عربی زبان کو درپیش مسائل اور ان کا حل

ریاض الدین مبارک

زبان انسان کا وہ طرۂ امتیاز ہے جس کے ذریعے وہ دیگر مخلوقات پر فوقیت پاتا ہے اور دوسرے جانداروں سے ممتاز ہوکر ناطق کہلاتا ہے۔ نطق کی اس صفت کے اظہار کے لئے کوئی نہ کوئی زبان بھی ودیعت کی گئی ہوگی جس سے خالق ومخلوق میں رابطہ ہوا ہوگا۔ حضرت انسان جس کی ابتدا آدم علیہ السلام سے ہوتی ہے، وہ آدم جس کی تخلیق اللہ نے اپنے ہاتھوں سے مٹی کے خمیر سے کی لیکن وہ تخلیق اس زمین پر نہیں بلکہ عالم بالا میں ہوئی، وہ زبان سے محروم نہ رہا ہوگا۔ پھر آدم کی پسلی سے حواء کو پیدا کیا گیا اور آدم وحواء دونوں جنت کے مکین بن کر داد عیش دیتے رہے۔ ناگہاں ایک وقت ایسا آیا کہ یہ دونوں شیطان کے بہکاوے میں آ کر اللہ کی حکم عدولی کر بیٹھے۔ پھر غضب اللہ کا کہ وہ مخلوق جس کی خاطر یہ کون ومکان معرض وجود میں آیا، فرشتوں نے جس کا سجدہ کیا، جس کی وجہ سے شیطان سرکش ہوا اور اللہ کا نافرمان بن کر مردود و ملعون قرار پایا اور ہاں وہی جسے اشرف المخلوقات کہا گیا اس کی ایک خطا پر اللہ تعالی اتنا ناراض ہوگیا کہ بطور سزا دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر اس زمین پر اتار دیا جہاں آج ہماری بودوباش ہے۔ ذرا غور کریں وہ وقت ان دونوں پر کتنا کٹھن گزرا ہوگا جب دونوں جنت سے نکل کر اس دنیا میں آئے اور الگ الگ جگہوں پر ایک دوسرے سے بیزار غبارِ راہ بن کر یہاں وہاں بھٹکتے رہے۔ وقت اور حالات کے تھپیڑے کھاتے ہوئے برسوں بعد جب دونوں ملے تو اللہ کی بارگاہ میں ندامت سے سر جھکا کر پکار اٹھے کہ اے ہمارے پالنہار ہمیں اقبال جرم ہے کہ ہم نے خود پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہمیں خسارے کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
یہ لوگ افہام وتفہیم کے لئے جنت میں سکونت کے دوران کون سی زبان استعمال کرتے تھے کچھ پتہ نہیں اور اس کی معرفت سے ہمیں کوئی سروکار بھی نہیں۔ البتہ دنیا میں نازل ہونے کے بعد دونوں میں جب ملاپ ہوا تو باہمی رابطے کا ذریعہ کیا رہا ہوگا؟ انسانی علوم کے ماہرین anthropologists اور لسانیات کے ایکسپرٹس خاموش ہیں۔ کسی نے اگر کچھ کہا تو وہ محض قیاس آرائی ہے، دلیل و شواہد کسی کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اب چاہے انہوں نے اشاروں یا مختلف آوازوں کی مدد سے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کیا ہو یا جس طرح اللہ نے حضرت انسان کو بہت سارے دوسرے فضائل سے نوازا کسی واضح ترین زبان سے بھی سرفراز کردیا ہو۔ خیر جو بھی ہو کچھ نہ کچھ ضرور رہا ہوگا۔ ویسے امکان تو اس بات کا بھی ہے کہ اگر اللہ تعالی اس اشرف المخلوقات یعنی آدم وحواء کو در بدر بھٹکنے کے لیے الگ الگ مقامات پہ بے یارو مددگار چھوڑ سکتا ہے تو بطور سزا انہیں زبان سے بھی محروم رکھا ہو کہ جاؤ وقت اور حالات خود ہی تمہیں سب کچھ سکھا دیں گے۔ ایسی صورت میں انہوں نے پہلے اشاروں سے کام لیا ہوگا رفتہ رفتہ زبان کی تشکیل ہوئی ہوگی اور پھر جب تک وہ مختلف قبیلوں اور گروہوں میں منقسم ہوئے ہوں گے متعدد زبانیں بھی پروان چڑھی ہوں گی۔ انہیں میں سے کچھ زبانیں ترقی کے منازل طے کرکے ہم تک پہونچیں اور کچھ نیست ونابود ہوگئیں!
یاد رہے زبان چونکہ رابطے کا ذریعہ ہے اسی کی مدد سے ترسیل معلومات اور تبادلۂ خیالات کیا جاتا ہے۔ انسان کو جب قوت گویائی کا شرف حاصل ہے تو دیر سے ہی سہی کوئی نہ کوئی زبان اسے ضرور عطا کی گئی ہوگی جو بعد میں ترقی کرکے مختلف فروع میں بٹ گئی ہوگی۔ واضح رہے آج بھی چند کلومیٹر کے بعد ایک ہی زبان کے مختلف لہجے وجود میں آجاتے ہیں اور پھر مسافت کی دوری کے ساتھ ساتھ زبان بھی الگ ہیئت اختیار کرتی جاتی ہے یہانتک کہ فاصلہ جب بہت زیادہ لمبا ہوجاتا ہے تو وہ بالکل جدا ایک ناقابل فہم زبان ہوجاتی ہے۔
لسانیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ آج دنیا میں ہزاروں مختلف زبانیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ زبانیں ایک خاص وقت تک اپنی تابانی برقرار رکھتی ہیں پھر تیزی سے ناپید ہونے لگتی ہیں۔ پھر کچھ نئی زبانیں وجود میں آتی ہیں جو پرانی زبانوں کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل جاتی ہیں۔ زبانوں کی ترقی یا تنزل کے پیچھے کچھ فطری اسباب کار فرما ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ایک زبان فروغ پاتی ہے تو دوسری فرسودہ ہو کر نابود ہوجاتی ہے۔ کچھ زبانیں مصنوعی بھی ہوتی ہیں مثلاً وہ زبانیں جو (Computers) میں استعمال ہوتی ہیں یا کچھ دوسرے الیکٹرانک یا برقی ڈیوائس میں مستعمل ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آدم علیہ السلام کی زبان عربی تھی لیکن ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے بس ہوا میں ایک تیر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یوں تو عربی زبان کب اور کن مرحلوں سے گزر کر پروان چڑھی کچھ نہیں پتہ لیکن لسانیات کے کچھ اوراق بتاتے ہیں کہ اسماعیل علیہ السلام سے اس کی شروعات ہوئی اور ان کی نسل میں اسی زبان کی ترویج ہوئی۔ اسلام سے پہلے جن زبانوں کے آثار ملتے ہیں وہ عربی میں بہت کم ہیں۔ یہانتک کہ فتوحات اسلامیہ سے پہلے مصر والے بھی عربی زبان نہیں بولتے تھے۔ وہ نوبیہ، قبطیہ، ھیروغلوفیہ، آرامیہ اور یونانیہ وغیرہ بولتے تھے۔ آج بھی دمشق کے مضافات صیدنایا اور معلولا میں چلے جائیں وہاں مسیحی اور مسلم دونوں سریانی اور آرامی زبانیں بولتے نظر آجائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی عیسی علیہ السلام کی زبان یہی آرامی زبان تھی اس لئے وہ اس زبان سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔
انسان حتی الامکان اپنی تمام مذہبی، ثقافتی اور لسانی خصوصیات کے ساتھ جینے کا حوصلہ رکھتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے جو قوم اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرپاتی اس کا رشتہ ماضی سے کٹ جاتا ہے وہ چاہے جتنا درخشاں رہا ہو۔ ہمارا موضوع یہاں عربی زبان ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ عربوں کا رشتہ گلدستۂ عربی سے کتنا استوار ہے۔ عرب اسکولوں میں عربی زبان تو پڑھائی جاتی ہے لیکن اس نظریہ سے نہیں کہ اس سے زبان کو فروغ ملے بلکہ ایک دینی جذبہ سے سرشاری اور خانہ پری کے طور پر۔
عربی زبان کے ساتھ دینی جذبے کا لگاؤ مفید ہے لیکن مومنین کے نیک خواہشات اور پر امید نعرے زبان کو تازگی بخشنے کے کیے ناکافی ہیں۔ قرآن کریم جیسی مقدس اور لا ثانی کتاب کا عربی زبان میں پایا جانا اس کی بقا کا ضامن ضرور ہے لیکن عربی زبان کو سماجی زبان بن کر قائدانہ رول ادا کرنے کے لئے زمانے کے نئے تقاضے بروئے کار لانا بہت اہم ہے۔ اسی طرح عربی زبان کا تجزیہ کرتے وقت صرف دینی زاویے کو مد نظر رکھ کر بات کرنا قطعا درست نہیں ہے۔ انصاف تو تب ہوگا جب عربی کا تجزیہ ثقافتی، سماجی، سیاسی، علمی، تفریحی، سمعی وبصری اور دینی ہر پہلو سے کیا جائے۔ کسی بھی زبان کا تجزیہ کرنے کے لئے لسانیات کے ماہرین کی بات زیادہ معتبر سمجھی جائے گی کیونکہ یہ لوگ اپنے ریسرچ میں زبان کو ہر زاویے سے پرکھتے ہیں۔ اس کے عروج و زوال کے اسباب کی اسٹڈی کر کے خامیوں کی نشاندہی اور اسے بہتر بنانے کے تجاویز پیش کرتے ہیں۔
عربی زبان کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ دینی امور کے فضلاء عربی زبان کو جذباتی انداز میں قرآن کریم سے جوڑ کر مذہبی تقدس کا ایسا راگ الاپنے لگتے ہیں کہ اگر کسی نے عربی زبان کی زبوں حالی کا نام بھی لیا تو انہیں اس کا تقدس پائمال ہوتا نظر آنے لگتا ہے۔ پھر اسکی فضیلت ثابت کرنے کے لئے وہ زمین وآسمان کے قلابے ایک کردیتے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ ان حضرات کی باتیں موضوعیت سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہیں۔ ماضی کے کسی دور میں اگر حکام یا علماء کرام کی طرف سے عربی زبان سیکھنے پر زور دیا گیا تو وہ اسے وحی سمجھ کر امر واجب کا مقام عطا کرکے مسلمانان عالم کو اس مخمصے میں ڈال دیتے ہیں کہ عربی زبان سے نابلد مسلمان اپنے اسلام کو خطرے میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جب عرب اسکالرز عربی کا ماتم کرتے ہوئے عربی زبان کی حد درجہ پستی کا شکوہ کرتے ہیں تب بھی یہ عالی دماغ لوگ جو عربی حروف کے ہر ایک نقطے میں تقدس کا ایک بلند ترین مینار دیکھتے ہیں، غرور سے کہتے ہیں کہ عربی زبان کا مستقبل تابناک ہے کیونکہ اس کے ساتھ خدا کی خاص عنایت ہے۔
ان کی ایک دلیل یہ بھی ہوتی ہے کہ آج امریکہ وبرطانیہ اور دیگر ممالک میں عربی زبان کا بڑا رواج ہے۔ اس بابت میں صرف اتنا کہوں گا کہ جب غیر منقسم ہندوستان میں برطانیہ کی دلچسپی تھی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اردو کے لئے بہت خدمات انجام دئے لیکن جب ان کی ترجیحات تبدیل ہوئیں انھوں نے اردو زبان اور اس کی آبیاری سے فورا کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اہل مغرب کی وہی محبت آج عربوں کے پاس پٹرول کا ذخیرہ دیکھ کر عربی زبان سے ہے، جاپان اور چین کی مضبوط اقتصادی حالت کے باعث جاپانی اور چینی زبان وادب میں ان کی دلچسپی ہے۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو اہل زبان کے علاوہ دیگر لوگوں میں کسی دوسری زبان اور اس کے ادب کی اہمیت کا تصوّر اس ملک کی اقتصادی برتری اور سیاسی اہمیت سے مشروط دکھائی دے گا۔ اس تصور کا محور چاہے جتنا بڑا ہو، کسی زبان کی ترقی کی علامت نہیں بن سکتا۔ البتہ سامانِ تجارت فروخت کرنے کے لئے عالمی منڈی میں اس زبان کے بولنے اور سمجھنے والوں کی قدرو قیمت کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔
زبان چونکہ ایک تاریخی تسلسل سے گزر کر جوان ہوتی ہے۔ اس میں مد وجزر کا آنا اور نشیب وفراز کے مراحل سے گزرنا فطری امر ہے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حقائق کا سامنا جذباتیت سے نہیں سنجیدگی سے کریں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عربی زبان دنیا کی ان چند زبانوں میں سے ایک ہے جو صرف زندہ ہی نہیں بلکہ اہم ترین ہیں۔ اس کے باوجود آج اسے ایسے سنگین قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے جنہوں نے بلا کم وکاست ایک پرشکوہ اور سربلند زبان کی حیثیت سے عربی زبان کی وسعت کو روک دیا ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب سائنس اور دیگر علوم وفنون میں عربی زبان کی حصہ داری نمایاں تھی۔
اس ضمن میں سب سے پہلا چیلینج جو درپیش ہے وہ ہے عرب دنیا میں سیاسی صورت حال کی ابتری جو عربی زبان میں کسی شیئ پر فخر واعزاز پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو عربی زبان کو حاشیہ پر لا کھڑا کرتی ہے۔
دوسرا مسئلہ گلوبلائزیشن کا ہے جس نے مغربی ثقافت، خیالات، رویہ اور وہاں کے رواجوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس ناحیے سے عرب قوم واقعی ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ وہ اتحاد اور ترقی دونوں سے محروم ہیں جبکہ مغربی ممالک متحد بھی ہیں اور ترقی یافتہ بھی۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ عربوں کی دنیا میں مختلف سیاسی وفاداریوں اور وابستگیوں نے عربی زبان پر بڑا منفی اثر ڈالا ہے۔
چوتھا بڑا چیلینج یہ ہے کہ معیاری یا فصیح عربی کا استعمال اب گھروں، اسکولوں، ورکشاپوں اور گلی کوچوں میں بالکل نہیں ہوتا۔ اس کا استعمال صرف ثقافتی وادبی کانفرنسوں اور دیگر تقریبات کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ فی زمانہ مختلف عربی لہجے ہی مواصلات کے سرکاری وسائل ہیں، اس کے علاوہ غیر ملکی زبانیں تو ہیں ہی۔
دور حاضر کا ایک بڑا چیلینج یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ پر عربی کا معیار کافی خراب ہے۔ اسی وجہ سے نوجوان عرب مردوں اور عورتوں کی اکثریت ویب سرفنگ اور عربی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں پر ریسرچ کے لئے انگریزی ودیگر زبانوں کا استعمال کرتی ہے۔
یہ مسئلہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالم عرب میں ناخواندگی کی شرح اوسطا 20-25 فیصد ہے جبکہ کچھ ممالک جیسے یمن، مصر، سوڈان، مغرب، موریتانیا اور صومالیہ وغیرہ ایسے بھی ہیں جہاں ناخواندگی 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ عرب ایک طرف ترقی یافتہ ممالک سے کوسوں پیچھے ہیں تو دوسری طرف لکھنا پڑھنا جو ہر فرد کی ایک بنیادی مہارت ہونی چاہئیے وہ بھی مفقود ہے حالانکہ قرآن کریم جیسی مقدس کتاب عربی زبان میں ہے جو کم از کم عربوں سے جہالت کو محو کرنے کے لئے کافی ہے۔
عربی زبان کو اس چیلینج کا بھی سامنا ہے کہ عرب اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جو تعلیمی طریقۂ کار نافذ العمل ہے وہ آج دنیا کی تمام جدید ٹیکنالوجیوں سے لدی ضروریات کو کسی طرح پورا نہیں کرتا۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب حضرات اپنے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں رائج تعلیم کے اصولوں اور اپنائے گئے طریقوں سے بے حد مطمئن ہیں جو حقیقت میں بالکل گھسے پٹے، فرسودہ اور نا قابل عمل ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر چیلنجیز بھی ہیں جو عربی زبان کی رفعت کو سبوتاژ کرنے کے در پے ہیں۔ ایک مثال تو یہی ہے کہ عربی ادارے اور اکیڈمیاں فصیح عربی زبان کو مواصلاتی زبان میں مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ دوسری مثال یہ ہے کہ عربی زبان میں تحقیقاتی مراکز ناپید ہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ غیر فعال ہیں۔ پھر عربی زبان کو ایک ایسی زبان کے طور پر دیکھنے میں عرب پوری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں جو اثر و رسوخ، طاقت اور کنٹرول بڑھانے میں مددگار ہو۔
لبنان ہو یا سیریا، اردن ہو یا فلسطین، مصر ہو یا سوڈان، لیبیا ہو یا تیونس، جزائر ہو یا مغرب، موریتانیا ہو یا صومالیہ، خلیجی ممالک ہوں یا عراق یا یمن ہر جگہ لوگوں کے اپنے اپنے لہجے ہیں جو فصیح عربی کے ہم پلہ یا اس سے زیادہ وزنی ہیں۔ لکھنے پڑھنے کی حد تک فصیح مستعمل ہے لیکن بات چیت میں صرف عام مفہوم لہجے ہی متداول ہیں۔ یہ ازدواجئ لسانیت یا diglossia جو ایک ہی زبان کی دو مختلف شکلیں ہیں اس وقت مہلک بن جاتی ہے جب اس کا پھیلاؤ بڑھتا رہے اور اس پر کنٹرول ختم ہوجائے۔ بر سبیل تذکرہ ایک لبنانی شخص کو جزائر یا یمن کا عربی لہجہ سمجھنے میں کافی دقّت ہوگی اسی طرح یمنی یا خلیجی کو جزائری یا مصری لہجہ۔ مزید بر آں عجم کے وہ لوگ جو فصیح عربی زبان سے آشنا ہیں وہ تو کسی بھی عربی لہجے کو سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ بسا اوقات انہیں اس قدر مایوسی ہوتی ہے کہ وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان عربوں نے عربی زبان کا ستیاناس کر رکھا ہے جس کی بڑی وجہ عربی زبان کی یہی دو شکلی حالت ہے۔
عربی زبان کی یہ دو شکلی کیفیت نعمت بھی ہے پھٹکار بھی! یہ مختلف قسم کی علاقائی زبانیں وجود میں آنے کی اجازت دیتی ہے، اور کلاسیکی فصیح عربی کو بنیادی زبان کے طور پر کام کرنے کے لئے سازگار بھی ہے۔ تاہم یہ دو شکلی زبان بچوں کو دونوں شکلیں سیکھنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔
یہ تقاضا ایسا ہے جو عربی نظام تعلیم کو اس درجہ دباؤ میں رکھتا ہے کہ عرب بحران کے شکار ہو چکے ہیں۔ حال میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ میں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ عربی زبان کی تعلیم وتعلم میں درپیش مشکلات عرب سماجوں کے لئے ایک اہم ترقیاتی رکاوٹ ہیں۔ دو شکلی زبان سے متعلق مشکلات کا خطرہ اپنی جگہ، تعلیم وتربیت اور پبلک پالیسی کے مسائل بھی غور طلب ہیں۔
عربی زبان اپنی کثرت، کمال اور منطق میں طاق ہے، اسی لئے قدامت پرستوں نے عرصۂ دراز تک اس زبان کی تعلیم میں جدت طرازی کی سخت مخالفت کی۔ یہی وجہ ہے آج بھی بہت سے عرب ممالک کے پبلک اسکولوں میں گھسا پٹا نظام تعلیم اور فرسودہ طریقے ہی رائج ہیں جہاں طلبہ کی بڑی تعداد کو صرف لکچر دیا جاتا ہے، رٹا لگانا سکھایا جاتا ہے اور سخت ترین امتحان لیا جاتا ہے۔
ایک جامد، کٹر اور بے ترتیب نصاب تعلیم جو بچوں کی علمی یا لسانی ترقی سے منسلک نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی لچک یا گنجائش ہے، وہاں صرف تنقیدی نقطۂ نظر کا فقدان ہے، تجربات وتحقیق کی کمی ہے، دریافت اور جدت کے اصولوں سے یکسر محرومی ہے۔
لسانی لیبارٹریوں اور لائبریریوں کی عدم موجودگی، ٹیکنالوجی تک محدود رسائی، بچوں اور نوجوانوں سے متعلق لٹریچر کی کمی جو معقولیت کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہو اور قارئین کے ذوق سے ہم آہنگ بھی ہو، ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔
عربی زبان کی اٹھان کے لئے تعلیمی مواد کی نشر واشاعت میں منصوبہ بندی، ڈیزائن، ترتیب وغیرہ میں مغربی ماہرین کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح نوجوانوں کی تفریح کے لئے عربی زبان میں سمعی وبصری میڈیا، پرفارمنس آرٹس، یا سوفٹ ویئر کی نشوونما میں مارکیٹ ریسرچ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جو طالبعلموں کی رغبت کے مطابق اور معیاری تخلیقات فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
اسٹریٹجک منصوبہ بندی، نظر ثانی شدہ نصاب، بہتر تدریسی مواد اور طریقۂ کار، انفارمیشن اور ٹیکنالوجی تک مکمل رسائی، تمام سہولیات سے بھر پور لیبارٹریاں، ضرورت کی مختلف اور پر مغز کتابوں کے ذخیرے سے بھری لائبریریاں، تربیت یافتہ اساتذہ جنہیں مناسب تنخواہیں دی جارہی ہوں، یہ سب پبلک پالیسی کے وہ مسائل ہیں جن پر سنجیدگی سے غور وفکر ہونا چاہئیے اور اس کے لئے معقول بجٹ بھی لانا چاہئیے۔
عرب سماج میں عربی زبان کو مستحکم بنانے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تحقیقاتی ادارے قائم کئے جائیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے اور ان امور کو پبلک پالیسی سے جوڑ کر رکھا جائے۔ عربوں کو روزگار فراہم کیا جائے، غیر ملکی زبان سیکھنے کی ترغیب ہو اور دوسری زبانوں کے علوم کا عربی میں ترجمہ کیا جائے۔ اس کے بعد ان تینوں چیزوں کے لئے بھاری بجٹ پاس کیا جائے۔ ان اصلاحات کے بغیر نہ کوئی تحقیق عمل میں لائی جاسکتی ہے اور نہ ہی علم ومعرفت کی رفتار کے ساتھ چلنا ممکن ہے۔
در حقیقت عرب دنیا کی پبلک پالیسی میں ایک نیا نقطۂ نظر ناگزیر ہے جو تعلیم کو ترجیح دے سکے۔ عربی زبان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرکے، زبان کی تدریس اور اس کے استعمال میں از سر نو روح پھونک کر، عربی زبان کو نشاۃ ثانیہ سے ہمکنار کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ عربی زبان کا وقار بحال ہوسکے، عرب معاشرے میں عربی زبان دو شکلی نہ ہو کر ایک شکل میں نمودار ہو جو عربوں کو علمی میدان میں اپنا مقام حاصل کرنے میں معاون ومددگار ہو۔

5
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
Me Anwarul Islam

ما شاء اللہ
مضمون بہت عمدہ ہے
لیکن ایک جملہ کی تحقیق مطلوب ہے
مضمون نگار نے پہلے پیراگراف کے بیچ میں لکھا ہے “وہ مخلوق جس کی خاطر یہ کون و مکان معرض وجود میں آیا”
سوال یہ ہے کہ کی اس دنیا کی تخلیق کی اصل وجہ انسان ہے؟
اہل علم جواب دے کر شکریہ کا موقع فراہم کریں گے ۔۔۔
انوار السلفی

ابو شاہد

قیمتی مضمون، زبان کے ناحیے سے جن خدشات کا اظہار کیا گیا وہ حق ہیں، عالم عرب میں فصیح عربی بولنا ایک کرامت سے کم نہیں مانا جاتا. مضمون کی علمی قیمت طنز وتشنیع سے گھٹ جایا کرتی ہے، ایک مضمون نگار کو اسکا خیال رکھنا چاہیے.

سعد

مبارک ہو۔فری لانسر کا شکریہ جس کی وجہ سے ہمیں اس قدر عمدہ مقالے کو پڑھنے کا موقعہ ملا۔ گذارش یہ بھی کی جاتی ہے کہ براہ کرم فری لانسر کو ایک ڈسکشن فورم کے طور پہ پرموٹ کروائیں۔ آپ کے اس مقالے کی اہمیت اس لئے زیادہ واضح ہے کہ یہ مقالہ رد علی الرد ، جواب ، جواب کا جواب ، پند و نصائح سے ہٹ کر ایک حقیقت پسندانہ مزاج رکھتا ہے۔۔۔۔ آدم و حوا کی زبان اور اسکا تعلق ایک دینیاتی تصور سے تو واضح ہے جسے آج بھی مومنین، مسلمین، عرب، اور عربی تاریخ کے… Read more »

ریاض مبارک

یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کو قرآن کریم نے ہمیشہ سوچ سمجھ کر پڑھنے کی دعوت دی، بے شمار آیتوں میں تدبر وتفکر، عقل ودانش اور معرفت وآگہی کے لئے اکسایا گیا لیکن علماء نے ان سادہ دل مسلمانوں کو بالخصوص بر صغیر میں قرآن کی رمزی تلاوت کے اتنے فضائل بتادئے کہ لوگ اس زبانی تلاوت کی برکتیں اور ثواب سمیٹنے میں لگ گئے انہیں اس بات کی پروا ہی نہ رہی کہ قرآن تو زندگی جینے کا ڈھب سکھاتا ہے، اخلاق عالیہ اور صفات قدسیہ کے رموز سے روشناس کراتا ہے۔ یہ بات کم وبیش ہر مکتب فکر… Read more »

ام ھشام

منفرد اعلی درجہ کی ایک مکمل تحریر
سطر سطر دعوت فکر دیتی حقائق کے دبیز پردے چاک کرتی ہوئی ۔