آج کل پی ایم مودی اتنا انٹرویو کیوں کررہے ہیں؟ کیا پانچ سال گزر جانے کے بعد اب انھیں ہوش آیا کہ میڈیا کے سوالوں کا جواب دیا جائے گرچہ حل شدہ پیپرز کا۔ مسلسل کئی دنوں سے ایک کے بعد ایک نیوز چینل والے بریکنگ نیوز بنا کے دکھا رہے کہ آرہے ہیں مودی ہمارے منچ پر، جہاں سب کے درد کا مداوا مل جائے گا اور سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ انٹرویو کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کہ میڈیا ساری بحثیں چھوڑ چھاڑ کر اب انٹرویو کی کلپ ہی بار بار دکھائے گا۔ حالانکہ میڈیا میں آج بھی اتنی طاقت نہیں ہے کہ بے باکانہ سوال پوچھ لے۔ یہ وہی میڈیا ہاؤسز اور اینکرز ہیں جو ڈبیٹ میں گلا پھاڑ پھاڑ کر مخالف کو دباتے ہیں اور اپنی زبان ان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب پی ایم کا انٹرویو کرنا ہوتا ہے تو جیسے زبان سوکھ گئی ہے اب پانی چاہیے کہ تب چاہیے۔
سوال بھی ایسا کہ جیسے کسی فلمی ستارے سے سوال پوچھ رہے ہوں کہ بتائیے آپ کی صحت کا کیا راز ہے؟ آپ ابھی تک اتنے ہینڈسم کیسے ہیں اور آپ کے چہرے پر ابھی تک جھری کیوں نہیں آئی؟ آپ تھکتے کیوں نہیں؟ آپ کھانے میں کیا لیتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔ بس ایسے ہی اٹپٹے سوال، لگتا ہے میڈیا کے ان سوالوں سے عوامی مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہاں کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ رافیل پر سوال پوچھ لے۔ اب بھلا کون ابھیشار شرما، پونی پرسون اور دیگر کی طرح گھر بیٹھے۔
جمعہ 5/ اپریل کو میں روٹین کے مطابق جاگنگ کرنے کے بعد تھوڑی دیر آرام کے لیے بستر پر لیٹ گیا اور موبائل پر انگلیاں پھرانے لگا، تبھی ٹویٹر پر بی جے پی اکاؤنٹ سے مودی کا لائیو انٹرویو سامنے آگیا۔ مجھے لگا شاید پہلے کی کوئی کلپ ہے لیکن لائیو ہونے کی وجہ سے براہ راست یوٹیوب پر متعلقہ نیوز چینل کے لائیو نشریات کو دیکھنے لگا، دیکھتے دیکھتے پورے سوا گھنٹے بیت گئے اور عجیب و غریب سوالوں کا جواب پی ایم پورے موڈ فریش انداز میں یونہی دیے جارہے تھے۔ سامنے بیٹھے اینکرز اس طرح سہمے محسوس ہورہے تھے کہ بات بات میں کھانسنا اور زیر لب مسکرا کر کچھ یوں ناز و ادا سے سوال کرنا کہ جیسے پورے ادب و احترام کے ساتھ کوئی طالب علم کسی رعب دار استاد سے سوال پوچھ رہا ہو۔
آپ کو اپنے من کی بات بتاؤں کہ میں پی ایم کے کسی بیان، خطاب یا ریلیوں کے سنبودھن کو جلدی نہیں سنتا کیونکہ بوریت محسوس ہونے لگتی ہے۔ مواد کم ہفوات زیادہ ہوتے ہیں، ان کا کوئی بیان یا خطاب نصف گھنٹے سے کم کا ہوتا ہی نہیں اس لیے وقت کے ضیاع سے بچتے ہوئے نظر انداز کردیتا ہوں۔ دوسری پتے کی بات بتاؤں کہ ان کے بیانات کوئی بھی پڑھا لکھا سنے گا تو اکتاہٹ محسوس کرے گا سوائے بھگتوں کے، کیونکہ الفاظ کی ادائیگی میں تلفظ کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ کان پر گراں محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح پونی پرسون واجپئی بھی اس کا خیال نہیں کرتے ہیں، شاید ہندی زبان کی وجہ سے ایسا ہو لیکن وہاں بھی ہر لفظ کا الگ Pronunciation ہے جس کا خاطر خواہ خیال نہیں کیا جاتا۔
ہاں تو جمعہ کے دن ملک کے معروف نیوز چینل پر صبح کے وقت پی ایم کا انٹرویو نشر کیا جارہا تھا۔ اینکرز بھی معروف ہی ہیں جو دیگر ڈبیٹس میں گلا پھاڑتے ہیں اور اسٹوڈیو کو میدان جنگ بنا دیتے ہیں۔ لیکن انٹرویو آپ شروع سے آخر تک دیکھتے چلے جائیے کہیں بھی محسوس نہیں ہوگا کہ کوئی سوال برجستہ اور بے ساختہ کیا گیا ہو۔ نہ کالے دھن پر سوال، نہ پندرہ لاکھ پر سوال، نہ نوکری پر سوال، نہ پانچ سال میں ہوئے زمینی حقائق پر سوال، نہ گنگا کی صفائی کہاں تک مکمل ہوئی اس پر سوال، نہ اسمارٹ سٹی کا کام کاج کہاں تک مکمل ہوا اس پر سوال، نہ خود پی ایم کے پارلیمانی حلقہ بنارس کو جاپان کے کیوٹو شہر کے مشابہ بنائے جانے کے وعدہ پر سوال؟؟؟؟؟ اسی طرح بہت سے سوال ہیں جو ہر ہندوستانی محسوس کررہا ہے۔ بس گھما پھرا کر وہی عمومی سوال جس کا جواب ہر ہندوستانی پچھلے پانچ سالوں سے میڈیا اور پی ایم کی زبانی سنتا آرہا ہے۔
تعجب ہے کہ آخر اب ان دنوں یہ ضرورت کیوں آن پڑی ہے۔ پوری دنیا گھوم چکنے کے بعد شاید من میں خیال آیا ہو کہ چلو اب اسٹوڈیوستان بھی گھوم لیں تاکہ کوئی جگہ ایسی نہ بچے جہاں میرے پاک قدم پڑنے باقی رہ جائیں۔ ہوسکتا ہے اگلی میعاد کا موقع ملے نہ ملے۔ یہ تو کہنے کو نہیں رہ جائے کہ اتنے بڑے جمہوری ملک کا وزیراعظم میڈیا سے خوفزدہ تھا۔ اور بھگتوں کو بھی جواب دینے کا موقع ہاتھ لگ جائے گا۔
اسی طرح پچھلے چار پانچ سالوں سے اپوزیشن جو سوال کررہی تھی اب وہ بھی خاموش ہوجائے گی کہ میں اب انٹرویو بھی دینے لگا ہوں۔
انتخاباتی ضابطہ اخلاق عامہ نافذ ہوچکا ہے اب بڑی بڑی چھوڑنے کا موقع نہیں ملتا ہے، قوم سے خطاب کا کوئی بہانہ نہیں، ریلیوں میں گھوم گھام کر آتا ہوں خالی اوقات میں یہی مشغلہ بہتر ہے۔ تو چل کر گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی کو ہی اجاگر کردیا جائے، سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
خیر یہ انٹرویوز انٹرویو کم اشتہاربازی زیادہ ہیں کیونکہ حقیقی سوال پوچھنے کی ہمت میڈیا میں نہیں ہے اور جو زمینی سوال پوچھتے تھے انھیں پہلے ہی کنارے لگا دیا گیا ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اب تو بس من کی باتیں ہوں گی اور وہی بڑائیاں کی جائیں گی جو ریلیوں میں ہوتی ہیں۔ نہ سوال ہوگا نہ جواب دینے کی زحمت۔۔۔۔ بس بڑورگی ہی بڑورگی ہانکنا۔ خیال رہے کہ ابھی تک پی ایم نے ایک بھی پریس کانفرنس میں خطاب نہیں کیا ہے یہاں تک کل جب بی جے پی نے اپنا منشور جاری کیا تب بھی اچھا موقع تھا کہ میڈیا کے کچھ سوالوں کے جواب دیتے لیکن تب بھی خاموش ہی رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کوئی یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ آپ کے اردو میں لکھ کر اپنی بھڑاس نکالنے کا کیا فائدہ، نہ آپ کی بات وہاں پہنچے گی اور نہ ہی کوئی اس پر دھیان دے گا سوائے یہ کہ چند اردو جاننے والے لائک اور کمنٹ کردیں گے۔ تو میں بھی یہی کہوں گا کہ یہ میرے من کی بات ہے جس زبان میں لکھنے کی ہمت ہے لکھ رہا ہوں۔ آپ پڑھ لیں اور ہم خوش ہوجائیں گے کہ ہمارے اردو جاننے والے بھی پڑھ لیے سمجو سب پڑھ لیے۔ خود ہی لکھتے ہیں اور خود ہی خوش ہو لیتے ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا