علماء کے اجتہادات کا احترام واجب ہے

محمد جاوید عبدالعزیز مدنی رمضانیات

عید کی نماز کا مسئلہ اٹھنے کے بعد سے کئی بھائی اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ ہمارے یہاں دینی مسائل میں سعودی عرب جیسی اجتماعیت کیوں نہیں؟ مگر وہ وہاں کی حکومت اور نظام کو نہیں دیکھتے کہ سب میں بڑا انعام جو سعودی عرب کو عطا ہوا ہے وہ ایک موحد، متبع سنت اور عادل حکومت کی سرپرستی ہے جہاں منبر پر سب میں پہلے “اتقوا اللہ” کی صدا بلند ہوتی ہے۔ بڑی سی بڑی آپ غلطی کرلیں “اتق اللہ” کہہ کر معاف کردیا جاتا ہے۔
عرب حکومت نے اپنے سارے معاملات میں دینی پیشواؤں کو مقدم رکھا ہے۔ ان کی ایک کمیٹی ہے جو کتاب و سنت کے علم میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ہر معاملہ پر گہری نظر رکھتی ہے۔ کسی بھی چیز کے نافذ ہونے سے پہلے علماء کی کمیٹی سے رائے لی جاتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ حکومت اور قوت سب کے سب ایک ہی جھنڈے کے تابع ہیں اور وہ کتاب و سنت کا جھنڈا ہے اور یہی وجہ ہے کہ چاہے ان کے دوست ہوں یا دشمن سبھی اس بات کو ماننے پر مجبور ہیں کہ وہاں سے زیادہ امن اور سکون کہیں نہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ یہاں کے بعض علماء اور وہاں کے فتووں میں تضاد کیوں نظر آرہا ہے؟ یہ بات بھی ہے کہ ہندوستان کے معتمد اداروں سے بالکل وہی فتویٰ صادر ہوا ہے جو سعودی عرب کے مفتیان نے دیا۔
(میرا مقصد صرف ان لوگوں کو چند باتیں سمجھانا ہے جو سوشل میڈیا پر علماء کے اجتہادات کا مذاق بنائے بیٹھے ہیں)
بات شروع کرنے سے پہلے یہ واضح کردوں کی عید کی نماز اور اس کے بعد خطبہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اس پر لوگوں کو اتنا واویلا کرنا پڑے۔ مسئلہ اجتہادی ہے اور ایسے میں علماء کی مختلف آرا آجانے کے بعد عوام دلائل کی روشنی میں جو زیادہ اقرب الی الصحہ معلوم ہو اس پر عمل کرلے یا اگر کوئی عامی ہو تو وہ اتنی تو عقل رکھتا ہی ہے کہ کون صحیح کہتا ہے کس کی باتوں میں دلائل ہیں اور کس کی باتیں بلا دلیل۔ لہذا ہمیشہ ایسے عالم سے رجوع کرے جو اسے دلائل سے مطمئن کردیتا ہو اور وہ اسے اپنے نزدیک ثقہ سمجھتا ہو اور پھر اسی کے فتووں کے مطابق عمل کرلے۔ (یاد رکھیں ایسے بھی نرے شخص کا پایا جانا بہت ہی کم ہے الا یہ کہ کوئی بالکل ہی ان پڑھ اور ناسمجھ ہو۔ ورنہ ہمارے فیس بک یوزرز اور واٹس اپ وغیرہ استعمال کرنے والے اتنے تو سمجھ دار ہیں ہی کہ دلائل کی روشنی میں فیصلہ کرسکیں اور رہے وہ افراد جو نہیں سمجھ سکتے تو یہ ان کو سمجھا ضرور سکتے ہیں)
ہمیں چند بنیادی چیزوں کو جاننا چاہیے:
۱)اجتہادی احکامات میں جگہ اور وقت کے اعتبار سے تغیر و تبدیلی کا ہونا ممکن ہے۔
۲) احکامات میں شریعت کا مقصد اور اس کی روح کو بھی جاننا چاہیے تاکہ بآسانی نتیجہ تک پہنچ سکیں۔
۳)لاک ڈاؤن میں جب کہ مسجدیں بند ہیں اور کئی ممالک دوسرے ملکوں میں اندرونی خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ایسے میں حکومتوں کا اپنی عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکنہ طریقہ کو اپنانا واجب اور ضروری ہے۔
۴) چونکہ لاک ڈاؤن کے اس خاص اجتہادی مسئلہ میں کوئی نص صریح نہیں لہذا جتنا زیادہ سے زیادہ سنت پر عمل کرنا ممکن ہو ہر جگہ کے افراد کو اپنی استطاعت کے مطابق سنت اور مستحبات پر عمل کرنا چاہیے۔
۵)ساتھ ساتھ ایک مفتی کی گہری نظر بھی اس چیز پر ہونی چاہیے کہ دوسرے علاقہ کے علماء نے جو فتویٰ جاری کیا ہے وہ کس بنیاد پر ہے نہ کہ صرف ان کی دیکھا دیکھی، یا گن گاتے ہوئے تائید میں تحریریں عوام میں نشر کرنے لگیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ایسا خوفناک منظر ہے جسے شاید ہی دنیا نے کبھی دیکھا ہو۔ اسباب کئی سارے ہیں ورنہ مہاماریاں اور وبائیں تو اس سے بھی سخت پھیلیں اور ختم ہوگئی ہیں۔ جس میں سب میں بڑا کردار سوشل میڈیا کا ہے جس نے قریب تو کیا مگر سوشل ڈسٹینس بھی ساتھ لے آیا۔
کورونا وائرس جیسی وبا میں جہاں مسجدوں میں بھی جانے پر روک لگادی گئی ہے اور جماعت کے لیے اکٹھا ہونا منع ہے اور ایسے ہی دوسری جگہوں پر بھیڑ بھاڑ کرنا منع ہے ورنہ لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے تو عید کی نماز کس طرح ادا کریں؟ ایک بڑا مسئلہ سامنے آیا۔
لہذا “فاتقوا اللہ مااستطعتم” کو سامنے رکھتے ہوئے اور تمام لوگ سنت نبوی پر عمل کرسکیں تو یہ زیادہ مناسب ہوا کہ عید کی نماز کو گھر میں ہی اسی طرح ادا کرلیا جائے جس طرح امام لوگوں کو پڑھاتا ہے۔
اور اس سال گھروں میں ادا کی جانے والی عید کی نماز کو قضا کہنا بھی درست نہیں کیونکہ قضا اس نماز کو کہا جاتا ہے جسے امام اور دیگر مسلمانوں کی جماعت نے ادا کرلیا اور چند افراد کی نماز چھوٹ جائے۔ مگر یہاں کیفیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت اکٹھی ہی نہیں ہوئی جنھیں امام نماز ادا کرائے۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ خطبہ دیا جائے یا نہ دیا جائے؟ تو جب سنت پر عمل کرنا اورکرانا ہی ہے تو مکمل سنت پر عمل کرنا یہ زیادہ افضل ہے یعنی گھر میں اگر دو یا زائد افراد ہوں تو ایک شخص خطبہ دے (ضروری نہیں کہ کوئی بڑا خطبہ ہو بلکہ معمولی سی وعظ و نصیحت بھی کافی ہے پھر آخیر میں ان حالات سے باہر نکلنے کے لیے دعا بھی کریں) اور یہی چیز رسول اللہ ﷺ عید کے خطبہ میں کیا کرتے تھے کہ وعظ و نصیحت اور دعائیں ہوا کرتی تھیں جیسا کہ بیشتر احادیث اس تعلق سے معروف ہیں۔
اب جیسا کہ میں نے شروع میں ایک نکتہ ذکر کیا کہ اجتہادی احکامات میں جگہ اور وقت کے اعتبار سے تغیر و تبدیلی کا ہونا ممکن ہے۔ یہی سبب مجھے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ سعودی کے علماء نے حالات اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خطبہ سے منع کیا اور روکا ہے جیسا کہ شیخ سلیمان الرحیلی سے دکتور محمد بن فھد الفریح نے سوال کیا کہ کیا اس سال عید کی نماز گھروں میں ادا کی جائے گی تو ان کا جواب تھا ہاں، اور ویسے ہی ادا کی جائے گی جیسا کہ امام نماز ادا کراتا ہے۔
پھر آگے انھوں نے قدیم اقوال میں خطبہ سے منع کرنے کا ایک سبب ذکر کیا کہ اس کے اس عمل سے اس شخص پر یہ الزام لگ سکتا ہے کہ وہ امت میں اختلاف پیدا کرنا چاہ رہا ہے۔

اور مجھے لگتا ہے کہ خطبہ کا ایسے وقت میں بالکل کھلی اجازت دینا امام کے خلاف خروج کے اسباب میں سے بھی ہوسکتا ہے اس لیے ان ممالک میں منع کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے جمعہ سے بھی روکا گیا تھا۔
رہی بات حضرت انس ؓ کے عمل سے استدلال کرنا کہ ان سے خطبہ ثابت نہیں تو یہ صریح نہیں۔ کیونکہ ‘‘عدم ذکر عدم وقوع کو لازم نہیں۔’’
اور اسی لیے ہم ہندوستان کے جید علماء کرام میں ایک فریق ایسا بھی پاتے ہیں جنھوں نے اجتہاد کیا اور یہ کہا کہ خطبہ بھی دیا جائے گا۔ لہذا ان کی تعظیم و توقیر اور علم کے مرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے اور احترام رائے کو سامنے رکھتے ہوئے کسی طرح کی طعن و تشنیع اور ان کو طرح طرح کے القاب سے نوازنے سے بچنا چاہیے۔
خود دکتور محمد بن فھد الفریح نے جب یہ ذکر کیا کہ خطبہ نہیں دیا جائے گا تو حاشیہ میں یہ توجیہ بھی انھوں نے ذکر کیا کہ ـ ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ اگر شہر کی جامع مسجد یا عیدگاہ میں خطبہ نہ ہوا ہو اور یہ لوگ گھر میں نماز ادا کریں تو خطبہ دیں گے کیونکہ خطبہ دینا سنت ہے اور اس وقت عید کی نماز کی صورت ادا کی ہے نہ کہ قضا کی تو گویا کہ وہ عید گاہ میں نماز پڑھ رہا ہے لہذا خطبہ دے گا اور وہ بھی نماز کے بعد۔ (ص۶) (یہ مقالہ اوپر دیے ہوئے ٹویٹ کے ساتھ attach ہے)
ہر جگہ اجتماعیت اور مرکزیت کا نعرہ دے کر علماء کو اجہتاد سے روکنا اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے طرح طرح کے القاب سے نوازنا لوگوں کو مزہ تو دے سکتا ہے سننے میں بھی بہت سنہرا لگتا ہے مگر حالات اور جگہ کے بالکل خلاف ہے بلکہ یہ انجماد پیدا کرنا ہے۔ یعنی لوگ مقلد ہوجائیں۔ فتویٰ صادر ہو، بلا دلیل علماء بھی مان لیں۔ کوئی اجہتاد نہ کرے۔
اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ سعودی عرب کے فتاوے ہمیشہ ہر جگہ لاگو نہیں ہوتے جیسا کہ کئی لوگ وہاں رہتے ہوئے اپنے علاقہ کے افراد کو بھی وہی فتویٰ دیتے ہیں جو سعودی عرب سے جاری ہوتا ہے۔ کیا اگر آج کسی جگہ پر مسجد میں جانے کی اجازت دے دی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ سعودی عرب کے علماء نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ گھروں میں ہی عید کی نماز ادا کریں؟
یقینا عوام اپنی جمعیات اور مرکز کے فتوے کا انتظار کرے اور علماء جو اجتہاد کر رہے ہیں انھیں اجتہاد کرنے دیں۔ پھر کسی کو درمیان میں جج بن کر اترنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس وقت ہر جگہ اجتماعیت اور مرکزیت کا ایک ہی راگ الاپنے سے عوام جتنی پریشان ہورہی ہے اتنا وہ فتووں سے پریشان نہیں ہورہی ہے۔ جن افراد کو جس عالم کا قول دلائل کی رو سے درست معلوم ہوتا ہے وہ انہی کے قول کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اور اگر انھیں نہیں سمجھ میں آتا تو وہ فورا پوچھ بھی لیتے ہیں اور یہی طریقہ ہر دور میں ہوتا چلا آیا ہے کہ علماء کے درمیان اختلاف ہوا پھر عوام نے اپنے کسی قریبی عالم سے مسئلہ کو سمجھا اور عمل کرلیا اور یہ نہ سمجھیں کہ سعودی عرب میں بھی علماء نے مرکزی فتووں کے خلاف اجہتاد نہیں کیا۔ بلکہ کئی سارے ایسے مسائل ہیں جن میں عوام خود سے راجح قول کے مطابق یا جو دلائل سے قریب لگتا ہے ان پر عمل کرلیتی ہے۔ سب میں واضح مثال ماضی قریب میں زیر بحث مسئلہ زیورات میں زکوۃ پر ہے۔ جب کہ سعودی فتویٰ کمیٹی کا کہنا ہے کہ زکوۃ نکالی جائے مگر اس کے باوجود کئی علماء نے ٹی وی چینلوں اور یوٹیوب پر اپنے فتووں میں کہا کہ نہیں دینا ہے۔
پھر علماء کا اس طرح سے اجتہاد کرنا اور اپنے مقالات کو نشر کرنا خود مرکز والوں کے لیے صحیح فیصلہ لینے میں آسانی پیدا کرتا ہے۔
ہاں جہاں اجتماعیت کو ٹھیس لگنے کا خطرہ ہو پھر نہ ہندوستان دیکھا جائے گا نہ عرب۔ بلکہ جس چیز کو مرکز نے جاری کردیا اسی کے مطابق عمل واجب ہوگا۔ اور پھر وہاں سختی بھی برتی جائے گی اور ایسے موقعوں پر یقینا ہمارے ہندوستان میں بھی علماء خاموش رہتے ہیں۔ اور پھر اس وقت جن کا کام صرف فیس بک اور دیگر گروپس میں چیخنا چلانا ہوتا ہے وہی لوگ علماء کی اس خاموشی پر سوال اٹھانے لگتے ہیں۔ اور پھر اس وقت ہمیں الٹا انھیں ہی اجتماعیت کا درس دینا پڑتا ہے جو اس وقت اجتماعیت کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
امت کے تعلق سے دل میں خلوص پیدا کریں ہر معاملہ آسان ہوگا۔ واللہ ھو الموفق

آپ کے تبصرے

3000