ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوگئے ہیں اور اکیسویں صدی کے بھی اٹھارہ سال گذر گئے۔ ہماری تمام تر پریشانیوں میں اہم پریشانی کی وجہ ایک بندر ہے جو پچھلی دو صدیوں سے لے کر آج تک ہمیں پریشان کر رہا ہے۔ جیسے ہی ہم علم و عمل کی بات کرتے ہیں تو زٹاک سے وہ بندر نمودار ہوتا ہے اور ہمیں منہ چڑھانے لگتا ہے۔ مہذب دنیا اور اس سے متعلق تصور کی بات کی جاتی ہے تو پہلے بندر ہمارا استقبال کرتا ہے۔ ہم انسان کی عقل کے ارتقا کی بات کرتے ہیں تبھی وہ بندر آکے اپنی شکل دکھا جاتا ہے اور ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارے دانشوران اس بندر کی بولی سمجھنے سے قاصر ہیں مگر اس کا احترام خوب کرتے ہیں۔ ہمارے سائنس دان ہی بس جانتے ہیں کہ اس بندر پہ کیسے قابو پایا جائے۔ اسے قابو میں کرنے کے لیے دن دوگنی رات چوگنی محنت کی جاتی ہے۔ بڑی بڑی تجربہ گاہیں اس بندر کے نخرے کا سامان مہیا کرنے کے لیے وقف ہیں۔ مورخین کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ اس بندر کے پیچھے پچھلی صدی سے ہی بھاگ رہا ہے۔ اس بندر کی تصویریں ٹیلیویژن اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہم تک بار بار نشر کی جاتی ہیں۔ اس بندر سے متعلق اس قدر باتیں لکھی اور کہی گئیں ہیں کہ ہم پریشان ہو چکے ہیں حتی کہ اب بے وقوفی کی حرکت کرنے پہ ہم خود کو یہی کہتے ہیں ”جانے دو پہلے بھی بندر تھے پھر بندر بن گئے“۔
*ایک لڑکا:*
بھونروں کے پیچھے بھاگتا ہوا ایک لڑکا حیرت سے کیڑے مکوڑوں کو دیکھتا رہتا۔ ایک روز کی بات ہے وہ اپنے مقصد کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بالآخر دو بھونروں کو پکڑنے میں کامیاب ہو گیا اور دیر تک انھیں دیکھتا رہا۔ سال گزرتے رہے اور وہ تعلیم و تربیت کی راہ داریوں میں بھی کیڑے مکوڑوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نہ جانے ان میں کیا تلاش کرتا۔ نصابی تعلیم اس کے مزاج میں اور سوچ میں فٹ نہیں بیٹھتی لہذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اس نے نئی دلچسپیاں وضع کر لیں۔ کیڑے مکوڑے کے ساتھ اسے پرندوں کے انڈوں میں، مہروں میں، پرانی ٹکٹوں میں بھی کافی دلچسپی ہو گئی۔ جیسے ہمارے بچے برسات کے دنوں میں اللہ میاں کی مخملی گائے کے نام سے مشہور کیڑے ڈھونڈتے اور انھیں جمع کرتے ہیں، وہ لڑکا موقعہ ملتے ہی کیڑے ڈھونڈنے نکل پڑتا۔ اس کے شوق کو نئی راہ دکھانے والا اس کا ہم عمر رشتہ دار اور دوست ولیم ڈارون فوکس تھا جس نے کیمبرج کے علاقوں سے اسے نادر ترین منتخب کیڑے مہیا کرانے کا حظ اٹھا لیا تھا۔ ان لوگوں نے کیڑے مکوڑوں کے بہترین انتخاب اکٹھے کیےتھے۔ اس لڑکے کے دور جانے پہ اس کا دوست اس کو خطوط کے ذریعے سے معلومات فراہم کرتا۔ دونوں دوست بچپنے کی بہت سی پراسرار گتھیاں بھی سلجھانا چاہتے۔ مثلا کسی خاص طور کے دیہی پھول کو خاص محلول کے مس کرنے سے پھول کا رنگ بدل سکتا ہے۔ وہ نیچرل علوم اور بایولوجی سے متعلق معلومات کو سمجھنے کے لیے دیوانگی کی حد تک بے چین رہنے لگا۔ اس کے والد کو بھی انہی چیزوں میں دلچسپی تھی۔ لڑکا والد کے ہر عمل کو دیکھتا جس میں باغبانی، کتب بینی اور سائنسی تجربے شامل ہوتے اور اس پر تجسس کی دیوی سوار ہوتی چلی جاتی۔ لڑکے نے اپنے والد سے متاثر ہوکر باغبانی میں مہارت حاصل کر لی، وہ اپنے والد کی تمام کتابیں، دادا کی کتابیں اور جن لوگوں سے والد متاثر تھے ان کی کتابیں بھی ازبر کر چکا تھا۔ اس کے والد اسے ایک ماہر طب کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے مگر لڑکے کے شوق نے اسے طبیب بننے کی جگہ ایک بہترین گھڑسوار اور عمدہ نشانے باز بنا دیا۔ ان سب کے باوجود لڑکے کی رگوں میں جو چیز بہتی وہ ایسا ذوق تھا جو بایولوجی اور نیچرل سائنس میں ڈوب کر ہی اسے سکون فراہم کرسکتا۔ فطرت کو پڑھنے کا نشہ کس قدر عمدہ اور اچھا ہوتا ہے یہ کوئی اس لڑکے سے ہی پوچھے۔ اس کے شوق اور ذوق کا ڈنکا بجنے لگا۔ لوگ اس کی معلومات اور علمی نظر کے سامنے فرشی سلام کرنے لگے۔
*لڑکے کا نام ڈارون تھا:*
چارلس رابرٹ ڈارون بارہ فروری ۱۸۰۹ کو شراپشائر کے ایک ضلع شرسبری میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں سوزینا ڈارون اور باپ رابرٹ ڈارون علاقے کے امیر ترین اطباء اور ساہوکاروں میں سے تھے۔ ڈارون اپنے بھائی بہنوں میں پانچویں نمبر پہ تھا۔ اس کے دادا اراسمس ڈارون ایک بڑے عالم تھے اور سائنس کی دنیا میں مشہور تھے۔ مذہبی اعتبار سے بھی وہ اچھا خاصہ سیاسی شعور رکھتے تھے۔ اس کی دلچسپی نیچرل ہسٹری میں آٹھ سال کی عمر سے ہی قابل ستائش حد تک پروان چڑھ گئی تھی۔ اس کی زندگی کی آٹھویں بہار اس کی دنیا میں خزاں برپا کر گئی۔ اس کی ماں مر گئی۔
*ڈارون سوچ رہا تھا!*
ڈارون نیچرل سائینسز کے میدان میں نام کمانے لگا۔ یہ نام اسے یوں ہی نہیں ملتا بلکہ صبح، شام اور رات وہ بس اپنی دلچسپی کو اجاگر کرتا رہتا۔ کبھی سالوں سال سائنس دانوں کے ساتھ ملاحظے اور سروے کے لیے بڑے سفر پہ نکل کھڑا ہوتا، کبھی علوم و فنون کے ماہرین کو پڑھتا، ان کی کچھ رائے سے اتفاق کرتا اور کچھ سے اختلاف۔ اتفاق کے لیے ثبوت کی ضرورت تو کسی کو نہ ہوتی مگر اختلاف ثبوت بھی مانگتا ہے۔ وہ اپنے ملاحظات کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت اکٹھا کرنے میں لگا رہا۔ اس نے زمینی تبدیلیوں کو سمجھنے کا ہنر سیکھا۔ پرندوں اور ان کی نسلوں کو، ان کی ساخت میں ماحول اور انٹربریڈینگ کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا اور ان سے متعلق اپنے مقالے سائنس دانوں کی محفلوں میں لوگوں کے گوش گذار کرتا۔ چھوٹے بڑے ٹاپووں اور جنگلی علاقوں میں رہنے والے انسانوں کے پاس جاکر ان سے متعلق تمام چیزیں سمجھنے کی کوشش کرتا۔ ڈارون فطری ماحول ملنے پہ بالکل الگ دکھائی دینے لگتا۔ وہ بغور دیکھتا، بغور سنتا اور تمام اعضاء محسوسہ کے ساتھ چیزوں کو محسوس کرتا۔ وہ اپنے پروف اور ثبوت کو اکٹھا کرتا رہتا۔ سائنس کی دنیا میں اس کی بات مانی جانی لگی۔ وہ اپنے پسندیدہ مولفین کو پڑھتا اور انہی پہ تنقیدیں بھی کرتا۔ ان کی غلطیاں اپنی صوابدید اور ثبوت کے ساتھ واضح کرتا۔ بڑے بڑوں اور پڑھے لکھے سائنسدانوں کو اس نے دیوانہ بنا دیا تھا۔ مگر کسی کو نہیں معلوم تھا کہ ڈارون کا علم، سوچ اور تجربات دنیا کے علم اور علم کے تصور کو موڑ رہے تھے۔ ڈارون فطرت کو پڑھتے پڑھتے اس مقام تک پہنچ چکا تھا جہاں سے اسے تمام جانداروں کی اصل ایک ہی جگہ سے نکلتی دکھائی پڑ رہی تھی۔
” کومن ڈیسنٹ“ اور ” ٹری آف لائف“ یہ دو اصطلاحیں ایسی تھیں جو اس وقت کے سائنسدانوں کو بھی اہم ترین اور دلچسپ معلوم ہوتیں۔ ڈارون ماضی کی تابناک روایتوں سے بلاسٹ کرنے کا عادی نہیں تھا۔ وہ اپنا کنواں خود کھودنے والا مزدور تھا۔ فطرت کے مناظر میں گم وہ اپنی معرفت کا لوہا لوگوں سے منوا رہا تھا۔ لوگ اس کی بات پہ آمنا صدقنا کہتے بھی اور ایک بہت بڑا طبقہ اس کے خلاف بھی کھڑا تھا مگر اس کی ہر ان کہی اپنی تمام تر مخالفتوں کے باوجود بالآخر قبول کر لی جاتی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ بنا ثبوت بات نہیں کرتا تھا۔ ان سب کے باوجود معاشرہ اور غیر عقلی مذہبی استبداد کا خوف ڈارون پہ بھی طاری تھا۔ وہ اپنے علمی انکشافات کو دھیرے دھیرے لوگ، علماء، شرفاء، سائنس کے میدان کے ماہرین اور اولی الارباب کے سامنے لاتا۔ اس پہ عذاب اس وقت ٹوٹ پڑا جب اس کے انکشافات سے یہ بات نکل کر آئی کہ بنی نوع انسان دراصل بندر کی ارتقائی شکل ہیں۔ اس نے اپنی ایک کتاب کے شروعات میں اس تامل کو اس طرح لکھا:
“The sole object of this book to consider, firstly, whether man, like every other species, is descended from some pre-existing form; secondly, the manner of his development; and thirdly; the value of differences between the so-called races of man. (Darwin, Charles (1871) The Descent of Man and Selection in Relation to Sex, D Appleton and Company, New York)”.
ترجمہ: ”اس کتاب کا مقصد أولا یہ ہے کہ اس بات پہ غور کیا جائے آیا انسان دوسری اسپیسیز کی طرح کسی پہلی شکل سے نکلے ہیں؛ ثانیا، اس کا انداز نمو و ارتقا، اور ثالثا؛ نام نہاد آدمی کی نسلوں میں فرق کو سمجھنا“۔
مذہبی استبداد کے خوف کے باوجود ڈارون نے اپنا ارتقائی فلسفہ پیش کیا اور اس کے بعد پادریوں کی طرف سے جس عذاب کا اسے سامنا کرنا پڑا تھوڑی سی روشنی اس پہ بھی؟
جزاک اللہ، آپ نے ہمت بندھائی. فری لانسر کے لئے ایک سیریز کی تیاری کی گئی تھی اس کی پہلی قسط ہے…کم ہے مگر بات شروع کرنے کے لئے بہت زیادہ…..
مضمون کی عمدگی اس لیے بھی مسلم ہے کہ مسلمانوں نے بھی کم از کم اپنے بندروں کو مہذب کرنے کا کچھ خیال ضرور کیا… ہماری قوم میں یہ نسل اب بھی من و عن پائی جاتی ہے جن کو ارتقائی عمل سے گزار کے کسی نتیجہ پہ پہنچانا ہے اس لئے لکھتے رہئے اور کچھ بندروں کو بھی بطور مثال تجربہ کیلئے رکھ چھوڑیئے
عمدہ. میرے خیال سے ڈارون کے شواہد اور اس سے اختلاف کرنے والوں کے شکوک. دونوں کو تجزیہ بھی اس سلسلے میں کچھ نئی بات لائے بصورت دیگر ڈارون کا نظریہ اب ازکار رفتہ ہوچکا ہے.