کیا ہو جب آپ کسی کشتی میں سوار ہوں اور کشتی مسافروں کے ساتھ لیے دریا میں ڈوب جائے؟ اور کیا ہو جب آپ کو پتہ چلے کہ کشتی کے مسافروں کو ڈوبنے کا کوئی خوف ہی نہیں بلکہ ان مسافروں کے نزدیک ڈوبنا “انتہا” نامی دروازے میں داخل ہونا ہے؟ يقینا آنکھ کھلی اور دماغ حاضر رکھنے والے شخص کے لیے یہ پاگل پنے کا عمل ہوگا۔ مگر فکر و فقاہت کی پرورش کرنے والے اور اللہ کی عظمتوں کو پہچاننے والوں کے لیے یہ دروازہ جانا پہچانا ہے۔
ماضی کی بات ہے، تصوف کی ممتا بھری باتوں نے کسی برباد بچے کو اپنی بانہوں میں کَس کے بھینچ ہی لیا تھا۔ بچے کو لگا کہ وہ وہی صدیوں کا بیٹا ہے جس کا ایک پورا زمانہ، زمانے کے لوگ، زمانے کی چیزیں، سانس لیتی ہوئی مخلوق انتظار کر رہی ہیں۔ وہ وہی بیٹا ہے جس کے دم سے بدرنگ اشیاء پہ رنگ آنے ہیں۔ یہ وہی بیٹا ہے جس کے خون سے ایک تہذیب پہ لالائی چھانی ہے۔ یہ وہی بیٹا ہے جس کی رگوں سے ایسے حشرات الأرض نکلنے تھے جو لوگوں کے دلوں میں چھپے بتوں کو چٹ کر جائیں۔ یہ وہی بیٹا ہے جس کی باتوں سے ایسے منتر پھوٹنے تھے جو دماغوں کے اندر آباد بھوت بنگلے کو شیش محل بنا دے. لہذا سنیں معاملہ کچھ یوں تھا۔
چند سال پہلے ایک بین الاقوامی علمی اجتماع میں انتہائی خوش اخلاق پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ ہمارے ساتھ نوجوان تعلیم یافتہ لوگوں کا جتھہ تھا جو پروفیسر سے ملنے کا مشتاق بھی تھا۔ جتھہ کا ہر شخص ان کی جانب یوں بڑھنے لگا گویا چھوٹی چھوٹی کشتیاں ہوں جو دریا میں گر جانے کی چاہت میں ایک مخصوص جانب بھاگی جارہی ہوں۔ یہی وہ لمحہ تھا جسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ کبھی چند لمحوں کی حکایت صدیوں کی کہانیوں کو ہتھیلی پہ پروس دیتی ہے۔ اسی لمحے کی عنایت تھی کہ میری ساکت و جامد آنکھوں کے سامنے کھڑکیوں کی ایک قطاریں کھل گئی جو واقعتاً صدیوں کی کھڑکیاں مجھ پہ کھولتی تھیں۔ مجھے لگا کہ نجات دہندہ نامی انسان دراصل اپنے اندر تجربات کا ایک سمندر لیے گھومتا ہے جو اسے چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا۔ وہیں دوسری جانب مَیں یوں ہی سا ایک شخص تھا جو لوگ، تہذیب اور میراث کے ساتھ ایسے چلتا جیسے زنجیر کے ساتھ ایک کہانی خود کارانہ طور سے چلتی ہے۔ میں تو ان لوگوں میں سے تھا جو اپنے سفینے کو ساتھ لیے کہیں بھی کود پڑیں، کہیں بھی غوطہ لگا دیں؛ کسی بھی زہریلے پانی پہ بس اپنے قدم رکھیں اور اسے امرت بنا دیں مگر یہ کیا، پروفیسر سے ملاقات نے میری دنیا کے طلسم کو ہی مسحور کردیا تھا۔ نہ جانے کس شئی کی کشش نے مرے خود کو بے خودی کے سمندر میں دھکیل دیا تھا۔
میرے دماغ میں تاویل نامی خطرناک اسلحوں کی کوئی فیکٹری تھی اور نہ میری کوئی دکان جس کی فکرمندی میں لوگوں کی جی ہاں جی ہاں، بجا فرمایا والے دربار میں اپنے ارشادات کی خیرسگالی چاہتا۔ میں تو پہلے ہی عدم پور کی شہریت کے لیے کوشاں تھا لہذا اس راہ پہ لالٹین دکھانے والا رہنما مجھے مل گیا۔ میں جو ہر ملنے والے کو بس مسیحا سمجھتا یا مسیحائی کے راستے پہ چلنے والا ہدایت یافتہ شخص مانتا پروفیسر سے ملنے کے بعد ملنے والوں کی مسیحائی کا انکاری ہوچکا تھا۔
پروفیسر کون تھے؟
پروفیسر منہٹن کے رہنے والے تھے جو ہم لوگوں کی ملاقات کے وقت میکسیکو میں اعزازی طور سے کام کر رہےتھے۔ میکسیکو کو سمجھنے سے پہلے آپ یہ سمجھ لیں کہ میکسیکو یمن ہے، میکسیکو بنگلہ دیش ہے، میکسیکو فلسطین ہے۔ میکسیکو ایک ایسا ملک ہے جہاں کے لوگوں کو دھوپ نے ایک رنگ عطا کیا ہے جو انھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ سارے مظالم اس رنگ کے بِھیتر چھپا لیں۔ میکسیکو کی وجہ سے ہی منہٹن اپنی برتری پہ مبنی کمپلیکس ذہنیت کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوا ہے یعنی منہٹن، نیویورک ميں اور نیویورک امریکا میں غرقاب ہوا ہے۔
مظلوموں سے زیادہ مسیحا کا انتظار کون کرے گا__ مظلوموں سے زیادہ نجات دہندہ کی ضرورت کسے ہوگی! مگر مظلوموں سے زیادہ مسیحائی کا انکاری بھی کوئی نہ ہوگا۔ پروفیسر ایک مکمل طور سے باشعور مسلم عالم اور مومن مفکر تھے۔ سالوں پہلے وہ اسلام جیسی نعمت سے سرفراز ہوئے تھے۔ انھوں نے کہیں قرآن کے الفاظ سنے تھے جس کی ترجمانی ان کے لیے ابن عربی کی فتوحات مکیہ کے الفاظ نے کی تھی۔ معنوں کا نہ پوچھیے، گرچہ معنی کی پہلی حالت کا تعیین کر دیا گیا ہے/ کر دیا جاتا ہے مگر جو بندے کے ہاتھ آتا ہے وہ تو خالص بندہ کی منفرد/مفرد/انفرادی تفہیم ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن کے معانی ہم اور آپ اس طرح سے نہیں بتاسکتے جو صدیوں تک مانے جائیں۔ نہ ہی کسی انسان کے بتائے لفظ کی تفسیر سالوں تک زندہ رہ سکتی ہے، ہاں! تفہیم میں توسیع ہوتی رہتی ہے۔ اس تفہیم کو انسانی شکل میں نورانی پیکر ہی وسیع کرتے ہیں۔
پروفیسر ٢٣ سال تک ابن عربی کا مطالعہ کرتے رہے تھے۔ جس وقت ہم ان سے ملے تھے انھوں نے ابن عربی کی تصنیفات کا انگریزی ترجمہ کا حظ اٹھا لیا تھا اور تقريبا دس ہزار صفحات تک کا ترجمہ بھی کر چکے تھے۔ وہ بین الاقوامی ابن عربی سوسائٹی کے ممبر بھی ہیں۔
پروفیسر نے کہا کہ ابن عربی نے “یوں کہا“
بہت سی وجہیں تھیں جس کی وجہ سے ہم خود کو خوش قسمت سمجھنے لگے تھے۔ اول یہ کہ ہم ایک مشرف بہ اسلام شخص سے مل رہے تھے جو اسلامی میراث میں کہیں گم ہوجانا چاہتا تھا۔ دوم یہ کہ وہ ہماری میراث کے ایک ذہین ترین عالم کو اس وقت پڑھ رہا تھا جب دنیا کے ”علم نامی شئی کی عقلیت“ عروج پہ تھی۔ وہ اس دور میں اس عالم کو پڑھ رہا تھا جب مادیت کے تمام مظاہر دراصل عقل کی کمائی مانے جا رہے تھے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھیں تو پروفیسر کے عہد کی مادیت نوزائیدہ تھی۔ یہ نوزائیدہ مادیت جدید لوگوں کے لیے ایسا خدا بن گئی تھی جس کا خداؤں جیسا کوئی نام نہیں تھا۔ سوم یہ کہ پروفیسر کے جملے ہیں کہ
speaks in a language in which one intends to understand things. . قرآن
میرے جملے ہیں؛ قرآن دراصل ہر انسان سے اس کے احساسات اور تجربات کو مد نظر رکھ کر بھی مخاطب ہوتا ہے۔ پروفیسر کے احساسات اور تجربات جس طور کے بھی رہے ہوں گے مگر پروفیسر نے کہا اس کو قرآن کے اس اعجاز کے قریب لانے والا دراصل ابن عربی ہے۔ اگر اس کی بات دل پہ ہاتھ رکھ کر سنیں تو ابن عربی ہی ہے جس نے اس سے یوں کہا____ ابن عربی نے کہا قرآن مجید تم سے وہ نہیں بولے گا جسے تم سننا چاہتے ہو بلکہ وہ بولے گا جس کی تمھیں ضرورت ہے___ قرآن مجید انسان کی ضرورت ہے۔
ابن عربی کون ہے؟
ابن عربی کوئی ایسا شخص نہیں جو آسمان کی جانب پاؤں کرکے چلتا ہے۔ ابن عربی کوئی ایسا سرپھرا نہیں جو قرآن پڑھ کر دوزخ تھوکتا ہے۔ ابن عربی کوئی ایسا جادوگر نہیں جو نص صریح سے ڈائیناسور نکال دیتا ہے۔ ابن عربی وراثتوں کا محافظ ہے۔ ابن عربی علوم سے واقف اور نصوص کا حافظ ہے۔ یہ سچ ہے کہ ابن عربی کے لفظ میں روانی اور معانی کی کہانی ساتھ ساتھ چلتی ہے ساتھ ہی ایک تیسری چیز بھی ہوتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ابن عربی بہت سی رسیوں کے ٹکڑوں کو گوندھ کر ایک روایت بناتے ہیں یا بہت سی روایتوں کو کھول کر ایک شہر آباد کرتے ہیں۔ وہ اللہ کی رسی سے جڑنے کے بجائے “بلاواسطہ” اس کا ہاتھ پکڑنا چاہتے ہیں مگر وہ آج کے “اولاد النص” سے بالکل مختلف ہیں۔ اولاد النص وہ ہیں جن کے پاس ایک زنجیر ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر کسی کو اسی زنجیر سے باندھ دیں۔ کسی کے نہ ملنے پہ وہ خدا کو ہی باندھتے ہیں۔ ابن عربی کی “تفہیم دنیا” ایک ایسا پیڑ ہے جس پہ ہر طرح کے پرندے بیٹھتے ہیں اور اپنی خوش الحانی نکھارتے ہیں__ چاہے وہ محدثین ہوں یا متحدثین۔ ابن عربی کے لیے دنیا ایک انعام ہے، عذاب نہیں۔ دنیا ایک قید ہے بوچڑخانہ نہیں۔ دنیا ایک دریا نہیں جہاں صرف آگ ہو۔ دنیا کا عذاب آخرت کا عذوبہ ہو سکتا ہے یعنی مشکلوں کا زیادہ پڑنا مشکلوں کا آسان ہونا ہے۔ ابن عربی کی سوچ کا سمندر عام لوگوں کے لیے نہیں خواص کے لیے ہے۔ سمندر کے کنارے تو ہوتے ہیں ابن عربی کی سوچ کا کنارہ “عدم” کی دیوار سے لگتا ہے جو “انتہا” کے دروازے سے ہو کے گذرتا ہے۔ آپ اگر گھر بیٹھے جاننا چاہتے ہیں کہ ابن عربی کون ہے تو جان لیجیے ابن عربی “مکمل مجتہد” ہے۔
ابن عربی کے اجتہاد کی روانی و وُسعت جب شرعی نصوص کو پھلانگتی ہے اور اجماع امت سے بغاوت کرتی ہے تو یہ اجتہاد “کفر” میں داخل ہو جاتا ہے۔
ابن عربی کی منقبت کے ساتھ ساتھ اس پہلو کو بھی اجاگر کریں تاکہ استفادہ کرنے والے کے سامنے یہ پہلو بھی موجود رہے۔