ٹھیلے والا

بیلن بلرامپوری سماجیات

آج صبح بیگم کے ساتھ سبزی لینے اترا۔ نیچے کافی گہما گہمی تھی۔ اچھی خاصی تعداد میں لوگ ضروری اشیاء کی خریداری کر رہے تھے۔ میں نے بیگم سے کہا آپ سبزیاں خریدیں تب تک میں دودھ اور بسکٹ وغیرہ لے لیتا ہوں۔

میں جب واپس آیا تو بیگم سامان لے چکی تھیں۔ میں نے پوچھا کچھ اور لینا ہے؟ بولیں: نہیں۔ لیکن ایک بات بیگم نے مجھ سے بتائی کہ جب وہ سامان خرید رہی تھیں تو دور سے ایک ٹھیلے والا بہت دیر سے گھور کر ان کی طرف ہی دیکھے جارہا تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور شکل دیکھتے ہی واپس لوٹ آیا۔ بیگم نے کہا اسے کچھ بولے بغیر ہی واپس چلے آئے؟ میں نے کہا بیگم میں اسے پہچانتا ہوں وہ کباڑیا ہے، ٹوٹی پھوٹی اور ناقابل استعمال اشیاء کا کاروبار کرتا ہے مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ سبزیوں کا ٹھیلا لگانے پر مجبور ہے۔ زمانے سے چونکہ وہ کباڑ کا کاروبار کرتا رہا ہے اسی لیے ہر پرانی چیز کو ایسے ہی گھور کر دیکھتا ہے۔ بیگم جگہ پر ہی بگڑ گئیں اور تھیلا وہیں پھینک کر گھر کو چل دیں۔

ایک خوبی ہے بیگم کے اندر جس کی ستائش ہونی چاہیے۔ بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں وہ مجھے بھلے ہی ڈانٹ ڈپٹ دیتی ہیں لیکن پیٹتی کبھی نہیں ہیں جب کہ میرے ایک پروفیسر دوست کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ کئی عینی شاہدین موجود ہیں جن کا دعوی ہے کہ بھرے بازار میں پروفیسر کو بیگم سے پٹتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ میرا پروفیسر دوست بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے یہ تو اعزاز کی بات ہے گھر میں تو ہر کوئی پٹتا ہے مگر بازار میں مار کھانے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔

یہی کوئی دو مہینے پہلے کی بات ہے بیگم کے ساتھ امرت نگر مارکیٹ جانا ہوا، وہاں ایک معمولی بات پہ بیگم نے زور سے ڈانٹا تو مجھے بھی جلال آگیا اور اس جلال کی وجہ صرف یہ تھی کہ حسیناؤں کے جھرمٹ میں مجھے ڈانٹ پلا دی گئی تھی۔ اس لیے میں نے بھی من ہی من میں انتقام لینے کا فیصلہ کیا اور وہیں بازار میں کھڑی ایک خوبصورت محترمہ کو سلام ٹھونک دیا۔ میری شکل چونکہ مجاوروں سے ملتی جلتی ہے اس لیے ادھر سے سلام کا جواب گرم جوشی اور تبسم کے ساتھ ملا۔ بیگم کو یہ دوستانہ ماحول بالکل راس نہیں آیا اور وہ آپے سے باہر ہوگئیں، مگر وہاں بھی مار دھاڑ سے گریز کرگئیں اور سیدھا گھر آکر میرا انتظار کرنے لگیں۔
قسمت اچھی تھی کہ مجھ سے پہلے بڑا بیٹا گھر میں داخل ہوا رات کا وقت تھا، گھر میں لائٹ نہیں تھی بیٹے کے گھر میں آتے ہی اس پر پل پڑیں اور جب تک ان کو یہ خبر ہوتی کہ خود ان کا بیٹا انہی کے ہاتھوں پٹ رہا ہے تب تک کافی دھنائی ہوچکی تھی۔ بعد میں بیگم نے اس سے کہا کہ بیٹا معاف کرنا غلطی ہوگئی۔ میں تو سمجھ رہی تھی تیرا باپ ہے۔ وہ رات مجھے دروازے کے باہر سو کر گزارنی پڑی۔

بیگم جتنی جلدی بھڑکتی ہیں اتنی ہی جلدی سرد بھی ہوجاتی ہیں۔ وہ بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں مگر سینے میں ایک درد مند دل بھی رکھتی ہیں اس لیے انھیں سمجھانے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی ہے۔
گھر آنے کے بعد میں نے سمجھایا کہ ہوسکتا ہے وہ ٹھیلے والا اس لیے تمھیں دیکھ رہا ہو کہ کچھ سامان اس کے یہاں سے بھی لے لو۔
اب یہی دیکھو نا اپنا وہ بغل والا حجام کام کاج بند ہونے کی وجہ سے پریشان تھا۔ پھر اس نے سوچا کہ اس درمیان سبزی وغیرہ بیچ کر ہی بچوں کا پیٹ پال لے۔
وہ واشی مارکیٹ گیا وہاں سے سبزیاں خرید کر لایا اور ساری سبزیاں اسی دن بک بھی گئیں۔ دوسرے دن وہ اور بھی زیادہ سبزیاں لے کر آگیا لیکن اس دن پورے دن میں صرف بیس ہی روپئے کا مال بکا جس کی وجہ سے اس کو کافی نقصان ہوا، بچا ہوا مال دوسرے دن تک خراب ہوگیا۔ حالت یہ ہے اس کے گھر میں فاقے کی نوبت آگئی ہے۔ میں نے بیگم سے یہ بھی کہا کہ آج ہی میں نے کہیں پڑھا ہے ایک پینٹر نے اپنی دو بچیوں کو اس لیے کھانسی کی دوا پلا کر سلادیا کہ اس کے پاس بچیوں کی بھوک مٹانے کے لیے گھر میں اناج نہیں تھا۔
بیگم میری بات سن کر فورا کھڑی ہوگئیں اور بولیں چلو واپس اس ٹھیلے والے کے پاس چلتے ہیں۔
تھوڑی دیر میں ہم واپس ٹھیلے والے کے پاس کھڑے تھے۔ بیگم کو دیکھ کر اس نے پوچھا آپا کیا چاہیے؟ بیگم وہاں سے کچھ مرچی، ہری دھنیا کی پتی اور ٹماٹر لے کر مڑی ہی تھیں کہ ٹھیلے والے نے کہا آپا کچھ اور سامان لے لیں، گھر میں چاول دال تک نہیں ہے۔ بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ کل شام کو ٹماٹر اور پالک کا سوپ پلاکر بچوں کو سلا دیا تھا صبح اٹھتے ہی بچے کھانا مانگ رہے تھے۔ میں ان سے بول کر آیا ہوں دال چاول لینے جارہا ہوں۔ بیگم یہ سن کر سکتے میں آگئیں اور جتنا بھی پیسہ ان کے ہاتھ میں تھا اسے تھما کر گھر واپس آگئیں۔
سامان ضرور خریدیں مگر اس بات کا خیال رکھیں کہ صرف بڑی دکانوں سے ہی سامان خریدنے پر اکتفا نہ کریں ان کا کاروبار بڑے پیمانے پر ہوتا ہے اس لیے وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ دوچار مہینہ یا اس سے زیادہ دنوں تک ان کے گھروں میں راشن یا کھانے پینے کی قلت نہ ہو مگر جو ٹھیلے والے ہیں وہ روز کنواں کھودتے ہیں تبھی پانی پیتے ہیں۔ اس لیے جب بازار میں نکلو تو یہ دھیان رہے کہ ان ٹھیلے والوں کے پاس بھی بال بچے ہیں اور ان کا پیٹ اس وقت بھرے گا جب ان کا سامان بکے گا۔

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
Uzair Ahmad DU

یار آبدیدہ کردیا آپ نے۔

ام ہشام

آپ ہمیشہ ہنساتے ہنساتے رلاجاتے ہیں
خوش رہیں سلامت رہیں

rasheedsalafi321@gmail.com

ماشاءاللہ
ہنسی بھی لگی اور عبرت بھی ملی،ہنستے ہنستے بس دل رونے جیسا ہوگیا تھا،تصور میں بہتیرے ٹھیلے والوں کی مسکین صورت نظرآنے لگی،بہت ہی بامقصد اور نصیحت آموز تحریر لکھی ہے جزاکم اللہ خیرا

صلاح الدین

ماشاءاللہ
بھائی میں ہمیشہ آپکے آرٹیکل کا انتظار کرتا رہتا ہوں مزاحیہ کے ساتھ ساتھ نصیحت خیز ہوتا ہے۔۔۔۔ اللہ مزید طاقت دے۔۔۔ آمین

محمد طارق بدر

کہا جاتا ہے “ہنستے ہنستے رونا سیکھو” اور آپ کی اس تحریر نے اس مشورہ پر عمل کروادیا!!!
اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے۔
آمین!!!