میں ایک ایسی کارپوریٹ فرم میں گزشتہ تقریبا ایک دہائی سے ملازمت کررہا ہوں جو اب تک تسلسل کے ساتھ ارتقائی منازل طے کرتے ہوۓ اپنی صنف کی دو درجن سے زیادہ کمپنیوں میں نمبر تین پر آپہونچی ہے۔ مگر ۲۰۱۹ کا ربع اول (Quarter 1 -2019) باقی مہینوں کے تناسب میں معمولی مایوس کن رہا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں صرف تین ماہ کے نتائج میں کمی انتظامیہ کے لئے اس قدر تشویش کا باعث بن گئی ہے کہ آۓ دن تجزیاتی اجلاسات ہورہے ہیں اور جوابدہی کے تئیں اعلی منتظمین کی نیندیں غائب ہوچکی ہیں۔
تمہید یہ بتانے کے لئے باندھی گئی ہے کہ دنیاوی و دینی ہر دو معاملات میں مثبت نتائج کا انحصار صرف عمل مسلسل نہیں بلکہ ساتھ ہی تجزیہ، خود احتسابی، جوابدہی اور اصلاحاتی اقدامات پرہوتا ہے۔ کل برادرم شمس الرب خان کی فکر پر مبنی عزیزم کاشف کی مکاتب / مدارس و کانوینٹ اسکولوں پر ایک موازناتی پوسٹ کے بعد میں نے اعداد و شمار کی چھان بین کرنی چاہی۔ مکاتب و مدارس کی صحیح تعداد کا پتہ تو نہ چل سکا البتہ یہ ضرور اندازا ہوا کہ موجودہ ہندوستان میں بالخصوص مسلم آبادیوں میں مکاتب کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ بات اگر شمال مشرقی ہندوستان کی کیجاۓ تو کم و بیش ہر گاؤں میں مکاتب موجود ہیں۔
قبل اس کے کہ ارباب حلت و حرمت مجھ پر لبرل اور اینٹی مذھب ہونے کا فتوی داغیں، واضح کرتا چلوں کہ برصغیر میں مدارس و مکاتب کا مسلم امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ جسے بآسانی شمار بھی نہیں کرایا جاسکتا۔ اختصار میں اگر کہا جاۓ تو ہندوستانی مسلمانوں کا اسلامی تشخص انہیں بوریوں اور چٹائیوں کا مرہون منت ہے۔ ہزارہا سلام ہے ان نفوس سلف کو جنہوں نے امت کے مفاد کے تحت اس کی پرخلوص داغ بیل ڈالی تھی۔
لیکن… مکاتب کی ان بیش بہا خدمات کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ یہ مسؤلیت اور جوابدہی یا اصلاح کے زمرے سے خارج کوئی مافوق الفطرت یا آفاقی شعبے جات ہیں کہ جن پر گفتگو، تنقید یا محاسبے کی بات کرنا نقص ایمان کا سبب بن جاۓ۔ اس بات سے آج کسی اہل دانش کو انکار نہیں کہ ہمارے لاکھوں مکاتب گزشتہ کئی دہائیوں سے وہ نتائج نہیں دے پارہے ہیں جو ان سے مطلوب ہیں یا جو ان پر ہونے والےاخراجات کے بقدر ہوں۔ ان سے متعلق ایک معمولی تعداد کے علاوہ اکثریت نہ تو دینی اعتبار سے مستحکم ہے اور نہ ہی دنیاوی کامیابی سے ہمکنار ہے۔ بہت ساری دیگر وجوہات کے ساتھ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مکاتب و مدارس کو روحانی خانے میں رکھتے ہوۓ انہیں ہر قسم کے احتساب سے مستثنی تسلیم کرلیا ہے۔ انہیں ملی سرماۓ کے بجاۓ ذاتی اجارہ داریوں کی شکل دے دی گئی ہے جس میں نہ تو مشاورتی طریقۂ کار کا دخل ہے اور نہ ہی جوابدہی کا کوئی امکان شامل ہے۔ امت کے زکات و عطیات کا ایک خاطرخواہ حصہ ان پر صرف ہوتا ہے مگر نتائج کو لے کر ہم کبھی اسے گرفت کی صف میں کھڑا نہیں کرپاتے۔
بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ ہمارے تشخص کے نگہبان ان مکاتب و مدارس کے سربراہان کے تعین کے لئے ہمارے ہاں دو بنیادی معیار ہیں۔ یا تو منتظمین کا اہل ثروت و سیٹھوں کی صف سے ہونا ضروری ہے یا پھر اہل جبہ و دستار میں سے آنا مشروط ہے۔ جبکہ ان دونوں کے ساتھ ساتھ سربراہان کے لئے بہتر منتظم، نتیجہ پرور اور اچھا آڈیٹر ہونا بھی یکساں ضروری ہے۔ جب تک ہمارے مدارس و مکاتب محاسبہ، جوابدہی اور آڈیٹ کے زمرے میں نہیں لائےجائیں گے تب تک ان کا یہی حال اور ان سے مرتب ہونے والے نتائج ایسے ہی ہوں گے۔ لازمی ہے کہ سہ ماہی اور سالانہ ان کا مالی تجزیہ و آڈیٹ ہو، خراب نتائج کے اسباب کا پتہ لگاکر انہیں دور کرنے کے سخت عملی اقدامات ہوں۔ اگر ایسا ہوا تب جاکے ایک نفع بخش مثبت نتیجہ سامنے آۓ گا… شاید یہی اصل مفہوم بھی ہے “الا كلكم راع و كلكم مسول” کا۔ مجھے یکسر تعجب کے ساتھ ہنسی بھی آتی ہے کہ ان مدارس پر عوام کا سوال اور محاسبہ کیسے ناجائز ہوجاتا ہے جن میں خود انہیں عوام کا سرمایہ لگا ہوتا ہے۔ اگر مدارس کا آڈیٹ غیر جائز ہے تو حکومت کو ٹیکس دینے کے بعد پٹرول کی قیمتوں اور سڑک کے گڈھوں پر پیشانیوں پر بل لانا بھی حرام ہی ہونا چاہئے۔
سچر کمیٹی کے اعداد وشمار کے مطابق مسلمانوں کا صرف تین سے چار فیصد ان مدارس سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اس لیے جب کبھی ان کے تعلق سے تنقید کی جاتی ہے تو اجارہ داران ملت کی طرف سےجواب ملتا ہے کہ ان تین چار فیصد نفوس پر تنقید نہ کرکے آپ باقی ۹۷ فیصد کی فکر و اصلاح کیوں نہیں کرتے۔ ان معصوموں کو یہ نہیں معلوم کہ ہندوستان جیسے ملک میں یہ مدارس و مکاتب امت مسلمہ کی ریڑھ کی ہڈی اور ان کے اسلامی تشخص کے اولین نگہبان ہیں۔ تو بھلا آپ ایسے اہم حصے کو جوابدہی سے الگ کیسے رکھ سکتے ہیں۔ ضروری ہوچلا ہے کہ…
* مدارس و مکاتب کو شخصی اجارہ داریوں سے نکال کر ملی اداروں کی شکل دی جاۓ۔
* ان کی سربراہی ثروت و تقوی کی بنیادوں کے ساتھ ساتھ بہتر منتظمین، محاسبین اور دوراندیشوں کے ہاتھوں سونپی جاۓ۔
* ضلعی، صوبائی اور مرکزی تنظیموں کے ادارے مکاتب و مدارس کا مالی و نتائجی آڈیٹ کریں۔
* اچھے نتائج پر ستائش کے ساتھ ساتھ خراب نتائج پر نہ صرف تجزیہ بلکہ گرفت اور سزا بھی ہو۔
یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر بالا اقدامات ہوۓ تو…
• ملت کی مزید دلچسپیاں اور تعاون مکاتب و مدارس کے لئے سامنے آئیں گے۔
• نتائج مثبت ہونے کے بعد اس میں شمولیت کا تناسب تین چار فیصد سے کہیں زیادہ ہوگا۔
• مدارس و مکاتب سے منسلک افراد زیادہ مستحکم اور اجرت کے اعتبار سے زیادہ مطمئن ہوں گے۔
• دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور میں بھی یہاں سے متعلق افراد کہیں زیادہ کامیاب ہوں گے۔
اس موضوع پر روایتی کانفرنسیں نہیں بالکہ اہل علم و نظر کا بہت ہی سنجیدہ اور موثر سیمینار ہونا چاہئے۔ نصاب پر الجھنےاور بحث کرنے کے بجاۓ اس بات پر وچار ومرش کرنا چاہئے کہ ہندوستان کے کونے کونے میں اربوں روپئے کی زکات سے چلنے والے لاکھوں مکاتب کو کیسے نتیجہ آمیز بنایا جاۓ۔ ہمیں مثال سامنے رکھنی چاہئے کہ محض صحیح نظم، آڈیٹ اور جوابدہی نے دلی کے گورنمنٹ اسکولوں کو ملک کے دیگر سرکاری اسکوں سے کس قدر ممتاز بنا رکھا ہے۔ اسلام نظام حیات ہے اور جب تک ہمارے سربراہان و نظماء “نظام” کے صحیح مفہوم سے نابلد رہیں گے تب تک اس ضمن میں کچھ بھلا نہیں ہوسکتا، ہم آپ خواہ کتنے ہی صفحات سیاہ کیوں نہ کرلیں۔
آپ کے تبصرے