دین کے کچھ اصول و مبادیات ایسے ہوتے ہیں جن میں تنازل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ مسلمات صحابہ، تابعین، تبع تابعین، فقہاء، ائمہ اور علماء سلف کے مابین متفق علیہ ہوتے ہیں۔ فقہ و فتاویٰ کی گزشتہ تاریخ میں مختلف حالات کے باوجود ان مسلمات کی پاسداری کا ایک تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی حیلے حوالے سے سود کھانے یا ہضم کرنے کا مسئلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔
البتہ کوئی کنڈیشن اضطراری کیفیت ہے یا کفر کی لادی ہوئی ایمرجنسی، اس کی تشخیص و تعیین نصوص کی بنیاد پر کی جائے تو کامن سینس کی مدد بھی ملے گی۔ ورنہ نیت ہوگی سرسید جیسی اور نتیجہ نکلے گا وحیدالدین خان جیسا۔ سودی بینکنگ سسٹم سے تعلق کتنا لازمی ہے اور کتنا اختیاری، یہ طے کرنے میں انصاف سے کام لینا بہت ضروری ہے۔
زیر نظر مضمون سود سے متعلق حالات کا متعدد حوالوں سے ایک تجزیہ ہے جس سے اتفاق اور اختلاف دونوں کا امکان ہے۔ اصحاب قلم علماء حضرات سے درخواست ہے کہ متعلقہ موضوع پر اپنا اپنا تجزیہ ضرور پیش کریں تاکہ کوئی ایک صاف ستھری بات نکھر کر سامنے آسکے:
ایڈیٹر
———————–
انسانی زندگی کے ہر شعبے میں اسلام نے بہترین رہنما اصول دیے ہیں۔ قرآن و حدیث کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے اسلامی تعلیمات علوم و فنون، صنعت و حرفت، تجارت و معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ دیگر شعبوں پر محیط ہیں۔
آج کے اس ماڈرن دور میں مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ملک کا مالیاتی نظام ہے جہاں حکومت کی پوری کوشش ہے کہ مالیاتی نظام کو مکمل طریقے سے بینکوں سے جوڑ کر رکھا جائے، معاملات چھوٹے ہوں یا بڑے بینکوں کے ذریعے ہی انجام پائیں۔ بھارت میں نیشنل بینکوں کے ساتھ ساتھ عالمی بینکوں کا بھی جال پھیلا ہوا ہے۔ ان عالمی بینکوں میں سے کچھ کے مالکان تو خالص اسلامی ملکوں کے سرمایہ کار ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ان تمام بینکوں کا نظام سودی کاروبار پر مبنی ہے۔ ان بینکوں سے لین دین کا سیدھا مطلب ہے سودی کاروبار کو بڑھاوا دینا اور اس کے عذاب میں گرفتار ہو کر اپنی عاقبت کو خراب کرنا۔ ہندوستانی مسلمان عقیدہ اور عمل دونوں لحاظ سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ان بینکوں سے حتی المقدور بچتا رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت معاشی بحران کا شکار رہی۔ اسی معاشی بحران نے آگے چل کر مسلمانوں کو دھیرے دھیرے زندگی کے ہر محاذ پہ پیچھے دھکیل دیا اور اب وہ اتنی پستی میں جا چکے ہیں کہ وہاں سے ابھرنا اور زندگی کے ہر جادۂ عمل پہ تیز رفتار بھاگتی دنیا کا مقابلہ کرنا بہت کٹھن ہوگیا ہے۔
یوں تو وقت اور حالات کے حساب سے علماء نے کتاب و سنت کی روشنی میں امت کی ہر موڑ پر رہنمائی کی ہے تاہم مسلمانوں کو کچھ مسائل ایسے بھی پیش آئے ہیں جہاں یہ علماء اور مفتیان بر وقت فیصلہ کن موقف اختیار کرنے میں ناکام بھی رہے ہیں۔ موجودہ احوال کو تھوڑی دیر کے لیے پس پشت ڈال کر تاریخ کو اگر کھنگالا جائے تو عہد ماضی کی بیشتر حکایتوں پہ ایک طائرانہ نگاہ اس بات کی مکمل توثیق کر دے گی کہ بہت سارے مسائل میں بر وقت صحیح فیصلہ نہ لینے کی وجہ سے مسلمانوں کو پستی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے وجوہات مختلف ہوسکتے ہیں اور کسی حد تک صحیح یا غلط ان کی توجیہ بھی پیش کی جا سکتی ہے لیکن کچھ معاملات میں وقت کے تقاضے کو نظر انداز کر کے لیا گیا فیصلہ گھاتک بھی ثابت ہوا ہے۔ پہلی بار قاہرہ کی مسجدوں میں وضو کے لیے جب ٹونٹیاں لگائی گئیں اور ان ٹونٹیوں میں شہر کے کسی کنویں یا باؤلی سے پانی فراہم کیا گیا تو اس وقت کے اکثر علماء نے اسے بدعت سمجھ کر اس پانی سے وضو کرنے کی ممانعت کردی۔ عوام کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے وضو نہ کیا کریں اس کا پانی نہ جانے کہاں کہاں سے گزار کر یہاں تک لایا جاتا ہے یعنی بے جا اندیشے پیش کیے گئے۔ ایک وہ دور تھا اور ایک آج ہے کہ اس سسٹم کے بغیر کسی مسجد میں وضو کا انتظام و انصرام محال ہے۔
اسی طرح تصویر کا مسئلہ ہے جو ایک مدت تک حرام رہی لیکن وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ امتداد زمانہ کے ساتھ آج ہر کوئی عالم ہو کہ جاہل، بچہ ہو کہ بوڑھا تصویر کشی سب کی زندگی کا اہم حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی تاریخ سے آج جن نابغہ شخصیتوں کا نام لے لے کر ہم فخر سے مسلمانوں کے زریں دور کی بات کرتے ہیں اور دوسروں پر اپنے اسلاف کے علم و معرفت کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں ان میں اکثریت کو اس وقت کے علماء نے نا قابل اعتنا سمجھا تھا اور ان پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے تھے۔
پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں اور کاتبوں کو متعین کرکے متعدد نسخے تیار کیے جاتے تھے پھر وقت بدلا اور کچھ کیلیگرافی کا فروغ ہوا تو لوگ پیشے کے طور پر کتابیں کانٹریکٹ پہ لے کر خوبصورت شکلوں میں تیار کرنے لگے اور پہلے سے زیادہ نسخے تیار ہونے لگے۔ پندرہویں صدی میں جب پرنٹنگ پریس کی ایجاد ہوئی اور پہلے کے مقابل بہتر اور کئی گنا زیادہ نسخوں کی طباعت ہونے لگی تو اس وقت اس کا استعمال خلافت عثمانیہ کے درباری علماء کی طرف سے حرام قرار دے دیا گیا۔ جبکہ عثمانیوں کے زیر نگیں استنبول میں یہودیوں اور مسیحیوں نے سولہویں صدی کے اوائل میں ہی پرنٹنگ پریس کا استعمال شروع کردیا تھا لیکن اس وقت کے علماء نے عثمانی سلاطین کو پرنٹنگ پریس کے استعمال سے باز رکھا۔ پورے تین سو سال بعد سلطنت عثمانیہ کے ایک عالم جو اس وقت شیخ الاسلام کے عہدے پر ہوا کرتے تھے انھوں نے اس پرنٹنگ پریس مشین کو استعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی لیکن اس اجازت کے ساتھ یہ قید بھی لگا دی کہ دینی کتابیں اس مشین سے نہیں چھاپی جا سکتیں۔ اس طرح اٹھارہویں صدی کے آخر میں عظیم عثمانی سلطنت نے سرکاری سطح پر پہلی کتاب مشین سے پرنٹ کی۔ دوسری طرف یہی دور یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا تھا، انہی تین سو سالوں میں یوروپین اقوام نے ان مشینوں کے ذریعے لاکھوں کتابیں چھاپ کر رکھ دیں اور دیکھتے دیکھتے وہی بنجارا صفت یوروپین علم و دانش کے امام بن گئے اور جن کی کتابیں پڑھ کر وہ آگے بڑھ رہے تھے ان کے علماء اور سلاطین بے وجہ کے قیل وقال میں پڑے رہ گئے، جب انھیں ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔
آج کا سب سے زیادہ سلگتا ہوا مسئلہ بینکوں کے سود کا ہے۔ ہمارے بھارت میں فی الحال جو معاشی نظام نافذ العمل ہے اس کی رو سے بھارت کے ہر شہری کو بینکنگ سسٹم میں آنا اور حکومت کے معاشی راڈار پر دکھائی دینا لازمی ہے۔ بینک اکاؤنٹ کھول کر ڈے ٹو ڈے ٹرانزیکشن کرنا تو عام بات ہے جس میں کسی قسم کا کوئی حرج بھی نہیں۔
سوال تب شروع ہوتا ہے جب مسئلہ سود کا آتا ہے۔ بینک اگر مہینے یا سال میں چند ٹکے بطور سود اپنے گاہک کو دیتا ہے تو اس کا مصرف کیا ہوگا؟
عام آدمی جو روز کنواں کھود کر پانی پیتا ہے وہ تو اپنی گزر اوقات کسی طرح کر سکتا ہے لیکن جو لوگ نوکریاں کرتے ہیں یا کسی قسم کا کاروبار کرتے ہیں ان کا مالی نظام بینکوں سے مربوط ہے وہ کہاں جائیں گے؟ بینکوں کی طرف رجوع کیے بغیر انھیں کوئی چارہ ہی نہیں۔ ہندوستان میں بینکنگ کا سارا تانا بانا سودی کاروبار پر ہے۔ آپ کے کھاتے میں پڑی سودی رقم باہر بھلے نہ آئے لیکن وہ آپ کے بیلینس شیٹ میں ضرور رہے گی۔ یہ تو ہوا مسئلہ سود لینے کا جہاں تھوڑی دیر کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بینک کی جانب سے عطا کیا گیا فائدہ ہمیں منظور نہیں سو ہم نے وہ رقم اٹھائی ہی نہیں۔ لیکن وہی بینک جب آپ پر سود لاگو کرتا ہے اور آپ سود دینے پر مجبور کیے جاتے ہیں تب آپ کیا کریں گے؟ کوئی بھی بینک اپنے گاہک کو معاف نہیں کرے گا اور اسی طرح ہمارا بنیا بھی نہیں چھوڑے گا؛ دونوں کے دونوں کا ایک ہی مقصد ہے؛ دولت کمانا اور بس۔
بھارت سے باہر اسلامی ملکوں میں بھی انہی عالمی بینکوں کے دفاتر موجود ہیں جو سارے فائنانس سسٹم کو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں میں آج کل کچھ نئے بینکوں کا رجحان شروع ہوا ہے جسے اسلامی بینکنگ کا رول ماڈل کہا جا رہا ہے۔ اور اسلام کے نام پر ان بینکوں نے جب وہاں کی ثروت پہ اپنا رسوخ بڑھایا اور اسلامک بینکنگ کا دائرہ وسیع تر ہوا تو عالمی بینکوں نے بھی اس طرف توجہ دی اور اس موضوع پہ ریسرچ کیا۔ نتیجے کے طور پر انھوں نے اپنے عام بینکوں میں ایک سیکشن اسلامی بینک کا بھی کھول لیا تاکہ وہ سرمایہ جو اسلامی بینک کے نام پر ان کی مٹھی سے کسمسا کر نکل رہا تھا وہ بھاگ نہ سکے، آخر کار بینکوں کا سسٹم سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مظہر ہی تو ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں یہ اسلامی بینکنگ کیا چیز ہے جس کی فکر جگانے اور اس نہج پر عملی اقدام کرنے کا سرخیل ملیشیا ہے جہاں آج سے کم و بیش ستر سال پہلے بلا سود اسلامک انویسٹمنٹ کے نام پر وہاں کے کچھ دانشوروں نے جوت جگائی اور وہاں کے کچھ اسلامی فکر کے حامل متمول لوگوں نے بینکنگ ڈیپوزٹ کا کاروبار شروع کیا۔ رفتہ رفتہ یہ عمل پاکستان میں مقبول ہوا اور انھوں نے اس جہت میں کام کرنا شروع کیا جس میں سعودی کی ہر ممکن مدد بھی شامل حال رہی۔ اس ضمن میں ابھی کوئی خاص پیش رفت ہوئی بھی نہیں تھی کہ عرب کے دیگر دانشوروں نے بھی اس معاملے میں انٹری کردی۔ اب ملیشیا کے ساتھ پاکستان اور مصر میں بھی چھوٹے موٹے تجربے ہونے لگے پھر سعودی کے شاہ فیصل نے مزید دلچسپی دکھائی اور بڑے پیمانے پر میٹنگیں ہونے لگیں کہ سودی بینکنگ نظام کا متبادل نظام قائم کیا جائے اور سود کے لین دین سے نجات پائی جائے۔ اقتصادی مشیروں اور عالی وقار وزیروں کی جدہ سے لے کر کراچی تک کانفرنسوں میں یہی طے پایا کہ موجودہ بینکنگ سسٹم کے شانہ بہ شانہ اسلامی بینکنگ کو نافذ کیا جائے اور پھر مکمل طور پر سودی سسٹم کو خیرباد کہہ دیا جائے لیکن یہ آرزو اب تک تشنہ ہی رہی۔
تقریبا 1975 کی بات ہے دبئی میں دبئی اسلامی بینک کے نام سے فل فلیج اسلامی بینک کی شروعات ہوئی، لیکن اس بینک کے ابھی بال وپر بھی نہیں آئے تھے کہ خزاں رسیدہ ہوگیا اور بینک بند ہونے کے کگار پہ آگیا۔ لیکن کچھ سالوں بعد حالات معمول پر آئے اور بینک نے از سر نو اپنا ڈھانچہ تبدیل کیا اور اکیسویں صدی کے شروع میں اس بینک میں کافی برگ و بار آیا یہاں تک کہ اب پورے خلیج میں اسلامک بینکنگ کا اپنا وجود ہے اور اسلامی ملکوں میں درجنوں نہیں سینکڑوں بینک پورے شد و مد سے غیر سودی مالیاتی نظام کو سہارا دے رہے ہیں۔
ان بینکوں کی اصلیت بھی جاننا ضروری ہے۔ بہت گہرائی سے نہ سہی لیکن کچھ بدیہی امور کا جاننا ضروری ہے۔ مشاہدے کی بات بتاتا ہوں تاکہ کوئی یہ الزام نہ لگا سکے کہ سنی سنائی باتیں ہیں ایسی باتوں کا کیا اعتبار!!
موجودہ اسلامی بینکوں میں اعلی عہدوں پر فائز اکثریت ان لوگوں کی ہے جو مسلم نہیں ہیں اور اگر مسلم ہیں بھی تو ان کو شرعی علوم کا علم ہی نہیں ہے، بھلا بتائیں ایک شخص جس کا تعلق شرعی علوم سے ناواقفیت کا ہے وہ اسلامی مالیاتی نظام پر غور و خوض کیونکر کر سکتا ہے۔ دوسری چیز جو اس سے بھی اہم ہے وہ یہ کہ ان اسلامی بینکوں نے مروجہ سودی بینکوں کا پورا سسٹم اپنایا ہے صرف کچھ مصطلحات اور ٹرمینلوجی اسلامی فقہی کتابوں کی مدد سے بدل ڈالی ہیں۔ ان بینکوں کے پروڈکٹس بعینہ وہی ہیں، ان بینکوں کی شرح منافع وہی ہے حتی کہ کارگزاری بھی وہی ہے۔ بینک کے ذریعے کار لیں، مکان لیں، کاروبار کریں یا اور کوئی قرضہ لیں قسط وہی جو عام بینکوں کی ہوا کرتی ہے منافع کی شرح وہی جو عام بینکوں میں سود کی شرح ہوتی ہے۔ غرضیکہ بینکوں کا ماحول بھی وہی ہے اور وہاں پہ کام کرنے والوں کی آمدنی بھی وہی ہے، ذرائع بھی وہی ہیں اور طریقہ کار بھی وہی ہے۔ کچھ بدلا ہے تو صرف نام۔
یہ سن کر کہ سب کچھ ویسا ہی ہے ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے تو پھر آخر بدلا کیا؟
اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ کام نہیں بدلا صرف نام بدلا ہے؛ سود یعنی انٹرسٹ کا نام منافع یا مرابحہ یعنی پرافٹ رکھ دیا اور اس ایک لفظ نے اسلام کا ایسا لبادہ اوڑھا کہ بس دیکھتے دیکھتے دنیا ہی بدل گئی۔ اکیسویں صدی کے پہلے دہے میں ان اسلامی بینکوں کی اٹھان ساتویں آسمان پر تھی۔ تنہا متحدہ عرب امارات میں درجن بھر بینک وجود میں آگئے۔ چلو نام ہی سہی صحیح سمت میں پیش رفت تو ہوئی۔
منزل ملے نہ ملے مجھے اس کا غم نہیں
منزل کی جستجو میں میرا کارواں تو ہے
یہ بینک اگر نام کے اسلامی ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ آج انھوں نے روایتی بینکوں سے انحراف کیا ہے، ان کے بہت سارے اصولوں کا پائمال کیا ہے۔ آنے والے کل میں پورا کا پورا سسٹم بھی بدلا جا سکتا ہے۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے اور صحیح سمت کی طرف اشارہ بھی ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔
اسلامی ممالک بالخصوص سعودی جیسے ملک جہاں اسلامی شریعت کا نفاذ ببانگ دہل کیا جاتا ہے وہاں سودی بینکوں کو کالعدم قرار دینے میں کیا چیز مانع ہے؟ وہاں کے سرکاری مالیاتی ادارے اسلامی بینکوں سے لین دین میں آنا کانی کیوں کرتے ہیں؟ ان ملکوں کا سرکاری کھاتہ سودی بینکوں کے حوالے کیوں؟ آخر کیوں؟؟ خلیج کے تمام مسلم ممالک دیگر اسلامی ریاستوں کے ساتھ اگر چاہیں تو دنیا کو ایک متبادل اسلامی نظام سے روشناس کرسکتے ہیں لیکن ان کے سامنے کیا مجبوری درپیش ہے میری سمجھ سے پرے ہے۔
اب آئیے بات کرتے ہیں اپنے وطن عزیز بھارت کی۔ یہاں پچھلے کچھ سالوں میں حکومت نے افراد اور تاجروں سبھوں کو جبرا بینک سے جوڑنے کی پر زور مہم چھیڑ رکھی ہے۔ فی الحال کاروبار تو دور کی بات ہے عام آدمی بھی بینکنگ معاملات کو اپنا جزو زندگی بنائے بغیر نہیں جی سکتا۔ ایسے میں سود سے بچنا امر محال دکھائی دیتا ہے پھر بھی لوگ اگر بچ رہے ہیں تو وقتی طور پر تو ہم انھیں برگزیدہ سمجھ کر نیکوکاروں کے زمرے میں شمار کرلیں گے لیکن آنے والی نسلوں کا وہی حال ہوگا جو ماضی کی سچر کمیٹی نے بتایا ہے اور مستقبل میں کوئی اور کمیٹی اسی طرح کی روداد پیش کرے گی۔ نتیجے کے طور پر جس طرح ہم آج مسلمانوں کی تعلیمی بے مائیگی، اقتصادی زبوں حالی اور سماجی پسماندگی کا رونا رو رہے ہیں اسی طرح ہماری آئندہ قوم آنے والے دنوں میں ہم پر اور خود پر روئے گی۔
اسلامی ممالک میں سودی کاروبار کرنا سراسر جرم ہے لیکن بھارت جیسے ملک میں جہاں مسلمان اپنا اسلامی مالیاتی نظام لاگو نہیں کرسکتا بلکہ دوسرے نظام کے ما تحت ہے وہاں کا مسئلہ غور طلب ہے۔ اب تک اس موضوع پہ خاطر خواہ ریسرچ بھی نہیں کیا گیا ہے چہ جائیکہ فیصلہ لیا جائے۔
موجودہ تناظر میں اگر دیکھیں تو بر صغیر سے باہر کے علماء حالات کو سمجھنے میں بہت حد تک زیرک ثابت ہوئے ہیں اس کے برعکس برصغیر کے علماء مسائل کو حالات کے تناظر میں غور کرکے حل تلاش کرنے سے اجتناب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کا حلقہ وسیع ہونے کے بجائے بہت محدود ہوتا ہے اور وہ مختلف نوعیت کے حالات سے دوچار لوگوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے اپنے ہی محدود مشاہدے پر بسا اوقات غلط فیصلہ بھی صادر کر دیتے ہیں۔
ڈیڑھ دو سال قبل یوروپ کے علماء کونسل European council for fatwa and research
(ECFR) کا فتوی ہے جس میں حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اگر موجودہ حالات میں مسلمانوں کو بینک سے ہوم لون سے منع کیا گیا تو وہ ایک گھر سے بھی محروم رہیں گے جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے!! اس کے علاوہ اسی فتوے میں یہ بات بھی تھی کہ وہاں کے علماء اپنی حکومتوں سے مسلمانوں کے تئیں بینکوں کے قوانین میں رعایتیں بھی مانگ رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اپنے حقوق بھی ملتے رہیں اور وہ اپنی شریعت پر عمل پیرا بھی رہیں۔
اسلامی مالیاتی نظام کا مغرب کے ساتھ ساتھ ایشیائی ممالک بھی نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ تیزی سے اپنا بھی رہے ہیں کیونکہ اس کے فوائد صرف اسلامی ملکوں تک محدود نہیں رہے۔ ملیشیا میں اسلامی بینکنگ نظام کو فروغ پاتا دیکھ کر تھائی لینڈ، سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسے ممالک کے علاوہ یوروپ کے کئی ممالک تیزی سے اسلامی فائنانس مارکیٹ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ کچھ سالوں پہلے امریکہ اور دبئی وغیرہ میں سودی بینکوں کے دیوالیہ نے اس نظام کی حقیقت کو آشکارا کیا تھا اور یہی مناسب موقعہ تھا اگر اسلامی ملکوں نے اسلامک فائنانس کے اصولوں کو آگے بڑھایا ہوتا تو آج فضا مختلف ہوتی۔ اس کے باوجود اسلامک بینکنگ کا رجحان کافی بڑھا ہے اور لوگوں کو اس میں عافیت کے آثار دکھائی دیے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء جن کا اثر و رسوخ آج بھی مسلم سماج پر اسی طرح سایہ فگن ہے جیسے پہلے تھا، یہ امت کے نت نئے مسائل کا بغور جائزہ لیتے ہیں، مالیاتی نظام میں بھی دلچسپی دکھائیں، انھیں چاہیے کہ معیاری تعلیم یافتہ افراد سے وسیع پیمانے پر ریسرچ کراتے رہیں اور اضطرار کی کیفیت کو کما حقہ سمجھنے کے بعد حکمت کی راہ اپناتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کے لیے مسائل کا حل تلاش کریں۔
Ground reality
Excellent.
Kuch baat, kuch discussion to ho is topic par,
موجودہ مرابحہ اور سودی نظام میں یہ فرق ہے کہ سودی نظام میں پیمنٹ لیٹ ہونے پر سود بڑھتا جاتا ہے
جبکہ مرابحہ میں قرض دہندہ کا منافع بڑھتا نہیں بلکہ متعین ہوتا ہے بھلے ہی مقروض سے قرض کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے
تصویر کی مثال مضمون نگار نے بہت اچھی پیش کی ہے ایک وقت تھا جب اکثریت تصویر کو حرام کہتی تھیں لیکن آج ہر کوئی تصویر کو (کم از کم) عملی طور پر جائز ماننے لگ گیا ہے۔ ایسا ہی ایک نیا مسئلہ غیرمحرم کے بغیر ایک عورت کا سفر ہے۔ سعودی کے شیخ ابن جبرین کا یہ فتوی دیکھیں: https://islamqa.info/en/answers/122630/travelling-without-a-mahram-in-case-of-necessity Shaykh Ibn Jibreen (may Allah preserve him) was asked: What is the ruling on a woman travelling on her own by plane for a reason, with her mahram taking her to the airport and another mahram meeting her at… Read more »
یہ فتوی شیخ ابن جبرین کا ہے
لیکن سوال کے اردو ترجمے میں اردو ترجمہ نگار نے شیخ ابن جبرین کے نام کی جگہ شیخ ابن عثیمین لکھ دیا ہے جو کہ غلط ہے
👍👍👍
ایک انتہائی اہم موضوع پر عمدہ تحریر ہے۔۔۔ اس معاملہ میں مسلم سماج ہی خطاوار ہے۔ ہمارے علماء یعنی ہمارے صرف پھینکنے پھانکنے والے رہنما خاص طور پر خطاوار ہیں۔ ہم بطور سماج، حکومت سے براہ راست ٹکراؤ کا راستہ اپنائے بغیر اپنا متوازی معاشی نظام نافذ کرنے کے بارے میں ضروری فکر و عمل سے گریزاں ہیں۔ اس کی وجہ ہے ہمارے دینی رہنماؤں کی معاشی جہالت، جذباتی امور سے حد درجہ لگاؤ، گراس روٹ لیول پر ٹھوس کام کرنے کی عدم صلاحیت و تجربہ اور دین کو فقط عبادات تک محدود کردینے کی سہل پسندانہ سوچ۔۔۔ وگرنہ، ہندوستانی… Read more »
بہت اہم مسئلہ ہے، اس پر غور وفکر نہ صرف ضروری ہے بلکہ ایسے علماء جو تجارتی مسائل پر پکڑ رکھتے ہیں ان کی مدد سے اس فکر کو آگے بڑھایا جانا چاہئے۔
مسجدوں میں لاؤڈ-اسپیکر کا استعمال بھی پہلے حرام تھا.. اب تو ضرورت سے زیادہ وولیوم بڑھا کر استعمال کیا جاتا ہے
دریائے جمود میں دعوت فکر کا یہ پتھر شاید کچھ اثر دکھائے
ریاض الدین مبارک صاحب نے بڑے اہم اور حساس موضوع کی طرف توجہ دلائی ہے۔ہمارے یہاں جو مسلمان معاشیات میں مہارت رکھتے ہیں چوں کہ وہ اسلام کے مزاج اور اس کے بعض اصولوں سے واقف نہیں ہوتے ، اس لیے ان کے افکار وخیالات اہل اسلام کے یہاں قابل قبول نہیں ہوتے۔اس کے برعکس ہمارے جو علمائے کرام افتاء کی مسندوں پر بیٹھے ہیں،وہ جدید دور کی مشکلات اور اس کے تقاضوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے ۔قدیم وجدید کا یہ فاصلہ کم ہو تو کچھ بات بن سکتی ہے۔مشہور ماہر معاشیات پروفیسر نجات اللہ صدیقی صاحب سے… Read more »