تقلید اور اجتہاد کے بیچ کا جیم

سعد احمد

شب کے جاگے ہوئے ستاروں کو نیند آرہی تھی۔حجلۂ خاص میں سوچوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ دوالیب پہ سجے ہوئے دواوین، ضخیم مجلدات اور کتب مقدسات اس غرور و نخوت سے دھنسے بیٹھے تھے گویا ملوکیت کا گَنڈاسا تخت کے نیچے دبا ہو اور ہر شخص تخت کی ہیبت سے مراجاتا ہو۔ اس پر طرہ یہ کہ چھوٹے چھوٹے کتابچے، پمفلٹ، نصیحت نامے، تبلیغ کے پرچے اڑ اڑ کر ان معتبر کتب و دواوین پر یوں چڑھائی کرتے جیسے ان کے کاغذی حملے سے ان مجلدات کی چرمی دستیوں کو، سنہری نقوش اور تانبے کے کام کو یک بارگی بے معنی و بے رنگ کردیں گے۔ وہ تو خیر ہو میاں میزان کا جس نے ہوا کی جانب اشارہ کیا کہ وہی فی الحال حاکم ہے۔ وگرنہ کس کی مجال کہ ان کتب و دواوین کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔
شکر خورے کہتے دیکھا ہمارے استاد کے اس پمفلٹ نے ایک آیت اور ایک دلیل سے پوری کی پوری جلد کی بخیہ ادھیڑ دی۔ اور ساتھ مؤلف پہ بھی علم کے غبن کا دعویٰ ٹھونک دیا۔ ہم نے ملوکیت کے پائنچہ کو تنگ کردیا۔ ہماری لٹی پٹی خستہ اور چند صفحات پہ مشتمل تحریروں نے شعلہ برپا کردیا۔ ہم گرین ریولیوشن کے قائل تھے اور دہلیز پہ ہم نے ریولیوشن لا کھڑا کیا۔ دیکھا۔۔اب ہر جانب اسلام ہو گا، ہر درخت کے پتوں پہ ہمارا نام ہوگا۔ کام تو ہم نے کیا ہے، ہر گام پہ اب اسلام ہوگا۔ ان موٹے موٹے فقہیات سے کیا بنے گا جس نے دنیوی بادشاہت کی خوشنودی کے لیے اسلام جینے کی فیکٹری محض چند قیاس پہ قائم کر ڈالی۔ ہمیں دیکھو، ہم خالص ہیں، ہم نے اسلام کو خالص کردیا۔ ہم نے قیاس پہ نہیں علم یقینی پہ اسلام کی بنیاد رکھ ڈالی۔ اب ہر طرف اسلام ہوگا۔
میاں پُھلن! ایک جرعہ پانی تو لانا۔۔۔ دیکھو یہ بھی خالص لگ رہا ہے۔
واہ واہ۔۔ واہ واہ
دیکھو بھئی وہ دور ٹیلے کے اس پار سے کیا حرکت کرتا نظر آرہا ہے؟
میاں دیندار بازیگر ذرا دیکھنا
“صاحب شاید ایک جم غفیر ہے“۔
میاں دینی تعبیرات کے مرغولیے آپ بتائیے
“صاحب شاید جناتوں کی ایک جماعت ہے“۔
امے ہٹو یار!
شریعت کے طمطراق لشکر، تم ایک جست میں جاؤ اور پتہ کر آؤ۔۔۔سرکار! ”شاید صلیبیوں کا داغا ہوا کوئی نیا گولہ، منجنیقی یا نیوکلئیر، پکا نیوکلئیر ہی ہے“۔
اے موٹی موٹی کتابوں پہ سوار عہد وسطیٰ کے تقلید کی قلوپطرہ، آپ کی صوابدید کیا کہتی ہے؟ ”کچھ نہیں صاحب یہ ایک نئے طور کا غبارہ ہے جو دیکھے وہ نشہ میں جو نہ دیکھے وہ نشہ میں، اپنے اپنے امام کو تھام لو۔۔۔ یہ ایک افیون ہے ہم سب کو نشہ میں مبتلا کردے گا“۔
اے فقہیان وطن، دین کے معمہ ساز، تم بتاؤ وہ کیا شئی ہے؟
“صاحب قیاس کریں تو شئی ہے نا کریں تو لاشئ ہے“۔
کیا!!!
اے مورخین کے چودہوں طبق ذرا اپنے ڈیٹا کھنگالیے اور بتائیے کہ وہ کیا شئی ہو سکتی ہے۔صاحب! ”جمل، جمھرة انساب، یا پھرجُمْجُمَةُ، زوابع الکفر والكفار، یا پھر ہی۔مین، ایک ہیرو یا نسل پرست نجات دہندہ“ ۔ہششش سب ملا دیا۔ بس مورخ گیری کرتے رہنا۔
اے فلسفیوں، کیا منہ میں دہی جما لی ہے تم بھی تو کچھ کہو، “صاحب، وعدہ کیجیے جاں بخشی کریں گے، حنابلہ کے سامنے نہ پھینک دیجیے گا۔ راز رکھیے گا۔ صاحب! وہ عقل کی کسوٹی ہے جو تمام مذہبی بودوں اور بے عقلوں کو دینی عقلیت کی راہ بتائے گی“۔
اے سر پہ کفن باندھنے والو، نص صریح کی سُتلی کو تھامنے والو۔۔۔ کچھ آپ بھی بولیے؟
”ہم کیا بولیں.. ہمارے سروں کو دیکھیے ہمارے سروں پہ ایسی گُلٹھیاں نکل آئیں کہ اب اس میں شرع کے علاوہ کوئی بات گھسنے والی نہیں۔ ہم تو بدو ہیں یہی ہماری طاقت بھی ہے۔ ہم اونٹ پہ سوار ہوتے ہیں اور ہمارے اذہان نص کی پیٹھ پر۔ صاحب ہم تو بس جھنڈے گاڑ سکتے ہیں جہاں آپ چاہیں وہاں زحل، مشتری، عطارد یا وائٹ ہاؤس اور الكنيست میں۔ ہم تو نص کے حکم کے غلام ہیں اور متن کے فرمان بردار۔ ہمیں کچھ نہیں دکھ رہا۔ صاحب“۔
اے مجتہدین کی جماعت، قل ماشاء؟ ”صاحب اکسیر ہے اکسیر۔ کل تک جسے ہم کہتے تھے اجماع وہی زنجیر ہے زنجیر۔ جس سے ہم نابلد تھے اور جس پر ہم عمل کیا کرتے تھے وہی تو یہ ہے۔۔۔ فرنگیوں نے اسے بھی لوٹ لیا۔۔۔ اسے ڈیموکریسی کہنے لگے۔ جب کہ یہ اسلام کا شورائی نظام ہے۔مجتہدین کی عقل کو سلام انھوں نے صدیوں تک اسے فہم کے اندرونی کیسہ میں سنبھالے رکھا کہ اکیسویں صدی آئے گی تب مجتہدین اپنے ید بیضا کو اٹھائیں گے اور بتائیں گے کہ یہ شورائیت دراصل اسلامی ہے۔۔۔ جمہوریت بھی ہماری ہی تھی“۔
آؤ سب مل کر ایک زبان بولیں اسلام میں جمہوریت ہے۔۔۔اسلام ایک جمہوری مذہب ہے۔۔۔
اسلام کے اندر جمہوریت بھی ہے۔
اوئے شاوا!!!
اسلام میں اجتہاد ہے یا نہیں۔۔۔ تقلید ہے یا نہیں۔۔۔ جمہوریت ضرور ہے۔
کیونکہ اسلام جمہوری دین۔۔ ارے.۔۔ جمہوری مذہب۔۔ ارے جمہوری فکر۔۔ ارے۔۔۔ جمہوری عمل۔۔۔ ارے۔۔ جمہوری نظام۔۔۔ ارے۔۔ جمہوری امکان ارے۔۔۔ ارے۔۔ ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ چلو چھوڑو۔۔ جو بھی
بس جمہوریت کے آگے تقلید ہوتی ہے اور پیچھے اجتہاد۔
باقی سب للّن ٹاپ۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
رفیق احمد رئیس سلفی(علی گڑھ)

محترم سعد صاحب!ذہن سازی اور فکر کی ترسیل کے لیے ایسا اسلوب اختیار کریں جو اکثریت کی سمجھ میں آئے۔کئی بار پڑھنے کے بعد مقصد اور مشار الیہ کی کچھ کچھ تفہیم ہوسکی پھر بھی کچھ جملے لا ینحل ہی رہے۔انگریزی ادب میں جس فکشن نے قبول عام کا درجہ حاصل کرلیا ہے،شاید اردو ادب اس کا متحمل نہیں ہے۔بطور خاص ہندوستان میں جہاں اردو زبان دن بہ دن کمزور ہوتی جارہی ہے۔ہمیں آپ کے افکاروخیالات کی ضرورت ہے کیوں کہ آپ کوالیفکیشن کے اعتبار سے معاصر دنیا میں مذہب بطور خاص اسلام کے تعلق سے جو مکالمہ جاری ہے… Read more »