ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ افراد معاشرہ تمام طرح کی معاشرتی قباحتوں اور اخلاقی پستیوں سے اجتناب کریں، باہم عمدہ مراسم و علائق اور خوشگوار تعلقات و روابط کی استواری کے لیے ہمیشہ مستعد اور تیزگام رہیں، ایک دوسرے کے بارے میں حتی المقدور خوش گمانی کا مظاہرہ کریں، اتہامات و الزامات کے تبادلے سے کلی طور پر پرہیز کریں اور ہمیشہ خیر کے پہلو کو شر کے پہلو پر ترجیح دیں۔ تبھی ایک صالح اور مہذب معاشرے کی تعمیر و تشکیل ممکن ہوگی، امن و سکون کا بول بالا ہوگا، اختلافات و نزاعات کا منہ کالا ہوگا اور پورا معاشرہ جسد واحد بن کر ایک دوسرے کے دکھ درد میں ہمیشہ شریک رہے گا۔
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے بارے میں حسن ظن رکھنا شریعت کی نظر میں محمود و مطلوب چیز ہے اور بدگمانی حرام اور سنگین جرم۔ بدگمانی تجسس، عیب جوئی، اتہام طرازی، افترا پردازی، بہتان تراشی، چغل خوری اور ان جیسی دیگر اخلاقی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنے اور بدگمانی سے گریز کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔
ذیل میں حسن ظن کے فوائد، موانع اور وسائل کو اختصار کے ساتھ معرضِ تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
حسن ظن کے فوائد:
1- کمال ایمان کی علامت: حسن ظن کمال ایمان کی علامت ہے، ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں اسی وقت خوش گمانی کا مظاہرہ کرسکتا ہے جب وہ پہلےخود زیور ایمان سے آراستہ ہو۔ مؤمنوں کے بارے میں اس کے افکار و خیالات اسی وقت مثبت ہو سکتے ہیں جب وہ خود اصحاب ایمان کے پاکباز گروہ سے دلی وابستگی رکھتا ہو۔جب منافقوں نے پیکر عفت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنایا تو اللہ تعالی نے مؤمنوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا:
(لولا اذ سمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات بأنفسھم خيراً وقالوا ھذا افك مبين ) (النور :12)
اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے۔ یعنی اہل ایمان تو ایک جان کی طرح ہیں، جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام طرازی کی گئی تو تم نے اپنے پر قیاس کرتے ہوئے فورا اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا؟ (أحسن البیان)
2- حسن ظن تمام طرح کے شرور و فتن کے سدباب کا ذریعہ ہے: ایک شخص جب حسن ظن کی صفت سے متصف ہوگا تو یقیناً وہ تمام طرح کی اخلاقی و معاشرتی بیماریوں سے دور رہےگا، وہ نہ کسی کی غیبت کرےگا، نہ چغل خوری کرے گا، نہ کسی پر بہتان تراشی کرےگا اور نہ ہی کسی کو بہ نظر حقارت دیکھے گا۔ بلکہ وہ ہمیشہ دوسروں کی خیرخواہی کرے گا، ان کا احترام کرے گا اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں چاق و چوبند ہوگا۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے اور مسلم معاشرے کو تمام طرح کے فسادات و تخریبات سے محفوظ رکھنے کے لیے بدگمانی سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ اس لیے کہ بدگمانی ہی وہ واحد دروازہ ہے جس سے تمام طرح کے اخلاقی کوڑھ و جذام معاشرے کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
(يا أيھا الذين آمنوا اجتنبوا كثيراً من الظن إن بعض الظن إثم) (الحجرات : 12)
اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔
3- حسن ظن باہمی تعلقات و روابط کی پائیداری کا ذریعہ ہے: معاشرے کے سارے افراد اگر خوش گمانی کی ستودہ خصلت کے خوگر بن جائیں، تو پورا معاشرہ الفت و رافت، محبت و مودت اور ایثار و قربانی کی آماجگاہ بن جائے گا۔ اختلافات و نزاعات کے سارے دروازے مسدود ہوجائیں گے۔ اور ہر سو امن و سکون سایہ فگن ہوگا۔
4- حسن ظن دل کی سلامتی، نفس کی پاکیزگی اور روح کے تزکیے کی دلیل ہے: زیور حسن ظن سے آراستہ شخص چونکہ بدگمانی اور بدگمانی کے جملہ وسائل و ذرائع سے دامن کشاں رہتا ہے اس لیے وہ ہمیشہ قلبی راحت محسوس کرتا ہے، غم آگیں تصورات و تخیلات اور رنج آور افکار و خیالات سے اپنے ذہن و دماغ کو محفوظ رکھتا ہے اور بلا وجہ ٹینشن اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتا ہے۔
حسن ظن کے اکتساب سے روکنے والی چیزیں:
1- بری سوسائٹی کا اثر: آدمی ایسے معاشرے میں سکونت پذیر ہو جہاں بدگمانی اور شکوک و شبہات کا غلبہ ہو تو وہ حسن ظن کے اکتساب سے دور رہتا ہے۔اس کے زاویہ فکر و نگاہ پر معاشرے کے دیگر بدگمان و بداندیش افرادکے غلط افکار کا تسلط ہوتا ہے۔ نتیجتاً لوگوں کے بارے میں اس کے نظریات و خیالات ہمیشہ منفی ہوتے ہیں۔
2- دین حنیف کی تعلیمات سے جہالت و دوری: شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کے آپسی تعلقات کی خوشگواری پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ اور ہر اس قول و عمل سے بڑی سختی کے ساتھ روکا ہے جو کسی بھی ناحیے سے باہمی علائق کی ناخوشگواری کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کے اندر بدگمانی سےجو کہ تعلقات کی خرابی کا پہلا زینہ ہے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا:
(إياكم والظن فان الظن أكذب الحديث ) (البخاري :5143)
بدگمانی سے بچو اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ لیکن آدمی ان روشن تعلیمات سے ناآشنائی کی وجہ سے حسن ظن کے اکتساب سے محروم رہ جاتا ہے۔
3- برے لوگوں کی صحبت: جیسی سنگت ویسی رنگت کے بموجب برے ساتھیوں کی صحبت بھی حسن ظن کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ابو حاتم بستی رحمہ اللہ نے کہا:
العاقل يلزم صحبة الأخيار و يفارق صحبة الأشرار، لأن مودة الأخيارسريع اتصالھا، بطيء انقطاعھا، و مودة الأشرارسريع انقطاعھا، بطيء اتصالھا، و صحبة الأشرار تورث سوء الظن بالأخيار، ومن خادن الأشرار لم يسلم من الدخول في جملتھم(روضۃ العقلاء: 99-100)
عقلمند آدمی اچھے لوگوں کی صحبت کو لازم پکڑتا ہے اور برے لوگوں کی صحبت سے دور رہتا ہے۔ اس لیے کہ اچھے لوگوں کی مودت زود حاصل اور دیر انقطاع ہوتی ہے جبکہ برے لوگوں کی مودت زود انقطاع اور دیر حاصل۔ برے لوگوں کی صحبت اچھے لوگوں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتی ہے اور جو اشرار کا مصاحب بن جائے وہ ان کے گروہ میں شامل ہونے سے نہیں بچ سکتا۔
4- حقد و حسد: حسد ایک ایسی اخلاقی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص محسود سے زوال نعمت کی آرزو کرتا ہے۔ اس کے بارے میں ہمیشہ غلط نظریات اور منفی خیالات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ خواہ محسود کے اندر لاکھ اچھائیاں ہوں، اس کے عادات و اخلاق کتنےخوبصورت اور قابل تعریف ہوں، اس کی ذات کس قدر مضرت کے پہلو سے خالی اور افراد معاشرہ کے لیے نفع بخش ہو۔ لیکن حاسد ہے کہ حسد کی آگ میں برافروختہ ہوکر اس کی ہر خوبی کو نقص اور ہر اچھائی کو برائی ثابت کرنے پر تلا رہتا ہے۔
اب آئیے حسن ظن کی صفت سے متصف ہونے اور اس خوبصورت وصف کو اپنے اندر پیدا کرنے کے چند وسائل و ذرائع پر غور کرتے ہیں:
1- اللہ تعالی سے دعا کرنا: بندہ کو چاہیے کہ حسن ظن کے اکتساب کے لیے اللہ سے دعا کرے کہ اللہ تعالی اسے قلب سلیم عطا کرے، اسے ہر طرح کی اخلاقی، اعتقادی اور معاشرتی بیماریوں سے محفوظ رکھے۔ یقیناً دعا ہر طرح کی برائیوں سے بچنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
2- حسن ظن کے معاملے میں نبیﷺ کی اتباع: ہر طرح کے مسائل و مشکلات کا حل آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں موجود ہے۔ حسن ظن کو اپنانے اور بدگمانی سے بچنے کے سلسلے میں بھی آپ ﷺ کی تعلیمات بالکل واضح اور روشن ہیں۔ ایک صحابی کے یہاں ایک کالا کلوٹا بچہ پیدا ہوا، جو نہ ان پر گیا تھا نہ ان کی بیوی پر، پھر کیا تھا صحابی بیوی کے بارے میں بدگمان ہو گئے، شکوک و شبہات کا شکار ہوکر نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے یہاں تو کالا کلوٹا بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ تمھارے پاس کچھ اونٹ بھی ہیں؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ نبی ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ان کے رنگ کیسے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ سرخ رنگ کے ہیں۔ نبی ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ان میں کوئی سیاہی مائل سفید اونٹ بھی ہے؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ نبیﷺ نے اس پر فرمایا کہ پھر یہ کہاں سے آگیا؟ انھوں نے کہا کہ اپنی نسل کے کسی بہت پہلے کے اونٹ پر پڑا ہوگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح تمھارا یہ لڑکا بھی اپنی نسل کے کسی دور کے رشتے دار پر پڑا ہوگا۔ (بخاری : 5305)
ذرا اس حدیث پر تدبر و تفکر کی نگاہ ڈالیے کہ نبیﷺ نے کس قدر خوبصورت اور حکیمانہ انداز میں صحابی کے ذہن و دماغ سے بدگمانیوں کا ازالہ فرمادیا۔
3- مثبت پہلو کو ترجیح دینا: حسن ظن کے اکتساب اور بدگمانی سے احتراز کا ایک نہایت ہی اہم طریقہ یہ ہے کہ آدمی حتی الامکان دوسروں کے اقوال و افعال اور کردار و گفتار کے مثبت پہلو کو منفی پہلو پر ترجیح دینے کی کوشش کرے۔ بدگمانیوں کے غلبے کی صورت میں اپنے آپ کو مظنون بہ کی جگہ پر رکھ کر محاسبۂ نفس کرے۔ یقیناً یہ حسن ظن کی تحصیل اور بدگمانی کے مرض سے چھٹکارا پانے کا ربانی علاج اور قرآنی دوا ہے۔
4- ایک مومن دوسرے مومن کے لیے کمیوں اور کوتاہیوں کے صدور کے وقت عذر تلاشے: ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(إذا بلغك عن أخيك شيئ فالتمس له عذراً، فإن لم تجد، فقل: لعل له عذراً لا أعرفه) (روض الأخيار المنتخب من ربيع الأبرار) للأماسی(70/1)
جب تمھارے پاس تمھارے بھائی کی طرف سے کوئی چیز (کمی، کوتاہی وغیرہ) پہنچے تو اس کے لیے عذر تلاش کرو، اگر عذر نہ ملے تو کہو: شاید اس کا کوئی ایسا عذر ہوگا جو مجھے نہیں معلوم ہے۔
5- ظاہر پر احکام کا اجرا: حسن ظن کے حصول کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آدمی دوسرے کے بارے میں اس کے ظاہر کے مطابق گمان قائم کرے، باطن اللہ کے حوالے کردے۔ کیونکہ دوسروں کے ضمائر و بواطن کا ادراک انسان کے بس کی بات نہیں، یہ خاصہ تو صرف اور صرف اللہ رب العزت کا ہے کہ وہ سینوں کے رازوں اور دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیےکہ اپنے دائرۂ علم و عرفان کے اندر رہتے ہوئے ظاہری اقوال و اعمال کے مطابق ہی دوسروں کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر قائم کرے، خواہ مخواہ کسی کے اسرار و رموز اور پوشیدگیوں کی تلاش میں نہ لگ جائے اور نہ اس ٹوہ میں رہے کہ کسی کی کوئی کمی خامی یا عیب معلوم ہو جائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے۔
6- بدگمان و بداندیش افراد کی صحبت سے دوری: حسن ظن کی حصولیابی کے لیے ایسے بدآموز افراد سے کنارہ کشی اختیار کرنا بھی نہایت ضروری ہے جو معاشرے میں فسادات و خرافات، اقاویل و اکاذیب اور شکوک و شبہات کے نشر و ذیوع میں لگے رہتے ہیں۔ خود بدسگالی و بداندیشی کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی لپیٹ میں لینے کی سعی نامسعود کرتے رہتے ہیں۔ یقیناً ایسے افراد صالح و پرامن معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ معاشرے کو شرور و فتن سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کا سماجی بائیکاٹ از حد ضروری ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو حسن ظن کے اکتساب اور سوء ظن سے احتراز کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے