سورج نشیڑی آگے بڑھو!

بیلن بلرامپوری

آج صبح دروازے پہ دستک ہوئی دروازہ کھولا تو دیکھا کہ بابا چرسی کا بیٹا سورج نشیڑی سامنے کھڑا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے زوردار سلام ٹھونکا تو میں نے بھی اسی انداز میں جواب دیا اور اسے اندر آنے کو کہا۔
بابا چرسی ایک زمانے سے ہمارے محلے میں رہتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ میں ان کے محلے میں رہتا ہوں۔ وہ چرس نوشی اور بھانگ فروشی کے علاوہ کوکین اور افیم کے بڑے ڈیلر ہیں۔ وہ بھارت نشہ مکت ابھیان تنظیم کے جنرل سکریٹری بھی ہیں اس لیے نشہ مخالف ریلیوں کی نہ صرف قیادت کرتے ہیں بلکہ اپنی دھواں دھار تقریروں کے ذریعے نشہ مکت سماج کا سنکلپ بھی لیتے ہیں۔ ان کی نشہ مخالف خدمات کو دیکھتے ہوئے کئی بار انھیں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے، خدمت خلق کا جذبہ اس قدر کہ بد قسمتی سے اس دور میں بھی کوئی چرس فروش پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو اس کی ضمانت کروانے خود ہی جاتے ہیں۔ نہایت ہی جری اور بیباک شخصیت کے مالک ہیں وہ کسی سے نہیں ڈرتے البتہ علاقے کے سارے لوگ ان سے ضرور ڈرتے ہیں، حولدار سے لے کر سینیر پولیس آفیسران تک ان سے خوف کھاتے ہیں۔ کئی جدید گالیوں کے وہ موجد بھی ہیں، ایک ہی دم میں اتنی تیزی کے ساتھ وہ سیکڑوں مغلظات بکتے ہیں کہ تین دن میں ختم تراویح کرانے والے حفاظ بھی ان کی برق رفتاری پہ عش عش کر اٹھتے ہیں، شہر اور سماج کے سارے مختلف فیہ مسئلے ان کے کورٹ میں نہ صرف پیش کیے جاتے ہیں بلکہ ان کے ہر فیصلے کو تقدس کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
کبھی کبھار میری ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہ جب بھی مجھے نظر آتے ہیں میں اتنے زور سے سلام کرتا ہوں جتنے زور سے میں نے کبھی مسجد میں اذان بھی نہیں دیا ہے۔ ان کے اعراض اور چہرے پہ ناگواری کے اثرات کے باوجود بھی میں ان سے تگڑا معانقہ کرتا ہوں جس کا مجھے خاطر خواہ فائدہ بھی ملتا ہے۔ علاقے کے سارے لوگ مجھے ان کا خاص آدمی سمجھتے ہیں اور اسی لیے تیس کلو وزن کے باوجود کسی کی مجال نہیں جو مجھ سے ٹکرائے سوائے اکلوتی بیگم کے۔
سورج نشیڑی بابا چرسی کا اکلوتا وارث ہے۔ وہ بچپن سے ہی چھرے بازی اور چاقو زنی کا شوقین تھا۔ اپنے اسکول بیگ میں کتابیں کم عمدہ قسم کے رامپوری چاقو زیادہ رکھتا تھا اسی لیے نو اور نو بارہ بتانے کے باوجود کوئی بھی استاذ اسے فیل کرنے کی جرات نہیں کرسکا۔ سورج نشیڑی پڑھنے لکھنے میں کمزور تھا اس لیے وہ دوسرے لوگوں کی طرح پچیس سال کی عمر میں پروفیسر نہیں بن سکا لیکن سرکاری اسکیموں کے بارے میں وہ اچھی جانکاری رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یو پی اے حکومت نے جب پہلی بار یہ اعلان کیا کہ ابتدائی سے لے کر آٹھویں جماعت تک کسی کو فیل نہیں کیا جاسکتا تو وہ سیدھا پرنسپل کے آفس میں جا دھمکا اور مطالبہ کرنے لگا کہ پانچویں کے بجائے اس کا نام نویں کلاس میں درج کر لیا جائے۔ وہ اس بات پر بضد تھا کہ آٹھویں تک آپ جب مجھے فیل نہیں کرسکتے تو میرا تین سال برباد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ پرنسپل کی آنا کانی کے بعد جوں ہی اس نے رامپوری چاقو ٹیبل پہ رکھا اس کا نام چشم زدن میں نویں کلاس میں درج ہوچکا تھا اور اس طرح اپنے حق کی لڑائی میں وہ کامیاب رہا۔
سورج نشیڑی سے میں نے گھر آنے کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگا کہ وہ بارہویں پاس ہوچکا ہے اور اب لوک سبھا کا الیکشن لڑنا چاہتا ہے۔ اس کے جملے سے ایک لمحے کے لیے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مستقبل کا وزیر میرے غریب خانے پہ جلوہ افروز ہے۔ میں نے کالر کو درست کیا اور بیک وقت کئی سیلفیاں نکال لیں۔ میں نے بچے کو بلایا اور اسے زور سے ڈانٹنا شروع کیا اور بولا کہ تمھیں پتہ نہیں یہ کون صاحب ہیں؟ جاؤ اور جاکر ٹھنڈا پانی لاؤ۔ بچے نے جب کہا کہ ابو پانی تو ٹھنڈا ہی ہے تو میں نے اس کو اور زور سے ڈانٹا کہ باپ سے زبان لڑاتا ہے دفع ہوجاؤ یہاں سے، بیٹا خاموشی کے ساتھ اندر چلا گیا لیکن جاکر اپنی ماں سے کہنے لگا کہ آج تو آپ کا ابو سے لفڑا بھی نہیں ہوا ہے پھر ان کا دماغ کیوں خراب ہے؟ آخر اس نشیڑی کو گھر میں بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس نے اپنی ماں کو مشورہ دیا کہ ایک بار ابو کا مینٹل چیک اپ کروالیں جس پر ان کی ماں نے کہا کہ بیٹا میری قسمت ہی پھوٹی تھی، پتہ نہیں میرے ماں باپ کو اس روئے زمین پر کوئی دوسرا حیوان ناطق کیوں نظر نہیں آیا؟ جب سے اس نکھٹو سے شادی ہوئی ہے زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ تیرے اس نکمے باپ نے مجھے زندگی میں دیا ہی کیا ہے سوائے پانچ بچوں کے، اُدھر اندر ماں اور بیٹے میرے ذہنی توازن پہ ڈسکس کر رہے تھے اِدھر میں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے سورج نشیڑی سے پوچھا کہ کیا الیکشن لڑنے کے لیے بارہویں پاس ہونا انیواریہ ہے؟ تو اس نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہے کہ بارہویں پاس ہونے کے بعد آپ اس ملک کے وزیر تعلیم بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس نے جب اسمرتی ایرانی کا نام لیا تو میں نے کہا کہ تمھاری بات ٹھیک ہے لیکن اسمرتی ایرانی بارہویں پاس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت عورت بھی ہیں، قبل اس کے کہ وہ میرے سوال کا جواب دیتا گھر کے اندر سے بیگم کی آواز بتدریج بڑھنے لگی۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے میں بیگم کے کمرے کی طرف دوڑا لیکن جلد بازی میں اپنے کمرے میں گھس گیا۔ غلطی کا احساس ہوتے ہی فورا پلٹا اور جاکر بیگم کے چرنوں میں گر گیا۔ بڑی منت سماجت کے بعد جب معاملہ شانت ہوا تو میں نے بیگم کے ساتھ بیٹے کو بھی سمجھایا کہ بیٹا کسی بھی چرسی چور اچکے یا چائے بیچنے والے کو اس دور میں حقارت کی نظر سے مت دیکھو انہی میں سے آگے چل کر کوئی ایک دن بھارت کا پردھان منتری بن سکتا ہے یا کم از کم کسی وزارت کے عہدے پر فائز ہوسکتا ہے۔ میں نے متعدد مثالوں کے ذریعے بیگم اور بچے کو سمجھایا کہ کس طرح سیکڑوں افراد کے قاتل اور متعدد خواتین کے اغوا میں ملوث نیز ریپ کے درجنوں معاملات درج ہونے کے باوجود لوگ منتری کے منصب پر نہ صرف فائز ہیں بلکہ ایوان میں بیٹھ کر بھی اپنے موبائل کے ذریعے سیکس ویڈیو سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ بالآخر میری محنت رنگ لائی اور بچے کے ساتھ ساتھ بیگم کو بھی میری بات سمجھ میں آگئی۔
بیگم کو شانت کرنے کے بعد میں واپس سورج نشیڑی کے پاس آکر بیٹھ گیا لیکن اس درمیان میرے من میں ایک سوال چبھتا رہا کہ جس شخص کے قدم پڑتے ہی گھر کی شانتی بھنگ ہوگئی ملک کی قیادت جب ان جیسوں کے ہاتھوں میں آئے گی تو اس دیش کا انجام کیا ہوگا؟
میں دوبارہ بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھانا چاہ رہا تھا لیکن میرے دماغ سے یہ بات نکل چکی تھی کہ کس سوال پہ ان کو چھوڑ کر بھاگا تھا؟ مجبورا میں نے ایک نیا سوال ٹھونک دیا کہ آپ نے ہائی اسکول کب پاس کیا؟ سورج نشیڑی نے میرے سوال کے جواب میں جب بتایا کہ ابھی تو وہ بارہویں پاس ہوا ہے اور دو سال کے اندر ان شاءالله وہ ہائی اسکول بھی کرلے گا تو میرے حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ میں نے برجستہ کہا کہ بھارت کے تعلیمی نظام کے حساب سے پہلے تو ہائی اسکول پاس کرنا چاہیے تو اس نے جواب دیا بیلن انکل آپ سسٹم کی بات کرتے ہیں اسی لیے ابھی تک دس بائی دس کے روم میں رہتے ہیں۔ اس نے مجھ سے نصیحت بھرے انداز میں کہا کہ یہ سسٹم وسٹم کے چکر میں پڑو گے تو بچے بھوکے مرجائیں گے اور پھر اچانک ہی اس نے مجھ سے الٹا سوال داغ دیا کہ کیا آپ نریندر مودی کو جانتے ہیں؟ میں نے جھلا کر کہا یہ کیسا سوال ہے؟ بھلا ان کو کون نہیں جانتا ہے وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں، انہی کی بدولت انڈیا میں پکوڑے کا بزنس تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ لاکھوں بے روزگار اس سے جڑ چکے ہیں، خود میری بھی پکوڑے کی دو دکانیں چل رہی ہیں تو سورج نشیڑی نے کہا کہ انھوں نے بھی پہلے ایم اے کیا ہے پھر بی اے کیا ہے، اس سے پہلے کہ میں کچھ اور پوچھتا وہ کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ انکل اب اجازت دیجیے مجھے کئی اور میٹنگوں میں بھی جانا ہے۔ جاتے ہوئے اس نے مجھ سے بلڈنگ سکریٹری کا نام اور موبائل نمبر دریافت کیا۔ میں چونکہ کچھ دیر اس کے ساتھ بیٹھ چکا تھا اس لیے تھوڑی سیاسی سوجھ بوجھ میرے اندر بھی آچکی تھی۔ میں نے نام تو سکریٹری کا ہی دیا لیکن موبائل نمبر اپنا درج کرادیا۔
سورج نشیڑی نے میرے گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے مشیر خاص مٹھو دارو والا کو میرے پاس ہی رکنے کو کہا اور تاکید کی کہ بیلن انکل کے کچھ سوالات رہ گئے ہیں ان کا جواب دے کر تم پارٹی آفس پہنچو۔ میں نے کہا کہ مجھے سوال آپ سے کرنی تھی یہ کیسے جواب دے سکتے ہیں اس پر سورج نشیڑی نے کہا کہ اس ملک کے وزیر دفاع کو آپ جانتے ہیں؟ میں نے کہا وہ ایک خاتون ہیں، ان کا نام نرملا سیتارامن ہے۔ میرے اس جواب پہ اس نے دوسرا سوال داغ دیا کہ کیا نرملا سیتا رامن نے رافیل گھوٹالے پہ کبھی کوئی بیان دیا ہے؟ اپوزیشن کے لاکھ شور مچانے کے باوجود گھوٹالے کی صفائی میں انھوں نے کوئی پریس ریلیز جاری کی ہے؟ جب بھی یہ معاملہ اٹھا ہے ہمیشہ ارون جیٹلی صاحب کو آگے آکر جواب دینا پڑا ہے۔ اسی طرح پردھان منتری پہ راہل گاندھی جب کبھی ٹویٹ کرتے ہیں تو اس کا جواب کون دیتا ہے میں نے کہا کہ مجھے نام نہیں معلوم ہے البتہ ان کو ٹی وی پہ دیکھا ہے، ان کا چہرہ گول مٹول اور کافی بڑا ہے، چشمہ بھی لگاتے ہیں اور شنید ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے وکیل بھی ہیں، پردھان منتری کے وکاس اور ترقیاتی کاموں میں نہرو جی کو وہ ہمیشہ روڑا مانتے ہیں۔
سورج نشیڑی نے میری طرف طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا اور کہا کہ شاید آپ کو جواب مل گیا ہوگا اور اللہ حافظ کہتے ہوئے مٹھو دارو والا کے ساتھ وہ رخصت ہوگیا۔
دو دن کے بعد رات بارہ بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں نے ہیلو کہا تو سامنے سے آواز آئی کہ میں سورج نشیڑی کے آفس سے رشید شرابی بول رہا ہوں، آپ ابھی آفس آجائیں الیکشن کے سلسلے میں کچھ اہم گفتگو کرنی ہے۔ میں نے فون رکھا سائیڈ جیب والا کرتا زیب تن کیا اور بلا کسی تاخیر آفس پہنچ گیا۔
آفس پہنچنے کے بعد مجھے ایک مدھم روشنی والے کمرے میں بیٹھایا گیا جہاں شریف چکلا والا نے ایک اسٹیپلر بند لفافہ تھماتے ہوئے مجھ سے کہا کہ بچوں کی مٹھائی کے لیے اسے آپ رکھ لیں۔ میں نے چہرے پر مصنوعی غصہ لاتے ہوئے کہا کہ یہ کیا ہے؟؟ پھر اچانک خیال آیا کہ زیادہ شرافت دکھانے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہاتھ آیا ہوا مال بھی واپس چلا جائے اس لیے پہلی فرصت میں لفافے کو بائیں ہاتھ سے دبوچ کر جیب میں ڈال لیا لیکن اس درمیان میں برابر ناراضگی کا اظہار کرتا رہا۔ میں نے زور دے کر کہا کہ یہ اچھا نہیں ہوا میں بے ضمیر ٹائپ کا آدمی نہیں ہوں سماج و معاشرے میں میری عزت ہے میں ایک متدین شخص ہوں اس طرح کے پیسوں کو میں حرام سمجھتا ہوں میں چوری کرسکتا ہوں لیکن حرام خوری نہیں کرسکتا۔ اپنے بھاشن کے دوران میں نے خاموشی سے جیب میں بایاں ہاتھ بھی گھسا دیا اور لفافے کو مضبوطی سے جکڑ لیا میں وہاں سے فورا نکل بھاگنا چاہتا تھا تاکہ کسی اندھیری جگہ جاکر لفافہ کھول کر دیکھوں۔ اجازت لے کر جب میں واپس ہونے لگا تو ابھی دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ میرے کانوں سے ایک معقول گالی کی آواز ٹکرائی جو غالبا شریف چکلا والے نے میرے بھاشن سے متاثر ہوکر مجھے دیا تھا۔ لفافہ ملنے کی خوشی میں وہ الفاظ میں یاد نہیں رکھ سکا البتہ کتا جیسا کوئی مہذب لفظ انھوں نے کہا تھا۔
میں پارٹی آفس سے دور نکل آیا لیکن سوئے اتفاق اس دن علاقے میں بجلی تھی اس لیے لفافہ چیک کرنے میں دقت ہورہی تھی۔ اچانک میری نظر سورج نشیڑی پر پڑی جو قریب کی ایک گلی سے نکل رہا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی میں نے فلک شگاف نعرہ لگایا:
سورج نشیڑی آگے بڑھو، ہم تمھارے ساتھ ہیں!

6
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
6 Comment authors
newest oldest most voted
ھلال ھدایت

ھھھ. 🤣🤣🤣🤣

ارشاد رشید

حالات حاضرہ پر بہترین طنز ، جملوں کے ربط اور کلمات کے انتخاب پر بیلن بلرامپوری صاحب کو جتنی داد دی جائے کم ہی ہے.
نوٹ: داد سے داد ہی مراد لیا جائے کھجلی نہیں.
😀😀😀

صفی الرحمن

ھندوستان کی سیاست پر بہترین انداز میں طنز
الفاظ کی ترتیب جملوں کی روانی قابل قدر

سوائے اکلوتی بیگم کے
سرًفراز فیضی کی تنظیم میں شرکت فرما لیں

Rasheed Sami salafi

طنز ومزاح کے پیرائے میں ملکی سیاست،نااہل قائدوں اور سسٹم کی خرابیوں پر جو پیہم چوٹ کی گئی ہےوہ کسی منجھے ہوئے مزاح نگار کا ہی حصہ ہے،بیلن کی اتنی کاری ضرب تو شاید آپ نے بھی نہ کھائی ہو جو مضمون میں آپ نے کھدر دھاریوں کے سر پر برسائی ہے۔ہنستے ہنستے پیٹ دکھنےلگا😛😛😛😛😝😝

مشتاق محمدى حالات حاضره پر زبردست

ماشاء الله

عبدالرحمن إقبال

ملک کے صورتحال کی صحیح عکاسی، مزاحیہ انداز میں گہری بات۔