آخر پاس ہوگیا… تین طلاق بل

ڈاکٹر عبدالرحیم خان

بالآخر ٹرپل طلاق بل دونوں ہی ایوانوں میں پاس ہوگیا۔ گرچہ اس میں کئی قانونی پیچیدگیاں اور خامیاں ہیں اور کئی ناحیوں سے اس میں قانونی ترمیم کی ضرورت ہے مگر ہم خوش ہیں۔ خوش یوں کہ قرآن و احادیث میں صراحتی نصوص کے باوجود نہ صرف اس کا رواج عام تھا البتہ کچھ اہل جبہ و دستار کی بھی اسے پشت پناہی حاصل تھی۔ باوجود اینکہ اس بل کے پس پردہ انسانی کم سیاسی مفاد زیادہ مضمر ہیں البتہ یہ اشارہ ہے کہ دین کے خلاف روش اپنانے پر اسی طرح اوروں کے ہاتھوں امت کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب قافلہ لٹ چکا تو اب کچھ زود پشیمانوں کی پشیمانی یوں منطقی جامے میں سامنے آرہی ہے کہ “میاں! جب قرآن و سنت کے بموجب ایک مجلس کی تین طلاقوں سے طلاق ہوا ہی نہیں تو پھر اس پر کسی قانون یا کسی سزا کی ضرورت ہی کیا ہے؟”۔ کاش اس کا احساس پہلے سے ہوتا اور ہم اس غیر شرعی طریقۂ کار کی دینی پشت پناہی نہ کرتے تو شاید نہ اس کا چلن ہوتا اور نہ آج اکثریت کو آمریت دکھاتے ہوۓ سیاسی روٹیاں سینکنے کا موقعہ ملتا۔ اب اگر ہم اس قانون کے منہ پر طمانچہ مارنا چاہتے ہیں تو ہماری ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ہم برملا اس کے غیر شرعی ہونے کا اس طرح اعلان کریں کہ امت نہ اس کے قریب جاۓ اور نہ ہی اس کے تحت کوئی معاملہ درج ہو۔ نتیجتا یہ قانون خودبخود اپنی موت آپ مرجاۓ گا۔

ویسے ٹرپل طلاق بل اپنے آپ میں کوئی نیا یا اکلوتا قانون نہیں ہے۔ ستی پرتھا ہندوستان کے اعلی ہندو طبقے میں اس قدر عام تھی کہ ۱۸۰۳ میں قانونی پابندی کے باوجود کلکتہ میں محض ۳۰ میل کے دائرے میں ۴۳۸ واقعات تاریخ کے اوراق نے قلم بند کیے ہیں۔ پابندی اور تقریبا دو دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی صرف بنگال میں ستی کے ۸۳۹ واقعات سرکاری طور پر ریکارڈ کیے گئے۔ بالآخر ۱۸۲۹ میں کچھ انسانیت دوست کاوشوں کے چلتے نہ صرف اسے غیرقانونی بلکہ جرم کی حیثیت سے قانون بند کیا گیا۔ اس کے باوجود ہمارے ملک میں بیسویں صدی کے اواخر تک ستی کی کئی وارداتیں دیکھنے کو ملی ہیں اور پھر مجبورا حکومت کو ۱۹۸۷ میں ستی قانون میں ترمیمات کرکے مزید سخت سزاؤں کے دائرے میں لایا گیا۔ اسلام نہ صرف نظام حیات بلکہ عین انسانیت نواز مذہب ہے۔ گرچہ اکبر اعظم کا اسلام سے کوئی خاص لینا دینا نہ تھا پھر بھی اس نے ستی پرتھا کو کچھ خاص تائید نہیں فراہم کیا بلکہ وہ اس کے خلاف ہی رہا۔ اورنگ زیب نے۱۶۶۳ میں باقاعدہ ایک فرمان جاری کیا جس کے مطابق ستی پرتھا کو روکنے کے کئے سرکاری اہل کاروں کو حکم دیا گیا تھا۔ ایک ایسا مذہب جو نہ آسمانی ہے اور نہ جس کی بنیادیں قرآن و سنت جیسی انسانیت محافظ اصولوں پر مبنی ہیں، اسے بھی روایتی خرابیوں کو سمجھنے اور اس سے دوری اختیار کرنے میں کوئی عار نہ محسوس ہوئی۔ انھوں نے نہ صرف اس کو ختم کیا بلکہ اس پر قانون بننے اور سزائیں ہونے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔ ایک ہم مذہبی اجارہ داروں کی تقلید میں دھت نام نہاد مسلمان ہیں جن کے پاس قرآن ہے، نبی آخر صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے مگر غیر شرعی رواجوں سے نہ خود دوری اختیار کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے خلاف قانون و سزا کا خیرمقدم کرسکتے ہیں۔

اب آئیے بات کرلیتے ہیں اس منطق کی جسے بار بار حکومت اس قانون سازی کا سبب گردان رہی ہے۔۔۔۔۔ “انسانیت دوستی اور جنسی عدل و انصاف”۔ دراصل معاملہ وہ ہے نہیں جو نظر آرہا ہے۔ اگر اس قانون کے پس پردہ جینڈرجسٹیس کا فارمولہ ہوتا تو ہندوستان میں موجود اعداد و شمار و زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوۓ ترجیحات کا تعین کیا جاتا۔ عالمی سطح پر ہندوستان مجموعی طور پر طلاق کی شرح میں سب سے نچلے پائیدان پر ہے۔ ہمارے یہاں ایک فیصدی سے بھی کم شادیوں میں طلاق ہوتی ہے۔ مزید تفصیل میں جائیں تو خود ہندوستانی سینسیس کے مطابق مسلمانوں میں یہ مزید کم یعنی صرف 0.56% ہے جبکہ ہندؤں میں یہ شرح 0.76% ہے۔ اب اگر آپ جاننا چاہتے ہیں ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق کے واقعات کی تعداد، تو ویمن کمیشن آف انڈیا کے بموجب یہ بہت اور بہت ہی کم ہے۔ اتنا کم کہ پورے ملک میں سالانہ بس چند گنتی کے ایسے احمقانہ واقعات دیکھنے سننے کو ملتے ہیں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ ۲۰۱۷ میں بہار میں “پکڑوا بیاہ” (یعنی زبردستی دولہا کڈنیپ کرکے ہونے والی شادیاں) کی سرکاری تعداد ساڑھے تین ہزار ہے۔ یہ تعداد طلاق ثلاثہ سے کہیں زیادہ ہے۔ ہندوستان میں شادی کے بعد بنا طلاق کے اپنی شریک حیات کو ہمیشہ ہمیش کے لیے چھوڑ دینے والوں کی تعداد طلاق ثلاثہ کیا بلکہ عمومی طلاق سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ انسان دوستی اور جینڈر جسٹیس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اعداد و شمار کے بموجب قانون سازی میں ترجیحات مرتب کی جاتیں۔ حد تو یہ ہے کہ ٹرپل طلاق سے کہیں زیادہ آج شرح گینگ ریپ اور لڑکیوں کے جنسی استحصال کی ہے جہاں قانون گرفت اور سزاؤں کے لیے نااہل سا نظر آتا ہے۔ ہندوستان میں ٹرپل طلاق سے کہیں زیادہ سالانہ واقعات ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ کے جنسی جبر کا شکار بنی عورتوں کے ہوتے ہیں۔ اس پر قانون سازی اور بل لانے کی ترجیح کیوں نہیں کی جاتی۔ ہندوستان میں ٹرپل طلاق سے زیادہ ہر سال عورتوں کی آنر کلنگ کے معاملات درج کیے جاتے ہیں۔ یہاں جینڈر جسٹیس اور عورتوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوۓ سخت ترین سزاؤں کا انتظام کیوں نہیں کیا جاتا۔

جینڈر جسٹیس اور تحفظ خواتین کے زمرے میں اعداد و شمار کی ہمارے ملک میں سیکڑوں اصناف ہیں جہاں واقعات کی شرح طلاق ثلاثہ سے کہیں زیادہ ہے پھر بھی حکومت کو نہ انھیں اجاگر کرنے میں دلچسپی ہے اور نہ ان کی روک تھام سے غرض ہے۔ طلاقہ ثلاثہ صرف ایک سیاسی ہتھکنڈا اور مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ ہمیں تمھارے اندرونی معاملات میں بھی تصرفات کی جسارت حاصل ہے۔ بہتر ہوگا کہ اسے مثبت طور پر قبول کیا جاۓ اور معاشرے میں اس غیرشرعی روایت کو مکمل ختم کرنے کی طرف ذاتی و ملی اقدامات کیے جائیں۔ کوئی حرج نہیں کہ آپ مسلکی گٹ بندیاں رکھیں، رفع یدین و آمین بالجہر میں مختلف الآراء ہوں مگر ابھی بھی وقت ہے کہ بنیادی مسائل و معاملات میں اصل قرآن و سنت کی طرف رجوع کرلیں۔ ایسا نہ ہو کہ آج یہ بل تھا کل کوئی اور بل ہو اور ہم اظہار پشیمانی اور تجزیہ نگاری کرتے رہ جائیں۔ یاد رکھا جاۓ کہ اللہ کا دستور بلا چوں و چرا کے بہت شفاف ہے کہ “ومن يبتغ غيرالاسلام دينا فلن يقبل منه”۔

آپ کے تبصرے

3000