ریاض نامہ

طارق اسعد سفریات

اس مرتبہ سیمسٹر کی چھٹی پر یہ خیال آیا کہ آوارہ گردی کے لیے ریاض کا سفر کیا جائے، اس شہر کی تعریفیں بہت سنی تھیں، سعودی عرب کادار الحکومت ہے، رقبہ کے ساتھ ساتھ دل کا بھی بڑا شہر ہے، اپنے قلب میں کئی عظیم الشان جامعات کو سموئے ہوئے ہے، مکتبات اور معاہد کی بھرمار ہے، علما کی کثرت ہے، غرضیکہ منجملہ و متنوع صفات کی بنا پر ہم نے عزم مصمم کیا کہ اس بار اس شہر کو ضرور دیکھنا ہے کہ جو ’’عالم میں انتخاب ہے‘‘
۱۸؍ دسمبر کو آخری پیپر تھا، پرچہ دینے کے بعد ایک لمبا سا قیلولہ کیا اور اس کے بعد رخت سفر باندھ کر عشاء کی نماز کے بعد بس پر سوار ہوئے، سوئے حظ سے ارباب بس نے ہمیں بے بس کرتے ہوئے ۹ بجے کے بجائے ۱۱ بجے سفر کا آغاز کیا ، ہم دل مسوس کر رہ گئے اور دل ہی دل میں اور اردو ہی میں ارباب بس کو برا بھلا کہا کہ مبادا عربی میں کہنے پر دل کی آہ بلند ہو گئی اور کچھ ناقابل بیان کلمات ادا ہو گئے تو صاحب ہمیں چلتی بس سے اتار کر چلتا پھرتا نہ کر دیں، سو کف افسوس ملتے ہوئے سیٹ پر براجمان ہوئے اور باہر کے نظاروں کے مشاہدہ کی کوشش کرنے لگے، مگر یہاں بھی کف افسوس کے ساتھ پوری آستین ملنی پڑی، کیوں کہ شب دیجور کی تاریکی میں منظر نمائی کی رسم ادا کرنا ناممکن تھا، البتہ اگل بغل سے گذرتی ہوئی گاڑیوں کی ہیڈلائٹس گاہے بگاہے اس تاریکی کے سمندر کو چیر رہی تھیں پھر بھی مناظر واضح نہیں ہو پارہے تھے۔
صبح تقریبا بارہ بجے کے آس پاس بس شہر ریاض میں داخل ہوئی، آبادیاں نظر آنے لگی تھیں، وسیع و عریض شاہراہیں اور ان پر بلٹ کی طرح دندناتی ہوئی گاڑیاں، اونچی اونچی عمارتیں جو آسمانوں سے محو گفتگو تھیں، سڑکوں کے دونوں Dividers کے بیچ میں کھجور کے درخت ایک ترتیب کے ساتھ نصب تھے جو عربوں کے ذوق ’’کھجور خوانی‘‘ (کھانی) کی گواہی دے رہے تھے، سڑکوں کا اس قدر گھنا جال بچھا ہوا تھا کہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ کون راستہ کدھر کو جارہا ہے یا ہمیں کس طرف مڑنا ہے، ہماری بس کا رخ ابن جبرین فاونڈیشن کی طرف تھا جو مخرج ۲۴ پر واقع تھا، ہم یہ بتانا بھول گئے کہ یہ بس ابن جبرین فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدہ آٹھ روزہ دورہ تدریبیہ کے لیے بک کی گئی تھی اور اس میں تمام مسافرین جامعہ اسلامیہ کے طلبہ تھے جو اس پروگرام میں شرکت کے لیے عازم سفر تھے، چوں کہ ہم اس قافلے میں ہوتے ہوئے بھی اس سے ذرا الگ تھے ، ہمارا رخ ابن جبرین فاؤنڈیشن کے بجائے کنگ سعود یونیورسٹی تھا جہاں برادر خورد یاسر اسعد زیر تعلیم تھے، ہم نے ڈرائیور سے عرض کیا کہ ہمیں مخرج ۲ کے پاس ہی اتار دیجیے، ہم یہاں سے کسی طرح اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے، ڈرائیور نے مسکراتے ہوئے بڑی سختی سے ہماری تجویز مسترد کردی اور ہمیں مجبورا ایک گھنٹہ مزید بس میں بے بسی کی حالت میں کاٹنا پڑا۔ اللہ اللہ کرکے ایک بجے کے آس پاس بس مقام موعود تک پہنچی اور ہم وہاں سے اتر کر سیدھے تیر کی طرح ٹیکسی میں سوار ہو کر کنگ سعود یونیورسٹی کے آغوش میں دراز ہوئے۔
جامعۃ الملک سعود (کنگ سعود یونیورسٹی) سعودی عرب کی بڑی یونیورسیٹیوں میں شمار کی جاتی ہے، بلکہ عالمی پیمانے پر رقبہ اور مساحت کے لحاظ سے یہ یونیورسٹی عظیم ترین جامعات میں سے ایک ہے، جامعہ کے مرکزی دروازہ پر کتاب کی شکل میں ایک گیٹ بنا ہوا ہے جسے دوار الکتاب کہا جاتا ہے مگر آپ کو اس گیٹ سے نہیں داخل ہونا ہے کیوں کہ وہ محض Show کے لیے ہے، بلکہ آپ کب جامعہ میں داخل ہو جائیں گے پتہ بھی نہیں چلے گا، گیٹ سے ہاسٹل کا فاصلہ تقریبا دس سے پندرہ منٹ کا ہے، ہاسٹل چاروں طرف سے گھیرا ہوا پانچ دروازوں پر مشتمل ہے جن میں ہر ایک دروازے پر ایک سیکورٹی گارڈ تعینات ہوتا ہے جو ہر آنے جانے پر (کبھی کبھی ) گہری نظر رکھتا ہے، اور زیادہ تر نظر موبائل اسکرین پر رکھتا ہے، طلبہ کے لیے ۳۴ ہاسٹل ہیں اور ہر طالب علم کے لیے خواہ وہ کسی مرحلہ کا ہو ایک کمرہ مختص ہے جو جدید سہولیات بشمول انٹرنیٹ سے آراستہ و پیراستہ ہے، جامعہ کی مرکزی لائبرییری ’’مکتبۃ الملک سلمان المرکزیۃ‘‘ کے نام سے معنون ہے اور اس کا شمار شرق اوسط کی بڑی لائبریریوں میں ہوتا ہے، ہم نے مغرب کی نماز سے فراغت کے بعد اس عظیم الشان لائبریری کا رخ کیا، چھ منزل پر مشتمل یہ لائبریری اپنے دامن میں تقریبا تین ملین کتابوں کا ذخیرہ سموئے ہوئے ہے، دینیات، ادبیات، سائنس، ٹکنالوجی، طب، انجینیرنگ، منطق ، فلسفہ سمیت مختلف و متنوع علوم و فنون کی کتابیں عربی کے علاوہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی دستیاب ہیں۔ چوں کہ چھٹی کے ایام تھے اس لیے لائبریری میں طلبہ کی تعداد نہ کے برابر تھی ، غالبا ایام تعلیم میں یہ مکتبہ فاقہ کشان علم سے معمور رہتا ہوگا، ’’خیر جلیس فی الزمان کتاب‘‘ریاض کی اس عظیم الشان درس گاہ سے جو قابل قدر اور باصلاحیت طلبہ فارغ ہوئے ہیں ان میں سے ہمارے رابطے میں مولانا عبدالرحمن یحیی (استاد جامعہ عالیہ عربیہ مئو و نائب مدیر افکار عالیہ) مولانا عبد الرحیم ریاضی (استاد جامعہ رحمانیہ بنارس) مولانا ابو عفاف عبد الوحید ریاضی (مدیر نداءالسنہ) مولانا شمیم احمد عبدالغفار (صاحب تعلم اللغۃ العربیۃ) وغیرہم قابل ذکر ہیں۔ برادر خورد یاسر اسعد جن سے ہمیں بڑی توقعات وابستہ ہیں وہ اس وقت کلیۃ الآداب کے قسم اللغۃ العربیۃ کے دوسرے سیمسٹر کے طالب علم ہیں، اللہم زد فزد۔
اگلے دن سے دورہ ابن جبرین کی شروعات تھی، فجر سے پہلے ہاسٹل سے نکلے اور فجر کی نماز مسجدعبد اللہ بن عبدالعزیز راجحی میں ادا کی گئی جہاں پر یہ دورہ منعقد ہو نے والا تھا، واضح رہے کہ شیخ عبداللہ ابن عبد الرحمن ابن جبرین سعودی عرب کے کبار علما میں شمار کیے جاتے تھے، مرحوم نے اپنی زندگی میں اس پروگرام کی بنیاد رکھی جو ہر سال گرمی یا سردی کی چھٹیوں میں منعقد ہوتا ہے، ساتھ آٹھ دن پر مشتمل اس پروگرام میں حدیث، اصول حدیث، فقہ ، عقیدہ، نحو، وغیرہ علوم کی تدریس ماہر اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ہوتی ہے، طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتی ہیں اور اچھی کارکردگی پیش کرتی ہیں۔ فجر کے بعد سے نو بجے تک اور عصر بعد سے رات نو بجے تک روزانہ یہ پروگرام چلتا ہے، اتنے مصروف ترین شیڈول کو دیکھ کر ہم نے اپنی ہمت سے مذاکرات کیا اور دریافت کیا کہ کیا ہم اس طویل ترین چکی کی مشقت برادشت کر سکتے ہیں؟ ہمت مرداں مدد خدا کی جانب سے نفی میں جواب سن کر ہم خوش ہو گئے اور اس پروگرام کو اپنی کاہلی پر قربان کر دیا۔
توفیق باندازہ ہمت ہے ازل سے
پھر برادر خور یاسر اسعد سلمہ کے مشورے سے یہ تجویز اکثریت سے پاس ہوئی کہ ہم زیادہ سے زیادہ وقت مٹر گشتی کرنے اور لذت کام و دہن میں صرف کریں گے، چنانچہ پہلے تو ہم نے پوری یونیورسٹی گھومنے کا پلان بنایا، چپہ چپہ چھاننے کی کوشش کی، فیکلٹییوں کا معائنہ کیا، مطعم کا دورہ کیا، جامعہ میں موجود ہر اسٹور کا مشاہدہ کیا، جامعہ سے باہر مختلف شاپنگ مال میں مغز ماری کی ۔
ریاض ہی میں ہمارے ایک عزیز فواز اسماعیل مقیم ہیں ، ان کی پیدائش بھی یہیں ہوئی اور چالیس سال سے وہ ریاض میں مقیم ہیں، ہماری آمد کی خبر پا کر ہمیں اپنے دولت کدے پر حاضری کا حکم دیا، پس ایک دن ہم نے اپنے ’’ مصروف ترین‘‘ شیڈول میں سے وقت نکال کر ان کی دعوت پر لبیک کہا اور ان کے مکان پر آ دھمکے، فواز بھائی نے کافی پر تکلف انتظام کیا تھا، دسترخوان پر ہندوستانی ڈشیں دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہو گئی اور خوب جم کر ہم نے پیٹ کی حوصلہ افزائی کی ، کھانے سے فراغت کے بعد آپ نے چند قیمتی کتابوں کا تحفہ دیا جن میں شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ کا مجموعہ فقہ ، حدیث و تفسیر اور شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی مجموعہ تالیفات عنایت فرمائیں، پس صمیم قلب سے اس پر تکلف ظہرانے کے ساتھ کتابوں کی ہدیے کے لیے صد ہزار شکریہ۔
فواز بھائی کے گھر سے فرار ہو کر ہمارا دو رکنی وفد بطحا پہنچا، پہلے پہل جب ہم نے اس جگہ کا نام سنا تو بے اختیار فرزدق کا وہ شعر یاد آیاجو اس نے امام زین العابدین کی مدح میں کہے تھے:

ھذا الذی تعرف البطحاء وطئتہ
والبیت یعرفہ و الحل والحرم

چنانچہ جب ہم نے قبلہ یاسر سے دریافت کیا کہ کیا یہ وہی بطحا ہے جس کا ذکر فرزدق نے کیا تھا تو انہوں نے سختی سے اس کی تردید کی، بہر کیف بطحا میں داخلے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ آپ سعودی عرب کے بجائے بنارس کی دالمنڈی میں گھس گئے ہوں، بلکہ ابھی ایک صاحب نے بڑی نادر تشبیہ دی، فرمایا کہ بطحا ریاض کا مینا بازار ہے، ہر طرف برصغیر کے بھانت بھانت کے اشخاص دکھائی دے رہے ہیں، ایک جگہ رک کر ہم نے جلیبی اور پکوڑی ( گر چہ اپنے یہاں جیسا سواد نہ تھا پھر بھی گندم اگر بہم نہ رسد بھس غنیمت است) کھایا، ایک جگہ فٹ پاتھ سے مونگ پھلی سے شغل فرمایا، کچھ سامان کی خریداری ہوئی اور سات نمبر بس پر سوار ہو کر سوئے جامعہ روانہ ہوئے۔
غرضیکہ اسی طرح سے تعطیل کے ایام انتہائی کاہلی، آوارہ گردی اور مٹر گشتی کے ساتھ گذرتے رہے اور یوں پل بھر میں گذر ے کہ ہم دیکھتے ہی رہ گئے، آخری دن ابن جبرین فاؤنڈیشن کی جانب سے اختتامی اجلاس تھا جس میں امتیازی نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو انعامات سے نوازا جانا تھا، ہم بھی کشاں کشاں اس پروگرام میں شریک ہوئے، اس پروگرام کو بطور خاص ڈاکٹر عبداللہ المطلق (رکن ھیئۃ کبار العلماء) اور محمد بن عبداللہ بن عبدالعزیز الراجحی (عبداللہ بن عبدالعزیز الراجحی کے فرزند ارجمند جن کا شمار سعودی عرب کے متمول اور مخیر افراد میں ہوتا ہے) نے اسٹیج کو رونق بخشی، قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس پروگرام میں امتیازی نمبرات (اوائل عشرہ) حاصل کرنے والوں میں سے اکثریت جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے طلبہ کی تھی اور ان میں بھی ہندوستانی طلبہ کی تعداد زیادہ تھے، چنانچہ جب جب اسٹیج سے اعلان ہوتا کہ فلاں ابن فلاں جنہوں نے فلاں نمبر ات سے کامیابی حاصل کی ہے اور ان کا تعلق ہندوستان سے ہے تو واللہ سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا تھا اور بے اختیار زبان پر یہ شعر آ جاتا ۔
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
پروگرام سے واپسی کے بعد ہم نے زبردستی اپنے ایک ساتھی عبداللہ ثاقب سے پارٹی وصول کی کیوں کہ ان سے وعدہ بالجبر لیا گیا تھا کہ اچھے نمبرات آنے پر ان کی جانب سے ٹریٹ رہے گی، پس بریانی پر اتفاق ہوا، بریانی بنی، چکھی اور کھائی گئی، رات بھر یاسر کے کمرے میں خوب گل گپاڑا مچا، شب بیداری ہوئی اور فجر کی نماز پڑھ کر نم آنکھوں سے ریاض کو الوداع کہا گیا۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
ھلال ھدایت

ماشاء اللہ 🌹🌹🌹
بہت عمدہ تحریر طارق بھائی
پکوان کی تعریف سے منہ میں پانی آگیا لیکن کیا کر سکتے ہیں یہی نا کہ سن سکتے ہیں چکھ نہیں سکتے بس زبان چٹپٹا کر رہ گئے۔
اللہم زد فزد

یاسر اسعد

بہت خوب
ماشاء اللہ
🌷🌹
البتہ عبد الوحید صاحب مدیر *اشاعة السنہ* نہیں بلکہ *نداء السنہ* ہیں
اور *شمیم فوزی* دوسرے ہیں جو مقرر ہیں پیس ٹی وی والے.

ملک سعود والے *شمیم احمد عبد الغفار* ہیں جو کبھی اپنے کو نجدی لکھتے تھے اور ابھی چنئی میں ہیں عربی درسیات کا سلسلہ *تعلّم العربیہ* کے نام سے تیار کیے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر…..

عبدالله ثاقب

ماشاء اللہ تبارک اللہ
ملک سعود یونیورسٹی اور مکتبہ الملک سلمان المرکزیہ کا معائنہ میں نے بھی بنفس نفیس کیا ہے لیکن اس تحریر کو پڑھنے کے بعد لگا کہ میرا معائنہ ناقص تھا.

M.A.Farooqi

ماشاء اللہ
جزئیات نگاری خوب ہے، لذت کام و دہن پر زور ہے، امید ہے کہ ذو اللحم و الشحم بن کر آؤگے۔