چارہ گر اب خود ہی بے چارے نظر آنے لگے

ریاض الدین مبارک

جن ملکوں کو ہم دنیا کا مسیحا سمجھتے تھے وہ اچانک بہت کمزور اور کھوکھلے نظر آئے۔

ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ امریکا جیسے ملک کا انفراسٹرکچر اسقدر کمزور ہوگا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں انہیں فیس ماسک تک میسر نہ ہوگا۔ ہمیں یہ بھی امید نہ تھی کہ ایک دن ایسا بھی آئیگا جب اسرائیل جیسا ملک اپنے ائیرپورٹز پر مسافروں کا درجۂ حرارت چیک کرنے کے لئے کسی عرب ملک کی مشینوں کا محتاج ہوگا۔ ہمیں یقین ہی نہیں آ رہا کہ سوئیٹزرلینڈ کی جنت میں صحتمندوں کا تناسب اتنا کم ہوگا۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جرمنی کے کچھ صوبوں میں طبی وسائل کی یک بیک اتنی قلت ہوجائے گی کہ اگر حالات کچھ مزید بگڑے تو انہیں ہوٹلوں کو اسپتال کے طور پر استعمال کرنا پڑ جائے گا۔
ہم یہ کیسے مان لیں کہ بریطانیا جو ڈیموکریسی کا گہوارہ ہے، وہاں کی حکومت اتنی ناکارہ ثابت ہوگی کہ ان کا وزیر اپنی سادہ لوحی سے وائرس کے ویکسین کا اس وقت تک انتظار کرے گا جب تک اس کے اپنے ہی ہزاروں لوگ اس سانحے کا لقمۂ تر بن چکے ہوں گے! کیا ہمیں اس بات کی امید تھی کہ اٹلی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اتنا کمزور ہوچکا ہوگا کہ حرز ما تقدم کے طور پر وہ کوئی بھی ایکشن لینے کے قابل ہی نہ رہے گا؛ نہ مناسب علاج اور نہ ہی وائرس کو کنٹرول کرنے کی طاقت!
اسپین کے اسپورٹس کلب نے ہمیں بارہا چونکایا ہے اور وہاں کے بارڈر سیکیورٹی فورسز نے خفیہ مہاجروں کو مرعوب بھی کیا ہے مگر افسوس کہ وہاں بھی کوئی کارآمد ہیلتھ سسٹم نہیں نظر آیا، کوئی احتیاطی تدابیر نہیں۔ یہی حال فرانس کا ہے جو مہینوں تک صرف اس بات کا انتظار کرتا رہا کہ اس کا صدر الرٹ ہونے کا اعلان کرے۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ فرانسیسیوں کی سرزمین میں داخل ہونے کے لئے کورونا وائرس کو ویزے کی ضرورت پڑے گی! کینیڈا جو مہاجروں کا ڈریم لینڈ ہے اسکا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ چاہتا تو باہر سے آنے والوں کو بارڈر پر ہی روک کر قرنطینہ میں بھیج دیتا لیکن اس نے انہیں کھلی چھوٹ دے دی جو بعد میں مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ثابت ہوا۔

چین کی کیا بات کریں! یہ وہی چین ہے جس کے بارے میں عالمی قیادت کی پیشین گوئی ہوتی رہی ہے، جو آج اعلان کرتا پھر رہا ہے کہ اس نے اس وائرس پر غلبہ حاصل کرلیا ہے، اس عظیم چین تک کے بس میں نہ ہوسکا کہ اس انفیسٹیشن کو اسی جگہ محصور کردیتا جہاں وہ چمگادڑ کھانے کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔ آخر ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ انسان کو چمگادڑ کھانا پڑا؟ وہ بھوک تھی یا پاگل پن؟
خیر سے اگر ہم چینی صدر کا یہ نظریہ مان بھی لیں کہ یہ وائرس امریکی فوجیں لے کر آئی تھیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کی وہ تمام پلٹنیں اور بٹالین جو اپنے لوگوں کی سانسوں تک کا حساب رکھتی ہیں وہ کہاں کھو گئی تھیں؟ اس سے پہلے کہ ہزاروں چینی لوگ اس وائرس کا شکار ہوتے حکومت اس وائرس کو کنٹرول کرنے میں ناکام کیوں رہی؟ ان کی بیداری کہاں سو گئی تھی؟ ان کی ہمہ وقت مستعدی اور غیر معمولی تدبیریں کہاں چھپ گئی تھیں؟
چین کو چاہئیے کہ اس وباء کو کنٹرول کرنے کا پرچار بند کرے اور چونکہ اس وائرس کو اس کے پنپنے کی جگہ پہ ہی محصور کرکے پوری طرح اسکا کام تمام نہیں کیا اس لیے جھوٹا اور کھوکھلا پروپیگنڈا بند کرے! یہ حقیقت ہے کہ آج بھی ہزاروں لوگ اس دلدل میں دھنسے جا رہے ہیں اور دنیا بڑی بے صبری سے منتظر ہے کہ اس وائرس کا ویکسین بھی وہیں تیار ہو جہاں سے وہ شروع ہوا ہے۔ یہی چین ہے جو خلاؤں کو فتح کرنے میں پا بہ رکاب ہے۔
رہی بات اقوام متحدہ اور عالمی ادارۂ صحت کی تو ان دونوں کی سب سے بڑی ناکامی یہ ثابت ہوئی ہے کہ یہ عالمی برادری کو اس کورونا وائرس کے خطرے سے وقت پر متنبہ نہ کرسکے اور نہ ہی انہوں نے چین کی اس وقت کوئی امداد کی جب وہ اس آفت سے تنہا جوجھ رہا تھا۔ پوری دنیا رقص وسرود میں مگن اور جا بجا فوجی ٹھکانوں پہ بر سر پیکار تھی!

ادھر ایران سمجھتا رہا کہ اس کے انقلابی اساطیر ومہدویت کے افسانے اس کورونا وائرس کو اپنے طلسم سے بھسم کردیں گے۔ ایرانی اس کا انکار کرتے رہے یہانتک کہ وائرس آیات عظمی کے خواب گاہوں میں گھس کر کہرام مچانے لگا۔ ایرانی مرشدوں نے اسے نظرانداز کیا، وہ مزاروں اور درگاہوں کی دہلیزوں کو چاٹتے رہے اور دوسروں پہ بد دعائیں کرتے رہے کہ اس وباء نے انہیں ہر سمت سے آن گھیرا۔ ایران اور دوسری جگہوں کے دینداروں نے خودکشی کے ذریعے اس وائرس کو مزید ہوا دی گویا وہ کسی ایسے دشمن کا مقابلہ کر رہے ہوں جو ان کے سامنے مجسم دکھائی دے رہا ہے۔

ہندوستان کی کیا بات کریں! ہندوستانیوں کی تو عادت ہی ہے ہر چیز کو دیر تک پرکھنے کی اور فیصلہ بالکل آخر میں لینے کی۔ سو اس وباء کو بھی یہاں اس وقت تک سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جب تک یہاں ایک اچھی تعداد اس سے متاثر نہ ہوگئی! طبی سہولت خاطر خواہ نہ ہونے کے علاوہ اس کورونا وائرس کی وباء سے لڑنے کے لئے یہاں دشواریاں بے شمار تھیں لہذا حکومت کو خیال آیا کہ لاک ڈاؤن ہی اس کا واحد حل ہے اس لئے بنا کسی پلان اور منصوبے کے دفعۃ اس کا اعلان کر دیا گیا اور پھر نتیجے کے طور پر یہاں کے مزدوری پیشہ طبقے کو جو دقتیں اٹھانی پڑیں وہ نا قابل بیان ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں کسی کو مسیحا سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں! اس وباء نے اچھی طرح ثابت کر دیا ہے کہ تمام ممالک یکساں طور پر عاجز اور اپنے دعووں میں کھوٹے ہیں۔ ترقی یافتہ ہونا یا پچھڑاپن فقط تناسب کا مسئلہ ہے۔ اسی دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کا شمار بیک وارڈز میں ہوتا ہے انہوں نے سخت اور فیصلہ کن تدابیر اختیار کرکے اس وائرس کے انفیسٹیشن کو پھیلنے سے روکا جبکہ ان میں سے کچھ چین کے پڑوسی بھی ہیں۔
جن قوموں کو ہم اکثر ترقی یافتہ اور متمدن سمجھتے ہیں انہوں نے بھی تمدن کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اپنی جہالت اور لاپرواہی کی وجہ سے اس وائرس کو پھیلنے کا موقعہ دیا۔ وہ قومیں پہلے ہی مرحلے میں اتنی وحشت زدہ ہوگئیں کہ دوکانوں میں ٹشوپیپرز کے لئے لڑ بھڑیں۔
ہم اگر چاہیں تو بنا کسی سہارے کے ترقی حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے ہمیں سائنس اور سائنسدانوں پر توجہ صرف کرنی ہوگی، زراعت کو بہتر کرنا ہوگا، انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا، انسانی حقوق کی پاسداری اور ہیومن رسورسیز کو ڈیویلپ کرنا پڑے گا، حق کی وصولیابی اور مساوات کی یقین دہانی ضروری ہوگی، جمہوری قدروں کو مضبوط بنانا ہوگا، ذخیرہ اندوزی اور فساد کو اکھاڑ کر پھینکنا پڑے گا۔
اس بحران نے جہاں ہماری زندگی سے بہت ساری چیزوں کو سلب کرلیا ہے وہیں ہمیں یہ سبق بھی سکھایا ہے کہ ہم اپنے مطبخ کی طرف پلٹیں، اپنی روٹیاں اور کھانا خود پکائیں، اپنے برتن خود دھوئیں اور ہزاروں اقسام کے فاسٹ فوڈز کی لعنت سے بچیں۔ اپنی کتابوں کی طرف لوٹیں اور اپنے ثقافتی پروگراموں کا احیاء کریں۔ واہیات چیزوں میں ملوث ہونے، کافی شاپ اور چائے خانوں میں گھنٹوں بیٹھ کر ایک دوسرے کی ٹوہ میں وقت کا زیاں کرنے کے بجائے وقت کا صحیح استعمال کریں اور سماج کو نئی چیزوں سے روشناس کرائیں۔ اسی طرح ملکوں کو بھی اپنے رسورسیز کو بروئے کار لا کر خود اعتمادی پیدا کرنی چاہئیے، کسی دوسرے ملک پر منحصر ہونے یا اس کے تابع ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلے کا معاملہ کرنا چاہئیے۔
بہر کیف کورونا وائرس کی یلغار نے ثابت کردیا کہ اس گلوب کے عظیم ممالک کتنے کمزور اور ان کی ڈینگیں کتنی کھوکھلی ہیں اور پچھڑے ممالک کتنے لاچار اور تہی داماں ہیں!! یہ شعر کتنا سچا ہے کہ
علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا

آپ کے تبصرے

3000