جنرل کیٹیگری کو رجھانے کی ایک خوبصورت اور دلکش کوشش مودی جی اور ان کی پارٹی کے جانب سے، حالانکہ ملک کی عوام اچھے طریقے سے جان اور پہچان چکی ہے کہ یہ جملے باز سرکار پھر ایک جملہ دھاری بم گرا کرکے جنرل کیٹیگری کو لبھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
معزز قارئین! تقریبا پانچ سالوں میں اس سرکار کے وہ جملے جو ہمیشہ فیل ہوتے رہے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
١. پندرہ لاکھ روپے ہر ہندوستانی کو ملیں گے۔
٢. ملک سے کرپشن ختم ہوگا۔
٣. ہر سال دو کروڑ نوکریاں ملیں گی۔
٤. خواتین کو تحفظ دیا جائے گا۔
٥. مسلم عورتوں کو ان کے حقوق دلائے جائیں گے۔
٦. سارا کالا دھن جو غیر ملکوں میں ہے واپس لایا جائے گا۔
٧. کھانے پینے کے سامان، رسوئی گیس اور ڈیزل پٹرول کی قیمتیں کم ہوں گی۔
٨. کسانوں کو مرنے نہیں دیا جائے گا۔
٩. سب کا ساتھ سب کا وکاس۔
١٠. دس فیصد ریزرویشن جنرل طبقہ Upper Cast یعنی ہندو، بنیا، مسلم اور عیسائی کو سب کا وکاس۔
یہ سب جملے تھے، اور ان جملوں کا انجام کیا ہوا سب کو پتہ ہے مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت میرے خیال سے نہیں ہے۔
“دس فیصد ریزرویشن” مودی جی کا دلکش گلدستہ ان لوگوں کو لبھانے کے لیے ہے جنھوں نے حضرت جی کو راجستھان اور مدھیہ پردیش میں مزہ چکھایا ہے، سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ بے جے پی کی شکست کی وجہ جنرل یا Upper Cast کی عوام سے مسلسل سوتیلا رویہ اور نوجوانوں کی بے روزگاری رہی۔
مودی جی اور آپ کی سرکار نے اعلان “دس فیصد ریزرویشن” کا تو کردیا حالانکہ وہی مودی جی ہیں کہ جب منموہن سرکار نے ریزرویشن پاس کرانا چاہا تو ان لوگوں نے یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ سپریم کورٹ کا چونکہ حکم ہے کہ “پچاس فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا” بھائیوں اور بہنوں یہ سرکار پچاس فیصد ریزرویشن میں چوری کرنا چاہتی ہے تاکہ آپ کے، ملک کے غریب اور پچھڑے طبقے کے لوگوں کے ریزرویشن کو چوری کرکے دوسرے کو دے اور یہ بغیر چوری کے ممکن نہیں” بھائیوں اور بہنوں،
اسی طرح جب تلنگانا کے وزیر اعلی کے سی آر ( چندر شیکھر راؤ) نے ١٢ فیصد ریزرویشن مسلمانوں کو دینے کی بات کہی تھی اور بل پاس کرانا چاہا تھا تب” بھائیوں اور بہنوں” صاحب کے پارٹی کے صدر اور داہنے ہاتھ امت شاہ جی نے کہا تھا کہ” جاتی کے آدھار پر مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے”۔
لیکن آج یہی بے جے پی حکومت پچاس فیصد سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دس فیصد ریزرویشن جنرل کٹیگری کے واسطے دینے کا اعلان کردیا اور دلیل کیا دے رہے ہیں، کہ “جنرل طبقہ میں غریبی کو معیار بنا کر دیا جا رہا ہے” تو بھیا تلنگانا کے وزیر اعلی نے بھی مسلمانوں کے اسی غربت و افلاس اور کمزور معیشت کو مد نظر رکھتے ہوئے ریزرویشن کا وعدہ کیا تھا پھر کیوں اس وقت مخالفت ہوئی تھی؟ ہم کو معلوم ہے کہ آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
محترم قارئین!
ذرا آئیے! ان کے دوران حکومت ملک کی معیشت پر نظر ڈالتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا یہ ایماندار سرکار ہے یا جملے باز سرکار۔ سب سے پہلے ہم یہ جان لیں کہ اس وقت ملک ہندوستان کی شرح نمو یعنی GDP پچھلے بیس سالوں میں سب سے بدترین لیبل پر ہے۔
قارئین کرام! آپ ان سے سوال کریں کہ:
“آپ دس فیصد ریزرویشن دے رہے ہیں ذرا اس بات کا بھی جواب دیتے چلیں کہ نوکریاں کہاں پر ہیں؟
آپ کا وعدہ تھا نا کہ” ہر سال دو کروڑ نوکریاں ہم دیں گے یعنی پانچ سال کے دوران دس کروڑ نوکریاں”، عوام نے بدلاؤ، ملک کی ترقی اور روزگار کے لالچ میں آپ کو ملک کی باگ ڈور دیا تھا لیکن آپ نے کہیں کا نہ چھوڑا، الٹا ایک کروڑ برسر روزگار سڑک پر آگرے اور انھیں بے روزگار کر دیا، آئی تھی سرکار نوکریاں دینے یہ تو الٹا چھیننے لگ گئی۔ بے روزگاری کی شرح کچھ نہ کچھ ہمیشہ سے اور ہر زمانے میں رہی ہے تقریبا %3 فیصد تک، لیکن اس سرکار کے دوران حکومت یہ شرح ٢٠١٥ میں بڑھ کر 5% فیصد ہوگئی، یعنی اچھے دن آئے پر بے روزگاری کے۔ اپنے ملک میں بے روزگاری نوجوانوں میں سب سے زیادہ بڑھی ہے اور یہ شرح 16% فیصد آگئی، شرح نمو یعنی GDP کے نقصان کی اہم وجوہات میں یہ سب شامل ہیں۔ ذرا غور کریں کہ نوکریاں ہیں نہیں اور اعلان “دس فیصد ریزرویشن” کا۔
آئیے! مزید چند حقائق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں،
٥ اگست ٢٠١٨ کو یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ ملک میں 24 لاکھ نوکریاں خالی پڑی ہیں، ٹائمز آف انڈیا کے مطابق راجیہ سبھا کے ایک سوال کا ٨ فروری کو جواب دیا گیا کہ دس لاکھ اساتذہ کی نوکریاں خالی پڑی ہیں جن میں نو لاکھ Elementry school میں ٹیچرز ویکنسیز خالی ہیں اور ایک لاکھ دس ہزار Secondry اسکول میں اساتذہ کی نوکریاں خالی پڑی ہیں، جبکہ ابھی کالجز اور یونیورسٹیز کی نوکریوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اس سے اندازہ کریں کہ کتنے بڑے پیمانے پر خالی نوکریوں پر قبضہ جما کر یہ حکومت بیٹھ گئی ہے اور مزید یہ وعدہ۔
٢٧ مارچ کو لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بیورو پالیسی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ نے کہا کہ چار لاکھ چالیس ہزار نوکریاں عام پولیس کی خالی پڑی ہیں، اور اسٹیٹ کی ملا کر کل تقریبا پانچ لاکھ چالیس ہزار پولیس کی نوکریاں خالی ہیں،
نوکریاں دی نہیں جا رہی ہیں، انھیں منجمد کر کے رکھ دیا گیا ہے اور پھر 10% ریزرویشن کا کیا مطلب لیا جائے مودی جی،
خواتین کے ریزرویشن کے بل سالوں سے پڑے ہوئے ہیں ان پر کوئی توجہ نہیں، آسام جل رہا ہے چالیس لاکھ لوگوں کو جلاوطن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان تمام عوامی مدوں پر غور کرنے کا وقت نہیں، اور ایسا بل پاس کروا رہے ہو کہ پاکستان سری لنکا اور بنگلہ دیش میں جو ہندو ہیں ان کے لیے ملک کا دروازہ کھلا ہے انھیں شہریت اور پناہ سب کچھ لیکن باقی کسی اور مذہب والے کے لیے بند۔ واہ رے مودی جی واہ! بالکل اسرائیل کے نقش قدم پر، دوستی کی ہے نبھانا تو پڑے گا ہی، کہ پوری دنیا کے یہودی اسرائیل آئیں ویسے پوری دنیا کے ہندو ہندوستان آئیں۔
دراصل یہ سب فیصلے آپ کی بوکھلاہٹ پر غماز ہیں، ہاتھ پیر پھول رہے ہیں کہ اب کیا کریں اب کیا کریں….. جملے کب تک ساتھ دیں گے۔ مزید بوکھلاہٹ میں ملک کو تباہی کی طرف لے جانا چاہ رہے ہو، جب آپ کو تمام مدعے دم توڑتے ہوئے نظر آئے تو یہ جملہ آپ کے تھنک ٹینکروں نے دیا کہ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے “دس فیصد ریزرویشن” ، حالانکہ کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بے جے پی جو ہمیشہ ریزرویشن کے خلاف بولتی تھی، جس کی واٹس ایپ یونیورسٹی میں ہمیشہ یہی پڑھایا جاتا تھا کہ ریزرویشن غلط چیز ہے اچانک یہ ریزرویشن کے سپورٹ میں کیسے؟ دراصل یہ لوگ اب جاتی کے آدھار پر دیے گئے ریزرویشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور Ecnomically Weakers Section) EWS کے ذریعہ یہ SCST, OBC اور دیگر پچھڑے طبقے سے ریزرویشن چھیننا چاہتے ہیں، اور ملک کو پھر ذات پات اور اونچ نیچ کی عمیق کھائی میں دھکا دینا چاہ رہے ہیں، اسی پلاننگ کو عملی جامہ پہنانا ان کا مقصد ہے۔ یہ خیال یو گیندر جی مشہور سماجی شخصیت اور جگنیش میوانی کے ہیں۔
آپ کے تبصرے