بڑبھس شوکت تھانوی کا مشہور ناول ہے، نئی نسل اس ناول کو بھول چکی ہوگی، اب تو شوکت تھانوی اور ان کے افسانہ سودیشی ریل کے واقف کار بھی کم ہی ہوں گے۔ آج میں آپ کو ایک اور بڑبھس سے ملواتا ہوں جس سے میرا سابقہ پڑا تھا۔
سعودیہ میں مجھے ایک میڈیکل اسٹور میں اکاونٹنٹ کی جاب مل گئی تھی، یہ ۱۹۸۴ کی بات ہے میرا کفیل ایک یمنی نزاد بوڑھا شخص تھا، وہ پچھتر کے لپیٹے میں تھا، نام اس کا مطر تھا، بلا کا بخیل اور کنجوس تھا، ممبئی میں اس سے میری ملاقات ہو چکی تھی اور اس کی بخیلی کا نمونہ دیکھ چکا تھا، وہ ناگپاڑہ کے ساگر ہوٹل میں ٹھہرا تھا، میں اس سے ملنےکے لیے پہنچا تو وہ کھانا کھارہا تھا، فرائی کیا ہوا مٹن چانپ اور خستہ پراٹھے، میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا، دیکھ کر منہ میں پانی آگیا، عربوں کی سخاوت کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، وہ مجھ سے بڑی خوش اخلاقی سے بات کرتا رہا، مگر کھانے کے لیے ایک بار تکلفا بھی نہیں پوچھا، وہ باتیں کرتا رہا اور کھاتا رہا، میں اس کے بجائے کھانے کو ایک ٹک دیکھتا رہا، کھانے کے بعد بچے ہوئے کھانے کو الماری میں رکھ دیا، اور مجھ کو لکچر پلانے لگا، کہ کھانے کی عزت کرنا چاہیے۔ اب یہ کھانا شام کو میرے کام آجائے گا اور میرے پیسے بچ جائیں گے۔
اکاونٹنسی ( منیمی/ منشی گیری) میرے لیے بڑا دقت طلب کام تھا۔ روزانہ ٹوٹل میں کچھ پیسے گھٹ جاتے اور میں دوبارہ جمع، ضرب، تقسیم اور فیصد کے عمل سے گزرنے کے بجائے وہ رقم میں اپنی جیب سے لگا دیتا، ادب کے مدرس کے لیے یہ کام ہرن پر گھاس لادنا تھا-
مطر ویسے تو میری بڑی عزت کرتا، مجھے “رجل الدین” یعنی مولانا کہتا، مگر اس کی گرہ سے پیسے نکلوانا بڑا مشکل تھا، ذرا بے تکلفی بڑھی تو اس کی شخصیت کی کئی پرتیں سامنے آئیں، اس نے اپنی نجی اور گھریلو باتیں بھی شیر کرنا شروع کردیں۔
اس نے اپنی بوڑھی بیوی کو طلاق دے دیا تھا، اس سے دس بچے تھے اور سب بال بچے دار تھے، میں نے اس سے پوچھا کہ اس بڑھاپے میں اس بے چاری کو کیوں طلاق دے دیا؟ کہنے لگا: “وہ زبان کی بڑی تیز تھی، چالیس سال تک میں نے بڑی مشکل سے اس کے ساتھ گذارہ کیا۔” میں نے مسکرا کر شرارت بھرے انداز میں اس سے پھر پوچھا: “سچ سچ بتانا، یہی بات تھی یا کچھ اور۔” مطر نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا: تم بہت بدمعاش آدمی ہو، حلق میں ہاتھ ڈال کر دل کے راز اگلوا لیتے ہو، اصل میں میری بیوی بوڑھی ہوچکی تھی، اسے سیکس میں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی اور میں بغیر سیکس کے نہیں رہ سکتا تھا، میں نے اسے طلاق دے دی اور مصر جا کر ایک بیس سالہ لڑکی سے شادی کرلیا۔”
اس گفتگو کے پندرہ دن بعد کی بات ہے میں نے دیکھا کہ مطر بہت پریشان ہے، بہت پوچھنے پر بھی اس نے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ بڑا الجھا الجھا سا تھا۔ شام کو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: “چلو باہر چلتے ہیں، تم سے کچھ ضروری بات کرنا ہے۔” میں نے کہا: “یہیں کہہ دو، کیا باہر چلنا ضروری ہے؟” وہ نہیں مانا، میرا ہاتھ پکڑ کر باہر لایا، اور گاڑی کی اگلی سیٹ پر بٹھادیا اور سیدھے ساحل سمندر پر لای۔ ایک جگہ بنچ پر ہم دونوں بیٹھ گئے، سمندر میں اونچی لہریں اٹھ رہی تھیں، میرے دل میں بھی اتھل پتھل ہورہا تھا، نہ جانے وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا؟ وہ خاموش بیٹھا ایک ٹک سمندر کی لہروں کو دیکھ رہا تھا، مجھ سے صبر نہیں ہوا، میں نے اس کا چہرہ اپنی طرف گھما کر کہا: “مطر تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتے تھے؟” وہ شاید اپنی بات کہنے کے لیے الفاظ جمع کررہا تھا، ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہا: “ابوالقاسم تم میرے ملازم نہیں دوست ہو، میں جس بھنور میں پھنسا ہوں، اس سے نکلنے میں صرف تم کچھ مفید مشورہ دے سکتے ہو۔” میں نے جھلا کر کہا: “پہیلیاں مت بجھاؤ جو کہنا ہے کہہ ڈالو۔”
اس نے اپنی داستان شروع کی: “میں ایک جاہل اور غریب شخص تھا، حرم شریف میں فراش (جھاڑو لگانے والا) کا کام کرتا تھا، میرا مکان حرم شریف کی توسیع کے منصوبے میں آگیا، مجھے بیس ملین ریال معاوضہ ملا، اتنی بڑی رقم پا کر میں ہوا میں اڑنے لگا، میں نے خوب عیاشی کی، مجھے مصر کی عورتیں زیادہ پسند تھیں، میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر ایک نوخیز مصری لڑکی سے شادی کر لی، میرے لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کم بخت میری بیوی آگ نہیں آتش کدہ ہے، میں آگ بجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو خود ہی جل جاتا ہوں، روزانہ لڑائی ہوتی ہے کئی بار وہ میری پٹائی بھی کر چکی ہے، زندگی جہنم بن گئی ہے، بڑھاپے کی مٹی پلید ہورہی ہے۔”
میری ہنسی چھوٹ گئی، کھودا پہاڑ نکلی چوہیا، میں نے کہا: “آ بیل مجھے مار، تم نے خود ہی مصیبت مول لی ہے، میں کیا کر سکتا ہوں۔” وہ اپنے مطلب کی بات پر آگیا: “میں نے سنا ہے کہ ہندوستان میں ایسی جڑی بوٹیاں، معجون اور کشتے ملتے ہیں جو بوڑھوں کو جوان کر دیتے ہیں، میرے دوست مجھے منگوادو، میں سو (۱۰۰) ریال تمھاری تنخواہ میں اضافہ کردوں گا۔” میں تھوڑی دیر تک سوچتا رہا، پھر ہامی بھر لی آگے میں نے کہا: “میرے ایک ماموں حکیم ہیں، میں تمھارے کوائف لکھ کر بھیجتا ہوں، لیکن دوا آنے میں دو ماہ لگ جائیں گے، تب تک تم کیا کروگے؟” اس کے پاس جواب حاضر تھا: “حج کا موسم آنے والا ہے، حج کے بعد اس کو کچھ دنوں کے لیے اس کے مائکے مصر پہنچا دیتا ہوں۔” اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو چکا تھا، اب وہ موڈ میں تھا، ایک ہوٹل میں لے جا کر مجھے کھانا کھلایا۔
ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اچانک رات کو چیخنے چلانے کی آواز سنی، میں گھر کی نچلی منزل میں رہتا تھا، مطر اپنی بیوی کے ساتھ بالائی منزل میں رہتا تھا، کچھ دیر کے بعد وہ مجھے بلا کر اوپر لے گیا، اس کی بیوی بستر پہ بیٹھی رو رہی تھی اور بڑبڑارہی تھی، مجھے تو بڑی شین کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ گھر جانے پر آمادہ نہیں تھی، اسے ڈر تھا، بڈھا اپنی ساری دولت اپنے لڑکوں، لڑکیوں میں بانٹ دے گا۔
مطر نے کہا: “ابوالقاسم تمہی اس کو سمجھاؤ۔”
میں اسے کیا سمجھاتا؟ جس طرح ہوسکا اسے نارمل کرنے کی کوشش کرتا رہا، تھوڑی دیر میں اس کا غصہ فرو ہوگیا۔
میں خوب صورت تو نہیں ہوں، قد پستہ ہے، رنگت بھی بہت صاف نہیں، اب تو آلو کی بوری ہوگیا ہوں، ہاں اس وقت جوان ضرور تھا، وہ جس انداز اور لگاوٹ سے بڈھے کے سامنے بات کررہی تھی، میں چونک گیا، بہر حال بات آئی گئی ختم ہوگئی۔
دوسرے دن سے اس کی کرم فرمائیاں شروع ہوگئیں، صبح و شام کوئی نہ کوئی ڈش چلی آرہی ہے، میرے ہاتھ کے طوطے اڑگئے، ابھی چند دن پہلے جدہ ہی میں اخلاقی جرم میں ایک شخص کی گردن اڑادی گئی تھی، سوتے جاگتے مجھے یہی محسوس ہوتا کہ ایک جلاد ننگی تلوار لیے میرے سر پر کھڑا ہے، مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اپنے گھر نہیں پہنچ پاؤں گا اور نہ اپنے بچوں سے مل پاؤں گا، میں نے اللہ سے گڑ گڑا کر دعا مانگی کہ اے اللہ مجھے اس مصیبت سے چھٹکارہ دلا دے۔
اللہ نے میری سن لی، حج کا موسم آگیا، آٹھویں ذی الحجہ کو حج کے ارادے سے مکہ نکل گیا، میرے ساتھ مطر اور احمد نام کا ایک الیکٹریشین تھا، مکہ میں دو اور مصری جو کسی ہسپتال میں میل نرس تھے، ساتھ ہوگئے، اس طرح پانچ آدمیوں کا قافلہ ہو گیا، مطر نے کچھ ضروری سامان اور دوائیں وغیرہ ایک کرتون میں لے لی تھیں، میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مطر مجھے کرتون اٹھانے کے لیے نہ کہنا، طواف کرکے لوٹے تو ایک مصری کا تھوتھن لٹکا ہوا تھا، پتہ چلا کہ طواف کے درمیان حزام (بلٹ) سے کسی نے اس کی رقم صاف کردی۔
منی پہنچے تو ایک پل کے نیچے احرام بچھا کر قیام پذیر ہوگئے، نہ جانے کہاں سے دو نوخیز مصری لڑکیاں ٹپک پڑیں۔ دونوں مطر کی شناسا تھیں اب تو کہاں کا حج کہاں حج کے ارکان، دونوں مصری اور مطر اس کے آگے پیچھے ایسے پھرنے لگے جیسے سانڈ گائے کے پیچھے پھرتا ہے، خورد و نوش کا جو سامان میں خرید کر لایا تھا، انھوں نے لڑکیوں کو ٹھونسا دیا، میں مطر کے اوپر سخت ناراض ہوا اور کہا: “کیوں اپنا حج برباد کرتے ہو اور اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہو۔”
وہ کم بخت کہنے لگا: “ابوالقاسم میں نے سولہ حج کئے ہیں، ایک حج میں بیوی سے قربت کرلی تھی وہ برباد ہوگیا اور بیچ ہی سے میں واپس چلا گیا، پندرہ حج میں سے کسی کو تو اللہ قبول کرے گا۔”
طبیعت اس سے متنفر ہو چکی تھی، لیکن کیا کرتا، وہ میرا کفیل تھا، ساتھ تو دینا ہی تھا، عرفات پیدل جانا تھا، مطر نے کہا: “ابوالقاسم تھوڑی دور تم بھی کرتون لے لو، ہم اور احمد تھک چکے ہیں، میں نے لے تو لیا، لیکن جیسے ہی وہ آگے بڑھے، میں کرتون پھینک کر آگے بڑھ گیا، ایک کلو میٹر چلنے کے بعد مطر کو میری یاد آئی، دیکھا تو میرا سر خالی تھا، پوچھا: “کرتون کیا ہوا؟” میں نے بڑی رسانیت سے جواب دیا: “میں نے اسی جگہ پھینک دیا، میں حمال نہیں ہوں، وہ پھر واپس گیا، کرتون اسی جگہ پڑا ہوا تھا، دوبارہ مجھے اس نے کرتون اٹھانے کے لیے نہیں کہا۔
دسویں کو منی پہنچ کر بال منڈانا اور قربانی کرنا تھی۔ مطر نے ایک پاکستانی حجام کو پکڑا دس ریال طے ہوا، حجام نے سوچا: “عربی ہے کچھ بخشش بھی دے گا” مطر نے کہا: “کاٹنا ہے تو کاٹو میں ایک پیسہ زیادہ نہیں دوں گا۔” حجام فارغ ہوا تو مطر نے مجھ سے پوچھا: “ابوالقاسم کوئس؟” میں بھی بال منڈانے میں مصروف تھا، اس کے پیچھے نہیں دیکھا اور کہہ دیا: “کوئس جدا” میں نے ایک بنگلہ دیشی سے معاملہ طے کیا، اس نے کہا پورے سر مونڈنے کا پانچ ریال لوں گا اور بلیڈ سے مونڈوں گا۔” میں مان گیا، بال مونڈنے کے بعد میں نے اس سے کہا: “ایمان سے کہنا، میرے پورے سر میں بال تھے یا آدھے سر میں؟” اس نے ایمانداری سے جواب دیا: “بھیا! بال تو آدھے ہی سر میں تھے۔” تو تمھارا ڈھائی ریال بنا؟” اس نے مرے دل سے کہا: “ہاں ہوتا تو ڈھائی ریال ہے۔” مجھے ترس آگیا اور پانچ ریال اس کو دے دیا۔
مطر کو دیکھا تو بے ساختہ قہقہہ نکل گیا، حجام نے بخشش نہ دینے کا بدلہ لے لیا تھا اور پیچھے ہندوؤں کی طرح چنڈی چھوڑ دی تھی، جو بھی ہندوستانی، پاکستانی دیکھتا قہقہے لگاتا کہ حج میں ہندو کہاں سے آگیا۔
مذبح کی طرف چلے تو دیکھا کہ گائے اور اونٹ کی قربانی کے لیے ایک چھوٹا سا میدان تھا، جس میں کیچڑ کی طرح خون پھیلا ہوا تھا، میں اور احمد تو اینٹ پر پیر رکھ کر گذر گئے، مطر خود کو سنبھال نہ پایا اور سیدھے خونی کیچڑ میں پھچاک سے گرا، دیکھنے والے ہنسی کے مارے بے حال ہوگئے، میں نے ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی، میرا ہاتھ پھسل گیا، وہ پھر گر پڑا تیسری کوشش میں وہ کھڑا ہو سکا۔
اس کی ہیئت کذائی یہ تھی کہ سر سے پیر تک خون میں سنا ہوا، سر پہ چنڈی، احرام بندھا ہوا، جدھر سے گذرتا بھیڑ چھٹ جاتی، لوگ یہی سمجھتے کہ کوئی پاگل ہے۔ وہ سب سے پہلے نہانا چاہتا تھا اور میری خواہش تھی کہ اسی حالت میں اسے مکہ لے چلوں، اتفاق سے ایک کھٹارہ بس جارہی تھی، کنڈکٹر “خمس ریال مکہ” کی آواز لگارہا تھا، میں نے کہا: “مطر وہ بس دس کے بجائے پانچ ریال میں مکہ جارہی ہے، پانچ ریال سن کر وہ نہانا بھول گیا اور جلدی سے بس پر سوار ہو گیا، لیکن کوئی اسے اپنے پاس بٹھانے کے لیے راضی نہ ہوا، اسے دروازے کے پاس کھڑا رہنا پڑا، حرم شریف پہنچ کر اس نے اور ہم سب نے غسل کیا۔ میں نے اس سے کہا: “حجام کے پاس جاکر چنڈی تو کٹوالو۔” اس نے کہا: “میں دس ریال اور نہیں خرچ کروں گا، بال بڑے ہونے پر چنڈی چھپ جائے گی۔”
حج کے بعد میں اس کی دوا لانے کے بہانے وطن واپس آگیا اور دوبارہ ملازمت کے لیے جانے کا نام نہیں لیا۔
سال بھر کے بعد پتہ چلا کہ مطر کا انتقال ہوگیا، اس کے مرنے پر اس کی بیوہ کے ہونٹ مسکرانے کے انداز میں پھیل گئے، جو غمزدہ ماحول سے میچ نہیں کھارہے تھے، گھر کی عورتیں دو گھنٹہ کی کوشش کے بعد اس کی مسکراہٹ کو ختم کرسکیں۔
خوبصورت تجربہ۔اس قسم کے تمام تجربات وقتاً فوقتاً تحریر فرماتے رہیں۔کوئی زندہ افسانہ بھی اس تجربے کے ٹکر کا نہیں ہوسکتا۔اسی کو کہتے ہیں ادب۔تحریر میں جو بے ساختگی ہے وہ پڑھنے والے کو حددرجہ متاثر کرتی ہے۔نوجوانی کے اس خوبصورت واقعے کو آپ نے نوجوانوں کو سنا کر بڑا احسان فرمایا ہے۔امید ہے کہ اگر خدا نخواستہ وہ کسی ایسے ہی گرداب میں کہیں پھنس جائیں تو نکلنے کے لیے کوئی محفوظ راستہ ضرور تلاش کرلیں گے ورنہ ایک عدد گردن دھڑ سے الگ کردی جائے گی۔اللہ سب کو اس طرح کی آزمائشوں سے محفوظ رکھے۔آمین۔
ماشاء اللہ شیخ محترم
تجربات پر مبنی حقیقت کشا ایک لاجواب تحریر !!💐
جب سے مدرسہ چھوٹا ناولیں بھی چھوٹ گئیں۔ اچھی تحریریں خال خال ہی پڑھنے میں آتی ہیں۔ آپ کی تحریریں زندگی سے بھر پور ہوتی ہیں۔ جی نہیں چاہتا کہ اتنی جلد کوئی تحریر ختم ہوجائے۔
اتنا لکھیے ہم بچوں کیلیے کہ پڑھ پڑھ کر لکھنا آجائے۔
انڈیا کے ایک بھائی مجاہدالاسلام سنابلی کے مشورے پہ پڑھا۔۔۔
مزہ آگیا۔۔۔عمدہ انداز،بہترین ادب کے ساتھ مزین قصہ۔
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن، اسے ایک خوبصورت موڑ دے کے)چھوڑنا اچھا
عرصہ سے دلچسپ کہانی کا مطالعہ کرنے کی خواہش تھی جو آج پوری ہوئی
زیر لب تبسم کا مجسمہ بن کر یہ روداد پڑھا۔بہت مزہ آیا۔
عرب کے دیہاتی علاقوں میں “مطر” جیسے بخیلوں سے آج بھی واسطہ پڑتا ہے۔۔۔۔