مسلم معاشرے کی پستی اور معاشی بدحالی

ریاض الدین مبارک

ہمیں اس بات کا اعتراف کرنے میں کسی قسم کا تامل نہیں کرنا چاہیے کہ آج دنیا میں معاشرتی بگاڑ سب سے زیادہ مسلمانوں میں ہے۔ کردار ہو یا گفتار، اعمال ہوں یا اخلاق، تعلیم ہو یا سیاست غرضیکہ زندگی کے کسی بھی شعبے پر غور کریں تو یہی معلوم ہوگا کہ آج کل مسلمانوں کی حالت ہر محاذ پر ابتر ہوچکی ہے۔ بطور خاص بر صغیر جیسی تیسری دنیا میں جینے والے مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ ایک طبقہ جو مسلمانوں سے زیادہ قریب ہے اور نظریاتی طور پر انھیں خود سے جوڑ کر رکھتا بھی ہے اس کا کہنا ہے کہ اس پستی کی اصل وجہ مسلمانوں کی دین سے دوری اور لہو و لعب میں دلچسپی ہے مگر یہ امر تعجب خیز ہے کہ ایک شخص جو لذت عیش سے محروم ہے اسے لہو و لعب کی کیسے سوجھ سکتی ہے! دوسرا طبقہ دانشوروں کا ہے جو صرف تجربات کی روشنی میں بطور جائزہ اپنی بات کہتا ہے، اس بارے اس کی سوچ و فکر کا نچوڑ یہ ہے کہ مسلمان چونکہ تعلیمی سطح پر بہت پیچھے ہے اس لیے وہ مصیبتوں میں گرفتار ہے یعنی اس کی نظر میں اصل وجہ تعلیمی پسماندگی ہے جو اس کی ترقی کی راہ میں سنگ گراں بن کر حائل ہے۔ یہ دونوں وجہیں کسی حد تک درست ہوسکتی ہیں لیکن ان کے علاوہ ایک وجہ اور بھی ہے جو سب سے زیادہ اہم اور قرین قیاس لگتی ہے اور وہ ہے مسلمانوں کی معاشی زبوں حالی۔ حقیقت یہی ہے کہ جس قوم کی معاشی اور اقتصادی حالت بہتر ہوتی ہے وہاں جرائم بہت حد تک ختم ہوجاتے ہیں، تعلیم کا معیار بلند ہوجاتا ہے، فراغ کے اوقات کم ہوجاتے ہیں، ہر فرد آبِ نشاط انگیز سے معمور ہو کر معاشرے کی تعمیر نو میں مشغول رہتا ہے اور اس طرح وہ معاشرہ متمدن، ترقی یافتہ اور خوشحال نظر آتا ہے۔
مسلمانوں کی معاشی بدحالی ہی وہ سنگین مسئلہ ہے جو انھیں ہر میدان میں پیچھے رکھتا ہے۔ اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنا اور بہتری لانے کے لیے دور رس حکمت عملی اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ستم یہ ہے کہ اس معاشی ابتری کو اپنی بحث کا موضوع بنانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ یہ مسئلہ اگر صرف بر صغیر ہند کا ہوتا تو کوئی بڑی بات نہ تھی کہ یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، حکومتی سطح پر ان کے ساتھ سوتیلا برتاؤ ہوتا ہے اور ملک کے جاری اقتصادی نظام پہ ان کا زور نہیں چل سکتا لیکن کیا وجہ ہے مسلم ممالک بھی ذہنی طور پر مفلوج نظر آتے ہیں اور اس موضوع کو زیر بحث لانے سے احتراز کرتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ وہ اسلام جو پوری زندگی کا دستور ہے وہ اپنے پیروکاروں کو اقتصاد و معیشت کا درس ہی نہیں دیتا۔ اسلام کا کوئی معاشی نظام موجود ہے یا نہیں اس پر کسی قسم کی ٹھوس بات چیت نہیں ہوتی۔
مسلمانوں کے پاس قرآن کی شکل میں ایک ایسی بے مثال ربانی کتاب موجود ہے جو آداب زندگی کے ہر پہلو کو پوری عمدگی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ ماضی میں اسی کتاب کی تعلیمات کو اپنا کر مسلمانوں نے ایک درخشاں تاریخ رقم کی ہے جس کا ایک ایک ورق سنہرے حروف سے مزین ہے۔ واضح رہے یہاں مسلمانوں کی روشن تاریخ کا اشارۃً ذکر کرنے سے اپنے اجداد کے کارناموں پہ فخر کرنا یا ماضی تمنائی میں جینے کا ارادہ بالکل نہیں بس یہ بتلانا مقصود ہے کہ جب لوگوں نے قرآن اور اسلامی احکام کو درس زندگی سمجھا اور اسی نہج پر لوگوں کی تربیت کی گئی تب اس تربیت یافتہ جماعت نے بہت ہی مختصر عرصے میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی، ثقافتی، معاشی، تعلیمی اور تہذیبی انقلاب برپا کردیا تھا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حکومت ایک مثالی حکومت تھی جس کا علاقہ کئی لاکھ مربع میل پر پھیلا ہوا تھا۔ اموی دور خلافت ہو یا عباسی یا پھر اندلس کا زریں دور ہو وقفے وقفے سے مسلم سماج نے اعلی تہذیب و تمدن اور ترقی کے جو منازل طے کیے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ عربوں کا وہی معاشرہ جو جہالت کی حدیں پار کرچکا تھا اچانک اور تیز رفتاری سے عالمی فتوحات کرنے لگا۔ اس کے پیچھے صرف اسلام کی برکت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور مومنانہ بصیرت و استقامت کارفرما تھی۔ مگر آج اس کتاب سے مسلمانوں کا تعلق صرف عقیدت کا رہ گیا ہے جبکہ یہ کتاب اپنے مضامین پر عمل کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کتاب غور و فکر اور تدبر و تفکر کی دعوت دیتی ہے، تقلید اور جمود کے بجائے بنظر غائر مطالعہ اور اجتہاد و عمل کے لیے پکارتی ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس کتاب کی آیتوں کو ہدیۂ تبریک پیش کرنے اور محض حصول برکت کا ایک ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ یہ بھول گئے کہ اس کا سب سے بڑا مطالبہ عمل کا ہے۔ اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی اور سماج میں نافذ کرنا زیادہ اہم ہے۔
اس کے برعکس اگر متمدن اور ترقی یافتہ ملکوں کی سماجی حالت پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآنی تعلیمات کا اصل مفہوم انھوں نے سمجھا اور بہت حد تک اسے اپنے سماج میں نافذ بھی کر رکھا ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک معروف ماہر اقتصادیات اسکالر حسین عسکری کا کہنا ہے کہ قرآنی تعلیمات کا عملی نفاذ اسلامی ممالک کے مقابل مغربی ممالک میں زیادہ بہتر ہے۔ اسلامی ممالک سیاست سے لے کر کاروبار، قانون اور سماج ہر میدان میں اپنے ہی عقیدے کی قدروں کو اپنانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
دنیا کے 208 ممالک اور خطوں کے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ اقتصادی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ سماجی اقدار کو زمینی سطح پر قابل عمل بنانے میں جن ممالک کا سب سے نمایاں مقام ہے وہ ہیں آئرلینڈ، ڈنمارک، لوکزمبرگ، نیوزی لینڈ اور برطانیہ۔ اسلامی ممالک میں ملیشیا پہلا مسلم ملک ہے جو اس رینکنگ میں 33ویں مقام پر ہے، اور ٹاپ 50 میں دوسرا مسلم ملک صرف کویت ہے جس کا نام 48ویں نمبر پر درج ہے۔
پروفیسر حسین عسکری اسی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی بزنس اور بین الاقوامی معاملات کے ایک ایکسپرٹ ہیں ان کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک ریاست کو کنٹرول کرنے کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ بہت سارے ممالک جو اسلامی ملک ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ نامنصف اور ظالم ہیں، بدعنوانی اور فساد میں بری طرح لت پت ہونے کے ساتھ ساتھ پسماندہ بھی ہیں اور یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہ کسی بھی پہلو سے “اسلامی” نہیں ہیں۔
جن ملکوں کی پالیسیوں اور کامیابیوں میں اسلامی معاشی تعلیمات کی چھاپ زیادہ گہری دکھائی دیتی ہے، ایک سروے کے مطابق آئرلینڈ، ڈنمارک، لوکزمبرگ، سویڈن، برطانیہ، نیوزی لینڈ، سنگاپور، فن لینڈ، ناروے، اور بیلجیم اس فہرست میں پہلے دس نمبر پر آتے ہیں۔
کسی ملک یا معاشرہ میں اگر غیر منتخب، بدعنوان، ظالم اور غیر منصف حکمراں پائے جاتے ہوں جہاں قانون میں تفریق، انسانی ترقی کے غیر مساوی مواقع، شخصی آزادی کا فقدان، خط فقر سے نیچے پہنچی ہوئی غربت کے ساتھ دولت کی فراوانی جیسی خصلتیں موجود ہوں جہاں مذاکرات اور مصالحتی اقدام کے بجائے جبر و قہر اور جارحیت کے ذریعے تنازعات کے حل تلاش کیے جاتے ہوں اور سب سے بڑھ کر جس جگہ کسی بھی قسم کی ناانصافی کا چلن عام ہو، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔
دنیا میں مسلم ممالک کی تعداد تقریبا 56 ہے اور یہ سب کے سب اسلامی بینر تلے IOC کے ایک پلیٹ فارم پر یکجا بھی ہیں، پھر کیا وجہ ہے یہ سارے اسلامی ممالک بلا امتیاز عرب و عجم قرآنی تعلیمات کو اپنانے اور اللہ کے احکامات کو نافذ کرنے میں کوتاہ ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے ان ملکوں میں اخلاقیات سے لے کر معاملات تک ہر میدان اسلامی تعلیم کی روح سے عاری ہے؟ اسلام کا اپنا ایک معاشی نظام ہونے کے باوجود معاشیات میں انھوں نے اسی مغربی نظام کو اپنا رکھا ہے جو خالص سرمایہ داری سسٹم اور تہ بہ تہ سودی کاروبار پر مبنی نظام ہے۔ جہاں عوام کی فلاح اور غریبوں کی بہبود ثانوی درجے رکھتی ہے۔ یہ بات اور ہے کہ اسلام کے اس معاشی نظام پر کوئی ریسرچ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وہ فرسودہ لگنے لگا اور عملی طور پر کہیں نافذ نہیں کیا جاسکا۔
سرمایہ داری نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں ملکی معیشت کی باگ ڈور چند صاحب ثروت لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ وہی لوگ ملک کی معیشت کو زیر و زبر کرنے کا پورا اختیار اپنے پاس رکھتے ہیں اور آن کی آن میں معیشت کی منڈی کو اتھل پتھل کر رکھ دیتے ہیں۔ اشیاء کا نرخ کیا ہو وہی طے کرتے ہیں یہاں تک کہ زرعی اشیاء جو کسانوں کا پروڈکٹ ہے اس کا مارکیٹ بھاؤ بھی یہی سرمایہ دار طے کرتے ہیں کسانوں کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حکومتیں ٹیکس عائد کرتے وقت انہی سرمایہ داروں کی رضامندی کے عندیہ کی منتظر رہتی ہیں۔ ٹیکس حقیقت میں ایک ایسا محصول ہے جس سے غریب عوام تو بچ ہی نہیں سکتے اور اس کی پاداش میں ان کی کمر دوہری ہوجاتی ہے۔
کچھ اسلامی ممالک کے پاس دولت کی اس قدر ریل پیل ہے کہ اگر وہ چاہیں تو دنیا کے بڑے دماغوں کو اجرت پہ رکھ کر ایک جامع اور مستحکم معاشی نظام تشکیل دیں جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پہ رکھی جائے اور جہاں سودی کاروبار سے مکمل چھٹکارا مل سکے۔ اسلامی بینکنگ کے نام پر جو تجارت شروع کی گئی وہ ایک اچھا قدم ہے لیکن بہت محدود ہے۔ اس کا دائرہ وسیع کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ مگر افسوس! اس سمت میں بھی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی اور مسئلہ کھٹائی میں پڑگیا ہے۔
دنیا کے تمام اسلامی ممالک اسی سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ان کی اقتصادیات مغربی ممالک کے دست تصرف میں ہے وہ جب چاہیں ان کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں فقط چند پونجی پتی داد عیش دیتے ہیں اور بقیہ نان شبینہ کے محتاج رہتے ہیں۔ اس ظالمانہ سسٹم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے مذہبی طبقے کی طرف سے ایک تازیانہ اس شکل میں آیا کہ تنگ دستی اور مفلسی کی وضع کو تقدیر کا جزو ثابت کر دیا گیا اور اس طرح عوام نے اس نظام سرمایہ داری کی پیدا کردہ برائیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔
فی الحال اگر کوئی متبادل نظام نہیں ہے اور سرمایہ داری نظام ہی ناگزیر ہے تو وقتی طور پر اس کی خامیوں کی جراحی ہونی چاہیے، اس میں استحصال کی شقوں کو دور کرکے کارآمد بنانا چاہیے نہ کہ اس پر اسلامی پیوندکاری کرکے ملمع سازی کردی جائے اور اس کے قبح کو اسلامی خرقے سے ڈھانپ دیا جائے۔
سماجیات پر ریسرچ کرنے والے اور اپنے گرد و پیش پر گہری نظر رکھنے والے لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جب تک انسان کی معاشی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں اس کے اندر ان گنت خرابیاں پنپتی رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ اخلاقیات سے بھی عاری ہوجاتا ہے اور امیروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر ٹکٹکی نگاہوں سے ان کی عطیات اور بخششوں کا منتظر رہتا ہے۔ جس معاشرے میں انسان کی معیشت اچھی ہو وہ صحتمند ہوتا ہے۔ بنیادی وسائل کی فراہمی اسے ترقی کی راہیں دکھاتی ہے اور وہ نت نئے انکشافات کے ذریعے معاشرے کو استحکام بخشتا ہے۔ بصورت دیگر جو سماج معاشی بدحالی کا شکار ہو وہاں کا انسان ضروریات زندگی کے حصول میں تگ ودو کرتے کرتے اپنی عمر عزیز گنوا بیٹھتا ہے۔ دن بھر کی تھکان سے چور گھر لوٹتے ہی چھوٹی چھوٹی اور نہایت معمولی باتوں پر گھریلو جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں اور ایک دن اسی دہکتے ہوئے دوزخ میں مر کھپ جاتا ہے۔ اسی پراگندہ ماحول میں اس کی نسلیں بوڑھی ہو کر بے مائیگی کا یہی سرمایہ آنے والی نسلوں کو منتقل کرکے فنا ہوتی رہتی ہیں۔ صاحب ثروت اور اشرافیہ طبقے کے لوگ ان مفلسوں کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھتے ہیں اور جتنے غلیظ کام ہیں وہ سب انہی کے حصے میں ڈال دیتے ہیں۔
سرمایہ داری نظام سے پہلے جاگیرداری نظام بھی انسانی قدروں کو پائمال کیا کرتا تھا۔ جاگیردار جو حکومت وقت کی عطا کردہ زمینوں کا مالک اور محنت کش انسانوں کا براہ راست حاکم ہوتا تھا اس کے مظالم کچھ کم نہ تھے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جاگیردار مزدوروں کو صرف اتنی اجرت دیا کرتے تھے جس سے ان کے جسم کی توانائی برقرار رہے اور وہ محنت کرنے کی قابلیت سے محروم نہ ہوں۔ حکمراں طبقے کے ساتھ یہ جاگیردار کسی نہ کسی صورت تمام جائیداد کے مالک بنے ہوتے تھے اور بنا کچھ کیے دھرے عیش و تنعم میں جیتے تھے۔ پھر وقت نے پانسہ پلٹا اور ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جو بورژوا یعنی اشرافیہ کہلایا۔
اسی ٹرانزیشن پیریڈ کے دوران مختلف شہروں میں جب تجارتی منڈیاں قائم ہونے لگیں، صنعت وحرفت کو فروغ دیا جانے لگا تب بورژوا جماعت کو پنپنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا۔ اس وقت اس طبقے نے اپنے کاروباری ذہن و دماغ کو استعمال کیا اور جگہ جگہ نئی منڈیاں، ادارے اور کمپنیاں بنائیں۔ دھیرے دھیرے اسی بورژوا یعنی اشرافیہ طبقہ نے جاگیرداروں کو اکھاڑ پھینکا۔ تاہم برصغیر میں جاگیرداری چلتی رہی اور اس کے بقایاجات اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جہاں وہ مزدوروں کو اپنا محکوم سمجھتے ہیں۔ بہرکیف اس اشرافیہ گروہ نے ملکی معیشت پر قبضہ جمانا شروع کیا، اپنے کاروبار کو وسعت بخشی، اپنے مصنوعات کی تشہیر کی اور سماج میں اثر و نفوذ پیدا کیا۔ اس طرح انھوں نے سرمایہ داری نظام قائم کیا۔ اس نظام نے صنعتی انقلاب پیدا کردیا اور طرح طرح کے ایجادات نے جنم لیا۔ مشینوں کی ایجاد کے بعد پروڈکشن میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور پوری کی پوری معیشت ان کے کنٹرول میں آگئی۔
دوسری طرف اسی عہد میں محنت کش طبقے کی اذیتیں روز بروز بڑھتی جا رہی تھیں۔ کمزوروں اور مزدوروں پر ظلم و تشدد اور ان کے حق میں عدم مساوات نے پورے سماج کو آتش فشاں بنا دیا تھا جو کسی بھی لمحہ پھٹنے کے لیے تیار تھا۔ دن رات کام کرنے کے بعد محنت کشوں کو نہ مناسب اجرت ملتی تھی اور نہ ہی انھیں آرام نصیب ہوتا تھا گویا وہ انسان نہیں بلکہ مشین بن گئے ہوں۔ انسانی ظلم کے خلاف دھماکہ خیز مادہ تیار ہوچکا تھا بس بارود کو آگ لگانے کے لیے ایک چنگاری کی ضرورت تھی۔
آج سے تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے آخر وہ گھڑی آ چکی تھی جب مزدوروں کو ان کا حق دلانے کے لیے جرمن فلسفی کارل مارکس نے اشتراکیت کا اس قدر پر شور نعرہ بلند کیا کہ اسے سنتے ہی پورا یوروپ تھرا گیا اور اس کی صدائے بازگشت پوری دنیا میں گونج اٹھی۔ یہ مارکس ازم کسی مفروضے پر قائم کیا ہوا کوئی نظریہ نہیں بلکہ انسانی سماج کا ارتقا تھا۔ طبقاتی جبر و استحصال کے خلاف بے رحم جنگ کا اعلان تھا۔ پرولتاریہ یعنی مزدوروں اور کسانوں کو مساوات اور اشتراکیت کی نوید سنا کر سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا داعی تھا۔
بہت ہی مختصر وقفے میں اشتراکیت نے لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہر پڑھا لکھا شخص خود کو کمیونسٹ اور اشتراکی کہہ کر دوسروں پر اپنی برتری کا اظہار کیا کرتا تھا۔ بڑے بڑے دانشور اور قلندر بھی اس کی چپیٹ میں آ چکے تھے۔ شمال مشرقی یوروپ کے ساتھ سوویت روس پورے ستر سال تک اشتراکیت کی مثال بنا رہا۔ اشتراکیت کی درانتی کئی عرب ممالک کو بھی اپنے دامن میں سمو چکی تھی۔ اس دور میں مزدوروں پر جو قہر برپا تھا اشتراکیت کا نعرہ اس کے لیے موت کا جرس ثابت ہوا اور اشتراکیت کے علمبرداروں کو مسیحا سمجھا گیا۔ کارل مارکس کی آواز در اصل نئی نہیں تھی اس سے پہلے بھی چھٹی صدی عیسوی کے وسط ساسانیوں کے عہد حکومت میں جب عام انسانوں پر ظلم اور جابرانہ طرز حکومت کا ستم ایجاد ہوا تھا تب بھی انسانوں کی برابری کو عام کرنے کے لیے ایرانی فلسفی مزدک نے کچھ اصول وضع کیے، اس میں ایک خاص بات یہ تھی کہ پراپرٹی کسی کی خاص ملکیت نہیں بن سکتی ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ اس طرح مزدک نے ایرانی حکمرانوں میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرکے مقبولیت حاصل کرلی تھی لیکن جس طرح ہر شخص کو جائداد سے فائدہ حاصل کرنے کا حق دیا اسی طرح عورت کو ایک متاع مشترک سمجھ کر اس سے لطف اندوز ہونے کا اس کا نظریہ اتنا خطرناک اور غیر فطری تھا جو اس کی موت کا سامان بن گیا اور رفتہ رفتہ اس کا سوشل ریفارمنگ کا نظریہ اپنی موت آپ مرگیا۔
اشتراکی معاشی نظام جو سرمایہ داری کے استحصال کی رد عمل میں ابھرا تھا اس کا پیغام پوری دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا تھا لیکن اس کے منشور میں موجود کچھ غیر فطری اصولوں کی وجہ سے سرمایہ داری کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ سرمایہ داری کا عفریت اس قدر سخت جان نکلا کہ اشتراکیت کے پے در پے حملوں کے باوجود شوریدہ سر ہو کر ابھرا اور پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ عالمی معاشی نظام کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
آج ایک بار پھر محنت کشوں اور مزدوروں پر سختیوں کے وہی دن لوٹ آئے ہیں جہاں ان سے علی الاعلان کئی کئی گھنٹے اضافی کام لیے جاتے ہیں اور معاوضے کے نام پر چند سکے پکڑا دیے جاتے ہیں جبکہ ان مزدوروں کی محنت کی بدولت کمپنیاں اپنی تجارت کو فروغ دیتی ہوئی پورے ملک اور بسا اوقات عالمی پیمانے پر وسعت عطا کرتی ہیں۔ ان کی آمدنی میں ہر سال کئی گنا اضافہ درج کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مزدوروں کا استحصال اس قدر ہو رہا ہے کہ وہ پوری زندگی کام کرنے کے باوجود جب ریٹائر ہوتا ہے تو وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے دو وقت کی روٹی سکون سے میسر آسکے اور اس کے بچوں کی ڈھنگ سے کفالت ہوسکے۔
آج نگاہیں منتظر ہیں ایک ایسے ریفارمر کی جو معاشرے میں انقلاب برپا کرسکے۔ آج ضرورت ہے ایک ایسے میکینزم کی جو اللہ تبارک وتعالی کے پیدا کردہ وسائل سے استفادے کی راہ ہموار کرے اور جس سے انسانی احتیاجات کی تکمیل ہوسکے۔ آج انسانی زندگی کو درپیش تمام مسائل پر سنجیدگی سے بحث کرنا از حد ضروری ہے۔ معاشی مشکلات کو حل کرنے، تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور اخلاقی برتری حاصل کرنے کی گفتگو عام ہونی چاہیے۔ صرف آخرت کو انسانی زندگی کا مقصود بنا کر پیش کرنے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے بلکہ امور دنیا پر تقریریں ہونی چاہیے جس سے معاشرے کی اصلاح ممکن ہو، اس سے گریز خارجیت کہلائے گی۔
سرمایہ داری نظام تمام وسائل اور منڈیاں اپنے تصرف میں رکھتا ہے تاکہ استحصال بھرپور کرسکے اس کے برعکس اسلام انفرادی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتا ہے جو ایک فطری چیز ہے لیکن اسے اجتماعی مفاد کے تابع رکھتا ہے تاکہ کسی کی انفرادی ملکیت سے دوسرے کا استحصال نہ ہو۔ جبکہ سرمایہ داری نظام میں مفاد عامہ کا کوئی تصور ہی نہیں وہاں تو مزدور بھی ایک وسیلہ ہے۔ اسی لیے آج کی دنیا میں Human Resource (انسانی وسائل) ایک معروف اصطلاح بن چکا ہے اور ہر کمپنی میں اسے کنٹرول کرنے کا ایک مضبوط ادارہ موجود ہے۔
مسلمانوں کو اگر باوقار زندگی جینا ہے تو انھیں اسلامی اصولوں پر مبنی معاشی نظام قائم کرنا ہوگا جہاں حاکم و محکوم دونوں کے حقوق محفوظ ہوں اور استحصال کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ اسلامی تعلیمات کو مجتہدانہ نظر سے پڑھنا اور غور و فکر کرنا لازمی ہے۔ قرآن کو صرف تبرک اور ذریعہ ثواب سمجھ کر پڑھنے کے بجائے اس کی آیتوں پر تدبر کرنا اور اس کو سمجھنے کی دعوت کو عام کرنا لازمی ہے تاکہ عہد ماضی کی طرح اسلامی معاشرہ ایک بار پھر سے مثالی معاشرہ بن سکے اور اقوام عالم میں مسلمان سربلند ہو کر اسلامی زندگی کا ثبوت دے سکے!!

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
سعد

بہترین مضمون، آنکھ کھولنے والا مضمون…. ہمیں ایسے بہت سے مضمون کی ضرورت ہے جس سے ہمیں اقتصاد، معاشیات اور معاشرے کو سمجھنے میں آسانی ہو. ہم اقتصاد اسلامی نام کی کسی شئی کو آج خود ڈسکس نہیں کرتے پھر ہم کیا کر رہیں ہیں. کیا اسٹیٹ پہ کو مجرم مان لینا کافی ہوگا.. شیخ ایک نکتہ تو دیکھئے پچھلے تیس چالیس سال سے جو دینی طور پہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ ہیں وہ کیا، کر رہیں؟ جو باہر سے پڑھ کر آتے ہیں اور فنڈ بھی کر سکتے ہیں دین سے بھی واقف ہیں ان کی محنت… Read more »

atiqurrahman

ماشاء اللہ چشم کشا تحریر واقعی معاشی پہلو بے حد اہم ھے اور ہمیں احساس بھی ھے اور آپ نے بھی اسی احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کی ھے کاش آپ ایسے نکات بھی بیان کرتے جس سے اسلامی معاشی نظام کے متعلق مطالعہ کیلئے بھی رہنمائی ملتی تو بھی بہتر ھوتا۔