انیس فروری 2019 کی شام دلی میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد کو لے کر کافی تذبذب کا شکار تھی۔ نجانے کیا مصلحت تھی کہ میڈیا بالکل خاموش تھا جس کی وجہ سے لوگ گو مگو کیفیت میں تھے اور کوئی چیز واضح نہیں ہو پا رہی تھی۔ دلی کی خنک ہواؤں کے ساتھ ابھی تاریک سایے دراز ہونا شروع ہوئے تھے کہ سعودی ائیرلائنز کا طیارہ گَڑگَڑاتا ہوا رن وے کی مسافت طے کرکے اپنی مخصوص جگہ پر آ کر رک گیا اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے روایتی لباس میں نمودار ہوئے تو فضا پکار اٹھی:
آیا یہ کون سایۂ زلف دراز میں
پیشانئ سحر کا اجالا لیے ہوئے
وزیر اعظم نریندر مودی نے مروجہ پروٹوکول کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ کر محمد بن سلمان کو گلے لگا کر شاندار استقبال کیا اور دونوں لیڈران اگلی صبح کی ملاقات کے لیے اپنی اپنی راہ ہو لیے۔
دوسرے دن بوقت صبح راشٹرپتی بھون میں ولی عہد کے شایان شان ایک عظیم الشان استقبال کا انتظام کیا گیا، سرخ قالین بچھائی گئی اور پورے عز و حشم کے ساتھ ایک شہزادے کو روایتی انداز میں جمہوری سلامی دی گئی۔ قصر جمہوریہ کا وہ میدان جہاں:
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
کا منظر ہر طرف ہویدا تھا۔ ہر سو ایک ہی ترانہ بج رہا تھا:
رقص مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں
مے خانہ نہ سہی بت خانے میں تو قدم رنجہ فرما ہی چکے تھے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ دورۂ ہند کئی اعتبار سے غیر معمولی رہا۔ سال گزشتہ 2018 میں نومبر کی آخری اور دسمبر کی پہلی تاریخ کو ارجینٹین کے شہر بوینوس آئرس میں منعقدہ G20 سربراہی کانفرنس میں جب محمد بن سلمان کو وہاں موجود تمام عمائدین بنظر غیر خشمگیں نگاہوں سے چھلنی کر رہے تھے اس وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جرأت کا اظہار کرکے ولی عہد کے ساتھ خصوصی نشست کی اور بھارت آنے کا انھیں نیوتہ بھی دیا جو انھوں نے شرح صدر سے قبول بھی کیا۔ بعد ازاں تقریبا ایک ماہ قبل جب اس دورے کی پلاننگ کی گئی تو ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات ضرور تھی کہ اس دورے کے ذریعے محمد بن سلمان مغربی دنیا کو یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسی کرۂ ارض پر ایسے کتنے بڑے ممالک ہیں جو ایک خاص ناخوشگوار واقعہ پر مبنی مغربی ممالک کے پروپیگنڈوں سے اوپر اٹھ کر حالات کا جائزہ لیتے ہوئے حقیقت کا بھر پور ادراک کرتے ہیں۔ یہ ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعودی عرب ایک عظیم ملک ہے اور انھیں اس کی ضرورت بھی ہے۔ ہندوستان جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا شرف حاصل ہے ان میں سے ایک ہے۔ شومئ قسمت کہ محمد بن سلمان کا یہ دورہ پلوامہ کے خون آشام سانحے کے فورا بعد شروع ہوا اور اس دورے کا پہلا پڑاؤ پاکستان تھا جو بھارتی نقطہ نظر سے اس سانحے کا ذمہ دار ہے، اس ناگہانی افتاد کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آگے بڑھ کر محمد بن سلمان کو گلے لگایا اور ان کے شایان شان پرتپاک خیر مقدم کیا۔ دیکھتے دیکھتے انڈوپاک تعلقات میں زبردست ابال آیا اور دونوں ممالک اپنے اپنے موقف کی تائید حاصل کرنے میں کوشاں نظر آئے تاہم سعودی عرب خطے کی جغرافیائی سیاست میں اب نو آموز نہیں رہا، یہی وجہ ہے ولی عہد، جو اس وقت اپنے والد کی گرتی ہوئی صحت کے ناطے کم و بیش اسلامی مملکت کا پورا کاروبار دیکھتے ہیں انھوں نے دو پڑوسیوں کے درمیان نزاع کو دور کرنے میں ایک کامیاب توازن برقرار رکھا۔ کم از کم مشترکہ بیان کے ذریعہ ان میں سے ہر ایک کو یہ احساس دلایا کہ وہ دوسرے کو زیر کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
اسلام آباد اور نئی دہلی میں جاری مشترکہ بیانات میں توازن قابل ستائش ہے۔ دونوں بیانات کو ایک دوسرے کے ساتھ پڑھنے سے بالخصوص وہ پیراگراف جو زیادہ تنازعاتی مسائل پر ہیں اور کشمیر حملے کے بعد دوبارہ زندہ ہو چکے ہیں، یہ احساس کرنا بہت ہی مشکل ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو یوں بھی بھلا سکتے ہیں۔ پاکستان میں مشترکہ بیان صاف کہتا ہے کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 کو سیاسی رنگ دینے سے احتراز کیا جائے۔ ہندوستان میں مشترکہ بیان شدت سے کہتا ہے کہ اقوام متحدہ دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں پر مکمل پابندی عائد کرے۔ پاکستان کے مشترکہ بیان میں کشمیر حملے کا کوئی تذکرہ ہی نہیں جبکہ بھارت کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ولی عہد اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان میں شہزادہ محمد بن سلمان نے مذاکرات کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی خوب تعریف کی اور ہندوستان میں ولی عہد نے پاکستان کے ساتھ دوستانہ مراسم استوار کرنے کی راہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذاتی اقدامات کو خوش آئند قرار دیا اور اسی بیان میں ہند و پاک کے درمیان جامع مذاکرات کی بحالی کے لیے سازگار حالات کی فضا ہموار کرنے کی ضرورت پہ زور دیا گیا۔ آخر کار قوموں کا خاصہ رہا ہے کہ وہ بیچ بچاؤ کا کام کرتی رہتی ہیں! سعودی اور ایران جو زمانے سے روایتی حریف ہیں ان کے درمیان بھارت بھی یہی فریضہ انجام دیتا ہے۔
بھارت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کافی گہرے ہیں انھیں پاکستانی فریم میں دیکھنا قطعی درست نہیں ہے۔ ان رشتوں کی گہرائی مشترکہ بیان کے دیگر امور میں صاف نظر آتی ہے جہاں سرمایہ کاری اور توانائی کے تعاون کا ذکر وارد ہے۔ دونوں ملکوں کی جانب سے مہاراشٹرا میں 44 بلین ڈالر کے ریفائنری کمپلیکس کا پروجیکٹ ایک بڑا انوسٹمنٹ ہے جو وقتی طور پر کچھ علاقائی مسائل کے ناطے ہولڈ پر ہے تاہم اس منصوبے سے دونوں ممالک کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ڈائیس شیئر کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے اپنی تقریر میں یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ وہ آنے والے دو سالوں میں انڈیا میں سعودی سرمایہ کاری کا حجم ایک سو بلین ڈالر تک لے جائیں گے۔ وہ بڑے پرجوش انداز میں فرما رہے تھے کہ ہندوستان کے ساتھ جزیرۂ عرب کے تعلقات ہزاروں سال پرانے ہیں اور ان تاریخی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے وہ خواہش مند بھی ہیں۔ انھوں نے صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ گزشتہ 50 برسوں کے وقفے میں ہندوستانیوں نے سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں کار نمایاں انجام دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے متعدد یکساں مفادات و اقدار کی بنیاد پر باہمی تعاون کو فروغ دینے کی بات بھی کہی ہے۔ ولی عہد نے یہ بھی کہا کہ سعودی اور بھارت دونوں کو دہشت گردی جیسے چیلنجیز کا سامنا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے وہ ہندوستان کی ہر طرح مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔
میٹینگوں کے اختتام پر دونوں ملکوں کے مابین جن پانچ مختلف شعبوں میں معاہدے ہوئے اور مفاہمتی یادداشتوں پر طرفین کی جانب سے دستخط کیے گئے وہ ہیں:
شمسی توانائی
مشترکہ سرمایہ کاری
ہاؤسنگ
سیاحت
براڈکاسٹنگ یعنی نشریات
اس دورے کی کامیابی سے محمد بن سلمان کی شخصیت کو نئی جہت ملی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ ایک منفرد شخصیت کے حامل رہنما ہیں۔ سعودی عوام انھیں نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ دل و جان سے انہی کو اپنا قائد بھی مانتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ محمد بن سلمان سیاست میں تو قدامت پسند ہیں لیکن اقتصادی اور سماجی مسائل میں لبرل ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ یہی لبرٹی ان کے عوام کی ترقی کا ضامن ہے۔ آل سعود کی تاریخ میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پہلے قائد ہیں جو اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ سیاسی افق پر نمودار ہوئے ہیں۔ بہت ہی قلیل عرصے میں انھوں نے عالمی سیاست پہ جو گہری چھاپ چھوڑی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یوروپ اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب انھوں نے بات کرنی شروع کی تو وہاں کے لیڈر غش کھا کھا کر ڈھیر ہونے لگے۔ محمد بن سلمان نے یوروپ اور امریکہ کے ان سورماؤں کے سامنے جب یہ بات رکھی کہ اب سعودی عرب طرز کہن کا پیروکار نہیں رہا۔ پٹرول پہ انحصار ختم کرکے نئی جہات کی کھوج میں منصوبے تیار کرنا اور انہی میدانوں میں سرمایہ کاری کرنا اس کی ترجیحات میں ہے تب ان کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو کڑک ہوتا دیکھ کر ان کے ہاتھوں سے طوطے اڑنے لگے اور انھوں نے محمد بن سلمان کے منصوبوں کو طرح طرح سے سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کی۔ مغربی میڈیا نے ولی عہد محمد بن سلمان کی شبیہ مسخ کرنے کی قسمیں کھائیں اور ہر محاذ پر انھیں ایک سفاک اور آمر حکمراں کے طور پر دکھانے کی ناروا کوشش کی لیکن جاکو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی!!
پاکستان، ہندوستان اور چین کے حالیہ دورے میں ولئ عہد کے پرتپاک استقبال اور خیر مقدم نے مغربی اقوام کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور ان کے بے بنیاد الزامات پر اوس پڑ گئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ان کی ہر دلعزیز کرشمائی شخصیت کو دل کھول کر سراہا۔ دو ملکوں کے گہرے رشتوں میں پروان چڑھ رہے مختلف حساس شعبوں میں باہمی تعاون کو اجاگر کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ اب ہندوستان اور سعودی عرب خرید و فروخت کے تجارتی رشتے سے ایک قدم آگے بڑھ کر اسٹریٹیجک پارٹنر بن چکے ہیں۔ اس پارٹنرشپ کو مزید مستحکم بنانے کے لیے دونوں لیڈروں نے کئی شعبوں میں باہمی تعاون پر معاہدے کیے اور اس دورے کی کامیابی پر ایک دوسرے کو تحسین آمیز کلمات سے نوازا۔ جاتے جاتے ولی عہد محمد بن سلمان نے ہندی مسلمانوں کو مایوس نہیں کیا اور ہندوستانی حج کوٹے میں پچیس ہزار اضافے کا تحفہ دے گئے! بہت بہت شکریہ!!!
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
ماشاء اللہ بہت خوب
Well-informed…and clean observation. ….
بہت اچھا لکھتے ہیں آپ!!
ماشاءالله!
واقعی اچھا لکھتے ہیں
اللہ قلم کو مزئد تقویت دے
بہت اچھی تحریر ماشاء اللہ
شہزادہ محمد سلمان کے دورہ ہند کی مناسبت سے پہلا تجزیاتی مضمون ۔
سلامت رہیں
سلمان کی دنیا والوں پر گہری چھاپ مثبت ہے یا منفی عالمی میڈیا پر نظر رکھنے والوں سے مخفی نہیں…..
اب رہی بات سلمان کے دورہء ہند کی تو اہل نظر یہی کہتے ہیں کہ
“کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے”
سلمان نہیں محمد بن سلمان!!
اہل نظر کی بات اہل نظر پہ چھوڑئیے کم از کم اپنی رائے تو واضح انداز میں بتاتے جائیں؟؟
بین الاقوامی اور ملکی سیاست پر ایسی نادر باتیں وہی لکھے گا جو ہمہ گیر سیاسی بصیرت کا حامل اور تجزیاتی فکر رکھتا ہو،محمد بن سلمان کے اس دورے کی بعض مضمرات اور جہتوں پر آپ نے جو روشنی ڈالی ہے وہ ظاہر بین نگاہیں نہیں تاڑ سکتیں،بین الاقوامی سیاست پر آپ لکھتے رہیں انشاء اللہ لوگ اس سے مستفید ہوتے رہینگے۔اللہ آپ کے قلم مزید توانائی بخشے آمین۔
پینی نظر، گہرا مشاہدہ، عمیق تجزیہ دلکش نثر کے قالب میں!
محمد بن سلمان ولی عہد مملکت سعودیہ عربیہ کی بھارت آمد اور اس کے ممکنہ خوش آیند ثمرات پر زبردست تجزیاتی مضمون
اس طرح کا بصیرت افروز مضمون وہی لکھ سکتا ہے، جو عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتا ہو،
مبارک باد، شاد باش ریاض صاحب
آپ کی عنایتوں کا بے حد شکریہ ! جزاکم اللہ کل الخیر ویحفظکم من کل شر !
بہت ہی عمدہ مضمون اللہ سدا خوش رکھے
Mashallah zabardast posts
بہت عمدہ تحریر ہے ماشاءاللہ
کمال ہے پروفیسر ریاض مبارک بھائ… آپکی تحریریں مستقل پڑھتا ہوں، اس لیے کہ مجھے پسند ہیں، اور پسند اسلیے کہ آپ لکھتے ہیں، اور آپ ان میں سے ہیں جن کے پاس معلومات میں گہرائ، مشاہدات میں باریکی اور تجربات میں “زندگی” ہوتی ہے_ پھر سب اہم چیز یہ کہ حد درجہ انصاف پسندی کو ملحوظ رکھتے ہیں___ ان تمام سے جو عرق نکلتا ہے وہ ذہن کو بالیدگی اور روح کوتازگی عطا کرتا ہے_ ادراک وشعور کی منزلیں طے کراتا ہے_ شکوک وشبہات کے ازالے کرتا ہے اور ایک مثبت فکر کی طرف رہنمائ کرتا ہے_ نیز افراط… Read more »
حقیقت کو واشگاف کرتی عمدہ اور بہترین تحریری عکاسی اللہ مزید توفیق دے