“شهرين متتابعين”

بیلن بلرامپوری عبادات

کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کا جو سلسلہ چلا اس میں ہم اس قدر الجھ کر رہ گئے کہ معلوم ہی نہیں پڑا ایک عظیم بابرکت اور عظمت والا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کے حکمائے امت کا جن کی دہی اور الائچی والی پوسٹ سے یہ جانکاری ملی کہ ہم ماہ رمضان میں داخل ہونے والے ہیں۔
میں کئی دنوں سے اس فکر میں مبتلا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اہم بات اپنی امت کو کیوں نہیں بتائی اور ہمیں مئی کی اس گرمی میں پیاس کی شدت جھیلنے کے لیے چھوڑ گئے۔ آج اگر امت مسلمہ کی فکر میں غلطاں یہ حکمائے امت سوشل میڈیا پر الائچی کے فوائد نہیں بتاتے تو پتہ نہیں کتنے لوگ پیاس کی شدت سے دم توڑ دیتے یا پھر روزہ توڑ بیٹھتے۔ پوری امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ ان حکماء کی قدر کریں اور ممکن ہو تو اپنے خرچ پر ایسے لوگوں کو حج اور عمرہ کے لیے بھیج کر ان کے احسان کا کچھ بدلہ ضرور چکائیں۔ اگر ہر سال ہم یہ کام نہیں کرسکتے تو کم از کم ایک بار ضرور یہ فریضہ انجام دیں، ورنہ ہم قیامت کے دن اللہ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
میں نے سوچا تھا الائچی والی پوسٹ کو شیئر کرکے میں بھی سات کے بدلے ستر نیکیاں کمانے کی کوشش کروں گا لیکن شیطان لعین نے مجھے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ رمضان کے مہینے میں اس نے شیطانوں کو جکڑ کر مجھے اس بات کی توفیق دی کہ زیادہ سے زیادہ اس کے فوائد سے لوگوں کو روشناس کراؤں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کام کے لیے مجھے چنا۔ فللہ الحمد
رمضان کے اس بابرکت مہینے میں کچھ لوگ سوشل میڈیا سے دور رہتے ہیں۔ ایسے میں ان تک جانکاری پہنچانے کا واحد ذریعہ موبائل ہے۔ میں نے محسوس کیا میرا ایک پروفیسر دوست بھی ان دنوں سوشل میڈیا پر زیادہ نظر نہیں آتا، اس لیے سب سے پہلے میں نے اسی کو فون لگانے کا فیصلہ کیا۔ پروفیسر دوست کو ترجیح دینے کی ایک وجہ وہ حدیث بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی نیک کام میں اگر قرابت داری کا خیال رکھیں تو آپ کو اس پر دوہرا اجر ملے گا۔
میں نے اپنے دوست پروفیسر کو فون لگایا، اس نے جب ہیلو کہا تو میں نے سلام کیا۔ جواب میں مجھے وعلیکم….. وبرکاتہ سنائی دیا، درمیان کے الفاظ حلق خشک ہونے کی وجہ سے ادا نہیں ہوپائے۔ پہلی بار مجھے خود پر شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اگر ابتدائے رمضان میں ہی اس کو فون کرکے الائچی کی افادیت کے بارے میں جانکاری دے دیتا تو یقینا آج پروفیسر دوست اس مشکل میں نہیں ہوتا۔ میں نے پروفیسر سے معذرت کرتے ہوئے کہا معاف کرنا میری سستی اور کاہلی کی وجہ سے آج تم اس مصیبت میں مبتلا ہو، اگر وقت رہتے میں تمھیں الائچی کے فوائد سے آگاہ کردیتا تو آج تم کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔
میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے دوست سے کہا ایک کام کرو، سحری کے بعد منہ میں الائچی لے کر کچھ دیر تک چباؤ اور پھر اسے اگل دو۔ سوشل میڈیا حکماء کے بقول إن شاء الله پورے دن آپ کو پیاس کی شدت کا احساس نہیں ہوگا اور بوقت افطار بھی محض رسما آپ کو پانی پینے کی ضرورت پڑے گی۔ میں نے پروفیسر سے مزید کہا کہ آپ بھی چاہیں تو فی سبیل اللہ اس جانکاری کو شیئر کرکے ثواب دارین حاصل کرسکتے ہیں اور پھر فون ڈسکنکٹ کردیا۔
افطاری کے بعد پروفیسر دوست نے انتہائی اہم جانکاری فراہم کرنے پر بطور شکریہ مجھے فون کیا۔ اس کی آواز اور طریق گفتگو میں روایتی انداز کا فقدان تھا، اس لیے میں نے پوچھا پروفیسر کیا بات ہے، آواز میں وہ چہچہاہٹ نہیں ہے جو ایک پروفیسر کا خاصا رہا ہے۔ پروفیسر دوست نے کہا کہ وہ ایک نئی مصیبت میں مبتلا ہوگیا ہے۔ کافی اصرار کے بعد اس نے بتایا کہ آج بارہ روزہ مکمل ہونے کو ہے لیکن اس درمیان اس سے ایک بھیانک غلطی ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے اسے مزید دو مہینے متواتر روزہ رکھنے کی ضرورت آ پڑی ہے۔ میرے مزید استفسار پر پروفیسر نے کہا اس درمیان دو بار اس سے یہ غلطی سرزد ہوچکی ہے۔ ایک دوست کے ناطے میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ پروفیسر تم اس معاملے میں تنہا نہیں ہو۔ آج بھی عربی جاننے والے بہت سے علمائے کرام تلاوت کرتے وقت “شهرين متتابعين” پہ رک کر اللہ سے توبہ واستغفار کرتے ہیں۔ میں نے پروفیسر سے پوچھا کہ کیا کبھی تم نے کسی مولوی یا عام شخص کو مسلسل دو مہینے روزہ رکھتے ہوئے دیکھا ہے؟ جب کہ میرا خیال ہے کہ امت مسلمہ کے بیشتر لوگ اس جرم کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ میری بات سن کر پروفیسر دوست پہلی بار مسکرایا اور مجھے اسی بہانے موقع مل گیا کہ میں کچھ اور نصیحت کردوں۔
میں نے پروفیسر سے کہا کہ رمضان کے اس مقدس مہینے میں تم اللہ سے اپنا لو لگاؤ، اس کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ توبہ واستغفار کرو۔ یہ در ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور ویسے بھی اس مہینے میں اللہ رب العزت آسمان دنیا پر آکر کہتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں عطا کروں، ہے کوئی توبہ کرنے والا جس کی توبہ قبول کروں، ہے کوئی اپنے گناہوں پر ندامت کرنے والا جس کو میں بخش دوں۔
یہ مہینہ بڑی برکتوں اور عظمتوں والا ہے۔ اللہ رب العزت کا یہ احسان ہے کہ لاک ڈاؤن کے سبب ہمارے پاس عبادت، تلاوت اور استغفار کے لیے وقت ہی وقت ہے۔ اللہ رب العزت نے اس مہینے میں ہمیں خدمت خلق کا بھی موقع دیا ہے۔ لاک ڈاؤن اور کام کاج بند ہونے کے سبب بہت سے افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ عزت نفس کی خاطر مرد حضرات گھروں میں ہیں، جب کہ عورتیں نقاب لگا کر بچوں کے پیٹ کے خاطر در در بھٹک رہی ہیں۔ ایک بیوہ عورت کے گھر راشن پہنچانے کے بعد بطور شکریہ اس نے فون کیا اور بتایا کہ کس طرح تین روز سے صرف ایک کھجور پر اہل خانہ اکتفا کر رہے تھے۔ گھر میں کچھ لوگ بیمار ہیں مگر جب کھانے کے لیے ہی پیسے نہیں ہیں تو دوا کی بات ہی چھوڑیے۔
کسی بھوکے کو کھانا کھلادینا ایک عظیم عبادت ہے اور رحمت کے اس مہینے میں اس کام کا اجر جنت کی شکل میں مل سکتا ہے۔ ایک مومن کی اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے؟ موقع ہے، آگے بڑھیں، دوست واحباب سے گہار لگائیں، اصحاب ثروت کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں شرمندگی مت محسوس کریں۔ آپ اپنے لیے نہیں مانگ رہے ہیں۔ غریب، مجبور اور بے بس لوگوں کی اعانت کو اپنا نصب العین بنائیں۔ اگر ایک فاحشہ عورت پیاسے کتے کو پانی پلانے کے سبب جنت کا مستحق ہوسکتی ہے، تو ہم بھوکوں کو کھانا کھلا کر جنت کے مستحق کیوں نہیں ہوسکتے؟

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
ریاض الدین شاہد

بہت خوب

شاھد نور

ماشاءاللہ ہر مرتبہ کی بہت عمدہ

فؤاد أسلم المحمدي المدني

بہت پیاری تحریر. اللہ آپ کی نیکیوں کو قبول فرمائے