کورونا وائرس کا معمہ !

ریاض الدین مبارک معاشیات

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کوئی بھی کام سر انجام دینے کے لیے نو ماہ کی مدت کم نہیں ہوتی۔ اتنے عرصے میں تو ایک جنین ماں کی کوکھ میں تمام مرحلوں سے گزر کر دنیا میں آ بھی جاتا ہے اور اپنی آنکھیں کھول کر لیل ونہار کا تماشہ دیکھنے لگتا ہے۔ تاہم وبائی مرض کورونا ایک ایسا معمہ ہے جو کسی سے حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ سب کچھ دیکھنے سننے کے بعد بھی لوگوں نے اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں اور کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ یہاں لوگ بصارتوں سے بہرہ مند تو ہیں لیکن بصیرتوں سے یکسر محروم لگتے ہیں۔ ان دنوں کورونا کی رفتار اتنی تیز ہوچکی ہے کہ آج پوری دنیا نے مل کر اسے روکنے کی غیر معمولی کوشش کی مگر اس کا کوئی سرا کسی کے ہاتھ نہیں آیا۔ اس کی ایک لہر آئی اور سارے عالم کو جمود وتعطل میں ڈال کر ابھی واپسی کا قصد کر ہی رہی تھی کہ اچانک اسے انسانوں کے نقل وحرکت کی کچھ بھنک لگی اور وہ پلٹ کر پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ آ دھمکی۔ انسان مرتا کیا نہ کرتا وہی نقل وحرکت کو دوبارہ موقوف کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ حالانکہ وبا کے پھیلاؤ پر اس لاکڈاؤن اور کرفیو والے اقدامات سے پہلے بھی کوئی اثر نہیں پڑا تھا تو اب کیا ہوتا۔
کورونا کو ہینڈل کرنے کے پورے پروسیس میں دو باتیں زیادہ تکلیف دہ نظر آئیں:
نمبر 1- لاتعداد لوگ اپنے روزگار سے محروم کردیے گئے اور دو وقت کی روٹی کے لیے دوسروں کے محتاج بنا دیے گئے۔ شروع میں حکومتی، تنظیمی اور شخصی ہر سطح پر لوگوں نے ان بے کسوں کو سہارا دیا اور حالات کو ٹریک پر برقرار رکھنے کی جی توڑ کوششیں کی گئیں لیکن
جلائی تھی جو ہم نے شمع رستے میں جلی کب تک؟
لاکڈاؤن کی مدت بڑھتی گئی اور روزگار ختم ہونے سے بے اطمینانی و بے چینی فزوں تر ہونے لگی۔ حکومتوں، تنظیموں اور اہل خیر حضرات نے رفتہ رفتہ اپنا دست تعاون کھینچنا شروع کردیا اور امداد پہنچانے کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔ پھر کیا تھا تہِ گرداب میں ڈوبنے والوں کی نگاہوں سے ساحل کی روشنی اوجھل ہونے لگی؛ کچھ نے خودکشی کی آرزو کی اور کچھ نے تا دمِ واپسیں صبر کا دامن تھام لیا۔ تاہم حکومت نے ان کی بلکتی زندگیوں کا اگر فی الفور علاج نہ کیا تو یہ سب راہئ ملک عدم ہوجائیں گے۔ آخر یہ صبر وشکیب ان کے درد کی مسیحائی کب تک کریں گے؟
نمبر 2- اسکولوں اور کالجوں کو غیر معینہ مدت تک بند رکھ کر بچوں کو تعلیم سے محروم کرکے ان کے ذہن کو زنگ آلود کردیا گیا۔ بچوں کی نشوونما اور تعلیم وتربیت کے بارے میں پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا:
‏The children of today will make the India of tomorrow. The way we bring them up will determine the future of the country.
یعنی آج کے بچے آنے والے بھارت کے معمار ہوں گے۔ ان کی تعلیم وتربیت ہی ملک کے مستقبل کا صحیح تعین کرے گی۔
پچھلے نو مہینوں سے ارباب حل وعقد نے تمام درسگاہوں کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ کہیں کہیں کچھ مراحل کے طلبہ کے لیے اسکول کھولنے کا اشارہ بھی ہوتا ہے تو کھلنے سے پیشتر پابندی کی مدت میں توسیع کردی جاتی ہے۔ اس پورے وقفے میں طلبہ کا جو نقصان ہوا اور حالات کے پیش نظر آئندہ جو ہونے والا ہے اس کی بھرپائی امر محال ہے۔ ناقص پلاننگ اور ناعاقبت اندیشی کی بنیاد پر اپنائے گئے احتیاطی تدابیر حکومت کی کوتاہ نظری کی روشن دلیل ہے۔ اس طرح صرف بچوں کی تعلیم پر ضرب نہیں پڑ رہی ہے بلکہ ملک کا مستقبل خوفناک حد تک تاریک ہوتا جارہا ہے کیونکہ یہی بچے ہی ملک کا مستقبل ہیں۔

ایک موہوم غیر مرئی وائرس کی دہشت اس قدر حاوی ہے کہ کائنات کی ہر شیئ کو تسخیر کرنے والا انسان عاجز وبے بس نظر آرہا ہے۔ وہ اندیشہ ہائے موت سے نمٹنے کے لیے تمام احمقانہ تدابیر اختیار کرنے پر کمر کس چکا ہے۔ موت ایک حقیقت ہے اور اس کا ایک وقت بھی معین ہے۔ انسان لاکھ جتن کرلے موت اسے آکر ہی رہے گی۔آسمانی صحیفوں میں بھی مذکور ہے کہ موت برحق ہے اور ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے لیکن کب اور کیسے یہ کسی کو نہیں پتہ۔ لہذا موت کا جب کوئی علاج نہیں تو موت کے ڈر سے بلا وجہ کسی سراب کے پیچھے بھاگنا خودفریبی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟
اس کورونا کے دور میں ایک دلچسپ چیز یہ بھی نظر آئی کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک بھارت میں بھی حکمراں طبقے کا ہر کاروبار رواں دواں ہے۔ یہاں حسب معمول سیاسی سرگرمیاں جوبن پر ہیں۔ حکومت کی کارستانیوں پر انگشت نمائی کرنے والوں کی گرفتاریاں، انتخابات کی ریلیاں، ووٹنگ اور پھر حکومت سازیاں، ایم پی اور ایم ایل اے کی خریداریاں اور پھر عیاشیاں سب زوروں پر ہیں۔
تجارتی مراکز بند ہیں، جو کھلی ہیں وہ بھی برائے نام، ہر طرف کاروبار ٹھپ ہے اور روز بروز ایکونومی کا گراف گرتا جا رہا ہے لیکن وہیں دوسری طرف معاشی بحران کے باوجود دنیا کی دوسرے شیئر بازار کی طرح ہندوستان کی اسٹاک مارکیٹ نہ صرف مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے بلکہ ہمارا کلیدی انڈیکس BSE SENSEX کوہ ہمالیہ کی طرح چڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب معیشت کی شرح نمو گر رہی ہے تو شیئر بازار کیسے بوم کر رہا ہے؟
کورونا ایک مہلک بیماری ہوسکتی ہے مجھے اس سے انکار نہیں لیکن اس سے نبرد آزما ہونے کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا وہ ایک واہمہ اور غیر حکیمانہ ہے۔ کسی انسان کا رزق چھین لینا یا اس کا سبب بن جانا اور بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا پھر اس کے برعکس سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے دل کو شدید دھچکا لگتا ہے اور یوں اس وبا کی سنگینی تسلیم کرنے کو جی نہیں چاہتا لیکن اس طرح کی تلخ حقیقتیں ہماری خواہشات کی پابند نہیں ہوتیں۔
آج کل کورونا ویکسین کی آمد کا بھی خوب چرچہ ہو رہا ہے۔ یہ ویکسین جرمن کمپنی بائیون ٹیک BioNTech اور امریکی کمپنی فائزر Pfizer کے اشتراک سے تیار کی گئی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا ترک نژاد جرمن سائنٹسٹ ڈاکٹر یوغور شاہین اور ان کی شریک حیات ڈاکٹر اوزلم طریجی کے سر جاتا ہے جنھوں نے انسانی جسم میں قوت مدافعت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ ڈاکٹر شاہین اس بائیون ٹیک کمپنی کے چیف ایکزیکیوٹیو یعنی سربراہ ہیں۔ اب تک یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ یہ ویکسین 90 فیصد ہی موثر ہوگی لیکن سرمایہ کاروں کی کمپنیوں میں اس کے ٹریڈ پر ہوڑ لگ گئی ہے اور ویکسین کی ڈیمانڈ شروع ہوچکی ہے۔ پہلے مرحلے میں اس سال کے اواخر تک 50 ملین ویکسین خوراک dose تیار ہوگی اور 2021 تک سوا بلین کے قریب پروڈکشن کیا جائے گا۔ ظاہر ہے پہلے ترقی یافتہ ممالک ہی اس سے مستفید ہو پائیں گے جن کا ابھی سے دو بلین خوراک Doses کا آرڈر ٹیبل پر موجود ہے۔ پھر اگر ممکن ہوا تو تیسری دنیا کو کچھ میسر آسکتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق امریکہ، جرمنی، فرانس، برطانیہ، جاپان اور کچھ دوسرے یوروپین ممالک جو آئے دن اپنی انسانیت نوازی کا دم بھرتے رہتے ہیں انھوں نے ہندوستان اور ساؤتھ افریقہ کے اس مطالبے کو سختی سے ٹھکرادیا ہے جس میں انھوں نے اس دریافت کی کاپی رائٹ کو ہٹانے کی درخواست کی تھی۔
آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ پچھلے آٹھ نو ماہ قبل تک جس کمپنی کے چیف ایکزیکٹیو ڈاکٹر شاہین اور ان کی بیوی ڈاکٹر طریجی کو کوئی امیروں کی لسٹ میں جوڑتا بھی نہ تھا اب ان کا شمار جرمنی کے 100 ارب پتیوں میں ہو رہا ہے اور امریکی انڈیکس نسدق NASDAQ میں اس کمپنی کا شیئر 390% بڑھ چکا ہے۔ جب سے ویکسین کی خبر آئی ہے شیئر مارکیٹ میں تمام گفتگو کا محور یہی کمپنی بن کر رہ گئی ہے۔ نسدق انڈیکس کے مطابق ڈاکٹر شاہین کی کمپنی بائیون ٹیک کی قیمت 21 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے جو ابھی صرف ایک ہفتہ پہلے 4.6 ارب ڈالر تھی؎
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

آپ کے تبصرے

3000