چوں چوں کا مربہ

خان اختر جاوید

سوشل میڈیا کا زمانہ ہے حادثہ ہونے سے پہلے ہم تک خبر پہونچ جاتی ہے۔ یہاں سے جو بھی افواہ اڑائی جائے لوگ اسے سچ مان کر ایمان لے آتے ہیں۔ اسی بیچ ایک ایسی ہی ایمانی خبر ہم تک اڑ اڑ کر پہونچی کہ اب کے برس شعبان کا چاند الٹا نکلا ہے، بلا زیر و زبر مومنو! یہ قیامت کی نشانی ہے اور قیامت قریب ہے خدائے بزرگ سے توبہ و استغفار کرو۔
پیر صاحب نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ زوالِ ظاہرہ کی یہ علامت ہے۔ جب کسی قوم کا دماغ الٹ جائے تو ایسی ہی گپ کشیدہ خبریں ان کے ایمانی بھرم کا سہارا بنتی ہیں، ایک زمانہ وہ تھا جب عیسائی رہبان میں اس طرح کی کٹ حجتیاں ہوتی تھیں مثلا سوئی کے نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ اس مسئلے پر ان کے یہاں مہینوں مباحثے ہوتے تھے بعد میں وہ سدھر گئے اور اس طرح کی فضولیات والی پھلجھڑیوں و گلچھروں کو مسلمانوں نے اپنا لیا۔ نماز میں ہم ہاتھ کہاں باندھیں شرم کے باڈر سے اوپر یا پھر اس باڈر سے نیچے۔ یہاں تک تو معاملہ چل چلاؤ جیسا تھا، جس میں جتنی حیا اور شرم ہو وہ اس حساب سے نیت باندھ لے لیکن پاکیٔ داماں جب ذرا اور دراز ہوا تو دین مبین کے شارحین اس بات پر بحث کرنے لگے کہ ہاتھ کس طرح باندھا جائے انگلیوں کا رخ کس طرف ہو وغیرہ وغیرہ۔
ایک افواہ طواف بندی پر اُڑائی گئی کہ دیکھو طواف بند ہوگیا ہے یہ بھی قیامت کا ایک الارم ہے۔ ہم مسلمان اب بھی اس تقلیدی جنجال سے نکل ہی نہیں سکے کہ اسلام میں تاقیامت عارضی تفقہ و اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔اصل اساس کو چھوڑ کر بقیہ سارے احکام حالات اور وقت کے تابع ہیں لیکن کچھ نام نہاد اسلامی خیال و اسلامی جماعت کے لوگوں نے اپنی سابقہ ہفوات پر عمل کرتے ہوئے بڑی بوڑھیوں کی طرح آلِ سعود کو کوسنا شروع کردیا۔ بھارت کے مسلم مذھبی لیڈروں میں خود کی بڑائی میں جینے کا احساس اتنا جاگزیں ہے کہ انہیں دیکھ کر یہ احساس گزرتا ہے کہ بعد از ابلیس ذلیل توئی قصہ مختصر۔ مقدس کلاہ گردوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ بھارت میں کچھ بھی ہو جائے ان کی زبانیں لاک رہیں گی اگر کہیں کچھ بولنا بھی پڑے تو وہی روش جو آلہا اور وودل کے قصے میں “چُگل ماہیلا ورئیل” والے کی تھی اس سے یہ سر مو انحراف نہیں کرسکتے لیکن اگر انہیں آل سعود پر بھڑاس نکالنی ہو تو اپنے سیاہ دل، سفید و کچھڑی ریش، براؤن کلاہ اور سیاہ زبان سے پورا دفتر سیاہ کر بیٹھیں گے۔ این چہ بوالعجبی است۔
یہاں کے ملکی و ملی مسائل پر بولتے ہوئے گھگھیانے لگتے ہیں۔ اسلامی خیال کے اسلام فروش جیالو! ہم ہندی مسلمانوں کا آلِ سعود سے کیا لینا دینا یا پھر ان کا ہم سے دینا لینا کیا؟ وہ ایک مملکت کے بادشاہ ہیں اور ہم ایک جمہوری ملک کی رعایا، کہاں زمین اور کہاں آسماں۔ ہمارا نہ ان سے کوئی سیاسی رشتہ تھا، نہ ہے اور آگے امکان بھی نہیں ہے۔ بس ان کا مذھب اسلام ہے اور ہمارا مذھب بھی اسلام ہے۔ ان کی تہذیب الگ ہے ہماری تہذیب الگ ہے۔ وہ اپنی رعیت کے بارے میں اچھا بھلا جو بھی فیصلہ کریں ہمیں اس سے کیا غرض اور اگر کچھ لینا دینا بھی ہے تو یہ کہ ہم ان کے حق میں دعاء خیر کریں اس سے زیادہ خدائی توفیق کے ہم حقدار نہیں ہیں اور اوقات سے بڑھ کر بولنا و سوچنا یہ تہی ظرفوں کا کام ہے۔ رہ گئی بات حجاز مقدس کی تو وہاں سے آپ کو شکایت کیسی وہ ساری سہولتیں آپ کو فراہم کر رہے ہیں جو ایک عبادت گزار بندے کے لیے ضروری ہوں۔ پھر بھی آپ شکوہ سنج ہیں یہ ایسے ہیں وہ ویسے ہیں۔ خدا کرے موجودہ کورونا سے عالمِ انسانیت کو نجات جلد مل جائے (آمین ).
مسلمانوں کو چاہئیے کہ پہلے اپنے دماغ سے اس کرونا کو نکالیں جو انہیں غلط سوچ اور غلط فیصلے کی طرف لے جاتا ہے اور یہ ایسا جنونی وائرس ہے جو ہمارے قومی ذہن کو مفلوج کر چکا ہے۔
ایک چوں چوں کا مربہ تبلیغی جماعت بھی ہے۔ میرے خیال سے یا تو یہ بہت ہی معصوم ہیں یا پھر بہت ہی شاطر۔ معصوم یہ ہو نہیں سکتے کیونکہ فرشتوں اور انسانیت کی کوئی بھی خوبی ان میں نہیں پائی جاتی۔ مروی ہے کہ جب ان کے بزرگوں سے کہا جاتا تھا کہ حضرت چلَے کو کچھ وقت کے لیے موخر کردیں تو بڑی للاہیت والے لہجے میں کہتے تھے کہ بھئی یہ تو اللہ والوں کا کام ہے کرونا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بعد میں پتہ چلا کہ عالم اسلام میں ایران کے بعد اصل کرونا یہی ثابت ہوئے۔
یہاں پیر صاحب کا وہ قول یاد آگیا کہ: “تبلیغی جماعت کے بارے میں بری نیت سے کچھ بھی کہنا گناہ ہے”۔
میں نے کہا: اگر نیت برابر کی ہو تو!
بولے: سمجھا نہیں۔
میں نے کہا: گناہ کی نیت، نہ ثواب کی۔
بولے: پھر تبلیغ والوں سے پوچھ لو ویسے یہ زیر زمین اور زبر آسمان کی باتیں زیادہ کرتے ہیں اسں لیے مجھے ان کی باتیں پلے نہیں پڑتیں۔
میں نے کہا: خدا کا شکر ہے ہمارا پیر جاہل نہیں ہے، ورنہ یہ وائرس افیم چی جاہلوں پر بہت جلد اثر انداز ہوتا ہے، علم اور شعور سے تا ابد اس کی دشمنی برقرار رہے گی۔
قیامت اپنی علامتوں کے ساتھ آئے گی لیکن ہم قیامت آنے سے پہلے اس انسانی قیامت کی فکر کریں جو اس کی اپنی تیارہ کردہ ہیں۔ چاہے وہ فکری ہوں یا ماحولیاتی، ایٹمی ہوں یا مذھبی۔
خدا خیر کرے۔

آپ کے تبصرے

3000