یہ راشد ہی تھے جو کسی کو ڈھونڈتے ہوئے مجھ تک پہنچے تھے۔ اڑتی اڑتی چند باتیں جو میں کہیں سے سیکھ آیا تھا ایک خاص طور کے دینی حلقے میں انڈیلتا رہتا۔ مولویت کے بطن سے کیا نکلے اگر وعظ نہ نکلے! میری بچکانہ چہ معنی دارد پہ مبنی کہانیاں، لفظ، معانی اور مفاہیم میں الجھے لتھڑ پتھڑ پن نہ کسی کا من موہ سکتے تھے اور نہ کسی کی عقل کو دیوانہ بنانے کی جرات کرتے۔ راشد غالباً اس لیے مجھ سے ملے تھے گویا جاننا چاہتے ہوں صاحب طرہ امتیاز چیز کیا ہیں۔ کیوں میں ان کی مجلسوں میں تلخی تھوک آتا ہوں۔ کیوں میں ان کی مجلس میں بھڑکتے شعلے پہ ٹھنڈے پانی کی کُلّیاں کر آتا ہوں۔ کیوں میں ان کی مجلسوں پہ ڈکیتی ڈال دیتا ہوں۔ کیوں میں ان کی مجلسوں میں زخموں کو زخموں سے بھرنے کی بات کرتا ہوں۔ کیوں میں ان کی مجلسوں میں فرض یاری نبھانے چلا جاتا ہوں۔ نئے لوگوں سے ملنے کا تجسس بھی عجیب ہوتا ہے مگر کیا ہو جب آپ کسی سے ملیں اور اس طرح ملیں جیسے ماضی میں کوئی بات کہتے کہتے الگ ہوگئے تھے اور پھر ملاقات ہوئی لہذا بات وہیں سے نکلی جہاں سے ختم ہوئی تھی؛ میرے لیے راشد سے پہلی ملاقات اسی طور کی تھی۔
ہم تو کوئی چیز نہیں تھے لہذا صفر کے مدور قید خانے میں مقید تھے۔ ہاں راشد صاحب کو اس صفر سے اس قدر شغف ہوا گویا جنگل کو جوگی مل گیا۔ راشد صاحب علم کے جنگل تو تھے ہی مگر اس جنگل میں آگ لگا دی گئی تھی—— جنگل سے ابلتی روشنی علم کی تھی یا آگ کی کسی کو نہیں معلوم۔
اب سنیے راشد جو مجھ سے ملا تھا وہ کیسا تھا۔ راشد کا ’تھے‘ سے ’تھا‘ ہو جانے پہ تعجب نہ کیجیے گا ہاں ہلکے سا مسکرا سکتے ہیں کہ تعلق ذرا گہرا تو ہوا۔ پہلی ملاقات میں میرے لیے وہ وجہ عزت بنا تھا۔ اس سے میری ملاقاتیں جوں جوں بڑھتی گئیں عزت تو کجا ہاں ذلت گاہیں دریافت کرلی گئیں۔ ان ذلت گاہوں سے اگے ہوئے لوگ مجھے میری وفاؤں کی سزا دینے کے لیے دوہرے ہوئے جاتے تھے یعنی اس شخص کے سامنے جہنم لائی جانی تھی جس نے کم عمری میں ہی کالا پانی کی سزا کاٹ لی تھی۔ اس کو عذاب زیست سے ڈرانا تھا جس نے لمحوں کا ایک تودہ دوزخی تجربات کے سپرد کیا تھا۔اسے فتنہ نامی پھلجھڑی سے جوڑ دینے کی دھمکیاں دی جانی تھیں جس نے حوروں کے غرور کو چور کیا تھا۔ شریفانہ ضد کی پاداش میں زلیخا نے میری انگلیاں کاٹی تھیں۔ خوش بختی کہیے یا بدبختی کے فال سے خوش بختی کا انتظام کہ اب میں صاحب ایمان، مردم شناس، مضبوط، چاروں طرف دیکھ سکنے والا خوبرو جوان، خون کا رنگ خون سے مٹا دینے والا بہادر، ہاتھ کی لکیروں کو دعاؤں کی تعبیروں سے بدل دینے والا ولی صفت، آنکھوں ميں غیرت، باتوں میں ہمت اور ارادوں میں بے خوفی لیے ایسے شخص کی چادر پہ بیٹھتا جو خلوص، محبت، ہمدردی، یارشناسی کے قرینہ سے بُنی گئی تھی۔ راشد ان لوگوں میں سے تھا جو بے ہوشی میں بھی ہوش کی باتیں کرتے ہیں۔
آپ سوچتے ہوں گے میں نے خود کی یا اس کی تعریفیں کچھ زیادہ ہی کردیں تو ایسی بات نہیں۔ بس یہ جان لیں میرا راشد کی محفلوں ميں جلتی قندیلوں کو بجھا دینا، بجھی شمعوں کو روشن کردینا یا اندھیرے میں شکار مار گرانے کے دعوے کرنا سچے دل سے کی گئی بدمعاشیاں ضرور تھیں مگر ان کرتوتوں کے ساتھ ہی اس بات کا خاص طور سے خیال رکھا گیا تھا کہ کسی ذی روح کے دل کو دھچکا نہ لگے۔ اس خیال کا خیال رکھنے کے ساتھ مجھے روح کی بھی تلاش تھی جو راشد کی ذات میں وافر مقدار میں پائی جاتی تھی۔ مجھے راشد سے ایک دمڑی کا مطلب نہیں تھا مگر میرے لیے جو تھا وہ راشد کی روح تھی۔ اب صاحب، ایک لاغر، نحیف، جذبات سے بھرپور، جس کی آنکھیں خوابوں سے بوجھل، باتیں مصلحت سے خالی اور وحشیوں جیسے ارادے والے سے کوئی کیا امید کرے، وہ جسموں کی کھائیوں میں روح کی تلاش میں کیوں نکل پڑتا تھا؟ وہ زرداروں کے استفسار کے مطابق دمڑی کیوں نہیں بٹورتا تھا؟ وہ کجکلاہوں کی سمجھ کے مطابق خود کو کیا سمجھتا تھا؟ اس کے کیسہ میں نہ سکّے کھنکتے اور نہ لہجے میں نخوت پھٹکتی۔ پھر یہ یونیورسٹی-زدہ مدرسے کا تعلیم یافتہ راشد کو ہی اپنا معلم کیوں گنتا تھا؟ اسے کون مومن سمجھے جو ملحدانہ باتوں پہ کان دھرے؟ اسے کون موحد سمجھے جو شیو کی اساطیری کہانیوں کو سنے؟ اسے کون نبی کا متبع مانے جو مزاروں کے چکر لگائے؟ یہ شخص عجیب شخص تھا جو فرنگیوں کی حمایت کرتا، عورتوں کے اجلال میں اٹھ کھڑا ہوتا، انھیں بد دماغ نہیں بلکہ خوش دماغ سمجھتا؟ اس کی پرورش کس نے کی جو یہ شخص یہودیوں سے محبت کرتا اور عیسائیوں کی خداشناسی کی بات کرتا؟ یہ کیسا شخص تھا جو دینداروں کے درمیان رہتا مگر بد دینوں کو بھی اپنا سمجھتا؟ یہ کون تھا جو آلات حرب کے بجائے آلات موسیقی پہ فخر کرتا؟ یہ کون تھا جو تصوف کے سمندر میں عرفان کے موتی تلاشنے کے بجائے عرفانیت کے سراب سے خدا ڈھونڈ نکالتا تھا؟ یہ عجیب شخص دینی جھگڑوں میں نہیں پڑتا، دنیاوی لپھڑوں کو خاطر میں نہیں لاتا یہ دراصل کون تھا؟ یہ کون تھا جس کی لفظیت میں بُثینہ مچلتی؟ یہ کون تھا جس کی باتوں میں چھپی بذلہ سنجی کو سمجھ لیلی ایڑیاں رگڑتی؟ یہ کون تھا جس کی تعبیریں شیریں کے لیے سامانِ عیشِ مدحت تھا؟ یہ وہ سوالات تھے جو ایک تکلف سے پیدا کیے گئے دینی ذہن پر ان لمحوں میں کوند جاتے جب میری زبان سے الفاظ گرتے، ان سے معانی امڈتے___تو بد مزاجوں کی باتوں میں بھی خوش گمانیوں کی لہریں بپھر جاتیں۔ راشد نہ میرا شکار تھا اور نہ میں راشد کا۔ بات صرف اتنی تھی کہ راشد کی روح ان منطقی زاویوں کو سمجھنے کی دعویدار ہو گئی تھی جنھیں میں خود سمجھنے سے قاصر تھا۔ یہ روح میرے اندر تھی۔ راشد وہ موحد تھا جو ’نقطہ لا‘ میں مضمر ’لاادریت‘ کے مفہوم سے واقف ہو چکا تھا۔ راشد میرے نہ ہونے پہ ایمان لا چکا تھا۔
راشد کا اعتراف:
راشد نے اعتراف کرلیا تھا کہ بے ڈھنگی، بے ربط سطروں کو پڑھنے کا ہنر اس نے امیر نقد سے سیکھا ہے، تو فرسودہ خطوط کو بغور دیکھنے کا ملکہ کسی ذہین مگر ضائع مرشد کی رہنمائی سے حاصل کی گئی کمائی ہے۔ میری اصطلاح میں ضائع ہر وہ شخص ہے جس نے کاغذ و قلم کا کاروبار سنبھالا، رطب و یابس کا بخار ناپنا شروع کیا اور قیل و قال کے بازار میں آگ لگا دی۔ میری اصطلاح میں ضائع ہر وہ شخص ہے جس نے کاروبار حیات کے بجائے عہد برباد کی طرف توجہ کی۔ راشد عابدوں کی جماعت سے بھی تعلق استوار رکھتا جو شاید اب خود بھی زلیخاؤں کی کمر تک پھیلی زلفوں کے اسیر ہو چکے تھے۔ راشد ان نیک طینت بے ضرر لوگوں میں سے تھا جو بد نیت اور ضرر رساں لوگوں کو ایک نظر میں بھانپ جاتے۔ اسے ولی اللہی ورثے میں ملی تھی مگر کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خوش گمان اس کے پاس دم کروانے شراب کے پیالے لائیں گے۔ لوگ اس کے پاس جُنوں میں مبتلا کر دینے والی شراب لاتے اور ڈھیروں دعائیں لے کر جاتے۔
راشد نے بارہا کہا کہ وہ برباد ہو چکا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کے کتفین پہ نہ مہریں لگی ہیں اور اس کی زبان پہ نہ تو خاص طور کی سینگیں نکل رہی ہیں۔ راشد نے کہا وہ برباد اس لیے بھی ہو چکا ہے کہ خاندانی شرافت، علم اور بُردباری کی وراثت لیے گھومتا ہے مگر انھیں بیچ نہیں سکتا۔ راشد نے کہا کہ وہ تباہ حال ہے اس لیے کہ وہ اپنے اسلاف کو بَھار (بدلے) میں نہیں دے سکتا۔ راشد نے کہا وہ اپنے لوگوں کو غول مزاج والے درآمد دینیت کے سپرد نہیں کر سکتا۔ راشد نے کہا کہ اس کی نسلیں، اس کے معاصرین زمین سے اُگے ہیں اور وہ اپنی زمین موقعہ پرست بگولوں کے سپرد کیوں کرے گا۔ راشد نے کہا کہ وہ دوزخ پی سکتا ہے مگر بھولے بھالے انسانوں کو تقوی نامی دکھاوے بازی کا دہکتا ہوا طوق نہیں پہنا سکتا۔ راشد نے کہا کہ وہ پہروں کمرے میں بند ہوکر اپنی تمناؤں کا خون پیتا ہے۔ اسے دنیا سے رغبت نہیں، نہ ہی وہ دنیا بازی کے گُر سے واقف ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ کوئی زاغ اسے آکر جُل دے دے۔ راشد نے کہا وہ شاید ایک ذی علم، باعمل، بے لوث، پرخلوص، وفا شعار، منکسر المزاج آدمی تو ہے مگر ایک انتہائی ضدی، انا پسند، خود سے لڑنے والا، خود کلامی کا عادی اور اپنے درد کو گرم پانی کے ساتھ گھونٹ جانے والا خوش باش بھی ہے۔ راشد نے کہا کہ وہ اپنے اچھے ہونے کا اجر لوگوں سے طلب نہیں کرتا اور نہ ہی یہ امید رکھتا ہے کہ لوگ اسے علامہ اور شیخ اکبر کے لقب سے نوازیں۔ اس نے اپنی رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ وہ ‘خود ساختہ’ دین نامی اضطراب کے انبوہ میں ایک تنہا شخص ہے جس کی محبوبہ بھی تنہائی ہے۔
راشد کون ہے؟
صاف ستھرے مزاج اور کردار کا شخص، راشد ایک عالم دین ہے۔ راشد علم حدیث، علم التفسیر، اصول حدیث، اصول ترجمہ، فلسفہء نقد ِ ذات اور اسلامی عربی ادب کا واقف کار بھی ہے جس کا علمی استحضار اسے ہند و پاک کے ابھرتے ہوئے علماء میں شمار کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ راشد اپنے اس ہنر جس میں وہ یکتائے روزگار ہے کو ظاہر کرنے میں کسی سے شرماتا نہیں یعنی اسے اپنے علم پہ مباہات کرنے کے بجائے اعتماد ہے۔ زہد و ورع کی چھاؤں نے اسے نفاق اور اظہار سے بچایا ہے تو اس کے علمی َنظَر نے اس کے لہجے میں ایک طور کی بےمروتی کو بھی پیدا کیا ہے۔ راشد موجودہ علماء کرام سے تعلیم و تعلم کا رشتہ رکھتا ہے تو گذشتہ علماء کی لکھی ہوئی باتیں اس کے خوابوں میں رنگ بھی بھرتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ اتنا رنگ باز بھی نہیں کہ چَونّی کی سیکھ پہ شائیں شائیں کرتا پھرے۔ راشد کے اعصاب پہ صرف ایک چیز سوار ہے وہ اس کے خود کے یقین کا بخار ہے۔
راشد اور اس کے ”ہونے“ کا خواب:
عجب بات ہے کہ راشد مخملی شخصیت کاحامل ہے مگر انتہائی کھردرا مشہور۔ عجب بات ہے کہ راشد حقیقت پسندانہ مزاج رکھنے کے باوجود انتہائی متخیلانہ دلچسپیوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عجب بات ہے کہ راشد خواب دیکھنے کا قائل ہی نہیں مگر اس کے لفظ لفظ خواب سے لگتے ہیں۔ راشد سے میرا رشتہ درد کا تھا مگر ہم دونوں کے درد الگ الگ طور کے تھے۔ میرے پاس جو تھا وہ اس کے پاس نہیں تھا اور جو اس کے پاس تھا اس سے میں تقریبا محروم تھا۔ راشد ہجر کی نعمت سے کوئی آشنائی نہیں رکھتا تھا اور میں وصل کی ذلت سے گھبرایا ہوا ایک آوارہ گرد تھا۔ راشد آوارگی کی طرف مائل ہو رہا تھا اور میرے ”ہونے“ پہ آوارگی کی گرد اٹی پڑی تھی۔ راشد کے ”ہونے“ نے مجھے نہ ہو نے کا اعتماد مہیا کرایا تھا اور میرے نہ ہونے نے راشد کو ہونے کی وجہ فراہم کی تھی۔ راشد مہجور نہیں تھا لہذا ہار جانے کا قوی امکان رکھتا تھا مجھے وصل کی ذلت قبول نہیں تھی لہذا چٹان جیسے دل میں میری سانسیں آتی جاتی تھیں۔ راشد کو ذات کی تکمیل کا احتیاج میری جانب ڈھکیل کر لایا تھا اور میرے ہاتھ میں بن مانگے ایک اڑتے پرندے کا پَر آیا تھا۔ راشد پہ ہجر کی نعمت نازل ہونے کو نہیں ہو رہی تھی اور میں وصل کا عذاب جھیلنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ راشد ”ہونے“ کے لیے اس قدر باولا ہوا جاتا تھا کہ یومیہ دس خواب بے قدری کے سپرد کردیتا۔ میں نہ ہونے کے لیے در در خوشیوں کی کمائی لٹاتا پھرتا۔ راشد ’ہونے‘ کا خواب برابر دیکھے جاتا جس میں ذرے سے لے کر بوڑھوں کے مقولے، دادیوں کی یاد داشتیں، بچوں کی کلکاریاں، علم کی چادریں، عمل کے نیزے، محبت کا خنجر، وفاداری کی ڈھال، خلوص کی سرائے سب بڑے قرینے سے سامنے آتے چلے جاتے۔ راشد کے ’ہونے‘ کا خواب اہم تھا کہ اس سے جڑی ساری کہانیاں ان لوگوں کے ہی نام تھیں جو اس کے کسی طور سے نہیں تھے۔ راشد کے ’ہونے‘ کا خواب اہم تھا کہ وہ ہم سے اور آپ سے جڑا تھا۔
راشد میرے لیے:
راشد میرے لیے بوڑھا ترین شخص تھا۔ راشد میرے لیے ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے قوم کے بلعام بن باعوروں سے واقف کراتا۔ جس طرح میں مرکز کا آدمی ہونے کے باوجود حاشیے کا شخص تھا راشد مرکز میں حاشیائی تشخص لیے پھرتا تھا۔ راشد میرے لیے اس لیے اہم تھا کہ اب وہ کسی ”شئی کی اصل“ اور اس کی صفت سے ملحق نہیں تھا بلکہ راشد اب قوم کا ہوچکا تھا۔ راشد سقراط نہیں تھا مگر اب وہ سقراط کا پیالہ پی چکا تھا۔ راشد کسی کی ملکیت نہیں بلکہ اب وہ علم و ہنر کی مملکت پہ چمکتا خوبصورتی کا ایک اور وجہ تمثیل بن چکا تھا۔
اب راشد بھائی اس کا عربی ترجمہ کریں گے اس کے بعد ان شاء اللہ یہ مضمون مکمل سمجھنے میں آسانی ہوگی
کون تھا جو تصوف کے سمندر میں عرفان کے موتی تلاشنے کے بجائے عرفانیت کے سراب سے خدا ڈھونڈ نکالتا تھا_
واہ
بہت خوبصورت سعد صاحب۔ مجھے آپ سے ملنا ہے!!!براہ کرم اس بار صحیح پتہ بتائیے گا۔