کرنا اور اس کی باتیں کرنا دہشت گردی اور تشدد پسندی ہے تو پھر امن و امان کی باتیں کہاں سے ملیں گی؟ کیا قرآن و احادیث کے علاوہ بھی کوئی جامع قانون موجود ہے جس پر عمل کرکے امن و آشتی برقرار رکھی جاسکتی ہے؟ سمجھ لینا چاہیے کہ ان دو مقدس مراجع کے مقابل ساری چیزیں ہیچ ہیں، جس کا احساس بعض برداران وطن کو بھی ہے مگر انھیں نہیں۔ کیونکہ تعصب کی عینک نے قرآن و سنت سے بے بہرہ کردیا ہے۔ سلفی جماعت نہ تو بے تکی بیان بازی سے قرآن و سنت کو ترک کرسکتی ہے اور نہ ہی حقیقت بدل سکتی ہے۔ ایوان میں سلفی منہج اور عقیدے کے بارے میں جو باتیں کہی گئیں سب جھوٹ پر مبنی ہیں ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
اللہ رب العالمین امت مسلمہ کو عقل سلیم اور فہم کتاب وسنت عطا فرما۔ ملک میں امن و سکون کی فضا قائم ہو۔ آمین
جزاکم اللہ خیرا
بلال بھائی آپ نے بہت عمدہ اور شائستہ انداز میں اس موضوع پر بحث کی ہے
اللہ آپ کی کوششوں کو قبول فرمائے
اور ہماری جماعت میں آپ جیسے قلم کاروں کی کثرت فرمائے
آمین ثم آمین یارب
مبارکباد
جزاکم اللہ خیراً
بہت عمدہ اور مثبت تحریر. ماشااللہ