پروفیسر ارجن اپپا ڈورائی (نیویارک یونیورسٹی، نیویارک)
ترجمہ: سعد احمد، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
(اسرائیل فلسطینیوں کو محصور کر رہا ہے، روہنگیا کو برما نے دربدر کردیا ہے، نسلی اور حیاتیاتی اقلیت کے مسئلہ پہ ایک تاثر)
پچھلے پہر (۲۰۱۸) جب اسرائیلی نشانچیوں نے غیر مسلح فلسطینیوں کا قتل عام کا کارنامہ انجام دیا تو غازہ اور مقبوضہ علاقوں میں زندگی کی زبوں حالی کے تعلق سے ایک نیا باب کھلا۔ یہ واقعہ ایسا تھا جو روہنگیا کی نسل کشی میں برما کے مسلسل کرتوتوں کے بارے میں بھی سوچنے پہ ابھار رہا تھا، اس میں ہندوستان، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور دیگر ایشیائی ممالک کے شرمندہ کر دینے والے سلوک بھی سامنے آئے تھے۔ پھر کشمیر بھی تھا جہاں کے مرد، عورت اور بچوں پہ انتہائی بے حسی کے ساتھ ہندوستانی فوج مسلسل حاوی ہو رہی ہے۔ ان تمام معاملوں میں ظلم کے نشانے پہ اگر کوئی ہے تو وہ مسلمان ہی ہیں گر چہ وہ با لکل مختلف تاریخی سیاق کی پیداوار ہیں۔ ظاہری مماثلت کے باوجود، نسل کشی کے عالمی محرک اولا ”مسلمان ہونا“ نہیں۔ مسلمانوں کو ایک طرح کے عالمی زمرے میں رکھنے کا بھونڈا اظہار دراصل مخصوص اور اعلی قسم کی باہمی تعاون سے تیار کیے ہوئے مغربی مسلمانوں کی سیاسی سمجھ کا نتیجہ ہے۔ لہذا، اسے ایک واضح اور عالمی حقیقت کے طور سے نہ دیکھا جائے۔
آج کے نسل کش پروجیکٹس نے مجھے نسلی اور حیاتیاتی اقلیت پہ اپنے تاثرات پیش کرنے کے لیے ابھارا ہے۔ حیاتیاتی اقلیت سے میری مراد وہ ( نسلی، علاقائی، مذہبی) طبقہ ہے جس کا نسلی امتیاز دوسری قومی اکثریتوں کے لیے ایک طور کا جسمانی خطرہ بن کر ابھرتا ہے۔ آج کے نسل کش پروجیکٹس کی درجہ بندی اور حیاتیاتی اقلیتوں کے درمیان کچھ عجیب سا تعلق ہے۔ ایک درجہ بندی تو اسرائیل کے غازہ میں قتل عام کی ہے، اسے ہم محصور یا مقید نسل کشی کہیں گے یعنی ایسی نسل کشی جس میں نظربندی، حراست اور فاقہ زدگی شامل ہو۔ اس کی اولین شکل نازیوں کی حراستی کیمپوں میں پائی گئی تھی۔ دوسری درجہ بندی کو تارکین وطن کی نسل کشی کہہ سکتے ہیں، یعنی نسل کشی بذریعہ انتشار، اخراج یا خاتمہ جہاں حیاتیاتی اقلیتوں کو عدم استقرار اور موت تک کہیں نہ جمنے دینے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی پہلی شکل کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ روہنگیا دوسری شکل کی۔ بہرحال اکیسویں صدی کی اس شروعاتی دہائی میں حیاتیاتی اقلیتوں کے کیا اوصاف ہو سکتے ہیں؟
دوسرے انداز سے دیکھیے۔ اسرائیل اپنی طاقتور فوج کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کی زمین سے کیوں نکال نہیں پھینکتا، کیوں انھیں مجبور نہیں کرتا کہ وہ مشرق وسطی میں یا شمالی افریقہ میں جاکر لوگوں سے مل جائیں یا راستوں ہی میں مر جائیں؟ اس کے برعکس، میانمار کیوں نہیں ایک محصور روہنگیا اسٹیٹ بناتا جہاں یہ حیاتیاتی اقلیت حراست میں رکھی جائیں؟ ان پہ پولس متعین کیے جائیں، انھیں فاقے پہ مجبور کیا جائے اور موت تک نظر بند رکھا جائے؟ یہ سوالات کسی کو بھی نسل کش تدابیر کو غور سے دیکھنے اور سمجھنے پہ مجبور کر سکتے ہیں۔
میانمار کے معاملے میں واحد محرک، جیسا کہ مختلف تبصرہ نگاروں نے اشارہ کیا ہے؛ روہنگیا عوام کے پاس مغربی کناروں پہ بہترین زراعتی زمین ہے جو اب بنگال کی کھاڑی تک عمارتوں اور بندرگاہوں کے لیے بالکل تیار ہے۔ روہنگیا عوام اسی زمین سے جڑے ہیں جسے انھوں نے صدیوں تک سنبھالے رکھا۔ میانمار فوج کے لیے انھیں محصور کرنا ان کے مسئلے کا حل نہیں۔ روہنگیا عوام پہ ظلم؛ ان کے قتل، ریپ، ان پہ مسلح حملے انھیں بھگانے کے لیے ہیں۔ نسل کش بدھسٹ رہبانیت دراصل ایک فکری ایندھن کے طور سے ان کے اخراج کے لیے ملٹری اسٹیٹ کی حمایت کرتی ہے۔ میانمار کی بدھسٹ اکثریت زیادہ تر مسلح لڑاکو ہیں اور اقتصادی علاقوں کی پہنچ سے دور بھی ہیں۔ جب کہ روہنگیا عوام کو مسلح مزاحمت کا کوئی تجربہ نہیں، وہ جغرافیائی اعتبار سے اپنے علاقوں میں قید ہیں جس پہ اسٹیٹ کی نظر ہے تاکہ اسٹیٹ اپنے عالمی پروجیکٹس کو بروئے کار لاسکے۔ اس طور سے روہنگیا بھی روح فرسا دربدری کے لیے بالکل تیار شکار ہیں جبکہ ان کا مسلم تشخص بدھسٹ اکثریت کو بھی ایک فکری خطرہ محسوس ہوتا ہے حتی کہ ان کی کمزوریاں، ان کا بین الاقوامی وسعتوں میں ساحل میانمار کے ساتھ ہونا بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔
مضطرب اقتدار:
کیوں اسرائیل بشمول غازہ، مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی عوام کے ساتھ بھی اسی جیسا اخراج، دربدری اور دیس نکالا پالیسی نہیں اپناتا؟ کیوں وہ بے رحمی سے قتل اور نظر بندی کو اختیار کرتا ہے؟ بنیادی وجہ واضح ہے۔ اسرائیل کے ماتحت فلسطینی عوام اپنی رضامندی سے ملک چھوڑنے والے نہیں اس لیے کہ وہ اپنی زمین کے جائز دعویدار ہیں اور مزید اس لیے کہ انھوں نے مزاحمت کی ایک طویل روایت کو مختلف وقتوں میں، مشرق وسطی کے ممالک اور اب ایران کی مدد سے برقرار رکھا ہے۔ وہ ضدی ہیں، لہذا انھیں نظربند، فاقہ زدہ ہونا پڑے گا، انھیں اس وقت تک مرنا ہی ہے جب تک کہ وہ ملک چھوڑنے پہ مجبور نہ ہوجائیں۔ لیکن اسرائیل کے ساتھ اس کے علاوہ بھی مسئلے ہیں۔ اسرائیل کو ”مقید عوام فلسطینوں“ کی ضرورت ہے جس کے بغیر نہ تو موجوہ مذہبی اقتدار کی اور نہ ہی بنیامین نتینیاہو کا ”مخصوص عوام پسندانہ اقتدار” کو باقی رہنے کی کوئی تاویل ہوگی۔ ترکی کے کرد، ہنگیری کے یہودی، ہندوستانی مسلمان اور دوسرے دکھنے والے حیاتیاتی اقلیت کی طرح اسرائیل کے فلسطینی بھی اسٹیٹ کے دائمی مگر مضطرب اقتدار کے لیے گارنٹی کارڈ ہیں۔ یہ مضطرب اقتدار اسرائیل کے اہم ترین دعوں میں سے ہے جس سے وہ امریکا کی ہمدردیاں اور اسلحہ جاتی مدد لیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فلسطینی غائب ہو جائیں یا ملک چھوڑ دیں تو اسرائیل کو مزید خدشہ لاحق ہوگا آیا وہ کن پہ اب توجہ کرے۔ دوسرے ملکوں میں بھی ڈیموکریسی کا رواج آخری شئی ہوگی جسے اسرائیلی مذہبی اور سیاسی جتھہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہیں ڈونالڈ ٹرمپ کا وہائٹ ہاوس بھی اپنے عامل اسٹیٹس کو کھونا نہیں چاہتا۔ اسرائیل کی جارحانہ پالیسی اور جبری آبادیات کا مقصد ایک مسلسل سرحدی منظرنامہ تیار کرنا ہے جس میں فلسطینیوں کا استعمال ایک مستقل مضطرب اقتدار والے اسٹیٹ کی تخلیق کے لیے حد درجہ ضروری ہے۔ لہذا فلسطینی اور روہنگیا عوام ( بطور متصورہ قسمیں جیسے کہ تھیں) ہمیں کیا سکھاتے ہیں؟ حیاتیاتی اقلیتوں کے تمام حل کا ”مسئلہ“ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں، آپ اقلیت کو رکھنا چاہتے ہیں تاکہ آپ ڈیموکریسی کے چند خارجی مظاہر کو نظر انداز کرسکیں یا آپ انھیں ان کی زمین سے، ان کے ذرائع سے ان کا تعلق ختم کرنا چاہتے ہیں، جہاں ان کے وجود کو ایک مستقل جنگجو اور فوج زدہ اسٹیٹ کو کوئی ضرورت نہیں ہو۔ آپ کو یا تو اقلیت کی ضرورت ہے تاکہ ایک مضطرب اقتدار کو زندہ رکھا جاسکے یا ان کے ذرائع کی ضرورت اسی ’حیاتیاتی اقلیت کے خطرہ‘ سے بھی زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں مختلف سیاسی نظام اور علاقوں میں نسل کشی کے مزید کون سے پیرایے نظر آتے ہیں؟ کیا فلسطینیوں اور روہنگیا سے متعلق یہ تاثرات ہماری مزید رہنمائی کر سکتے ہیں___ روہنگیا اور فلسطینی دونوں مسلم ہیں لیکن اسرائیل اور میانمار کے قضیے میں بالکل مختلف طریقے سے فٹ ہوتے ہیں۔ مابعد ۹/۱۱ کے ”مسلم خطرہ“ جیسی بکواس بحث بھی (اس کے علاوہ بھی) منجملہ دو اسٹیٹس کو تشدد کا جواز فراہم کرتی رہی ہیں مگر نسل کشی کے عالمی محرکات اول طور سے صرف ”مسلم“ سے نہیں جڑے ہیں۔ چاہے جس قدر بھی نسلی تطہیر اور انفرادیت کی باتیں کی جائیں، حقیقت یہی ہے کہ تمام نیشن اسٹیٹ کچھ مزعومات پہ منحصر ہوتے ہیں۔ حیاتیاتی اقلیت والی تکثیریت ہمیشہ سے ہی جدید نیشن اسٹیٹ کے لیے ایک خطرہ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اخراج اور نظربندی کی کون سی ترکیب ایک خاص قسم کے نیشن اسٹیٹ کے لیے بہترین ثابت ہوگی۔ اسرائیل اور میانمار دو بنیادی آپشن فراہم کرتے ہیں جو یہی ہے کہ صرف مسلم طبقہ کو نشانہ بنایا جائے۔ مگر آج کی مختلف النوع نسل کشی صرف مذہب سے متعلق نہیں بلکہ مضطرب اور/یا جارح نیشن اسٹیٹ سے بھی متعلق ہے۔
سعد صاحب!بہت بہت شکریہ۔آپ نے دنیا کے اس سنگین مسٔلہ کو ایک صحافی کے ذریعے اردو میں پیش کیا۔آج دنیا میں حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے سیکڑوں ادارے اور انجمنیں موجود ہیں لیکن عالمی سطح پر مسلمانوں کی یہ نسل کشی انھیں کیوں نظر نہیں آتی۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اپنے حکم رانوں کے ذاتی مفادات ہر چیز سے بڑھ کر ہیں۔انھیں اپنے تعلقات کی فکر ہے،وہ ملت کے لیے چنداں فکر مند نہیں ہیں۔بنگلہ دیش میں بہاری مسلمانوں کی سماجی،معاشی اور تعلیمی صورت حال ہمارے سامنے ہے ،پچاس سال کا طویل عرصہ گزر گیا ،ان کی شہریت کا… Read more »
فلسطینی اسرائیلی اقتدار کے لیے ایک ضرورت ہیں جیسے ہندوستان میں مسلمان. بہت خوب…
👍👍👌👌
بہت خوب سعد بھائی…. توسی گریٹ ہو.. 👍