تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل ہو

محمد جاوید عبدالعزیز مدنی

تراویح افضل ترین عبادت ہے جسے رمضان المبارک کے مہینے میں اس نیت کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے کہ اللہ رب العالمین اگلے اور پچھلے تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ مگر اس عبادت کے تعلق سے بعض شبہات لوگوں کے ذہن میں پائے جاتے ہیں جیسے اس میں قرآن کا ختم کیا جانا واجب ہے، یا تراویح مختصر ہونی چاہیے نہ کہ اتنی لمبی کہ ہماری ٹانگیں دکھنے لگیں اور پھر وہ دوسرے دن سے شاید دکھائی نہ دیے۔ جب کہ یہ نفلی عبادت ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ تراویح سے جب پلٹتے تھے تو انھیں خدشہ ہوتا تھا کہ کہیں ہماری سحری کا وقت ہی نہ نکل جائے۔ اس مسئلہ پر بے جا شکایتوں سے بچنا چاہیے ان لوگوں کو عبادت کرنے دیجیے جو خلوص اور للہیت کے ساتھ اللہ کے لیے عبادت کرنا چاہتے ہیں۔
ایک عجیب بات جو آج کل لوگوں میں عام ہوچکی ہے کہ قرآن کا مکمل پڑھ کر ختم کرنا واجب نہیں۔ یا قرات لمبی نہیں ہونی چاہیے۔ ٹھیک ہے قرات ایسی بھی نہ ہو کہ لوگ اکتا جائیں اور ایسی بھی نہ ہو کہ کسی تیز رفتاری کا مسابقہ ہوجائے بلکہ متوسط طریقہ سے خوش الحانی کے ساتھ ہمارے حفاظ کرام کو رقت و لذت کے ساتھ قرآن کے پڑھنے اور سننے والوں کو سننے دیجیے۔
تراویح میں قرآن کریم کا ختم کرنا مسلمانوں کی سنت رہی ہے۔ اللہ کے لیے اس سنہرے موقع کو بے لگام مت کیجیے۔ امام احمد بن حنبل ؒ ایسے قاری کو پسند فرماتے تھے جو تراویح میں قرآن ختم کرتا۔ امام کاسانی ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس اعتبار سے آیتوں کے پڑھنے کا حکم دیا تھا تین مرتبہ قرآن ختم کیا جاتا ہوگا۔ البتہ جو اس تعلق سے غلط فہمی رکھتے ہیں کہ “قرآن ختم تو تراویح ختم” ، ان کی اس غلط فہمی کو دوسرے انداز (درس اور افہام و تفہیم) سے دور کیا جانا چاہیے کہ صلاۃ التراویح کی اپنی ایک اہمیت و فضیلت ہے۔
تراویح میں قرآن کریم کا ختم کرنا کئی فائدوں سے خالی نہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جب آپ کوئی سبق کسی کو سنا لیتے ہیں تو اس میں پختگی آجاتی ہے پھر اگر بار بار اسے سنایا جاتا رہے تو وہ اور پختہ ہوتا ہے۔ ہمارے حفاظ کرام نے بڑی محنت اور لگن سے قرآن کو یاد کیا ہے مگر آہستہ آہستہ ان کے ذہن سے محو ہوتا جا رہا ہے وجہ یہی ہے کہ کچھ عرصوں سے یہ بات عام ہوچکی ہے کہ تراویح میں قرآن ختم کرنا واجب نہیں۔ پھر حفاظ کو بھی یہ کہا جاتا ہے کہ ختم نہیں کرنا ہے۔ ٹھیک ہے! مگر مسلمانوں کی ایک سنت تو رہی ہے۔ اور یہ ڈر بھی رہے کہ قرآن کریم قرب قیامت اٹھا لیا جائے گا کہیں اس کی ایک صورت تو نہیں۔ ہاں، ختم کرنا واجب نہیں، اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ آپ ختم کرنا ہی چھوڑ دیں، سنن و نفلی عبادات بھی تو واجب نہیں تو کیا اب انھیں بھی ترک کردیا جائے۔ لہذا حفاظ کرام کے لیے رمضان کا مہینہ بہترین موقع ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو پختہ کرلیں۔ اور سنانے کے بعد ان کے حفظ میں اور پختگی آجاتی ہے۔
اسی طرح سے قرآن کریم کو سننا بھی ایک سنت نبوی رہی ہے اور عبادت کی ایک شکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے قرآن کریم کو سنا، سننے میں فائدہ یہ ہے کہ سننے والے کو صرف ایک ہی کام کرنا ہے یعنی آیتوں پر غور و تدبر کرنا۔ جب کہ پڑھنے والے کو پڑھنا بھی ہے اور سمجھنا بھی ہے اسی لیے رسول اللہ ﷺ کبھی کبھار صحابہ کرام سے سنا کرتے تھے بلکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے قرآن پڑھ رہا تھا اور آپ سن رہے تھے جب میں اس آیت کریمہ پر پہنچا کہ ” فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ، وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا [النساء: 41] ” تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: بس ، بس۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا آپ رو رہے تھے۔ مقتدیوں کو مکمل قرآن کریم پر غور و تدبر کا موقع مل جاتا ہے۔ قرآن کریم سنتے ہوئے کئی ایسے نکات ذہن میں آجاتے ہیں جو پڑھتے وقت نہیں آتے۔ خشیت اور خوف الہی سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ غیر حافظ علماء اور عربی جاننے والوں کے سامنے ایک خاکہ تیار ہوجاتا ہے کہ کون سی آیت کہاں ہے۔
ضمنا یہ بھی بتلاتا چلوں کہ کئی لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم رمضان میں ختم کرنا ضروری نہیں، ضروری نہیں لیکن سنت ہے۔ جو لوگ ختم کرنا چاہتے ہیں ان کو یہ کہہ کر ختم کرنے سے روک دیا جاتا ہے کہ” ارے صرف رمضان میں ہی ضروری تھوڑی ہے “۔ نبی کریم ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ہر رمضان میں تاوقت نازل شدہ قرآن مکمل سنایا کرتے تھے بلکہ آخری رمضان میں نبی کریم ﷺ نے دو مرتبہ مکمل قرآن سنایا۔ معلوم ہوا کہ مکمل قرآن رمضان المبارک میں ختم کیا جانا سنت ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ہر سنت قابل اتباع ہے اور حتی المقدور ادا کی جانی چاہیے۔ اللہ ہم سب کو توفیق دے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000