دبئی: “بخیلوں کا مسکن”

ریاض الدین مبارک سماجیات

بُخل ایک مذموم صفت ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن یہ ایک بیماری بھی ہے جسے کم لوگ جانتے ہیں۔ اس کرۂ ارض پہ موجود اللہ کی مخلوقات میں بخیل ایک ایسی مخلوق ہے جس کی کل کائنات اس کی دولت ہوتی ہے۔ وہ ایک روپیہ بچانے کے لئے پورا ایک دن اور اپنے جسم کا ایک کلو خون بہا دینا معمولی سمجھتا ہے کیونکہ محبت اسے صرف اپنے مال سے ہوتی ہے۔ کبھی کبھی سو روپیہ بچانے کی خاطر بخیل آدمی پانچ سو روپیے فراخدلی سے گنوا دیتا ہے اور اس پر بھی خوشی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ہفت اقلیم کی دولت اس کی جھولی میں آن گری۔ ہر جگہ بیاں کرتا پھرتا ہے کہ وہ سو روپیہ اس نے جانے نہیں دیا، ہاں کچھ وقت ضرور لگا مگر اسے حاصل کرکے ہی دم لیا۔
اسی ضمن میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے سنتے جائیں۔ دبئی میں قیام کے دوران ایک عراقی تاجر سے میری شناسائی ہوئی اور رفتہ رفتہ دوستی ہوگئی۔ وہ تاجر کافی ملنسار اور اچھا آدمی تھا۔ ان کا آفس میرے دفتر سے بہت قریب تھا اس لئے اکثر ان کے ساتھ خوش گپیاں ہوتی رہتی تھیں۔ نام مخفی رکھوں گا کیونکہ قصہ نام بتانے کی اجازت نہیں دے رہا۔ وہ جناب دریائے دجلہ پر واقع موصل شہر کے رہنے والے تھے جو عراق کا دوسرا بڑا شہر ہونے کے علاوہ نینوی صوبے کا مرکز بھی ہے اور ترکی وسیریا (شام) کی سرحدوں سے کافی قریب ہے۔ یہ شہر عراق کا تجارتی مرکز ہے اسی لئے یہاں بیشتر لوگ تاجر پیشہ ہونے کی وجہ سے کافی متمول ہیں لیکن ان میں بہت سے بخیل بھی ہیں اور بخل میں حد درجہ شہرت بھی رکھتے ہیں۔ میرے ممدوح خوش خلق اور نفیس طبیعت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ دل دردمند بھی رکھتے تھے جس کا اظہار ان کی معیت میں بارہا ہوتا رہتا تھا۔ واقعہ یوں ہوا کہ وہ ایک دفعہ سیریا کے راستے موصل جارہے تھے اس لئے انہوں نے دبئی سے حلب (Aleppo) کا ریٹرن ایکسکرزن ٹکٹ خریدا جو اسپیشل آفر اور محدود پیریڈ کا ہونے کے ناطے کافی سستا تھا۔ خیر وہ حلب پہونچے پھر وہاں سے بائی روڈ موصل روانہ ہوگئے۔ کچھ دن قیام کے بعد واپسی میں کسی وجہ سے بغداد کے راستے دوسری فلائٹ سے وہ دبئی آ گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد انہیں دوبارہ سفر درپیش ہوا اب وہ حلب سے دبئی کا بچا ہوا سیگمینٹ استعمال کرنے کی فراق میں بے تاب ہوگئے۔ مجھ سے کہنے لگے عزیزم کچھ کرو کہ یہ بچا ہوا ٹکٹ کام آجائے۔ مصیبت یہ تھی کہ وہ ٹکٹ نان ریفنڈیبل (non refundable واپس نہ ہونے والا) تھا اور دبئی ٹو حلب ون وے ٹکٹ مہنگا تھا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ پرانا بچا ہوا ٹکٹ پھینک کر ایک نیا ایکسکرزن ٹکٹ خرید لیں۔ وہ راضی نہیں ہوئے اور ایک نیا ون وے ٹکٹ خرید لیا۔ حضرت سفر پر روانہ ہوگئے مگر واپسی میں کچھ تاخیر ہوگئی اور پرانے ٹکٹ کی ویلیڈیٹی (صلاحیت) ایکسپائر ہوگئی۔ اب وہ ٹکٹ کسی قابل نہیں رہا، بہت پریشان ہوئے مجھے فون کرتے رہے کہ کچھ تو کرو لیکن سب کچھ کرنے کے بعد حاصل وہی ڈھاک کے تین پات۔ بہت افسردوہ ہوئے اور چارہ وناچار دوسرا ٹکٹ خرید کر واپس لوٹے۔
اس خسارے کا قلق رہ رہ کر انہیں ستاتا رہا کہ انہیں ایک اور ٹرپ پہ جانا پڑا۔ اس بار دبئی سے دمشق کا ٹکٹ حلب کی بہ نسبت سستا تھا انہوں نے دمشق کا ٹکٹ لے لیا اور وہاں سے حلب بائی روڈ جانے کا من بنا لیا۔ حالانکہ دمشق سے حلب جانے کا وقت اور اس کا خرچہ اگر ٹکٹ کے ساتھ جوڑدیا جائے تو وہ کافی مہنگا ہورہا تھا لیکن انہیں یہ ٹکٹ سستا نظر آ رہا تھا اس لئے وہ خوش تھے۔ جناب نے زاد راہ لی اور دمشق کے لئے عازم سفر ہوگئے۔ دمشق سے حلب کا سفر روڈ سے کیا اور واپسی بھی اسی طرح انجام پذیر ہوئی۔ ایک روز ہم دونوں الطبیخ العراقی ریستوران میں لنچ کر رہے تھے کہ انہوں نے سینہ چوڑا کرکے اس ٹکٹ کا ذکر جمال کیا۔ کہنے لگے پیسے یونہی نہیں گنوانا چاہئیے۔ وہ ایسے خوش ہو رہے تھے گویا انہوں نے بہت بڑا تیر مار لیا ہو جبکہ انہوں نے سستے ٹکٹ کے چکر میں کم از کم دو ڈھائی سو درہم کا نقصان اٹھایا تھا!

ایک دوسری صفت جو بخل اور کنجوسی کے شانہ بہ شانہ حضرت انسان کے آس پاس گردش میں رہتی ہے وہ “تنگ دلی” ہے۔ مطلب کنجوس اور تنگ دل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول بخل سے پناہ مانگا کرتے تھے! اب آپ غور کریں کہ بخیل اس قدر ضرر رساں ہے کہ انبیاء تک اس سے گھبرا کر پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ میرا مفت کا مشورہ ہے آپ بھی ایسا ہی کریں!

آئیے بخیلوں کے تعلق سے عہد قدیم وجدید کے اکابرین کی آراء پر بھی ایک سرسری نظر ڈالتے چلیں کہ آخر یہ بخیل ان بڑے عقول کی سوچ میں کس بلا کا نام ہے؟
چنانچہ امام ابو حامد محمد غزالی فرماتے ہیں: جو شخص ضرورت کے وقت خرچ کرنے سے کترائے وہ بخیل ہے۔ اب وہ ضرورت شرعی ہو یا حالات کی پروردہ کسی کی حاجت یا مروت ہو۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص تحفہ اور ہدیہ دینے میں انا کانی کرے تو وہ بھی بخیل ہی سمجھا جائے گا۔
ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے:
بخیل اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے ذمہ واجب خرچے ادا نہ کرے، اس لئے جو شخص اپنے ذمہ تمام واجب خرچے ادا کر دے تو اسے بخیل نہیں کہا جائے گا۔ بخیل وہی کہلائے گا جو لازمی اور ضروری خرچے ادا نہ کرے۔
امام قرطبی نے بھی کچھ اسی طرح کی بات لکھی ہے۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی امام غزالی کے موقف کی تائید کی ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
بخل یہ ہے کہ جو چیز خرچ کرنا آپ پر واجب ہو  اسے خرچ نہ کریں، یا جسے خرچ کرنا مناسب ہو اسے بھی خرچ نہ کریں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو شخص اپنی ذات، بیوی اور بچوں پر اپنی حیثیت کے مطابق کما حقہ خرچ نہیں کرتا وہ بخیل ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ بخیل وہی ہے۔۔۔
مٹھی جو اپنی بند کبھی کھولتا نہ ہو۔

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں جو شخص زکوۃ نہ ادا کرے وہ بخیل ہے لیکن یہ شریعت کا مسئلہ ہے اسے اللہ میاں کے حوالے چھوڑتے ہیں، ہم اس میں اپنی ٹانگ کیوں اڑائیں!

دبئی کے عود میثاء علاقے میں واقع انڈین ہائی اسکول میں شیخ راشد آڈیٹوریم ہے وہاں ہر سال ہندو پاک مشاعرہ ہوتا ہے۔ تاریخ یاد نہیں لیکن اسی آڈیٹوریم میں ایک عظیم الشان ہندو پاک مشاعرہ ہوا، میں بھی وہاں موجود تھا۔ بد قسمتی کہہ لیں میں ان دنوں ایک آدھ مصرعہ ضرور گڑھ لیتا تھا تاہم مکمل شعر نہیں کہہ پاتا تھا یا کوشش ہی نہیں کرتا تھا، اسی لئے مجھے وہاں اسٹیج پر جگہ نہیں ملی۔ خیر وہاں اسٹیج پر قد آور شاعر نواز دیوبندی جلوہ افروز تھے، ان کا دور آیا وہ مائک پکڑ کر گویا ہوئے: دبئی والو یہ شعر برداشت کرلینا اور مجھے معاف بھی کردینا:
وہ شہر فقیروں کا تھا جب بھیک لٹی تھی
یہ شہر امیروں کا ہے کاسہ نہ چلا جائے
پورا اسٹیڈیم داد و تحسین کے نعروں سے گونج اٹھا، ہر طرف واہ واہ کی صدا بلند ہورہی تھی حالانکہ اس شعر میں اہل دبئی کا ذم شامل تھا کہ یہاں لوگ امیر ضرور ہیں لیکن فراخ دل نہیں۔

بات ہو بخیلوں کی اور جاحظ کا تذکرہ نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے! عصر عباسی کے اس مایہ ناز عراقی ادیب جاحظ نے اس موضوع پر کتاب “البخلاء” کے نام سے نہایت جامع ومفصل کتاب لکھی ہے۔ ابو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب الکنانی البصری (776 – 868) کی یہ کتاب بخیلوں کے حکایات کی انسائیکلوپیڈیا کہی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا کی مختلف زبانوں میں منتقل کی گئی اور اس کا غلغلہ اتنا زور دار رہا کہ اس موضوع پر ان زبان والوں کو الگ سے کوئی دوسری کتاب لکھنے کی حاجت ہی نہیں رہی۔

جاحظ اور ان کی کتاب کا نام یہاں بر سبیل تذکرہ آگیا ورنہ ہمارا موضوع تو دبئی ہے۔ وہی دبئی جو ایک عرصے سے نوجوانوں کی امنگوں اور خوابوں کی تعبیر ڈھونڈھنے کا شہر بن چکا ہے۔ بر صغیر بطور خاص بھارت کے لوگ بڑی بڑی تمنائیں لے کر دبئی نازل ہوتے ہیں۔ جن میں کچھ تو کامیاب ہوجاتے ہیں مگر بہتوں کی دنیا جیسی کی ویسی ہی رہ جاتی ہے۔ یہاں پہونچ کر ہر بندہ شروع شروع میں پیسے خرچ کرنے سے دریغ کرتا ہے۔ کسی چیز کی قیمت ادا کرنے سے پہلے وہ درہم کو روپے میں کنورٹ کرکے اندازہ لگاتا ہے پھر اگر اسے لگتا ہے کہ مناسب ہے تو سامان لے لیتا ہے ورنہ وِنڈو شاپنگ کرتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ کچھ عرصے بعد جب وہ پرانا ہوجاتا ہے تو اسے سیوِنگ یعنی بچت کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ اب وہ پہلے سے کہیں زیادہ محتاط ہوکر خرچہ کرنے لگتا ہے۔ اس بچت کے چکر میں وہ شیرنگ والے سستے روم میں رہائش اختیار کرتا ہے اور کمتر درجے کے ہوٹلوں میں روٹی کھاتا ہے۔ پیسے بچانے کی فکر اس کی نفسیات کا جزو لا ینفک بن جاتی ہے۔ اب جہاں ہر دن وہ اپنے آپ پر پچاس درہم خرچ کرکے کسی حد تک سکون محسوس کرتا ہے وہاں خدا نخواستہ اگر کسی روز دوستوں کے ہتھے چڑھ گیا اور اسے روزآنہ کی بجٹ سے زیادہ خرچ کرنا پڑگیا تو وہ بغلیں جھانکنے لگتا ہے کہ کاش کوئی پہل کرکے بل کی قیمت چکا دے لیکن عموما ایسا ہوتا نہیں کیونکہ سب کی کہانی یکساں ہے اور سب کو ہی سیونگ کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔
دبئی میں ایکسپیٹریٹ کی ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ انہیں فون کال پر اچھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے بالخصوص ان لوگوں کو جن کی فیملی وطن میں ہے اور خود پردیس۔ اس سلسلے میں کچھ لوگوں کا رویہ نہایت عجیب وغریب دیکھا گیا۔ یہ لوگ فون نمبر ڈائل کرنے سے پہلے ضرورت کی ساری باتیں نوٹ کرلیتے اور فون لگا کر حرز ما تقدم کے طور پر فٹافٹ اسے سنا دیتے اس کے بعد دوسری باتوں کی طرف متوجہ ہوتے، مبادا فون چارج ختم اور ضرورت کی بات دھری رہ جائے!
مجھے یاد آ رہا ہے ایک بار غالبا 2006 میں ہندوستان سے علی اشرف فاطمی دبئی آئے ہوئے تھے جو اس وقت ہیومن ریسورس ڈیویلوپمنٹ کے وزیر برائے اسٹیٹ تھے، ان کے رشتہ دار شکیل احمد صاحب نے المُلّا پلازا میں ایک نشست رکھی جہاں میں بھی سامعین کی صفوں میں شریک بزم تھا۔ فاطمی صاحب نے اپنی غیر رسمی تقریر ختم کی اور سوال وجواب شروع ہوا۔ سامنے سے کسی نے بڑے طمطراق سے سوال اچھالا کہ سر ہمیں لوگ یہاں سے پیسے بھیجتے ہیں اور پھر ہمیں کو کال بھی کرنی پڑتی ہے! بھارت سے ہمارے اپنے لوگ ایک کال تک نہیں کرسکتے یہ کیا ہے؟ فاطمی صاحب کہنہ مشق سیاستدان ہیں انہوں نے بڑی متانت سے جوابا عرض کیا کہ صاحب آپ جو فون کرتے ہیں یہ آپ کی مجبوری ہوسکتی ہے، بھارت سے یہاں کوئی فون کیوں کرے گا جبکہ اسے وہاں سماجی رشتوں کی بہتات ہے وہ وہاں اپنے لوگوں میں مگن ہے اس کے پاس کسی اور کے لئے فرصت کہاں ہے۔ آپ فون اس لئے کرتے ہیں کہ آپ یہاں تنہا ہیں، آپ کو بوریت ہوتی ہے، اپنوں کا غم ستاتا ہے اور اسی غم کو غلط کرنے کے لیے آپ چند سکوں کا فون کرکے ان پر احسان جتانا چاہتے ہیں جبکہ یہ احسان آپ ان پر نہیں خود اپنے آپ پر کرتے ہیں۔ محفل سنجیدہ ہوگئی اور پھر کسی دوسرے سائل نے بات کا رخ پلٹ کر ماحول کو سازگار بنایا۔
یہ حقیقت ہے کہ وہاں لوگوں کے پاس پیسے ہیں لیکن انہیں خرچ کرنے کے لیے ان کے پاس دل نہیں ہے۔ ایک ایک پائی کا حساب کرتے کرتے خود کو تباہ جو کرتے ہیں سو کرتے ہی ہیں دوسرے رشتوں میں بھی رخنہ اندازی کا سبب بن جاتے ہیں۔ پھر آخر میں جب پلٹ کر وطن آتے ہیں تو یہاں ان کی کوئی قدر بھی نہیں ہوتی، ان کی ناگفتہ بہ حالت پر ترس آتا ہے۔ وہ بیچارے آگ کی بھٹی میں تپ کر کندن نہیں بن پاتے، راکھ کا ڈھیر ہوجاتے ہیں!

اب دوبارہ متانت کو بالائے طاق رکھ کر موضوع بخیل کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہیں۔ دبئی میں بخیلوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو لنچ میں 20 سے 30 درہم بآسانی خرچ کرنے پر قادر ہے لیکن بیچارے ہفتوں تک ایک کپ چائے اور ایک پراٹھا پر گزارا کرنے کے لئے جبراً خود کو آمادہ کرلیتے ہیں اور اسی طرح مہینوں بد مست رہتے ہیں۔ 50 فلس کی چائے اور 50 فلس کا پراٹھا کل ملا کر ایک درہم میں کام جو بن جاتا ہے۔ ماہ رمضان کی برکت کا تذکرہ کوئی ان سے پوچھے! ان بخیلوں کے لئے مکمل عیش کا مہینہ ہوتا ہے، پورا مہینہ مفت کی بریانی اور ھریس کے مزے اڑائے جاتے ہیں۔
دبئی کے یہ لوگ فراز احمد فراز کا یہ شعر:
ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں
قدرے تغیر کے ساتھ یوں گنگناتے ہیں:
ہم بھی کیا سادہ ہیں ہم نے تو سمجھ رکھا ہے
غم جاناں سے جدا ہے غم دوراں جاناں

دبئی کی سرزمین پہ باہر سے آنے والا ہر محنت کش نوجوان گلستاں چہرے کے ساتھ تنومند وارد ہوتا ہے اور کچھ ہی سالوں میں چھوہارے کی مانند سوکھ جاتا ہے۔ دوسروں کی کیا بات کریں ہم خود انہیں میں سے تھے، ہمارے احمریں جسموں کی آنچ سے پیرہن سلگتے تھے۔ دس بارہ گھنٹے کام کرنے کے باوجود تھکان نہ محسوس کرنا معمولی بات تھی۔ لیکن دم واپسیں اپنے ہی سایے سے خوف آنے لگتا ہے۔ ہوش آتے آتے اوراق پریشاں کی مانند سبھی خواب ریزہ ریزہ ہوچکے ہوتے ہیں! لیکن بقول فیض:
یہ ساغر شیشے لعل و گہر
سالم ہوں تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں تو فقط
چبھتے ہیں لہو رلواتے ہیں
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Shaukat Parvez

عمدہ تحریر ریاض الدین بھائی !

گرچہ Google Duo، imo وغیرہ آنے سے فون کا اب ویسا مسئلہ نہیں رہ گیا جو پچھلی دہائی میں تھا۔
مگر پھر بھی۔۔۔

تحریر کی کسی نہ کسی سطر میں ہر غریب الوطن خود کو دیکھ رہا ہوگا۔۔۔

ساحر کے کچھ اشعار یاد آ رہے ہیں:

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں
بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

عائشہ سہیل احمد

گر چہ آپ کی بات میں ایکسپیٹریٹ کی حقیقت بیانی ہے مگر مضمون کی ہیڈنگ سے مجھے لگا آپ دبی کے باشندوں کے بارے میں بات کرنے جا رہے ہیں۔ چونکہ میری پیدائش و رہائش دبی میں رہی، یہاں کے اصل باشندوں میں میں نے جو فراخ دلی دیکھی شاید ہی کسی اور قوم میں دیکھی۔ اکثر جو بچپن سے یہی پلے بڑھے ہوتے ہیں ، بیچ طبقے کے ہوتے ہوئے بھی ان کے اندر یہ فراخدلی غیر محسوس طریقے سے سما جاتی ہے اور اپنے ملک کے امیر ترین لوگ بھی ان کی فراخدلی کو پار نہیں کرسکتے اور… Read more »

عبدالمتين

ما شاء الله بہت خوب رياض بھائی. یہ دبئی کے مکینوں کی نہیں بلکہ خليجى ممالك میں رہنے والے تمام پردیسیوں اور زياده درست تعبير میں ملک و بيرون ملك دنيا بھر میں تلاش معاش میں سرگرداں تمام پردیسیوں کی ہے جو سراپا إيثار وقربانى ہیں. ان كى مثال اس شمع جیسی ہے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی پہنچاتی ہے. إيثار وقربانى سے شروع ہونے والا یہ سفر بخل میں کب بدل جاتا ہے انسان کو احساس ہی نہیں ہو پاتا. یہ پردیسی جتنا حاصل کرتے ہیں اس سے زیادہ گنوا بیٹھتے ہیں. پانی کی اميد میں سراب… Read more »