اردو ادب اور دینی مدارس

ایم اے فاروقی

اردو زبان و ادب کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے ارتقا اور تشکیل میں ہمارے علما اور صوفیا کا اہم کردار رہا ہے۔ اردو کے بالکل ابتدائی دور کے جو نثری نمونے ملتے ہیں وہ سب علما کے اقوال اور ملفوظات پر مشتمل ہیں، ہمارے بزرگان دین نے اسلام کی تبلیغ کے لیے جس مقامی زبان کا استعمال کیا وہ اردو ہی تھی۔ اگرچہ اردو نام بہت بعد میں پڑا، چنانچہ شیخ فرید الدین گنج شکر (م۱۲۶۵ء) شیخ حمید الدین ناگوری (م ۱۲۷۴ء) خواجہ نظام الدین اولیا (م ۱۳۲۵ء) شیخ شرف الدین یحی منیری (م ۱۳۸۰ء) وغیرھم نے اپنی دعوتی مجالس میں اس زبان کا کثرت سے استعمال کیا۔ امیر خسرو کی پہیلیاں تو آج بھی زبان زد عام ہیں۔ اردو ادب خانوادۂ ولی اللہی کا مرہون منت ہے، جس کے افراد کی بدولت اردو کے نثری ادب کو فروغ ملا، شاہ عبد القادر، شاہ رفیع الدین نے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا، شاہ ولی اللہ کے پوتے مولانا شاہ اسماعیل شہید کی کتاب “تقویت الایمان” کی اشاعت اور اس کی بے پناہ مقبولیت نے نثر نگاری کو ایک نئی جہت دی۔ اس کے بعد تو علما فارسی کے بجائے اردو میں ہی تصنیف و تالیف کو ترجیح دینے لگے۔ سرسید اور ان کے رفقا خصوصا مولانا الطاف حسین حالی، علامہ شبلی، مولوی محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد اور لکھنؤ میں مولانا عبد الحلیم شرر نے نثر نگاری میں ایسی روح پھونکی کہ اردو زبان میں ہر موضوع پر علمی مضامین لکھے جانے لگے۔
بیسویں صدی کی ابتدائی تیسری دہائی تک اردو ادبا اور شعرا کا غالب طبقہ دینی مدارس کی پیداوار تھا اور ادب کی قیادت و سیادت انہی کے ہاتھوں میں تھی، مغربی نظریات کا ہندوستان میں نفوذ بڑھا تو ادب کی کمان شر پسندوں کے ہاتھوں میں چلی گئی، اشتراکیت سے متاثر نوجوانوں نے ہر اس ادب پارے کو دائرۂ ادب سے خارج کرنے کی کوشش کی جس میں مذہب کی آمیزش ہوتی یا اخلاقیات کا دخل ہوتا۔ دین پسند شعرا اور ادبا کو ملّا اور واعظ کا نام دیا گیا، جنسی موضوعات پر لکھے گئے ناولوں اور افسانوں کو اصل ادب قرار دیا جانے لگا، ادب دو حصوں میں بٹ گیا، اباحیت پسندوں کے لیے اخلاق و آداب خار مغیلاں بن گئے لیکن صحت مند لٹریچر کے قارئین کی تعداد بھی کم نہ ہوئی۔ ۱۹۴۷ء تک علما کی ادبی تحریروں اور تصانیف کو ادب عالی کا شاہکار سمجھا جاتا تھا اور لوگ شبلی،حالی، سرسید، شرر، آزاد، مہدی افادی، خواجہ حسن نظامی، ملا واحدی، اشرف صبوحی اور عبد الماجد کو مزے لے لے کر پڑھتے تھے۔ قارئین کا ایک حلقہ مولانا آزاد کی کتابوں کا دیوانہ تھا، ہمارے یہ علما بیک وقت ادیب، شاعر، انشا پرداز اور عالم دین تھے۔ ماضی قریب میں تعمیری ادب لکھنے والوں میں مولانا اسماعیل گوجرانوالوی، مولانا مودودی، مولانا عامر عثمانی، ماہر القادری، سید سلیمان ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی، امین احسن اصلاحی اور علی میاں ندوی اور اس طرح کے ہزاروں عالم تھے جو ادب عالی تخلیق کرتے تھے۔ دوسری طرف فکشن کے رائٹرس تھے جو غلاظت پروسنے میں لگے ہوئے تھے، ان کا دعوی تھا کہ ہم سماج کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اصلاح کا ان کے پاس یہی طریقہ تھا کہ عورت کو سر بازار عریاں کریں۔ اس طرح کی اصلاح قوم کے اخلاقی زوال کی علامت ہے، منٹو عصمت چغتائی، واجدہ تبسم سب اسی قبیل کے تھے۔ منٹو نے دوچار افسانے اچھے ضرور لکھے لیکن جنس کا کیڑا ان کے دماغ میں ہمیشہ رینگتا رہتا۔ عصمت نے اپنے ذاتی تجربے کو لحاف کا نام دے دیا اور نا آسودہ خواتین کو جنسی تسکین حاصل کرنے کا ایک نیا گر بتادیا۔ حالانکہ فکشن میں بھی ایک بڑا طبقہ شروع ہی سے موجود ہے جو ان فواحش کی تطہیر میں مصروف ہے، قدسیہ خانم، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب اور ان کی جماعت کو ہم اسی زمرے میں سمجھتے ہیں۔ ہمارے کہنے کا مطلب ہے کہ ہمارے سامنے دونوں طرح کی ڈشیں موجود ہیں، یہ ہمارے مزاج اور ذوق پر منحصر ہے کہ ہم کس قسم کی غذا چاہتے ہیں۔
۱۹۴۷ء کے بعد اردو زبان و ادب میں ایسا زوال آیا کہ وہ نیستی کے کگار پر پہنچ گیا، دینی مدارس زبان کے مربی اور محافظ بن گئے، آج اردو زبان ان مدارس کی بدولت ہی زندہ ہے، لیکن ادب کی سرپرستی اس کی وسعت سے باہر ہے۔ ادب کے چرچے سیمیناروں میں یا یونیورسٹیوں کے شعبہائے اردو میں ہوتے ہیں، وہ بھی سطحی انداز میں۔ عمومی طور پر ادب کا یہ حال ہے کہ ادبی کتابوں کے خریدار تک نہیں ہیں، اگر آپ کو اپنا ادب پارہ قاری تک پہنچانا ہے تو پیسے خرچ کیجیے، چھپوائیے اور کتاب کی دکانوں پر سجا دیجیے، سال بھر میں دس بیس نسخے نکل جائیں گے۔
اسلام نے شعر و ادب کو کبھی شجر ممنوعہ نہیں بتلایا، ہاں کچھ بندشیں ضرور لگائیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عربی کے مشہور شاعر حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی شاعری کو سراہا، حضرت کعب بن زہیر نے جب اپنا مشہور قصیدہ “بانت سعاد’ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنایا تو ایک شعر پر آپ اس قدر خوش ہوئے کہ اپنی چادر انھیں انعام میں دے دی۔ شعر و ادب کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا خاص موقف تھا، وہ اپنے رفقا کو اشعار حفظ کرنے کا مشورہ دیتے تھے، قرآن کریم کا ادبی پہلو اس کا اہم اعجاز ہے، اس اعجاز نے نہ جانے کتنے دلوں میں انقلاب برپا کردیا۔ آج بھی ہم عربی شعر و ادب کو پڑھتے پڑھاتے ہیں تاکہ شریعت مطہرہ کے بنیادی مآخذ کو صحیح طور سے سمجھ سکیں۔
دینی مدارس کے طلبا کی زبانیں اگرچہ مختلف ہیں، لیکن اردو تنہا زبان ہے جس کو سارے طلبا سمجھتے اور بولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی مدارس کا ذریعۂ تعلیم اردو ہے، ہمارے دین کا سب سے بڑا سرمایہ عربی کے بعد اردو میں ہے۔ مدارس کے طلبا اگر چاہتے ہیں کہ ان کی زبان اور بیان میں اثر ہو، ان کی تحریروں کو لوگ دل چسپی سے پڑھیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ ادبی کتابیں ضرور پڑھیں، زبان شستہ اور سلیس ہو، قوت الفاظ مستحکم ہو، محاورات اور امثال نوک زبان ہوں تو آپ کی تحریر میں ادبی چاشنی اور اثر آفرینی ہوگی لیکن اس کے لیے معیاری ادب کا مطالعہ ضروری ہے۔ قدریں بدل چکی ہیں، زندگی برق رفتار ہوچکی ہے، اگر آپ نے بدلتی ہوئی قدروں کو نہ جانا، ہوا کا رخ نہ پہچانا، اسلوب کی پامال اور فرسودہ ڈگر پر چلتے رہے تو آپ کی آواز کوئی نہیں سنے گا اور آپ کی نگارشات ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جائیں گی۔
(پندرہ سال قبل کی میری ایک غیر مطبوعہ تحریر جو جامعہ سلفیہ کی ایک ادبی نشست میں پڑھی گئی تھی)

6
آپ کے تبصرے

3000
6 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
6 Comment authors
newest oldest most voted
ابو ارسلان

بہت زبردست
مختصر مگر جامع
ادب اور بے ادبی کے درمیان تفریق
اردو ادب کی بدلتی قدروں کا سرسری جائزہ

Kashif Shakeel

ماشاء اللہ بہت عمدہ مضمون
بہترین

راشد حسن مبارکپوری

استاد محترم بہت خوبصورت مضمون، جیسے لگتا ہو ابھی ابھی آپ نے لکھا ہو، بالکل تازگی محسوس ہو رہی ہے، جزاکم اللہ خیرا

عبداللہ صابر

ماشاءاللہ،زندہ ولاجواب تحریر. اللہ أستاذ محترم کو صحت و تندرستی کی زندگی عطا فرمائے.

رفیق احمد رئیس سلفی (علی گڑھ)

محترم ابوالقاسم فاروقی حفظہ اللہ کی یہ تحریر تمام سلفی نوجوان اہل قلم کی بنیادی ضرورت ہے۔امید ہے کہ محترم اپنے علم اور مطالعہ کی روشنی میں درجن بھر کتابوں کی ایک فہرست بھی فراہم کردیں گے تاکہ ان کو خریدنے یا مکتبات سے حاصل کرنے میں سہولت ہو۔اردو کے مختلف ادیبوں کے امتیازات پر بھی اگر کوئی تحریر ہو تو اسے بھی دی فری لانسر کو ارسال فرمادیں۔اگر اللہ کی کتاب اپنی زبان کے اعتبار سے ہر لحاط سے ممتاز ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کے شارح اور مفسر کی زبان ادب کی تمام خوبیوں سے… Read more »

ھلال ھدایت

بہت عمدہ استاذ محترم
🌹🌹🌹
آپ کی تحریروں کا انتظار رہتا ہے۔