حالانکہ الیکشن کوئی اتنی اہم چیز نہیں ہے جس کے لیے لوگ اتنے باؤلے ہوتے ہیں، کم از کم میری نظر میں!یہ تو ہمارے شیڈول میں داخل ہے کہ ہر پانچ سال پر عادت کے مطابق پولنگ بوتھ پر جائیں اور بیلٹ باکس میں اپنا ووٹ ( جسے ہم بالجبرحق رائے دہی کہتے ہیں) زہر مار کریں، کچھ دنوں بعد ٹیلی ویزن کے سامنے کسی ٹی ٹوینٹی میچ کی طرح کاؤنٹنگ کا مزہ اور اس کے بعد پانچ سال تک خواب خرگوش کا مزہ لیں
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
ویسے ایک بات تو ہے کہ الیکشن کے دوران عام آدمی کی اہمیت بے انتہا بڑھ جاتی ہے، وہ شخص جس کا مہینوں اور سالوں کوئی پرسان حال نہیں کہ آیا وہ جی رہا ہے یا مر رہا ہے، فاقہ کر رہا ہے یا خود کشی کر رہا ہے، دفعتا اس کی آؤ بھگت شروع ہو جاتی ہے، قوم کے ہر رہبر کے دل میں اس عام آدمی کے لیے ہمدردی کا ٹھانٹھیں مارتا سمندر اٹھتا ہے، غم جاں کو غم جاناں بنانے پر تلا رہتا ہے، قوم کے غم میں نہ تو وہ دن کو سو پاتا ہے اور نہ راتوں کو جاگ پاتا ہے،وہ غریب آدمی کے گھر جا کر اس کی تھالی سے کھانا کھاتا ہے ، اسے دلاسہ دیتا ہے، اس کے آنسو پوچھتا ہے، پھر تو کیا! عام آدمی بھی آبدیدہ ہو جاتا ہے کہ ہے خدا! میں تو جھوٹ ہی اس کی نیت پر شک کر رہا تھا، یہ تو بڑا عظیم ہے۔ اگر یہ رہبر حزب اختلاف سے ہوتا ہے تو حکمراں جماعت کی خامیاں نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ، اس کی نظر میں ان پانچ سالوں میں ’’وکاس‘‘ نام کی کوئی چیز نہ تو برآمد ہوئی اور نہ ہی در آمد ، اسے لگتا ہے کہ حکومت گونگی بہری ہے جو صرف لوگوں کو بے وقوف بناتی ہے، اور اگر یہ رہبر حکمراں جماعت سے ہے تو اس کے پاس بھی کم ایشوز نہیں ہے، وہ اپنی ترقیاتی اسکیم کو رائی کا پہاڑ بنا کر دکھاتا ہے، اپنے دور حکومت کے چھوٹے موٹے کارناموں کی خوب خوب تشہیر کرتا ہے ،مخالف جماعت پر طعن وتشنیع کے ڈونگرے برساتا ہے اور ان تمام خطرات سے عوام کو ڈراتا ہے جو مخالف جماعت کے اقتدار میں آنے سے متوقع طور پر وقوع پذیر ہونے والے ہیں وغیرہ وغیرہ …..پھر الیکشن آتا ہے اور عام آدمی اپنا نمائندہ چن کر اقتدار کی گلیوں میں بھیجتا ہے
میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
مجھے رشید احمد صدیقی کا وہ مضمون یاد آرہا ہے جو غالبا ’’الیکشن کی فصل ‘‘ کے نام سے انہوں نے لکھا تھا، جس میں ایک آدمی کو الیکشن کے دن چار پانچ پارٹیوں والے گھیرے رہتے ہیں اور اس نے ان سب سے ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا جس کے عوض میں اس نے بہت سارا مال بھی کمایا تھا…..لیکن اس شخص کا الیکشن کے دن کیا حشر ہوا ….’’پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘، حالانکہ اب ایسا نہیں ہوتا،، اب عموما ایک ہی ووٹر کے پاس کئی ووٹرآئی ڈیاں ہوتی ہیں اور پولنگ کے دن وہ ان سب کا استعمال کرتا ہے، آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض علاقوں میں جتنے مجموعی ووٹ ہوتے ہیں ان سے زیادہ ووٹوں سے ایک مخصوص امیدوار جیت جا تا ہے، مثلا اگر کہیں سو ووٹر ہیں اور ۸۰ فی صد ووٹنگ ہوئی ہے تو وہیں سے کوئی امیدوار ۸۵ ووٹوں سے کامیاب ہو جاتا ہے، یہ اسی کا کرشمہ ہے، ایسے امیدواروں کی نیت پر شبہ نہیں کرنا چاہیے، یہی عوام کے حقیقی نمائندے ہوتے ہیں اور انہیں ’’کے ساز سے جمہوریت کا سوز دروں ‘‘ ہے۔
جمہوریت سے یاد آیا کہ شاعر مشرق اس سے خوش نہیں رہا کرتے تھے ، انہیں شکایت تھی کہ اس نظام میں بندوں کو صرف گنتے ہیں، تولتے نہیں، اقبال کی شکایت اپنے دور میں بجا تھی ، کیوں کہ اس زمانے میں اتنی مشینوں اور ترازوؤں کا بنانا مشکل تھا کہ جس سے پورے ملک کی آبادی کا وزن کیا جاسکے، ظاہر بات ہے کہ تیس چالیس کروڑ افراد کو تولنے کے لیے کثیر سرمائے اور کافی وقت کی ضرورت تھی، اس لیے حکومت نے ان کی اس درخواست پر توجہ نہیں دی، تاہم اب کثرت سے وسائل مہیا ہیں اور اتنی مشینوں کا بنانا بھی مشکل امر نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اب گننے کے ساتھ تولنے کا عمل بھی ہوتا ہے، کون زیادہ اچھی چائے بناتا ہے؟ کس کی سر پر قتل و عصمت گری کے مقدمے ہیں؟ کون اتنے چپکے سے گھوٹالا کر لیتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے کرنے پر بائیں ہاتھ کو تو کجا ، دائیں ہاتھ کی کہنیوں تک کو نہیں معلوم ہو پاتا ہے کہ کیا ہوا؟ البتہ تولنے کے اس عمل میں جس چیز کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہ ہے تعلیم اور ایمانداری، اور سچ ہے کہ حکومت چلانے کے لیے ان دونوں کی ذرہ برابر ضرورت نہیں ہوتی، ہاں وزیر تعلیم اگر آٹھویں یا ہائی اسکول پاس ہو تو بہت خوب!
سچ تو یہ ہے کہ الیکشن کا خمار بڑا ہی زور آور ہے، اس پورے ناٹک میں عوام کے ایک ہاتھ میں لڈو اور لیڈروں کے پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں اور پھر وہ عوام کے ہاتھ کے لڈو کو اسی گھی میں ڈبو کر کھا جاتے ہیں۔عوام اپنے نمائندوں کے لیے آنکھیں بچھادیتے ہیں اور یہ نمائندے پہلے تو انہیں آنکھ دکھاتے ہیں ، پھر آنکھیں سینکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر آنکھیں نکال بھی لیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ عوام اندھی ہو جاتی ہے اور اندھوں میں ہی ایک کانا راجہ بن جاتا ہے جو اس پورے ریوڑ کو ہانکتا ہے، خس کم جہاں پاک۔
موسم کی مناسبت سے زمینی اور پریٹکل باتیں لکھی ہیں،الیکشن کی دھاندلیوں اور نزاکتوں پر بھی خوب روشنی ڈالی ہے،ماشاءاللہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین