اصحابِ عقیدہ ہونے کی وجہ سے ہمارا یقین ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ قضا و قدر اور مصلحتِ الہی سے خالی نہیں۔ بے شمار ایسی چیزیں جو بظاہر انسانی صحت اور جان و مال کے منافی ہوتی ہیں یا تو اس میں اللہ کی طرف سے انسانوں کے لیے تنبیہ اور تنصیح کا اشارہ ہوتا ہے یا پھر کچھ غیر مرئی مصلحتیں موجود ہوتی ہیں۔
گزشتہ کئی مہینوں سے ایک غیر مرئی وائرس کے زیر اثر نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری انسانیت جانی و مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ مجھے نہیں علم کہ یہ کوئی عذاب ہے یا اللہ کی طرف سے انسانوں کے لیے اس کے برے اعمال سے گریز کی تنبیہ اور رجوع الی اللہ کی طرف اشارہ، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس مرض نے پوری دنیا بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں میں بہت سے اثباتی پہلو اجاگر کیے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس مرض نے پچھلے کئی مہینوں سے پورے ملک کو مفلوج سا کردیا ہے، معیشت اور حصولِ رزق کے تمام تر وسائل یکسر مقفل ہوچکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی بیشتر آبادی دیہی علاقوں سے وابستہ ہے۔ شہروں کی طرف منتقلی کے باوجود آج بھی ہندوستان کی کم و بیش ۷۰ فیصدی آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔ باوثوق اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں آج بھی ۳۷ فیصدی وہ لوگ ہیں جن کے پاس کوئی کھیت یا زمینی ملکیت نہیں ہے جبکہ دلت، ادیواسی، بیک ورڈ ذاتیوں کے پاس زمین کی ملکیت بہت معمولی اور بالکل نہیں کے بقدر ہے۔ وہیں ملک کی تمام زمینوں کا ۱۵ فیصدی سے بھی زائد حصہ صرف تین فیصد زمینداروں کے قبضے میں ہے۔ مجموعی طور پر آج بھی ہندوستانی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ یا تو غریب یا خطِ غربت سے بھی نیچے کے لوگ ہیں جنھیں روز کنواں کھودنا اور پیاس بجھانی پڑتی ہے۔ اس عداد و شمار کے ذکر کا مقصد بس یہی یاد دلانا ہے کہ اس مہاماری کے دوران یہ ایک تہائی سی زیادہ والا وہی طبقہ ہے جو مکمل طور پر متاثر ہوا ہے اور جسے کرونا سے زیادہ شکم کی بھوک سے موت کا خطرہ درپیش ہے۔ صرف یہی طبقہ نہیں بلکہ ہندوستان کا نصف سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر سفید پوش نظر آتے ہیں مگر وہ بھی وسائل بند ہونے کی وجہ سے بھوک و فاقے کی زد میں آچُکے ہیں۔
متعدی امراض میں دو بنیادی باتیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ ایک “فزیکل ڈسٹینسنگ” اور دوسرے “سوشل کلوزنیس”…. فزیکل ڈسٹینسنگ تو آسان سی بات ہے مگر سوشل کلوزنیس کے لیے بہت بڑے دل اور ایمانی جذبے کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ لکھتے ہوۓ بڑا اطمینان اور فخر محسوس ہورہا ہے کہ تمام تر نفرتوں کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں نے تعاون اور ہمدردی کا یہ جذبہ بلا کسی مذہب و ملت کی تفریق کے تمام ضرورت مندوں کے لیے ملکی سطح پر دکھایا ہے۔ اس ماحول میں یہ خیر سامنے آیا ہے کہ ہر شہر گاؤں میں مسلمانوں نے اپنے عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور ضرورت مندوں کا ایثار کے جذبے کے تئیں ساتھ دیا ہے۔ گلی محلوں میں موجود نوجوانوں نے معمولی سطح پر اور محدود وسائل کے باوجود سیکڑوں گھروں میں بچوں کو بھوکا سونے سے روکا ہے۔ میں خود اپنے شہر کے درجنوں ایسے افراد کو جانتا ہوں جنھوں نے اپنی صحت کو داؤں پہ لگا کر رات دن لوگوں کے گھروں میں راشن کی فراہمی کی ہے۔ ایسا نہ ہوا ہوتا تو شاید آج ملک میں صورت حال اور بھی سنگین ہوتی اور کورونا سے زیادہ اموات ہمارے آس پاس بھوک سے ہورہی ہوتیں۔ جزاھم اللہ احسن الجزاء
نہ صرف اجتماعی بلکہ انفرادی طور پر بھی مسلمانوں نے اس بات کا مکمل ثبوت دیا ہے کہ ہم اس وقت تک اچھے مومن ہیں ہی نہیں جب تک ہمارا پڑوسی بھوکا ہو۔ ہمارے اردگرد ایسے شرفاء بھی ہیں جو فاقہ کے باوجود زبان کھولنے کو تیار نہ تھے، قربان جائیے ان لوگوں پر جنھوں نے ایسے لوگوں کا پتہ لگا لگا کر کسی بہانے سے ان کے گھروں میں کھانے پینے کے سامان بہم کراۓ۔
شہروں سے گاؤں کی طرف کوچ کررہے لاکھوں مزدوروں کی حالت زار کی جہاں ہزارہا ایسی تصویریں آئیں جنھیں کوئی حساس انسان دیکھنے کی بھی تاب نہیں لاسکتا، وہیں بے شمار ایسی تصویریں اور ویڈیوز بھی موجود ہیں جو مسلمان نوجوانوں کے تعاون اور بھائی چارے کے جذبے کو نمایاں کرتی ہیں۔ جگہ جگہ یہ نوجوان مزدوروں کو کھانا پانی، جوتے چپل اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اللہ انھیں اجر حسنہ کے ساتھ مزید توفیق سے نوازے۔
اس نیک کام میں جہاں مسلمان جوان پیش پیش نظر آۓ وہیں سکھ بھائیوں کا تعاون بھی جگہ جگہ قابل ستائش رہا ہے۔ کئی جگہوں پر ہندو مخلصین نے بھی ملکی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوۓ تعاون کا کام انجام دیا۔ چھوٹے چھوٹے پلیٹ فارموں نے اب تک وہ بڑے کام کیے جو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ مزدوروں کی بھوک پیاس کا خیال رکھتے ہوۓ ہماری مساجد اور تنظیموں نے ہزارہا افراد کو کھانا کھلانے کا اہتمام کیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ تعاون ملت ہی کے افراد سے عمل میں آیا جو اس آزمائش کے وقت میں بہت بڑے خیر کی علامت ہے۔ ممبرا جیسے چھوٹے شہر میں جہاں کئی تنظیموں نے بڑے کام کیے وہیں “مجلس آگہی” اور “ دی فری لانسر” جیسی محدود افراد و وسائل پر مشتمل اکائیوں نے سیکڑوں گھروں میں مسکراہٹیں بکھیری ہیں۔ ان سے وابستہ احباب اللہ کی طرف سے اجر کے ساتھ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
موجودہ حالات میں ایسے رفاہی اقدامات کو لوگوں تک نمایاں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسروں کو بھی ایسے کاموں میں شمولیت کا حوصلہ مل سکے اور ملکی تعمیر و ناگہانی وقت میں مسلمانوں کی شراکت کا علم ہوسکے۔ یقین جانیں اللہ کے یہاں اجر کے ساتھ ساتھ ایسے مثبت کام نفرتوں کے ازالے میں بھی معاون ہوں گے۔ سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر پر ہزارہا معروف غیر مسلم احباب ہمارے کاموں کی بے حد سراہنا کررہے ہیں بس افسوس ہے تو یہ کہ ہم خود اپنی اچھائیوں کو اجاگر کرپانے سے قاصر ہیں۔ موجودہ حالات میں مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کرنا کسی قسم کی ریاکاری کے زمرے میں آۓ گی۔
کورونا اور لاک ڈاؤن کا یہ اتنا بڑا مثبت اور خیر کا پہلو ہے کہ جس پر اللہ سے اجر و ثواب کی امید کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت کی بھی امیدیں وابستہ رکھنی چاہئیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی یہ تسلسل باقی رہے۔ اللہ سے تمام معاونین کے لیے اجر حسنہ کی دعا کے ساتھ قارئین سے درخواست ہے کہ ایسی کوششوں اور تصویروں کو عام کریں تاکہ کم ازکم مثبت فکر والوں کے یہاں آپ کی مزید مثبت تصویر ابھر کر سامنے آسکے۔
یقینا ہر شر میں خیر کا پہلو موجود ہوتا ہے. قدرتی حادثے ہوں یا وبائی امراض و آفات اور جانی ومالی نقصان کا جو بھی حجم ہو روئے زمين پر موجود تمام مخلوقات کیلئے ان میں سو فيصد اجتماعی خیر ہے. ان آفات ومصائب میں سو فيصد فاسد عناصر کی بيخ کنی کے ساتھ ساتھ جن کے اندر خیر کا پہلو کسی حد تک موجود ہوتا ہے انکو الله پاک کی طرف سے إصلاح حال کے لئے ایک اور مهلت دی جاتی ہے. اس طرح سے آفات ومصائب کچھ لوگوں کے لئے سزا کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کیلئے… Read more »