بیانیہ کیا ہے؟
کسی بھی چیز کو کسی مخصوص سانچے میں ڈھالنا اور اسے اپنی ایک تعبیر اور تفسیر دینا دراصل اس چیز کا بیانیہ ہے۔
اہل اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کی صحیح ترجمانی اور تفہیم کی کوشش کریں۔
تبلیغ اسلام کا یہ بڑا ہی اہم اور انتہائی نازک پہلو ہے کہ اسلام کو ہر زمانہ سے وابستہ (relevant) کرکے دنیا کو یہ پیغام دیں کہ اسلام ہر دور کے مسائل کو حل کرنے کی نہ صرف طاقت رکھتا ہے بلکہ اس میدان کا یہ چیمپئن ہے، اس حد تک کہ یہ خود اسلام کی حقانیت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ اس ذمہ داری کی اہمیت کو سمجھنا شاید اس قدر مشکل نہ ہو مگر اس کی نزاکت کا ادراک اپنے آپ میں بڑا ہی مشکل کام ہے۔
(وما يلقاها إلا الذين صبروا و ما يلقاها إلا ذو حظ عظيم) …
حالات کیسے ہی ہوں اور ان کے تقاضے کتنے ہی غیر معمولی یا سنگین ہوں اسلام کا اپنے آپ میں یہ تقاضہ سب پر مقدم ہے کہ کسی مخصوص بیانیہ میں کہیں اسلام کا حقیقی تشخص اور اس کی اصلی تصویر گم ہوکر نہ رہ جائے۔ زمان و مکان سے اوپر اس کی آفاقی تعلیمات کہیں محض کسی مخصوص دور کے تقاضوں کا ردعمل اور ان تقاضوں کی روشنی میں دی گئی تعبیر اور تفسیر کا چربہ بن کر نہ رہ جائے کیونکہ جس رب نے اس شریعت اور اس دین کو نازل فرمایا ہے اسی نے جب اس دین و شریعت کو قیامت تک رہنے والا قرار دیا ہے تو اس کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ اس اسلام کے اندر فطری طور پر یہ کمال موجود رہے کہ وہ اپنی سادگی مگر پرکاری سے نئے حالات کا سامنا کرنے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے پر قادر رہے۔
اس میں بیک وقت انسانی سماج کے مختلف طبقات کا مطلوب بھی رہے اور زمان و مکان کے بدلتے تقاضوں کے مطابق رہنمائی کا سامان بھی میسر رہے اور واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے اندر وہ قوت و طاقت ہے، وہ خود نہ بدل کر بدلتے زمانے، حالات میں انسانیت کی تقدیر سنوارنے اور لوگوں کی تقدیر بدلنے والی تعلیمات اپنے اندر رکھتا ہے۔
اسی حقیقت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ وہ آوازیں ہیں جو مکمل اسلام کے بجائے محض قرآن کو ایک ابدی کتاب مانتے ہیں اور پھر نئے زمانے کے مطابق از سر نو تفہیم قرآن یا نئے حالات اور ذہن کے مطابق تشریح اسلام کا راگ الاپتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی بیانیہ کی؛ ہر دور کے حالات کے مطابق اسلام کو ماضی کے ساتھ ساتھ انسانیت کے حال اور مستقبل کے غموں کا مداوا ثابت کرنا ایک بڑی ذمہ داری ہے مگر یہ بھی اہم ہے کہ اسلام کو کچھ مخصوص حالات کے تناظر میں مخصوص بیانیہ کا رنگ دے کر اس کے فطری حسن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی نہ کی جائے۔
تاریخ اسلام میں ایسے کئی ادوار آئے اور کئی بیانیے وجود میں آئے۔ منطق و فلسفہ کی یلغار کے دور میں کلامی بیانیہ شاید بعض اہل علم کو وقت کی ایک ضرورت لگا ہوگا مگر اس بیانیہ نے سادہ اور فطری اسلامی عقائد کو کس قدر مشکل بنادیا یہ اہل علم سے مخفی نہیں۔
عصر حاضر میں اسلام کا “جہادی بیانیہ” اور پھر اس کے بعد دہشتگردی کے الزامات کی بوچھاڑ میں اسلام کا “سلمی بیانیہ” دو ایسے اہم واقعات ہیں جن سے جزوی طور پر صحیح اسلام کے دو بہت حد تک باہم متضاد بیانیے وجود میں آئے ہیں۔ ان میں سے ہر دو کی زد میں اسلام کی کون کون سی تعلیمات آئی ہیں ان کا اندازہ لگانا اہل علم کے لئے مشکل نہیں۔ وقتی طور پر شاید ان میں سے ہر ایک بیانیہ کی تائید میں کچھ آوازیں اٹھیں، ہر ایک بیانیہ کی افادیت ثابت کرنے کے لئے معقول یا غیر معقول عذر بھی تلاش کئے جائیں لیکن اہل علم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کی ہمدردی کسی مخصوص بیانیہ سے زیادہ اصل اسلام سے ہونی چاہئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے “اہل علم” کا یہی کردار متعین فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہر آنے والی نسل میں سے بہتر لوگ اس علم (دین) کے حاملین بنیں گے ۔ جو غلو پسندوں کی تحریف، باطل پرستوں کی باطل پرستی اور جاہلوں کی تاویلات کو دین سے الگ اور جدا کرتے رہیں گے۔۔
(رواه البيهقي وصححه الألباني في تخريج المشكاة)
عصر حاضر کا ایک اور بیانیہ بھی بڑا اہم ہے اور اس کے علمبردار بھی کئی ایک ہیں اور ان کے متبعین بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ وہ ہے “عقلانی بیانیہ” یا “جدت پسندانہ بیانیہ” سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور معلومات کا سیلاب (جسے عربی میں الانفجار المعرفي اور انگریزی میں (Information or knowledge explosion) سے تعبیر کیا جاتا ہے) نے نئے قسم کے حالات پیدا کئے ہیں ان حالات کے رد عمل میں جو ذہن وجود میں آیا ہے اس کو مطمئن کرنے کے نام پر وجود میں آنے والا یہ بیانیہ بڑے دور رس نتائج مرتب کرنے والا ہے ۔۔
کسی بھی مفکر کی متاثر کن فکر کی طرح وقتی طور پر یہ بیانیہ اسلام کو اس جدید ذہن کے نزدیک زمانہ سے پوری طرح ہم آہنگ ( relevant) ثابت کرنے کا دعویدار تو ہے اور بہت ساروں کے نزدیک یہ دعوی مسلم بھی ہے مگر قانون الہی کے مطابق جب حالات بدلیں گے، اور یقینا بدلیں گے- تو یہی بیانیہ مکمل طور پر نئے حالات سے ہم آہنگ نہیں ہو پائے گا اور وہ (irrelevant) ہو کر رہ جائے گا۔ المیہ یہ ہوگا کہ اس وقت یہ معاملہ بیانیہ کا نہیں بلکہ اسلام کا بنادیا جائے گا۔ کیونکہ حال میں کسی مخصوص بیانیہ کو حقیقی اسلام قرار دینے کا مطلب یہی ہوگا کہ مستقبل میں نئے اور بدلے ہوئے حالات میں بیانیہ نہیں بلکہ حقیقی اسلام ہی (irrelevant) بن جائے گا۔
یہ عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ ایسے ہی بیانیے تجدیدی کارنامہ شمار کئے جاتے ہیں۔ تجدید دین دراصل دین کی نئی تعبیر یا نئے بیانیہ کا نام نہیں بلکہ اس کے بالکل برعکس مرور زمانہ کے ساتھ افراد کے ہاتھوں دین کی بدلی ہوئی شکل کو پھر سے اس کی اصل کی طرف لوٹانے اور امت کو دین سے جوڑنے کے باب میں علمی و عملی دونوں سطح پر غیر معمولی کارنامہ انجام دینے کا نام تجدید دین ہے۔ اسی لئے تبلیغ اسلام ہو کہ تفہیم اسلام اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسلام کو، اس کی سادہ تعلیمات کو جوں کا توں پیش کرنے کے بعد ہی اس کو نئے حالات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے یا چیلنجز کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے۔
اس کے برعکس نئے بیانیہ کی حاجت محسوس کرنے والے ذہن خود شکست خوردہ و بیمار ہیں تو وہ کیا کسی ذہن کا علاج کریں گے اور کیا اسلام کی برتری کا فریضہ انجام دیں گے ۔ نئے حالات کے مارے یہ ذہن خود ایک مسئلہ ہیں یہ مسائل کا حل دینے والے نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کس قدر معنی خیز ہے
(نضر الله امرأ سمع منا شيئا فبلغه كما سمعه)
اللہ اس بندے کو ترو تازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی پھر اس کو ہو بہو ویسے ہی پہونچادیا جیسے اس نے سنا
(رواه الترمذي وابن ماجة وصححه الألباني في تخريج المشكاة )
ماضی میں منطق اور فلسفہ کی یلغار کے مقابلے میں جب ایک طبقہ کلامی بیانیہ کو وجود میں لارہا تھا تب اہل سنت محدثین کرام نے اسی طرز تبلیغ و تفہیم کو اپنائے رکھا۔ تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیا اور فلسفہ و منطق کی موشگافیوں کا الگ سے سدباب بھی کیا۔ اسلام کو ایک نیا بیانیہ دینے کی کوشش نہ کی۔
قصہ مختصر یہ کہ اسلام کی ابدی و آفاقی تعلیمات کو وقتی بیانیہ سے زیادہ اس کی حقیقی شکل میں پیش کردینا ہی سب سے بہتر بیانیہ ہے۔
ماشاءاللہ لفظ لفظ مین گھرائی کلمہ کلمہ میں علمی تبحر کی طرف اشارہ اور جملہ جملہ میں کاتب کی اسلامی اصولون پر گھری نظر اور پکڑ پردلالت کرتی تحریر مزہ آگیا اللہ آپکو مزید فرصت کے لمحات عطا فرمائے تاکہ آپکے رشحات وشذرات سے ھم مستفید ھوتے رھیں
ماشاء اللہ
آپ نے تعلیق کا حق ادا کر دیا
اس نکتہ پہ بات کرنے والا انداز صرف اس لئے اچھا نہیں کہ موضوع ایک بہت ہی پیچیدہ سیاق کی طرف اشارہ کر رہا ہے بلکہ قرآن اور احادیث کی حتی المقدور انفارمیشن سے نئے کوائف سامنے آ سکتے ہیں. چونکہ معرفت کا ایک بہت بڑا، گہرا، اور پیچیدہ تعلق کلام، فلسفہ، شاعری، ادب سے بھی ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح قرآن، احادیث سے ہے. معرفت کا نیا تعلق اور نئی تفہیم ایک گمراہ کن درجہ بندی کے علاوہ ایک توحیدی تصور کی تجسیم یا توحید کی تلاش سے بھی منسلک ہے. ہمارے عہد کو age of information بھی… Read more »
آپ نے مزید کھولنے کی بات کی ہے ۔۔ میرا خیال ہے بات واضح ہے ۔۔۔ میں نے دور حاضر کےجس “نئے بیانیہ ” کی بات کی ہے اس میں جدید حالات میں قرآن و سنت سے روشنی لے کر انسانیت نوازی کا فریضہ نباہنے سے فرار کی بات دور دور تک نہیں ہے اور نہ مقصود ہے ۔۔۔ لہذا جو بھی جدید ہے شدید و بغیض ہے والی بات بے محل ہے ۔۔ اس سلسلے میں تو ہمارا موقف یہی ہے اور ہونا چاہئے کہ مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ… Read more »