لنگڑوں پہ کون مرتا ہے

خان اختر جاوید سماجیات

امسال میرے پسندیدہ آموں میں دسہری، لنگڑا اور چوسا میں سے دسہری آم بڑا پھیکا پھیکا سا لگ رہا ہے۔ شاید اسے بھی یوپی اور ملک کی کسیلی سیاست کی نظر لگ گئی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انسان جو کچھ ماحول بناتا ہے اس کا اثر نباتات و حیوانات پر بھی پڑتا ہے۔ اہل سخن کے قبلہ کو آم بہت پسند تھے، کسی نے ان سے آموں کی تعریف پوچھی، فرمایا “میٹھے ہوں اور خوب ہوں”۔ قبلہ کے کسی ظریف دوست نے ان پر فقرہ کسا: مرزا ادھر سامنے دیکھو۔۔! “گدھے بھی آم نہیں کھاتے” قبلہ ٹہرے حیوان ظریف، برجستہ جواب دیا “گدھے ہی آم نہیں کھاتے”
ایک بارے قبلہ کے ایک دوست نے ان کے پاس آموں کا تحفہ بھیجا اس پر انھوں نے “مثنوی در صفت انبہ” لکھ دی۔ مرشدی “فل حکیم” نے مثنوی در صفت انبہ” پڑھ کر “معجون جواہر انبہ” تیار کردیا۔ دھانسو نے پوچھا کس کے لیے ہے؟ جواب دیا ‘ملک میں پھیلے ہوئے کچھ مایوس دوستوں کے لیے ہے مگر یہ راز در راز رہے۔
دھانسو مرشد سے روایت کرتا ہے کہ مرشد فرماتے ہیں: آم کھانے کے بے شمار فوائد ہیں، آم کھانے سے جہاں ہاضمہ درست رہتا ہے وہیں یہ جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے اور بڑھاپا آنے سے روکتا ہے۔ کہاوت ہے “آم کے آم گٹھلیوں کے دام” یعنی آم کی گٹھلی بھی کار آمد شئی ہے۔ مرشد نے دھانسو سے بیوقوف کی ایک پہچان یہ بھی بتائی کہ وہ آم کے سیزن میں کوئی اور پھل کھائے۔ پھر یہ شعر پڑھا:
دشمن عقل ہے وہ میرا رقیب
کھائے امرود، رکھے آم قریب
اردو کے ادیب اور شاعروں میں علامہ اقبال کو آم بہت پسند تھے۔ ایک بار اکبر الہ ابادی نے الہ آباد سے آموں کا پارسل بھیجا۔ آم علامہ کو مل گئے اور انھوں نے شکریہ نامہ کے ساتھ یہ شعر بھی لکھ دیا:
اثر تیرے یہ انفاسِ مسیحائی کا ہے اکبر
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور کو پہنچا
دوسرے مصرعے میں جو شعری لطف ہے اسے سمجھنا ہم جیسے کج فہموں کے بس کی بات نہیں۔ لنگڑے آم پر ظرافت کے بادشاہ ساخر خیامی کا ایک قطعہ یاد آگیا وہ بھی پڑھتے چلیں:
تجربہ ہے ہمیں محبت کا
دل حسینوں سے پیار کرتا ہے
آم تیری یہ خوش نصیبی ہے
ورنہ لنگڑوں پہ کون مرتا ہے
علامہ اقبال جب بیمار رہنے لگے تو حکیم صاحب نے آم کھانے سے بالکل منع کردیا مگر طبیعت نہیں مانتی تھی۔ آخر حیکم صاحب سے ضد کرکے روزانہ ایک آم کھانے اجازت لے لی۔ اپنے خادم “علی بخش” سے کہتے جا بازار میں تلاش کر! جو آم سب سے بڑا ملے، لیتے آنا۔ طبیعت جب مزید خراب رہنے لگی اور ڈاکٹروں نے آم کھانے سے بالکل منع کردیا تو آموں کے سیزن میں جب علامہ کا کوئی عقیدت مند ان کے یہاں آموں کا ٹوکرا بھیجتا علامہ مولانا غلام رسول مہر، سالک صاحب اور دیگر دوستوں کو بلا کر انھیں خوب آم کھلاتے۔ ایک روز کہنے لگے اب میں کھانے کی منزل سے گزر کر کھلانے کے مرحلے میں ہوں۔ سالک صاحب نے فورا “پیشہ کند دلالی” والی پھبتی کسی۔ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے مجھے معلوم تھا سالک صاحب یہ ضرور کہیں گے۔
ہمارے ممدوح لل بہاری صاحب کے بولنے اور پھیکنے کا انداز بھی ملکی سیاست کی طرح ہے۔ شیخی بگھارنے اور ڈینگیں مارنے میں وہ ایک نمبر کے تعلی باز ہیں، ایک روز یاران محفل میں آموں کا ذکر چھڑا یہ پھیکنے پر آئے تو اعلی ملکی سیاسی انداز اپنالیا، کہنے لگے مجھے بھی آموں کے کھیت میں پیڑوں سے پکے ہوئے آم توڑ کر اور پھر اسے وہیں چوس کر کھانا بہت اچھا لگتا ہے۔ محفل میں ایک “زبان شناس” بھی تھا اس نے فوراً ٹوک دیا، لل صاحب! آموں کے کھیت نہیں بلکہ باغ ہوتے ہیں۔ کھیت گنے کے ہوتے ہیں لہذا چوسنے سے پہلے دیکھ لیا کریں کہ کہاں کھڑے ہیں؟

آپ کے تبصرے

3000