اس وقت کورونا وائرس سے احتیاط کے طور پر جب وقتی طور پرمسجدوں میں باجماعت نماز نہ ادا کرنے پر لوگ پابند ہیں تاکہ سبب کو اپناتے ہوئے دوری اختیار کرکے اس کے خطرات کو کم کیا جائے اور اسے پھیلنے سے روکا جائے۔ تو وہیں کچھ لوگ ایک غلط فہمی لوگوں کے درمیان پھیلارہے ہیں کہ آن لائن باجماعت نماز ادا کرکے جماعت کا ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے یعنی یوٹیوب، اسکائیپ یا ویڈیو کالنگ کے کسی ایپ یا سافٹ وئیر کے ذریعہ ایک شخص امامت کرائے اور دیگر افراد اس کی اقتدا میں نماز ادا کریں۔ اسی طرح کا ایک پرانا مسئلہ ریڈیو یا ٹی وی میں لائیو کہیں جماعت ہو رہی ہو تو ان کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ درست ہوگا؟ اور کیا شریعت کے دلائل و مقاصد اس بات سے متفق ہیں؟
اس کا ایک جملہ میں جواب یہ ہے کہ ایسی جماعت درست نہیں اور جو شخص ایسے طریقہ سے نماز ادا کرے اس کی نماز ہی نہیں ہوگی چاہے مجبوری کا ہی عذر کیوں نہ پیش کیا جائے۔ اس کے کئی سارے اسباب ہیں:
۱۔ کچھ احکامات ایسے ہوتے ہیں جو صرف ایک وقت کے لیے نہیں ہوتے بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے دلیل بن جاتے ہیں بالخصوص نماز ایسا فریضہ ہے جسے لوگوں کو ہمیشہ ادا کرنا ہے اور اگر اس وقت کے حالات کو مجبوری کہا جائے تو اس سے پہلے بڑی بڑی مجبوریاں لوگوں کو انفرادی اور اجتماعی شکل میں پیش آتی رہی ہیں پھر اس سے متعلق فتاوے علماء کی طرف سے کیوں نہیں صادر ہوئے؟ وجہ یہی ہے کہ یہ جائز اور درست نہیں۔ اور ایسے نازک وقت میں جواز کا بیان دینے والے مستقبل میں لوگوں کے درمیان صرف فتنہ چاہتے ہیں۔ کیا آگے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ایک ضروری کام میں ہوں، آنے اور جانے میں وقت کا ضیاع ہوگا اور پھر اسے عذر شرعی بنا کر یا کسی اور عذر کو پیش کرکے گھر ہی میں آن لائن جماعت کا قیام شروع کردے۰۰۰؟ جس طرح پچھلے وقت میں وسائل ہونے کے باوجودآن لائن نماز باجماعت درست نہیں تھی اسی طرح اس وقت بھی جائز اور درست نہیں۔
۲۔ آن لائن جماعت کے جائز کہنے میں کئی سارے ایسے احکامات کا ابطال ہے جن پر اجماع ہوچکا ہے یا ان پر صریح دلائل کتاب و سنت میں موجود ہیں گویا صرف اس ایک حکم کے ذریعہ سے کئی سارے اجماع ٹوٹ رہے ہیں اور کتاب و سنت سے ثابت احکامات کو ختم کیا جارہا ہے۔ جیسے امام بطور ذات مقتدیوں سے آگے رہے گا۔ (اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے) ایسے ہی امام کی تبعیت یعنی پیروی واجب اور ضروری ہے نہ سبقت ہو اور نہ ہی بہت زیادہ تاخیر۔ امام کا صفوں کو درست کرانا۔ مقتدیوں کے درمیان صف میں خلل کا نہ ہونا۔ بلا سبب اکیلے شخص کا نماز نہ ادا کرنا۔ وغیرہ
ان کے علاوہ کئی ساری چیزوں کی فضیلت حاصل کرنے سے لوگ محروم ہوجائیں گے۔ جیسے اذان دینے کی فضیلت، امامت کے مقام سے محرومی، پہلی صف کی فضیلت۔ وغیرہ
۳۔ آن لائن جماعت کے نہ ہونے پر موجودہ دور کے علماء کرام کا اتفاق ہے۔ اگر آپ کہیں کہ میں نے یہ کہاں سے نقل کیا تو جو موثوق اور متعمد علیہ اہل علم اس وقت موجود ہیں اور ایسے ہی جو گذر گئے اور ان تمام وسائل کے وجود میں آنے کے بعد تک موجود تھے سبھی نے کتاب وسنت کے دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا کہ اس طرح سے جماعت نہیں ہوتی۔ رہی بات خواہش پرستوں کی تو خود ان کا کوئی مسلک و مذہب اور اصول نہیں، نہ کتاب اللہ کی تفسیر پر ان کا کوئی منہج اور قاعدہ ہے نہ ہی حدیث کی فقہ اور اس کے صحت و ضعف پر حکم لگانے میں ان کا کوئی اصول ہے۔ ان کی جہالت کی کوئی حد نہیں لہذا ایسے لوگوں سے شریعت سے مسائل و احکامات کو اخذ کرنا جائز اور درست نہیں۔
۴۔ آن لائن جماعت ادا کرنے میں صفوں کا انقطاع ہے، جماعت کی درستگی کے لیے ایک اہم شرط یہ ہے کہ صفیں متصل ہوں۔ صفوں کے اتصال سے مراد یہ ہے کہ پیچھے والے مقتدی آگے والے مقتدیوں یا امام کو دیکھ سکتے ہوں یا کم از کم امام یا تکبیر کہنے والے کی آواز کو بآسانی بغیر کسی وسیلہ کے بھی سنا جاسکتا ہو۔ جیسے کہ ایک ہی مسجد میں جب لوگ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت یا تو مسجدوں میں صفوں کا اتصال ہوتا ہے یا مائک وغیرہ خراب ہونے یا بجلی کا کنکشن کٹ جانے کی شکل میں امام سے قریب مقتدیوں میں سے کسی تکبیر کہنے والے کی آواز کو سنا جاسکتا ہے۔ جب کہ آن لائن جماعت میں یہ سب چیزیں مفقود ہیں۔ اگر انٹرنیٹ کا کنکشن سست ہوجائے تو مقتدی کہیں رکوع میں ہی رہ جائیں گے اور کہیں سجدہ اور جب کہ کچھ قیام کی حالت میں ہی رہیں گے اور امام ہوسکتا ہے سلام تک پھیر لے۔ اور اگر کنکشن ہی کٹ جائے تو مقتدیوں کا کیا ہوگا؟ کبھی یہ بھی ممکن ہے مقتدی یہ سمجھیں کہ امام رکوع کر چکا ہو جب کہ لمبی قرات کی بنیاد پر ان کا امام ابھی تک قیام میں ہی تھا۔ اس طرح کے بیانات پر عمل کی صورت میں صرف اور صرف نماز کا مذاق ہوگا اور یہ شریعت کے احکامات کے استہزاء سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ آن لائن جماعت میں ایسا کثرت سے واقع ہونا یقینی ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
۵۔ آن لائن جماعت میں شریعت کی اس طریقہ سے بھی مخالفت ہے کہ مقتدی امام سے آگے کھڑا ہوجائے۔ بہت امکان ہے کہ امام پیچھے ہے اور جو آن لائن نماز ادا کر رہا ہو اس کا گھر اسی علاقہ یا بالکل اس کے بغل میں قبلہ کی جانب اس سے آگے ہو۔ قارئین خود فیصلہ کریں کہ امام لوگوں سے آگے بڑھ کر ان کی امامت کراتا ہے پھر اگر مقتدی ہی اس سے آگے بڑھ جائیں تو ان کی نماز کہاں ہوگی؟ بلکہ ایسے مقتدی کی نماز باطل ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اسی پر امت کا اجماع رہا ہے کہ مقتدی امام سے آگے نہیں ہوسکتے اور اسی پر ساری دنیا میں ابتدا سے لے کر ابھی تک عمل بھی ہے اور اسی پر عمل رہے گا۔
لوگوں نے دیکھا بھی ہوگا کہ کسی مسجد میں دو تین منزلے ہوں یا مسجد کے بغل میں ہی کوئی کمرہ لیا جاتا ہے تو ہمیشہ اوپری منزلے کی صف یا بغل میں بڑھائے گئے کمرے کی صف یا تو امام سے پیچھے ہوکر کھڑی ہوتی ہے یا ضرورت کی صورت میں زیادہ سے زیادہ امام کے برابر میں ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ خود جب بھی نماز پڑھاتے تو صحابہ کرام ؓ آپ سے پیچھے رہتے اور آپ ان سے آگے۔ ہر جگہ جہاں بھی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے مقتدی امام سے ذرہ برابر بھی آگے نہیں ہوتے۔
۶۔ جماعت کی صحت کے لیے ایک شرط اور ہے کہ دونوں کا موقف ایک ہی ہو۔ یعنی دونوں ایسی جگہ میں ہوں جو حقیقتا یا حکما ایک ہی شمار ہو۔ جیسے مسجد میں امام ہو یا اگر مقتدی بھی مسجد کے اوپر ی حصہ میں ہوں یا مسجد سے ملحق الگ کسی کمرہ میں نماز ادا کرتے ہیں جو مسجد کا ہی حصہ ہو تو یہ حقیقتا ایک جگہ میں ہیں، اور اگر امام اور بعض مقتدی مسجد میں ہوں اور بعض مسجد میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے باہر ایسی جگہ میں نماز اد ا کریں جو مسجد کا حصہ نہ شمار ہوتی ہو مگر اگلی صف سے متصل ہی ان کی صف ہو یا ایک یا دو صفوں کے فاصلہ کے ساتھ ان کی صف ہو توحکما ایک ہی جگہ میں ہیں گرچہ جگہ کی ملکیت الگ الگ ہے اور وہ مسجد کے امام کی اقتدا میں ہی ہوں گے۔ جیسے راستے میں یا مارکیٹ وغیرہ میں جب مسجد بھر جاتی ہے تو بعض لوگ اتصالِ صف کے ساتھ اپنی ہی دکان میں نماز ادا کرلیتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: الشرح الممتع علی زاد المستقنع٤/٢٩٧)
اور اگر درمیان میں کوئی خلل پیدا کرنے والی چیز کا آنا یقینی ہو جیسے راستہ یا نہر، تواس راستہ یا نہر سے آگے موجود امام کی اقتدا میں نماز نہیں ادا کرسکتے جیسا کہ فقہاء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا گرچہ وہ آواز کو سن سکیں اور امام یا اپنے سے آگے والے مقتدیوں کو دیکھ سکیں۔ سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی تبعیت (بلا تاخیر کے اتباع) کے فوت ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہوسکتا ہے راستہ سے کوئی گاڑی وغیرہ گذرنے لگے اور مقتدی امام کو دیکھ نہ سکیں یا نہر سے کوئی کشتی گذرنے لگے تو امام کی تبعیت فوت ہوجائے گی۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ١/ ١٤٥، البحر الرائق شرح کنز الدقائق مع حاشیہ ابن عابدین١/٣٦٥) تو کیا آن لائن نماز کے جواز کا کوئی راستہ ہوسکتا ہے جب کہ یہاں تو امام سے کب رابطہ کٹ جائے اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ حضرت عمر ؓ کہا کرتے تھے جس کے اور امام کے درمیان نہر، کوئی باغ یا راستہ ہو تو وہ امام کے ساتھ نہیں۔ (المحلیٰ لابن حزم :٢/٣٧٨)
شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ نے الشرح الممتع میں اس پر تفصیلی بحث لکھا جس کا خلاصہ یوں ہے: درست بات یہی ہے کہ اتصال الصفوف کی قید لگائی جائے گی اگر صفیں متصل نہ ہوں تو نماز درست نہ ہوگی۔ اور ریڈیو یا ٹیلیویژن کے پیچھے نماز کے تعلق سے کہتے ہیں کہ یہ قول باطل ہے اس لیے کہ اس میں صفوں کے انقطاع کے ساتھ ساتھ جماعت اور جمعہ میں حاضر ہونے کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور اس سے شریعت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: الشرح الممتع علی زاد المستقنع٤/٢٩٨)
۷۔ نماز باجماعت میں شریعت کا مقصد الفت و محبت کا قائم کرنا، محلہ والوں کی خیر خیریت اور ان کی حاجات و ضروریات کا علم، آپسی اتحادو اتفاق وغیرہ ہے، آن لائن جماعت سے یہ سب مفقود ہوجائے گا۔ لوگوں میں دینداری کا خاتمہ ہوگا اور لوگ علماء اور دین سے دور ہوجائیں گے۔
۸۔ آن لائن کسی امام کے پیچھے نماز کی ادائیگی پر جماعت کا ثواب ملنے کا دعویٰ کرنے والوں کے مطابق ہم ان سے یہ پوچھیں گے کہ کیا اگر کوئی مسجد حرام (کعبہ) کے امام کی اقتدا میں نماز ادا کرے تو کیا اس شخص کو کعبہ میں نماز ادا کرنے والوں کے مثل ایک لاکھ گنا اجر ملے گا؟ جس طرح کوئی عقلمند انسان اس چیز کو قبول نہیں کرے گا بالکل ایسے ہی آن لائن جماعت کا حکم ہوگا، اور اگر کوئی ہاں کہتا ہے تو پھر مسجد نبوی میں بھی کوئی کیوں نماز ادا کرے جب کہ اسے ایک ہزار کے بجائے ایک لاکھ گنا زیادہ ثواب مل رہا ہے؟ کون ہے جسے ایک لاکھ ثواب نہ پسند ہو؟ کیا اس طرح کے بیانات سے مساجد کی اہمیت کو ختم کرنا مقصد نہیں۔
یہ بات تو یقینی ہے کہ ایسے بے تکے فتووں سے نہ مساجد ختم ہوگی اور نہ ہی ان کی اہمیت ختم ہوگی۔ لیکن کئی نفس پرست لوگ اسے دلیل بنا کر مساجد سے دوری اختیار کرلیں گے۔ مسجدوں کو آباد کرنے کا جو مقام و مرتبہ اور ایمان والوں کی علامت رب العالمین نے بیان کیا وہ سب کے سب آگے چل کر ان کے لیے ایک طرح کی حکایت بن جائے گی کہ اسے تو ایسے ہی ذکر کیا گیا ہے؟ جیسا کہ بعض لوگوں نے لکھ بھی دیا کہ ‘‘مسجدیں تو صرف اٹھک بیٹھک کی جگہیں ہیں۔’’ (نعوذ باللہ)
ان کے لیے صرف ایک آیت بطور اہمیت یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
‘‘إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ’’
کہ بے شک اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور زکوۃ دیتے ہیں اور صرف اور صرف اللہ سے ڈٖرتے ہیں اور یقینا وہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔ (توبہ: ۱۸)
مذکورہ بالا تمام نکات سے واضح ہوا کہ آن لائن نماز کے جواز کا کوئی راستہ ہی نہیں، اس طرح کے بیانات بہت ہی بلید اور کند ذہن اشخاص کی طرف سے آتے ہیں جو شریعت کے احکامات و مقاصد کو ذرہ برابر نہیں سمجھتے، جن کے پاس فقہ الحدیث و الشریعہ تو کیا عربی کی عبارات سمجھنے تک کا اسلوب نہیں۔ خاص کر اس بیان میں صرف اور صرف من مانی توجیہ اور لوگوں کو دین سے دور کرنے کی ایک شرارت ہے۔
ایسے ہی اس طرح کے بیانات کا اصل مقصد مساجد کی اہمیت کو ختم کرنا، علماء و ائمہ و موذنین کے درجات و فضائل کا انکار، جمعہ و جماعات کی اہمیت کے ساتھ ان کے قیام کے مقاصد کو فوت کرنا اور دینی جہالت اور لاعلمی کو بڑھانا، اتحادو اتفاق اور آپسی الفت و محبت اور بھائی چارگی کے ذرائع کو معاشرہ سے مٹانے کے سوا اور کچھ نہیں۔
اللہ ہمارے اندر تقویٰ اور للہیت پیدا کرے اور شریعت کی سچی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ماشاءاللہ بہت اچھا ہے
السلام و علیکم !
آن لاءین جماعت سے متعلق غلط فہمی کو بڑے ہی خوبصورت اندا میں دور کیا گیا ھے۔ اور موقع کی مناسبت سے ضروری تھا ۔
ماشاءاللہ
اللہم زد فزد۔