مسجد تو اللہ کا گھر ہے، اس میں صرف اسی کی عبادت کی جاتی ہے، لیکن امتیاز اور فرق کرنے کے لیے مسجد کے عرفی نام بھی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر مسجدیں اولیا، صلحا، بادشاہ یا مسجد تعمیر کرنے والوں کی طرف منسوب ہوتی ہیں، ہم اپنے بنارس کی چند مساجد کا نام بتاتے ہیں: علو کی مسجد، یہ شاید علاء الدین کا مخفف ہے، طیب شاہ کی مسجد، کمال شاہ کی مسجد (کھجور والی مسجد)، بابا فرید کی مسجد، حافظ لنگڑے کی مسجد، منشی کی مسجد، بڑی مسجد، بڑھیا دائی کی مسجد، لکڑ شاہ کی مسجد، لاٹ بھیروں کی مسجد، بی بی راجا کی مسجد۔ کبھی محلے کے نام سے مسجد کی شناخت ہوتی ہے جیسے چوک کی مسجد، رانگے تعزیہ کی مسجد، گیان واپی کی مسجد جسے پہلے بشیشر کی مسجد بھی کہا جاتا تھا۔ ایک مسجد کا نام ہے اللہ میاں کی مسجد۔
زیر تحریر مسجد ایک عام سی اور قدیم مسجد ہے لیکن اس کے پس منظر میں جو دلدوز واقعہ بیان کیا جاتا ہے، اس نے مسجد کو اہم بنا دیا، اس کے نام سے آپ ضرور چونک جائیں گے اس مسجد کا نام ہے “عاشق معشوق“ کی مسجد۔اسٹیشن سے رتھ یاترا کی طرف آتے ہوئے سگرا پہنچیں گے تو بائیں طرف ایک سڑک گئی ہے جسے سونیا روڈ کہتے ہیں۔ یہ سڑک اورنگ آباد، پرانا پان دریبہ سے سیدھے نئی سڑک سے مل جاتی ہے، اورنگ آباد سے پہلے ہی لب سڑک یہ مسجد دور ہی سے نظر آتی ہے۔ مسجد کے گیٹ پر بجلی کے تاروں کا جال سا بنا ہوا ہے، مسجد کے صحن میں دو قبریں ہیں، جس کے اوپر ایک سنگین چھت ہے جو چار ستونوں کے سہارے قائم ہے، اسے عاشق معشوق کا مقبرہ اور یوسف شاہ کا مزار کہتے ہیں۔ بنارس میں مزاروں کی کمی نہیں ہے، مزاروں میں مدفون باباؤں کی اپنی خصوصیات اور امتیازات ہیں۔ خوش عقیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ بنارس میں زلزلہ تباہی نہیں مچا سکتا ہے کیوں کہ بنارس کے چاروں گوشوں میں چار بابا اپنی قبروں سے ہی بنارس کی حفاظت کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہندو کہتے ہیں کاشی شیو جی کی پسندیدہ دھرتی ہے، مجال ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر یہاں پرندہ پر مارے۔ ایک بابا کا نام پھنسوّا شاہ ہے، چھوٹی سا خستہ مزار ہے جس پر ہندو مسلم دونوں کا دعوی ہے، ان کا کام بڑا رومانٹیک ہے، معشوقہ اگر عاشق کو لفٹ نہ دے تو ان سے رجوع کرتے ہی کام بن جاتا ہے۔
عاشق معشوق کی مسجد کے پاس سے سینکڑوں بار گزرا، ان کے ناکام عشق کی الم انگیز، درد خیز داستان بھی بارہا سنی تھی، کہانی میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے، یہ پتہ نہیں، لیکن ہندوستان کی مٹی کو جہاں کہیں سونگھو، عشق کی خوشبو ضرور مشام جاں کو معطر کرے گی۔ نہ جانے کتنی محبتیں سسک سسک کر دم توڑ گئیں، ان کی کہانیاں چہار دیواریوں میں دفن ہوگئیں، مگرخوش قسمت تھے وہ عشق گزیدگان جن کی داستانوں کو سرایندگان نے شہرت دوام عطا کردی۔ پنجاب اور سندھ کی سرزمین عشق کی داستانوں سے شاداب ہیں، ہیر رانجھا کے عشق کو وارث شاہ نے زندہ جاوید کیا، مرزا صاحبان کی داستان محبت کو پیلو نے موتیوں میں پرودیا، آج بھی وہاں کی زنان سنتی ہیں تو صاحبان کی معصومیت اور بھول پن پر بے اختیار رو پڑتی ہیں کہ اس نے بھائی پر بھروسہ کرلیا، عاشق کو قربان کردیا اور اپنی جان بھی گنوائی۔ سندھ میں نوری تماچی کے عشق کی دھیمی دھیمی آنچ آج بھی محسوس ہوتی ہے، بلوچستان میں سسی اور پنہون کی رومان پرور کہانی ابھی لوگ بھولے نہیں ہیں، فارسی زبان نے ہندوستان کی خواب ناک سرزمین پر اپنے پاؤں پسارے تو ایران کی داستانوی روایت اور ہندوستانی ثقافت کے امتزاج سے منظوم داستان گوئی کی ایک نئی صورت جلوہ گر ہوئی۔ امیر خسرو نے شیریں و خسرو، مجنوں و لیلی، ہشت بہشت کے پہلو بہ پہلو “دول رانی اور خضر خاں کی کہانی رقم کی، امیر حسن سنجری ( م ۷۳۸ھ) نے داستان عشق دختر و پری میں ہندی تہذیب کی خود سوزی کو موضوع بنایا۔ چنانچہ زیبا و نگار، نل و دمن، کامروپ و کام لتا، سوہنی و مہیوال کی کہانی بنام ارزنگ عشق، شاہد و عزیز بنام نیرنگ عشق، مدھو بالا و منوہر، ہنس و جواہر، رانی پدماوتی و علاء الدین، سلیم و انار کلی، زیب النسا و عاقل، باجی راؤ مستانی جیسی ہزاروں عشقیہ کہانیاں ہیں جن کو ہندوستانی تہذیب نے اپنے کلیجے سے لگا کر رکھا ہے۔ آج بھی داستان گو ان کہانیوں کو سناتا ہے تو دل میں ہوک سی اٹھنے لگتی ہے اور آنکھوں سے جھڑیاں لگ جاتی ہیں۔
یہ عشق بڑا ظالم ہوتا ہے، گھروں اور خاندانوں کو تباہ کردیتا ہے، ملکوں اور قوموں کو نیست و نابود کردیتا ہے۔ مرزا شوق لکھنؤی سچ کہہ گئے:
عشق سے کون ہے بشر خالی کردیے جس نے گھر کے گھر خالی
منہ سے کرنے نہ دی فغاں اس نے مارے چن چن کے نوجواں اس نے
آپ کو بنارس کے عاشق معشوق کے ناکام عشق کی حقیقی کہانی سناتا ہوں۔ یہ کہانی زمانی اعتبار سے بہت مختصر ہے، جیسے کوئی جواں سال دوشیزہ دو دن کی بیماری میں چٹ پٹ ختم ہوجائے۔ کہانی میں ایک حیران کن موڑ آتاہے، سانحہ کی پرتیں کھلتی ہیں اور ایک لہر آتی ہے، سب کچھ بہالے جاتی ہے، پھر ایک المیہ جنم لیتا ہے، جسے تین صدیاں گزرنے کے بعد بھی لوگوں نے یاد رکھا۔ کہانی کے جذباتی تصادم کا حسن اس قدر برق آسا ہے کہ اس کے ارتعاشات دیر تک جسم میں جھنجھناہٹ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ مکمل کہانی سب سے پہلے بنارس کے معروف عالم اور جامع مسجد ( گیان واپی کی مسجد) کے امام مفتی عبد السلام نعمانی (متوفی 1987) نے تاریخ آثار بنارس میں بیان کیا، قصے کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے:
عہد عالمگیری میں بنارس میں ایک شخص عبد الصمد نام کا رہتا تھا، اس کا تعلق بنارس کے ایک عالی خاندان سے تھا، اس کا ایک نوجوان بیٹا یوسف تھا، جو رعنائی اور حسن و جمال کا پیکر تھا، بے فکرا اور سیر و سیاحت کا شوقین تھا۔ اتفاق سے عبد الصمد کو کسی ضرورت سے ایران جانا پڑا، بیٹے کو گھر میں چھوڑ کر وہ سفر پر نکل گیا۔
بنارس میں ساون کے مہینے میں میلہ لگتا ہے، جسے ساونی میلہ کہتے ہیں، یہ میلہ آج بھی لگتا ہے، اور مسلسل ایک ماہ چلتا ہے۔ مندروں میں ہندو پوجا کرتے ہیں، ہر سوموار کو گنگا میں بڑا اشنان ہوتا ہے، ہجوم کی وجہ سے چند سڑکوں کو چھوڑ کر پورے بنارس میں ٹریفک بند کردی جاتی ہے، اس دن اسکول، کالجوں اور مدارس میں تعطیل کردی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک بار محلہ سالار پورہ میں ساونی میلہ لگا (یہ محلہ بنارس کے شمالی حصے میں ہے اور یہاں سید سالار مسعود غازی کی ایک فرضی قبر بھی ہے) یوسف میاں کی بھی خواہش ہوئی کہ میلہ کی سیر کی جائے۔ واپسی میں ایک مکان کی کھڑکی پر ناگاہ نظر اٹھ گئی، ایک لڑکی کھڑی تھی، چاند سے مکھڑے کو دیکھا، وہیں لوٹ پوٹ ہوگئے، ناوک عشق کاری لگا، ہوش و حواس جاتے رہے، اتنے میں ہجوم کا ایک ریلا آیا، انھیں ہٹنا پڑا، دوبارہ کھڑکی کی طرف دیکھا، وہ بند ہوچکی تھی، مجبور ہوکر گھر واپس آئے۔ بے قراری نے خواب و خور حرام کردیا، کوچۂ جاناں کا طواف کرنے لگے، لڑکی کے والدین کو یوسف کے عشق کا پتہ چل گیا، عزت دار لوگ تھے، بیٹی کی بدنامی سے گھبرا گئے، غصے میں آکر یوسف کے قتل کا منصوبہ بنایا، لیکن پھر ارادہ ترک کردیا۔ یوسف میاں بھی کسی معمولی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے، مزید برآں اس کے نتائج بھی معاملے کو اور خراب کر دیتے، ان کی کوچہ گردی سے بچنے کے لیے لڑکی کو اس کی دایہ کے ساتھ گنگا کے دوسرے پار چپکے سے ایک عزیز کے گھر بھیج دیا گیا، یوسف کو سن گن لگ چکی تھی، لڑکی کشتی پر بیٹھنے ہی والی تھی کہ یہ پہنچ گئے اور کرایہ دے کر کشتی میں بیٹھ گئے۔ بیچ دریا میں کشتی پہنچی تو دایہ نے اپنا رنگ دکھایا، لڑکی کی جوتی چپکے سے دریا میں ڈال دی اور شور مچانے لگی کہ ہے ہے میری بچی کی جوتی دریا میں گرگئی کوئی اسے نکال لائے، یوسف میاں کو مخاطب کیا اور کہنے لگی: کیسے عاشق ہو کہ ایک جوتی نہیں نکال سکتے ہو، یوسف تیراکی نہیں جانتے تھے، لیکن محبوب کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے دریا میں کود گئے اور ایسے ڈوبے کہ دوبارہ کبھی نہیں ابھرے۔
عاشق کی یہ قربانی رنگ لائی، معشوق کا دل تڑپ اٹھا، لیکن تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد، معصوم سی لڑکی عجیب مخمصے میں پڑگئی۔ ایک طرف والدین کی محبت، جگ ہنسائی اور رسوائی کا خوف دوسری طرف یوسف کی محبت کا بے کراں سمندر فناء عشقی کی دعوت دے رہا تھا، کیا کرے بیچاری؟ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، کس طرف جائے، نہ کوئی ہم راز، نہ کوئی سہیلی جس کے کاندھے پر سر رکھ کر رولے، دل کا بوجھ ہلکا کرلے، دوچار دن بعد جب چہ می گوئیاں دب گئیں تو دونوں واپس لوٹے، بیچ دریا میں پہنچے تو لڑکی نے کہا: اماں وہ بدقسمت نگوڑا اچھا ہوا ڈوب گیا، ذرا بتانا وہ کہاں ڈوبا تھا” دایہ اس کے ارادے کو بھانپ نہ سکی اور اندازے سے بتادیا، یکایک پانی میں چھپاکا ہوا، چند لہریں اٹھیں اور پانی کی سطح پر چپ سی طاری ہوگئی، دایہ کی چیخوں کی گونج فضا کو دہلائے دے رہی تھی، والدین اور قرابت دار روتے پیٹتے دوڑ پڑے، دریا کے کنارے شور ماتم بپا تھا، غوطہ خوروں کو بلایا گیا۔ عاشق معشوق کی لاشیں اس حال میں نکالی گئیں کہ یوسف کے ہاتھ پر لڑکی کا سر اور لڑکی کے ہاتھ پر یوسف کا سر تھا۔
دونوں ایک دوسرے کے پہلو میں دفن کردیے گئے، یوسف کی قبر پر ایک سنگین چھت ہے لیکن دوسری قبر پر چھت نہیں ہے عوام میں یہ عاشق معشوق کا مقبرہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ مقبرہ ایک مسجد کے احاطہ کے اندر ہے، اسی سے مسجد کا نام بھی عاشق معشوق کی مسجد پڑگیا، یوسف کا باپ سفر سے واپس آیا تو بیٹے کی جواں مرگی کی خبر سن کر کف افسوس ملنے لگا، اپنے جذبات کا اظہار ایک قطعہ کی صورت میں لکھ کر اسے چھت کے چاروں طرف کندہ کرادیا، اشعار درج ذیل ہیں:
فرزند عزیز نور دیدہ
تا کردہ چراغ زندگانی تف
ایں عمر عزیز در غم او
بر من گذرد بصد تاسف
یارب بحق حبیب پاک
کاندر حق او کنی تلف
تاریخ وفات او فرد گفت
در خلد مدام باد یوسف
(میرا بیٹا، میری آنکھوں کا نور اس دنیا سے چلاگیا، میں نے اس کے غم میں رو رو کر زندگی گزاردی، یا رب اپنے حبیب پاک کے صدقے اسے واصل حق کر لے، میں نے اس کی تاریخ وفات میں یہ مصرعہ نکالا ” یوسف تو بہشت بریں میں ہمیشہ رہے۔”)
ناکامئی عشق میں فنا ہوجانے کا یہ واقعہ لوگوں کی یاد داشت سے محو نہ ہوسکا۔ نفس واقعہ کے صحیح ہونے کی شہادت یہ اشعار دے رہے ہیں، جو قبر کی چوکور چھت کے چاروں طرف کندہ ہیں، آخری مصرعہ سے 1086ھ مطابق 1675ء برآمد ہوتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ عہد عالم گیری میں پیش آیا تھا، لیکن قصہ کے پلاٹ میں کئی خامیاں ہیں جو زیب داستان کا نتیجہ ہوسکتی ہیں: (ا) والدین کا اچانک لڑکی کو خفیہ طور سے کسی عزیز کے پاس بھیجنے کا فیصلہ عقل سے پرے ہے، اس سے تو محلہ کی عورتوں کو اور زیادہ باتیں بنانے کا موقع دینا ہے (۲) تین صدی قبل کسی جوان لڑکی کو دور پار صرف ایک دایہ کے ساتھ بھیجنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا (۳) یوسف کو ڈوبے کئی روز ہوچکے تھے، جب لڑکی ڈوبی تب اس کی لاش بھی ڈھونڈھنے کا خیال لوگوں کو آیا، لاشیں نکالی گئیں تو دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کا تکیہ بنے ہوئے تھے۔ یہ ما فوق الفطرت عنصر داستان میں بعد کے لوگوں نے محض اعجاز عشق دکھلانے کے لیے شامل کر دیا، اس کے بغیر داستان کی زندگی بڑی مختصر ہوتی۔
تاریخ آثار بنارس کے نئے ایڈیشن (۲۰۱۱ء) کے حاشیہ میں بتلایا گیا کہ واقعہ کے فورا بعد بنارس کا ناظم جو شاعر بھی تھا، اسے ایک مثنوی میں نظم کردیا، محشی نے کوئی حوالہ نہیں دیا، اس داستان کی شہرت نصف صدی بعد اس وقت ہوئی جب بنارس کے ایک بڑے شاعر ملا عمر سابق بنارسی (۱۸۱۰ء) نے اس واقعہ کو بنیاد بناکر مثنوی تاثیر عشق لکھی۔ ملا عمر سابق بنارس کے بڑے اور مشہور شاعر تھے، ۱۱۳۳ھ مطابق ۱۷۲۰،۲۱ء میں پیدا ہوئے، فن شاعری کے رموز سراج الدین آرزو ( پیدائش ۱۱۰۱ھ مطابق ۱۶۸۹،۹۰ء بعہد عالمگیری) اور مرزا الف بیگ شیرازی سے سیکھے، شعرگوئی میں کمال حاصل کیا، شاعری میں ایک دیوان اور متعدد مثنویاں لکھیں مثلا مثنوی سوزوگداز، مثنوی شیریں و خسرو، مثنوی محمود و ایاز، مثنوی قضا و قدر مثنوی تاثیر عشق وغیرہ۔ گنج شائگان کے نام سے ساٹھ اجزا میں متقدمین اور متاخرین فارسی شعرا کا تذکرہ لکھا۔ آپ کی شاعری کی شہرت اس قدر تھی کہ نواب شجاع الدولہ( م۱۷۷۵ء) نے آرزو دہلوی کے انتقال (۱۷۵۶ء) کے بعد ملا عمر سابق کو ان کی جگہ مقرر کرنا چاہا، انھوں نے معذرت کردی تو ساٹھ روپئے ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا جو انھیں زندگی بھر بنارس میں ملتا رہا۔ (ملا عمر کے حالات کی تفصیل کے لیے دیکھیں: حیات سابق؛ مولوی عبد القادر وکیل بنارسی، مشائخ بنارس: عبد السلام نعمانی،ص ۹۴، تذکرہ علمائے بنارس: وسیم احمد قاسمی، ۲۸۹)
ملا سابق خلوت پسند تھے، اس لیے ممکن ہے کہ ان کی مثنوی مشہور نہ ہوئی ہو، لیکن جب میری تقی میر نے “دریائے عشق” کے نام سے یہ واقعہ نظم کیا تو بنارس کے عاشق معشوق کی کہانی شمالی ہند کے گلی کوچوں میں پہنچ گئی، میر نے من و عن بنارس والا واقعہ اپنی مثنوی میں بیان کیا، میر کی مثنوی “دریائے عشق” تقریبا تین سو اشعار پر مشتمل ہے، عاشق معشوق کی پہلی ملاقات کو میر نے دوسرے انداز سے دکھایا ہے، وہ لکھتے ہیں:
ایک دن بے کلی سے گھبرایا
سیر کرنے کو باغ میں آیا
تاکہ اس کوچہ سے گذار ہوا
آفت تازہ سے دوچار ہوا
ایک غرفے سے ایک مہ پارہ
تھی طرف اس کے گرم نظارہ
پڑگئی اس پہ اک نظر اس کی
پھر نہ آئی اسے خبر اس کی
میر نے دایہ کا کردار بڑی ہنروری اور چابک دستی سے تراش کر پیش کیا:
بیچ دریا میں دایہ نے جاکر
کفش اس گل کی اس کو دکھلاکر
پھینکی پانی کی سطح پر اک بار
اور بولی کہ او جگر افگار
حیف! تیرے نگار کی پاپوش
موج دریا سے ہووے ہم آغوش
غیرت عشق ہے تو لا اس کو
چھوڑ یوں مت برہنہ پا اس کو
سن کے یہ حرف دایہ مکار
دل سے اس کے گیا شکیب و قرار
بے خبر کار عشق کی تہ سے
جست کی اس نے اپنی جاگہ سے
لڑکی نے اپنے جذبات کو اب تک دبا کے رکھا تھا، لیکن عاشق کی قربانی نے صبر کا باندھ توڑدیا، وہ وصال ابدی کے لیے بے تاب ہوگئی۔ میر نے دریا میں اس کے کودنے کا نقشہ بڑے موثر انداز میں کھینچا ہے وہ لکھتے ہیں:
حرف زن یوں ہوئی کہ اے دایہ
یاں گرا تھا کہاں؟ وہ کم مایہ
سنتے ہی یہ کہاں کہاں کہہ کر
گر پڑی قصد ترک جاں کر کر
کشش عشق آخر اس مہ کو
لے گئی کھینچتی ہوئی تہ کو
انجام میں انھوں نے مافوق الفطرت عنصر کو عشق کی کرامت ثابت کر کے واقعہ میں عقیدت کا رنگ بھر دیا اور اسے مزید اثر انگیز بنادیا: خلق یکجا ہوئی کنارے پر
حشر برپا ہوئی کنارے پر
نکلے باہم ولے موئے نکلے
دونوں دست و بغل ہوئے نکلے
جو نظر ان کو آن کرتے تھے
ایک قالب گمان کرتے تھے
میر کی مثنوی کا ماخذ کیا ہے، اس بارے میں اردو ادب کے محققین میں کافی اختلاف ہے۔ ڈاکٹر فرمان علی”دریائے عشق اور بحر المحبت ایک تقابلی مطالعہ” میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے میر کی مثنوی دریائے عشق کا ایک ماخذ کے عنوان سے لکھا ہے کہ میر کا قصہ در اصل ایک فارسی مثنوی “قضا و قدر” سے ماخوذ ہے یہ مثنوی ۱۱۱۳ھ/۱۷۰۱ء میں تصنیف ہوئی اور تقریبا سو سال بعد میر نے اس سے متاثر ہو کر مثنوی “دریاۓ عشق” لکھا۔
میر کے تتبع میں اسی قصے کو “بحر المحبت” کے نام سے مصحفی نے نظم کیا۔ انھوں نے قصہ کو موثر بنانے کے لیے پلاٹ میں یہ اضافہ کیا کہ لڑکی کے خاندان والے جب عاشق کے عشق کی شوریدہ سری سے پریشان ہوگئے تو اس کے پیچھے اوباش لڑکوں کو لگا دیا جو اس پر سنگ باری کرتے پھر بھی وہ باز نہ آیا تو اس کو مروانے کی سازش کی۔ لیکن کچھ سوچ کر اس خیال سے باز رہے، مصحفی کہتے ہیں: آخر کار تھے جو محرم کار
ایک دن ان کو جمع کر ایک بار
مصلحت جو ہوا کہ کیا کیجیے
کچھ اس کا مشورہ دیجیے
یعنی اوباش کوچہ و بازار
کچھ نہ کچھ اس کو دیویں آزار
سنگ ساری کسی نے اس پر کی
خاک باری کسی نے اس پر
کوئی تلوار سے ڈرانے لگا
اس پہ برچھی کوئی اٹھانے لگا
مصحفی نے مثنوی کے آخر میں یہ کہہ کر قصے کی واقعیت ہی کو مشتبہ کردیا:
خاک میں یا ملا دیا ان کو
آگ میں یا جلادیا ان کو
مصحفی کی مثنوی کو مولانا عبد الماجد دریابادی نے ایڈٹ کرکے شائع کیا۔
نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب “مدراس میں اردو” میں ذکر کیا کہ میر تقی میر کی مثنوی “دریائے عشق” کا ماخذ سید محمد والہ موسوی کی مثنوی “طالب و موہنی” ہے جو مہاراشٹر کے ایک تاریخی شہر پرینڈہ کی پرانی داستان عشق ہے۔ والہ سیاح آدمی تھا، خراسان کا رہنے والا تھا، شاہ عالم بہادر شاہ کے عہد (1119_1224) میں دلی آیا، پھر اسے نظام الملک آصف جاہ حیدرآباد لے گیا۔ اورنگ آباد اور احمد نگر کے جنوب میں موجودہ ٗعثمان آباد کے قریب قلعہ پرینڈہ ایک مشہور تاریخی مقام تھا، وہیں ایک بوڑھے برہمن نے والہ کو طالب اور موہنی کے معاشقہ کا واقعہ بتلایا جسے والہ نے ایک مثنوی کی شکل میں منظوم کردیا۔ اس مثنوی میں ایک ہزار سے زائد اشعار ہیں، قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ طالب مسلمان ہے، موہنی ہندو۔ دونوں کے عشق کے درمیان موہنی کا مہاجن باپ دیوار بن کر حائل ہوجاتا ہے، طالب عشق سے باز نہیں آتا ہے تو مہاجن موہنی کی موت کی جھوٹی خبر سناتا ہے، طالب صدمے کی تاب نہ لاکر کنویں میں کود جاتا ہے اور اپنی جان دے دیتا ہے۔ موہنی کو جب حقیقت کا پتہ چلتا ہے تو وہ بھی اسی کنویں میں گر کر اپنی جان دے دیتی ہے۔ ان دونوں کی نعشیں ایک دوسرے سے اس طرح چمٹی ہوئی تھیں کہ الگ نہیں کی جاسکیں، والہ کہتا ہے:
نکالے لوتھ دونوں مبتلا کی
عجب دیکھے وہاں قدرت خدا کی
دونوں تک ایک ہو کر مل رہے تھے
وہ ایک دل ایک تن ایک من رہے تھے
وہ دو یا ایک ہو کر یوں رہے مل
آپس سوں جدا کرنا تھا مشکل (طالب موہنی ،ص ۷۶)
اس مثنوی کو ڈاکٹر محی الدین زور نے ایڈٹ کرکے ۱۹۵۷ میں ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد سے شائع کیا۔ اسی سے ملتی جلتی مثنوی مقیمی کی “چندر بدن مہ یار” ہے۔ مقیمی اشتر آباد کا رہنے والا تھا، اس کی پرورش بیجا پور میں ہوئی، اس کی مثنوی 1628 (بہمنی دور) میں منظر عام پر آئی۔ اس میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ مہیار مسلمان اور غریب ہے، چندر بدن ایک راجہ کی بیٹی ہے، وہ شیوراتری کا تیوہار منانے مندر جاتی ہے، مہیار اسے دیکھ لیتا ہے اور جان و دل اس پر فدا کردیتا ہے۔ عشق کی آگ میں دونوں جلتے رہتے ہیں، راجہ مہیار کا رشتہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے، مایوسی حد سے بڑھتی ہے تو وہ موت کو گلے لگالیتا ہے، چندر بدن کو اس کے مرنے کی خبر ملتی ہے تو غسل کر کے بنتی سنورتی ہے، پھر اپنے خواب گاہ میں داخل ہوتی ہے اور جان جان آفریں کے سپرد کر دیتی ہے۔ مہیار کو جب لوگ قبر میں اتارتے ہیں تو ایک دلدوز منظر نظروں کے سامنے آتا ہے، چندر بدن کی لاش مہیار سے لپٹی ہوئی ہے، دونوں کی تدفین ایک ہی قبر میں کردی جاتی ہے۔
چاروں مثنویوں میں مماثلت اس قدر ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قصہ ایک ہے جسے مختلف ادوار میں مثنوی کی صورت میں شاعروں نے بیان کر دیا۔ چاروں میں عاشق پہلے زندگی کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور معشوق اس کی جدائی کی تاب نہ لا کر مر جاتا ہے۔ چاروں میں مذہبی اختلاف المیہ پیدا کرتا ہے، انجام میں مافوق الفطرت عنصر کو محض عشق کی کرشماتی قوت اور اعجاز کے اظہار کے لیے شامل کر دیا گیا ہے، نیز اس کے بغیر قصے میں تحیر کا سامان نہیں پیدا ہوسکتا۔ جہاں تک میر تقی میر کی مثنوی “دریائے عشق” کے ماخذ کا تعلق ہے، میرے نزدیک اغلب اور زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ انھوں نے بنارس کے عاشق معشوق سے متاثر ہو کر مذکورہ مثنوی لکھی۔ ملا عمر سابق بنارسی میر کے نہ صرف معاصر تھے، بلکہ آرزو دہلوی کے قریبی شاگرد تھے، فارسی کے بڑے شاعروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کا ایک شعر بہت مشہور ہے:
ہر کہ راضی با رضا و با توکل می شود
خار گر ریزند اندر جیب او گل می شود
(جو شخص راضی برضا ہو اور اللہ پر توکل کر لے، اگر لوگ اس کے دامن میں کانٹے بھی بکھیریں تو وہ پھول بن جائیں گے)
آرزو میر تقی میر کے سوتیلے ماموں تھے، میر کے ساتھ اگرچہ ان کا سلوک بہتر نہیں تھا لیکن میر کا قیام اور آمد و رفت ان کے گھر میں رہی۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ میر نے یہ قصہ ملا سابق بنارسی سے سنا ہو، بنارس کے قصے کی گونج دہلی اور لکھنؤ میں بھی تھی۔ لکھنؤ میں بھی دونوں شاعروں کے ملنے ملانے کے مواقع ملے ہوں گے، بنارس کے عاشق معشوق کے قصے کے بارے میں سابق بنارسی کی مثنوی میر کی نظروں سے ضرور گزری ہوگی۔ سابق کی ایک مثنوی کا نام بھی مثنوی قضا و قدر ہے، اس کے کچھ اشعار مفتی عبد السلام نعمانی نے مشائخ بنارس میں نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے اس کا قصہ دوسرا ہے۔ مولانا وسیم احمد قاسمی نے سابق کی مثنوی کا نام داستان غرق عاشق معشوق لکھا ہے ( تذکرہ علماء بنارس، ص ۲۹۲) ڈاکٹر حسن ذوالفقاری نے اس کا نام “تاثیر عشق” بتلایا ہے (حسن ذو الفقاری: پزوہش نامہ، علوم انسانی شمارہ نمبر ۵۴ ،ص۲۷۴، 2007)
بنارس کے عاشق معشوق کے بارے میں میر کی معاصر ایک فارسی مثنوی دریافت ہوئی ہے، جس کا تعارف حسن ذو الفقاری نے ملک خورشید و معشوق بنارس کے نام سے مذکورہ شمارے میں کرایا ہے اور دو سال بعد ٢٠۰۹ء میں “داستان معشوق بنارس، عاشق معشوق بنارس، بحر وصال کے نام سے نشر چشمہ تہران سے موصوف کی تصحیح کے ساتھ شائع ہوئی، مثنوی نگار کا نام ملا محمد خطائی شوشتری ہے، وہ شوشتر ( ایران) میں ۱۱۷۵ھ میں پیدا ہوا، ۱۲۲۲ھ/۱۸۰۷ء میں لکھنؤ میں فوت ہوا۔ لکھنؤ قیام کے دوران اس نے دو کتابیں “ملک خورشید و معشوق بنارس اور جام جہاں نما تالیف کی۔
معلوم ہوتا ہے کہ مثنوی کا نام مصنف کا تجویز کردہ نہیں ہے بلکہ ناقلین نے اشعار سے اخذ کیا ہے۔ مثنوی کا نفس مضمون تو وہی ہے جو بنارس میں مشہور ہے اور جسے میر تقی میر اور مصحفی نے بیان کیا ہے، لیکن پلاٹ میں فرق ہے۔ خطائی کلیدی کرداروں کے نام کا بھی ذکر کرتا ہے، مثنوی میں ۱۲۵۰ اشعار ہیں، اس میں بیان کی گئی کہانی کچھ اس طرح ہے:
بنارس کے راجہ کی بیٹی چندرا رانی اپنے مذہبی معمول کے مطابق صبح ہی صبح گنگا اشنان کرنے جاتی ہے، ایک ایرانی رئیس نوجوان ملک خورشید اسے دیکھ لیتا ہے، نظر سے نظر ٹکرائی اور عشق کا تیر دونوں کا جگر پار کر گیا۔ ملک خورشید کی بے قراری حد سے بڑھی تو اس نے اپنے دوستوں کو قیمتی تحائف کے ساتھ راجہ کے دولت کدے پر بھیجا، چندا کا ہاتھ مانگا، راجہ نے انکار کر دیا، محبوب کے دیدار کی تمنا نے بے قابو کردیا تو اس نے ایک چھوٹا سا گھر کوئے جاناں میں کرایہ پر لے لیا، دونوں کے لب بستہ تھے، لیکن آنکھوں نے باتیں کرنا سیکھ لیا تھا۔ راجہ کا غیض بڑھتا ہی گیا، اس نے ایک مکار عورت کو ملک خورشید کے پاس بھیجا، جس نے اس عاشق کو یہ نحوست بھری خبر سنائی کہ چندرا گنگا نہانے گئی تھی، پیر پھسل گیا، وہ ڈوب گئی، طلسم عشق تھا کہ عقل و خرد سے بیگانہ کردیا۔ خبر کی تحقیق کی ضرورت بھی نہ سمجھی اور خود کو دریا کی موجوں کے حوالے کردیا۔ اس کے دوستوں نے تین روز تک سیاہ لباس پہن کر اس کا ماتم منایا:
بہ آئین عزادارئ ایران سہ روز اندر عزا بودند یاران
چندا کو جب ملک خورشید کے گنگا میں ڈوبنے کی خبر ملی تو اس نے بھی دریا میں کود کر جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ تین دن کے بعد دونوں کی لاشیں اس حال میں کنارے لگیں کہ دونوں ایک دوسرے کو آغوش میں لیے ہوئے تھے کہ لاکھ جتن کرنے کے بعد بھی انھیں الگ نہیں کیا جاسکا۔ شاعر کے بیان کے مطابق آج بھی ان کی قبر عشاق کی زیارت گاہ ہے:
ھنوز آں بقعہ را آثار باقی است بہ عالم نام ہر ایک یار باقی است
(ابھی تک اس جگہ ان کے آثار باقی ہیں، دنیا میں ان کا نام زندہ ہے)
خطائی کے چند اشعار ملاحظہ کریں جن سے اس کی قادر الکلامی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے:
چوں عاشق در مقابل آتشے دید بہ خود موئے آتش دیدہ پیچید
(عاشق نے جب اپنے سامنے آگ ( محبوب) کو دیکھا تو موئے آتش دیدہ کی طرح بل کھا گیا۔
شد از بس رنگش از رو کرد پرواز رخش صورت نمائے معنی راز
(چہرہ سے رنگت ایسے اڑ گئی کہ وہ معنی راز کی تصویر بن گیا)
بر اشکش شور محشر بس کہ زد جوش
بر آمدصبح از مشرق کفن پوش
(اس کے آنسووں نے اس قدر شور محشر بپا کیا کہ مشرق سے صبح کفن اوڑھ کر نکل آئی)
اس حادثۂ فاجعہ سے شہر والے ماتم کناں ہیں، شاعر اس کی منظر کشی کرتا ہے:
زساحل اشک مردم جوش براداشت
فلک را موج چوں بردوش برداشت
(ساحل سے لوگوں کے اشک ابل پڑے کہ جیسے موج نے آسمان کو کندھے پر اٹھا لیا ہو)
عاشق معشوق کی درد ناک موت کے بعد ان کی قبر کا نقشہ کھینچتا ہے:
ھنوز آں جا گلے کز خاک روید
شود مجنوں اگر لیلاش بوید
(ابھی تک اس مٹی سے جو پھول اگتا ہے، اسے لیلی سونگھے تو مجنوں بن جائے)
بہ جائے لالہ ھائے دردناکش جہد فوارہائے خون زخاکش
(اس کی خاک سے لالہ کے بجائے خون کا فوارہ ابلتا ہے)
بنارس کے اس واقعۂ دلفگار کی اس قدر شہرت ہوئی کہ ایران کے ایک سیاح حاجی زین العابدین شیروانی ( 1194ھ/1780=
=1253/1838) کا گزر بنارس سے ہوا تو اس نے یہاں کے لوگوں سے دو واقعات سنے اور اپنی کتاب “بستان السیاحہ” میں “من غرائب العشق” کے عنوان کے تحت انھیں نقل کردیے۔ مفتی عبد السلام نعمانی نے آثار بنارس میں مذکورہ کتاب کے حوالے سے دونوں واقعات لکھ دیے ہیں، زین العابدین نے عاشق کی خود سوزی والے واقعہ کے بارے میں بیان کیا کہ یہ واقعہ عہد عالم گیری میں پیش آیا تھا اور عاشق معشوق کی غرقابی کا سانحہ شجاع الدولہ کے زمانے میں وقوع پذیر ہوا تھا، نیز اس کے مطابق دونوں میں معشوق غیر مسلم تھی (بستان السیاحہ: حاجی زین العابدین شیروانی، ص 162، طبع دوم 1340)واللہ اعلم بالصواب
میں نے جہاں تک غور کیا یہ پایا کہ ناکامی عشق میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا زندگی داؤں پر لگانا ایک عام سا واقعہ ہے، ہندوستانی مسلم معاشرہ میں یہ رجحان مقامی تہذیب کے اثر سے آیا جس میں گزشتہ صدی تک خود سوزی وفاداری کا اظہار تصور کی جاتی تھی۔ راجہ رام موہن رائے کی تحریک سے کافی اصلاح ہوئی اور پھر انگریزی سرکار نے ۱۸۲۹ میں عورتوں کا اپنے شوہروں کی چتا میں زندہ جل کر مر جانا قانونا جرم قرار دیا۔ مسلم شاعروں نے داستان گوئی اور اپنی مثنویات میں عاشق کو ڈبا کر مارنے کا راستہ ڈھونڈھ نکالا اور عاشق معشوق کو مرنے کے بعد ہم آغوش کرنا عشق کی کرامت قرار دیا۔ ان کی قبروں کو عشاق اور اہل دل کی زیارت گاہ بنانے کا عقیدہ بھی ایرانی مجوسیوں سے مستعار ہے، ان کے یہاں میت کو دخمہ (پارسیوں کی قبرستان) میں سپرد خاک کرنے کے بعد اسے زیارت گاہ بنالیا جاتا ہے، اس جگہ اگنے والے پودے، پھول، درخت کے پتے سب تقدس کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں، فارسی اور اردو ادب کی قدیم داستانیں اور عشقیہ قصے ان دونوں عناصر سے مملو ہیں۔
ایک بھرپور واہ!
زبردست اور معلومات سے بھرپور
زبان وادب کی چاشنی کے ساتھ تحقیق اور ادبی معلومات سے بھرپور…. 👍
لا جواب اور خوبصورت پیرایے میں رچی بسی تحریر !!
اللہ تعالی مولانا کو صحت وعافیت سے رکھے اور وہ یونہی زبان وقلم کی آبیاری کرتے رہیں !
بہت خوب استاد محترم
معلومات، ادبی چاشنی اور تاریخی واقعات کا مرقع یے
شیخ کی زباں کی ادبیت کے کہنے ہیں
اللہ شیخ محترم کو صحت و تندرستی عطا فرمائے
بہت ہی لاجواب استاذ❤️❤️
بہت زبردست تحقیقی مضمون ہے۔ تحریر سادہ اور شگفتہ ہے جس نے بہت مزہ دیا۔
بہت عمدہ مضمون۔ شگفتہ اور سادہ تحریر، علمی خزانہ