انگریزی مضمون: پروفیسر اجے گداورتی (جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نیو دہلی)
ترجمہ: سعد احمد
۱۹۶۷ کا عام الیکشن یادگار تھا۔ اس نے برسر اقتدار کانگریس کو دھچکا دیا وہیں رائے دہندگان کو علاقائی پارٹیوں کی شکل میں متبادل بھی فراہم کیا۔ ۲۰۱۹ میں اضطراب اور بے چینیاں بالکل اسی جیسی ہیں جیسا کہ ۱۹۶۷ میں مشاہدہ کیا گیا تھا۔ بہرحال، ان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ حالیہ الیکشن رائے دہندگان کو کوئی واضح متبادل دینے سے قاصر ہے۔
جمہوریت کی اچھی بات اس کی مرحلاتی بے اطمینانی ہے۔ اس حوالے سے ، یہ سیاسی اور سماجی اشرافیہ کے خلاف غصہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں کسی متعلقہ سیاسی پارٹی یا فکر کا کوئی دخل نہیں۔ جو بھی ہو، یہ صورتحال بنا کسی اچھے متبادل کے انتہائی خطرناک ہے۔
آنے والے انتخابات میں رائے دہندگان منتخب کرنے سے زیادہ رد کرے گی۔ جبکہ یہ خود بہت بری صورتحال ہے، اس سے بھی زیادہ عیارانہ نکتہ برسراقتدار بی جے پی کا صورتحال کو انتہائی خود غرضانہ طور سے استعمال کرنا ہے۔
کسی بھی جمہوری ملک میں بالخصوص سیاسی پارٹیوں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ صورتحال کو جہاں تک ممکن ہو اچھا کردیں۔ لیکن آ ج ہندوستان کو جس چیز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ بی جے پی کا انتہائی بھدا انداز ہے جو بحران کو مزید خراب شکل دے رہا ہے ساتھ ہی پارٹی رائے دہندگان کے اس بھروسے پہ حملہ آور ہو رہی ہے جو اس نے سیاسی پروسس میں حاصل کیا تھا۔
بی جے پی۔آر ایس ایس مرکب کے لیے رائے دہندگان سے چھیڑ چھاڑ کرنا ان کا نیا سیاسی حربہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی عمل جاری ہونے کے باوجود مرکز اپوزیشن کے قائدین پہ چھاپے مارے جارہا ہے۔ مرکز اس لیے ایسا کرتا ہے تا کہ وہ سیاسی اشرافیہ کے خلاف منظم غصہ کا بھی استحصال کر سکے، اس مقصد کے حصول کے لیے وہ تفتیشی اداروں کو بھی ناجائز قرار دے رہا ہے۔ رائے دہندگان اپوزیشن کے لیڈروں پہ حملے کو خوب سجھتے ہیں کہ یہ سب اقتدار میں رہنے والی پارٹی کے ذریعے سے طاقت کا بے جا استعمال ہے، وہ خوش ہو سکتے ہیں کہ انھوں نے اس اشرافیہ کو نشانہ بنایا جواب اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔ اگر ایسا ہو کہ رائے دہندگان جان لیں یہ حملے کچھ نتائج پیدا نہیں کر پائیں گے تب بھی انھیں اشرافیہ کی “علامتی تذلیل” سے مطمئن ہونا چاہیے، یہ خود غرضی کی اپنے آپ میں ایک بہترین کاروائی ہے۔
رائے دہندگان مجموعی طور سے اسی خود غرضی اور مفاد پرستی کے موڈ میں ووٹ ڈالیں گے۔ یہ ایک الجھن والا اور پہلے کے مقابلے کم جذباتی واقعہ ہے جسے پاپولر میڈیا بنا لہر کا الیکشن کہہ رہا ہے۔ بی جے پی کے میڈیا پہ کنٹرول نے ابھرتی ہوئی بے اطمینانی سے ایک معقول بیانیہ کو روک لینے میں بھی مدد کی ہے۔
نریندر مودی کے حوالے سے، بی جے پی ووٹر کو یہ کہہ کر گھیر رہی ہے کہ انھیں ایک اور موقعہ دیا جائے۔ ایسے ہی جیسے ماضی میں کانگریس کو کئی موقعے دیے گئے۔
گر چہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے اس بیانیہ کو اپنے نیایہ (انصاف): کم آمدنی اسکیم کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ رائے دہندگان اسے اپنے ستر سالہ تجربہ کے تناظر میں دیکھیں گے۔ ان کا انتخاب ایک انتہائی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی بی جے پی اور اس امید کے درمیان ہوگا جو انھیں کانگریس پیش کر رہی ہے۔ رائے دہندگان اس بات کی روشنی میں فیصلہ کرسکیں گے جسے ماضی میں کانگریس بہم نہیں پہنچا سکی۔
وفاقیت کا گھٹتا ہوا گلا:
اسی طرح کی چھیڑچھاڑ کی کہانی ریاستوں میں بھی رہی ہے۔ یہاں بی جے پی کی حکمت عملی ایک جوا ہے: غیر بی جے پی والی حکومتوں کو ان کے عملی کاموں میں رخنے ڈالنا چاہے اس سے ریاستوں کی عوام کو تکلیف ہی پہنچے۔ یہ والی حکمت عملی تمل ناڈو کے 2015 اور کیرلا کے 2018 میں آئے سیلاب اور اس طریقہ کار سے جن کے ذریعے سے دہلی حکومت عام آدمی پارٹی کے ہر بامعنی حکومتی کوششوں کو کمزور کرنے والے ردعمل سے ہی ظاہر ہوگئی تھی۔ بلکہ اگر رائے دہندگان یہ سمجھ جاتے ہیں کہ بی جے پی کا اس طرح کے معاملات میں ایک خاموش کردار بھی ہے تو کیا وہ ریاستی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرائیں گے یا علاقائی پارٹیوں کو یا بی جے پی کو؟
دوبارہ پھر، بی جے پی مجموعی طور پر ایک دیوالیہ متبادل میں اپنی طاقت لگا رہی ہے تاکہ ووٹر صورتحال کو عملی طور سے سمجھ سکے۔ اسی نہج پر، مسلمان بھی ممکنہ طور سے بی جے پی کو باہر کرنے کے لیے اس پارٹی کو ووٹ کرنا پسند کریں گے جو اقلیتوں کے مفادات کا خیال رکھنے کا عہد کریں۔ ایسا ہی معاملہ جموں کشمیر کے ہندوؤں کے ساتھ بھی ہے۔ جبکہ جموں کے ہندو وعدوں کو پورا نہ کرسکنے کی وجہ سے بی جے پی سے ناخوش ہیں۔
منظم خودغرضی:
1980 کی دہائی میں علاقائی پارٹیاں اپنا ایک خاص گُر اور پینترا رکھا کرتی تھیں۔ وہ پینترے والی بات اب بے کار ہوگئی اس لیے کہ رائے دہندگان اب انھیں مرکز کے خلاف مزاحمت کی طاقت کے طور سے نہیں دیکھتے، جو اس وقت کانگریس تھی۔
آج کے رائے دہندگان کسی بھی طرح کے ممکنہ مفاد کی حصولیابی کے لیے مرکز سے جڑ جانے میں کافی عملی ثابت ہوئے ہیں۔ بی جے پی کا ہندوستان کی وفاقی ساخت کا مذاق بنانے کے عمل نے خودغرض رائے دہندگان کی عملیت کو مضبوط کیا ہے۔
بی جے پی کی یہ کوشش ہے کہ کیسے مفاد پرستانہ نظام کو اوپر رکھتے ہوئے یہ دکھائے کہ اسے زمینی اور مزید باوثوق ادارے مثلاًوفیملی، قوم، مذہب اور مسلح طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ لہذا، جو بی جے پی کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ اسے الیکشن کے ذریعے سے خود کو واحد سب سے بڑی پارٹی ثابت کرنا ہے، چاہے اس کے مجموعی اسکور جو بھی ہوں۔
وہ یہ بھی کوشش کرے گی کہ وہ ناقابل شکست مالی طاقت کا استعمال کرے کہ کیسے کانگریس سے جڑی چھوٹی پارٹیوں اور دوسری علاقائی پارٹیوں کو بھی خرید لے جن کے برسراقتدار رہنے کے تعلق سے دلچسپی تھوڑی کم ہے۔
بی جے پی قانونی کیسیس کو کھولوانے کی دھمکی کے ذریعے سے بھی سیاستدانوں کو ان کے خول میں واپس بھجوانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ پھر دیکھیے کہ وہ لوگوں کو ایک اختیار نہ دینے کے فراق میں ہے بنسبت ان کو ایک مثبت اختیار دینے کے آیا وہ کن لوگوں کے ساتھ جائیں۔
بی جے پی کا یہ ڈیزائن کتنا مثمر ہوگا یہ ہندوستان کو دیکھنا ہے اور انتظار کرنا ہے، لیکن یہ مفاد پرستی پہ مبنی عملیت کا نیا عینک کسی بھی مضبوط جمہوری ملک کے لیے خودکشی ہوگا۔ ہمیں یہاں یہ دیکھنا ہے کہ بنسبت ایک مضبوط فلاحی ایجنڈے کے، عملیت کیسے ممکنہ ذرائع سے ایک معتدل فائدہ چاہتی ہے۔ یہ ایک مثبت طاقت فراہم کرنے والے بیانیے کے علاوہ کمزور رائے دہندگان پہ بھی منحصر ہے۔ رائے دہندگان ماضی کے تہوار والے الیکشن کے ماحول سے ہٹ کر خود کشی کرنے کے کگار پہ کھڑے ہیں۔
(یہ پروفیسر اجے گداورتی کے انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے جو scroll.in میں چند دنوں پہلے چھپا تھا)
مقتضائے حال کے مطابق… محرر اور متجرم کے لیے دل کی گہرائیوں 💓💓💝💝💖💖