چور کو کسی بھی زمانے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ وہ جس دور میں بھی جیا اپنی ہمہ جہت ذلت کے ساتھ جیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر یہ کام چرسی اور افیونی کرتے ہیں۔ کبھی چوری کا کش لگایا کبھی کش نہیں لگایا۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ رات کے سینے میں صرف چور اور عبادت گزار دھڑکتے ہیں۔ چور کے سامنے اس کا مسئلہ ہوتا ہے اور عبادت گزار کے سامنے اس کا مصلی۔
وہی بزرگ آگے فرماتے ہیں کہ جیب تراش اور مونچھ تراش میں کچھ بھی فرق نہیں۔ دونوں سے ذرا سی چوک ہوجائے تو دونوں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔
برسرِ مطلب اینکہ چور کا شمار ہر زمانے کے معزز لت خوروں میں رہا ہے۔ معزر اس لیے کہ آپ اسے لاکھ جوتے ماریں پھر بھی وہ اپنے عہدے سے دستبرداری کا اعلان نہیں کرے گا۔
اب آپ یہ مت کہنا کہ سماج میں معزز چوروں کی منڈی کہاں ہے؟
جواب ظاہر ہے۔ سیاسی میدانوں اور مذہبی کھلیانوں میں۔ اور اگر انسان مذہبی ملا بھی ہو اور سیاست کار بھی تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ چور ہونے کی تمام خوبیاں اس کے اندر بدرجہ اتم موجود ہیں…
چوروں سے اگر کئی درجہ بلند کوئی مقام ہے تو وہ ہے ڈاکوؤں کا۔ کہتے ہیں چور بے رحم ہوتا ہے اور ڈاکو کبھی کبھار رحم بھی کھا لیتا ہے…
انسان کبھی حالات سے مجبور ہوکر ڈاکو بنتا ہے جیسے پھولن دیوی اور کبھی حالات اسے ڈاکو بننے پر مجبور کردیتے ہیں جیسے ڈاکو سلطانہ….
ڈاکو سلطانہ کو انگریزوں نے ڈاکو بننے پر مجبور کیا اور جب وہ انگریزوں سے متنفر ہوا تو اپنے کتے کا نام صاحب بہادر رکھ دیا….. وہ انگریزوں کے غلام وڈیروں اور جاگیرداروں کو لوٹتا اور لوٹی ہوئی دولت کو غریبوں میں تقسیم کردیتا …. اگر کبھی کسی نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو سزا کے طور پر سلطانہ اس کی صرف تین انگلیاں کاٹتا تھا تاکہ وہ جیون بھر اس ذلت کے ساتھ جیے کہ وہ ڈاکو سلطانہ کا سزایافتہ ہے…
ڈاکوؤں اور چوروں کے بیچ ایک گروہ اور ہے جسے دنیا ٹھگ کے نام سے جانتی ہے…
ٹھگی کا پیشہ کب سے وجود میں آیا اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے کچھ اٹکلیں ہیں لیکن ان اٹکلوں کا کیا اعتبار ؟….. البتہ ٹھگوں کی سرپرستی مذہب نے ہمیشہ کی ہے… ان کے مذہبی لگاؤ کو دیکھ کر ایک زمانے میں ہندوستان میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ ان کے اوپر کالی دیوی کا سایہ ہے یا پھر یہ بھوانی کے پرستار ہیں۔ جو بھی انھیں چھیڑے گا بھوانی دیوی اسے جلا کر راکھ کردے گی۔
ہندوستان میں مسلمان آئے ان کے کچھ قبائل اسلام لے آئے لیکن ان کی فطرت وہی کی وہی رہی۔ کسی بھی زمانے میں سلطان، راجا یا بادشاہ کو اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ان پر ہاتھ ڈال سکے….
کہتے ہیں جلال الدین فیروز شاہ کے زمانے میں ایک بار ایک ہزار سے زائد ٹھگوں کو گرفتار کیا گیا لیکن وہ ان کی پراسراریت سے اس قدر خائف تھا کہ ان میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کیا۔ بلکہ اس نے حکم دیا کہ انہیں کشتیوں میں سوار کرکے بنگال کے لکھنؤتی علاقے میں بھیج دیا جائے تاکہ وہ ادھر کا رخ نہ کر سکیں….
عرض مختصر یہ ہے کہ ٹھگوں کا گروہ زمانے میں مذہب کی آڑ میں اپنا کام کرتا رہا اور لوگ ان سے مرعوب ہوتے رہے کہ یہ خدائی پراسرار ہیں…
آج بھی وطن عزیز میں موجودہ ٹھگوں پر آپ نگاہ دوڑائیں تو ان میں سے بیشتر ٹھگ آپ کو مذہبی جامے میں ملیں گے۔ چاہے وہ مولانا لق لق ہوں یا پنڈت بک بک… سارے ٹھگ مذہب کی آڑ میں اپنی دکان چلا رہے ہیں۔ ایک اپنے آپ کو اللہ کا بھگت کہتا ہے تو دوسرا رام کا بھگت….
بس ضرورت ہے کہ ہم ان ٹھگوں کو پہچانیں۔
آپ نے اپنی اس تحریر میں ٹھگوں کی سرپرستی میں مذہب کا ہاتھ دکھا کر سنسنی پیدا کردی ہے! دراصل ٹھگوں کی سرپرستی مذہب نے نہیں کی بلکہ ان ٹھگوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوحوں کو یرغمال بنایا اور لوٹا ہے۔ ٹھگ چاہے کسی دیوتا کا اوتار ہو یا کسی ولی کا پرستار وہ مذہب کو ڈھال بنا کر اپنا گورکھ دھندا چلاتا ہے اور مذہب کے کمزور لوگوں کو آسان سا نشانہ بناتا ہے۔ مجھے لگتا ہے آپ سے سہو ہوگیا ورنہ آپ کو تکلیف ٹھگوں سے ہے مذہب سے نہیں! مذہب نے تو لوگوں کو… Read more »
“پڑھ