وبائی امراض کی روک تھام اور حفظانِ صحت کے ضوابط

محمد جاوید عبدالعزیز مدنی صحت

اس وقت دنیا میں عجیب طرح کا خلفشار بپا ہے، بیشتر ممالک نے تجارتی و معاشرتی طور سے ایک دوسرے سے تعلقات کو بالکل ختم کیا ہوا ہے۔ سبب کوئی عداوت و دشمنی نہیں بلکہ ایک طرح کی بیماری ہے جس کے خوف میں لوگ مبتلا ہوگئے ہیں۔ مگر اب بھی لوگ ہوش کے ناخن نہیں لیتے کہ یہ اللہ کا ایسا عذاب ہے جو ان کو ہلاک و برباد کردینے والا ہے۔ بظاہر یہ تو نہ دکھائی دینے والا وائرس ہے مگر حقیقت میں ”وما یعلم جنود ربک الا ھو” کی واضح مثال ہے۔ جس طرح سے دنیا نے حرام خوری، کمزوروں پر ظلم و ستم کو قانون بنادیا ہے بالخصوص اللہ پر ایمان لانے والوں پر جس طرح سے ظلم و ستم ڈھائے جارہے ہیں ایسے میں اللہ کی طرف سے ایسے عذاب کا آنا یقینی بات ہے۔

وہیں ایک مومن ایسے موقعوں سے نصیحت پکڑتا ہے، اللہ کی طرف رجوع ہوتا ہے اور اپنے گناہوں کی بخشش کروانے میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اور اللہ ہی پر بھروسہ کرتا ہے اس کا یقین ہوتا ہے کہ بیماری اور شفا دینے والی ذات صرف اللہ کی ہی ہے وہ اگر نہ چاہے تو کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اگر اللہ چاہے تو ایسے بیکٹیریا اور مضر وائرس بھی اللہ کے حکم سے اپنا اثر کھو دیتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر توکل علی اللہ وہ عظیم شئی ہے جو بندوں کو مضبوط کرتا اور ہر طرح کے خوف اور ڈر سے انھیں باہر نکال لیتا ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں کے لیے بشارت ہے کہ وہ ان ستر ہزار افراد میں ہوں گے جو جنت میں بلا حساب و کتاب داخل ہونے والے ہیں۔

یہاں ایک چیز سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے اسباب کو اپنانا جو بندے کو اس طرح کے وائرس اور بیکٹیریا وغیرہ سے محفوظ رکھ سکیں توکل علی اللہ کے منافی نہیں بلکہ ایسے اسباب اپنانے کا شریعت نے ان گنت مقامات پر حکم دیا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ؐ نے کسی شخص کے جواب میں کہا تھا ”پہلے اونٹ کو باندھو پھر اللہ پر بھروسہ کرو۔” ان ہی اسباب میں سے چند چیزیں یہ ہیں:
(١) چھینکتے وقت ناک پر ہاتھ رکھنا: رسول اللہ ؐ نے چھینکتے وقت ناک پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا ہے کہ کہیں اس کی ناک سے خارج ہونے والی مضر چیزیں قریب میں موجود لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں بلکہ شریعت کی عظمت تو یہ ہے کہ جب کوئی چھینکتا ہے اور آواز تیز ہوتی ہے تو بھی قریب والوں کو تکلیف ہوتی ہے لہذا نہ انھیں ذہنی طور پر کوئی اذیت دی جائے اور ہاتھ رکھ کر ایسی مضر جراثیم اور بیکٹیریا وغیرہ سے محفوظ رکھا جائے جو انھیں نقصان پہنچا سکتی ہوں یا کسی اذیت میں مبتلا کرسکتی ہوں۔

رسول اللہ ؐ نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَضَعْ كَفَّيْهِ عَلَى وَجْهِهِ وَلْيُخْفِضْ صَوْتَهُ» (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب الادب ح:٧٦٨٤ )

ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی چھینکے تو اپنی دونوں ہتھیلی کو اپنے چہرے پر رکھ لے اور اس کی آواز کو پست کرے۔

(٢) راستے سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا: خصوصا مراد راستے میں بلا دیکھے یہاں وہاں تھوکنا ہے۔ جس شریعت نے لوگوں کو روکا ہو کہ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹا دیا کرے تو انھیں یہ چیز بدرجہ اولیٰ سمجھ لینا چاہیے کہ راستے میں تکلیف دہ چیزوں کا پھینکنا بھی جائز نہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جب وہ راہ چلتے ہیں اور کوئی پان کھا کر یا ایسے ہی تھوکے ہوئے ہو تو کچھ نہ کچھ اذیت ضرور ہوتی ہے۔ اور دونوں چیزوں کو ایک ساتھ رسول اللہ ؐ نے ایک حدیث میں جمع کرتے ہوئے فرمایا: ”کہ مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے اعمال پیش کیے گئے لہذا ان کے اچھے اعمال میں مجھے راستے سے ہٹائی گئی تکلیف دہ چیز بھی مجھے ملی اور برے اعمال میں وہ تھوک ملا جو مسجد میں تھوکا گیا تھا اور اسے دفن نہیں کیا گیا”۔ (صحیح ابن حبان ح: ١٦٤٢) اسی اذیت سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے رسول اللہ ؐ جب تھوکتے تو اسے اپنے پیروں سے روند دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ واثلہ بن اسقعؓ نے نبی کریم ؐ کے اس عمل کو ذکر کیا ہے۔ (مسند احمد ح: ١٦٠٠٩، ابو داؤد ح: ٤٨٤)

(٣) صفائی کا اہتمام : شریعت اسلامیہ کی سب سے عظیم چیز صفائی کا پابند بنانا ہے۔ صفائی ایمان کا جزء ہے۔ مومن کے بارے میں شریعت کا یہ حکم ہے کہ وہ نجس نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو صاف اور گندگیوں سے پاک رکھتا ہے۔ طہارت بندے کو متعدد بیماریوں اور ذہنی تنگی سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہر وضو میں ناک، کان اور ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کے درمیان خلال تک واجب ہے تاکہ بندہ گندگی کو اپنے آپ سے دور کرلے اور یہ کئی حد تک بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا بڑا ذریعہ ہے۔

اسی طرح داہنے ہاتھ سے کھانے کا حکم ہے۔ (صحیح مسلم ح: ٢٠١٩) اور نبی کریم ؐکبھی کبھار کھانے سے پہلے بھی ہاتھوں کو دھل لیا کرتے تھے۔ بائیں ہاتھ سے عموما نجس امور کو ہی انجام دیا جاتا ہے اور کبھی کبھار دائیں ہاتھ میں گندگی لگ جاتی ہے اور پھر وہی کھانے کے ذریعہ انسان کے پیٹ میں داخل ہوجاتی ہے ۔

(٤) حلال چیزوں کا کھانا: اسلام کی عظمت میں سے ایک بڑی چیز پاکیزہ اور مفید چیزوں کا حلال کرنا اور گندی و نجس چیزوں کو حرام کرنا ہے۔ اور یہی نجس اور خبیث چیزیں صحت کو خراب کرنے اور بیماریوں کو پھیلانے کے اسباب میں سے ہیں۔ ہم حکمتوں کے جاننے کے پابند نہیں مگر اللہ کا کوئی بھی حکم حکمت سے خالی نہیں۔ یہ باتیں ایک مومن کے ایمان کو ایسے حالات میں اور مضبوط کرتی ہیں۔ لہذا ایسے موقعوں پر شریعت کے احکامات میں اور زیادہ غور و فکر کرنا ایمان کی تقویت کا سبب اور ذریعہ ہے۔
اللہ رب العالمین نے فرمایا:

وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِث

کہ (وہ نبی ؐ) ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کو ان پر حرام کرتے ہیں۔ ( سورہ اعراف: ٧ ١٥)

(٥) بدکاریوں سے اجتناب: بیماریوں کے پھیلنے کے اسباب میں سے ایک سبب زناکاری اور دیگر فحاشی کے ذرائع ہیں۔ قرآن کریم نے تو اس کے قریب بھی جانے اور اس پر ابھارنے والے اسباب کو کسی بھی طریقہ سے اختیار کرنے سے منع کردیا ہے چہ جائے کہ اسے انجام دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

اور تم بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ۔ (سورہ انعام : ١٥١)

(٦) دعاؤں کا اہتمام: مومن کا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے۔ جب ہر مرض دینے والا اللہ ہے اور وہی دور کرسکتا ہے تو ضروری ہے کہ اس سے ضرور بالضرور یہ التجا اور فریاد کی جائے کہ وہ ہمیں ہر بری اور چھوٹی بڑی بیماریوں سے محفوظ رکھے۔ وہی ہے جو ہمیں بچا سکتا ہے اور اگر چاہے تو اس میں مبتلا بھی کرسکتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ کے رسول ؐ کے کئی مختلف اذکار وارد ہیں جو بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے آپ کیا کرتے تھے۔ جن میں سے چند یہ ہیں:

١۔ بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ العَلِيمُ

(اسے روزانہ صبح و شام میں تین تین مرتبہ پڑھنے کا حکم ہے جس کے بعد کوئی چیز بندے کو تکلیف نہیں دے گی۔ سنن ترمذی ح: ٣٣٨٨)

٢۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَالْبَرَصِ، وَسَيِّئِ الْأَسْقَامِ۔

اے اللہ میں پاگل پن، کوڑھ، برص اور بری بیماریوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (سنن نسائی ح: ٥٤٩٣) وغیرہ۔
(٧) ایسے شخص سے دور رہنا جو کسی متعدی مرض کا شکار ہو: کچھ بیماریوں کے اندر اللہ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف اللہ کے حکم سے منتقل ہو جاتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ اللہ کے حکم کے بعد کسی ایسے سبب کی بنیاد پر ہوتا ہے جسے اللہ نے متعدی ہونے کے لیے اس مرض کے اندر جراثیم، بیکٹیریا اور وائرس کی شکل میں رکھا ہوا ہے لیکن یہ یقین جانیں کہ وہ جراثیم، بیکٹیریا یا وائرس خود یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ کسی پر حملہ کرنے کے بعد خود ہی بیمار کردے بلکہ اللہ کے حکم سے کسی پر اثر کرتا ہے اور کبھی کسی پر حملہ کے بعد بھی اللہ رب العالمین اس کے اثر کو زائل اور ختم کردیتا ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی عظیم قدرت ہے کہ ایک بندے پر وائرس کا اٹیک ہونے کے باوجود اللہ نے اسے محفوظ رکھا ہے اور اس وائرس کے اثر کو زائل اور ختم کردیا کیونکہ وہی ہے جو بیماری دیتا اور شفا دیتا ہے۔ مگر پھر بھی اپنے بچاؤ کے طور پر، سبب کو نہ اپنائے یا کوئی مرض کو ہی مؤثِّرنہ گردانے ان وجوہات کی بنا پر نبی کریم ؐ نے ایسے اسباب کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ دراصل مرض پھیلانے والے وہ جراثیم اور وائرس ہی اس تک نہ پہنچیں انہی میں سے چھینکتے وقت ناک پر ہاتھوں کا رکھنا، پانی یا کوئی چیز پیتے وقت ان میں سانس لینے کی ممانعت اور کوڑھ والے شخص یا ایسے شخص سے دور رہنے کا حکم ہے جس کے بارے میں یہ ظن غالب ہو کہ وہ ایسی بیماری کا شکار ہے جس کے وائرس یا جراثیم ایک شخص سے دوسرے تک منتقل ہوکر اللہ کے حکم سے متاثر کرسکتے ہیں۔

کیا بیماریاں متعدی ہوتی ہیں؟
یہاں یہ جان لینا چاہیے کہ یہ فرمانِ نبوی ؐ ”لا عدویٰ” کے منافی نہیں ہے کیونکہ مشرکین مکہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ بیماریاں از خود متاثر کرتی ہیں اور یہ خود اپنا اثر رکھتی ہیں بغیر اللہ کی اجازت کے۔ تو یہ عقیدہ رکھنا شرکیہ ہے جیسا کہ آج بھی بعض بیماریوں کو لوگ ”دیوی” کا نام دیتے ہیں۔ یا یہ کہتے ہیں کہ کورونا وائرس بیمار کردیتا ہے۔ مومن کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ چاہے تو ہی اثر کرے گا ورنہ اسباب تو اختیار کرنے کا حکم شریعت نے خود دیا ہے، اور یہ توکل کے منافی بھی نہیں۔
ایسے ہی ابن بطالؒ وغیرہ نے ذکر کیا جسے حافظ ابن حجر نے نقل کیا ہے کہ مجذوم سے کثرت اختلاط اور خارش زدہ اونٹ کے بدن سے جو گیلا مادہ خارج ہوتا ہے وہ دوسرے کو لگ کر متاثر کر سکتا ہے اس بنا پر منع ہے۔ (فتح الباری) یہی بات جدید علم میں بھی ثابت ہے کہ کچھ مادے خارج ہو کر دوسرے شخص میں بذریعہ سانس یا کسی کٹے ہوئے حصے سے داخل ہوکر متاثر کرتے ہیں جس کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ بیماری بغیر اللہ کے حکم اور پھر بغیر کسی سبب کے از خود لوگوں کو متاثر کرتی ہے تو یہ”لا عدویٰ” کے حکم میں داخل ہوگا۔
ایسے اسباب سے خود کو بچانے اور ایسے مریض سے دور رہنے کے دلائل حسب ذیل ہیں جن کے بارے میں ظن غالب یہی ہو کہ وہ انسان کے اندر داخل ہوکر باذن اللہ اسے متاثر کرسکتے ہیں:

“عَنْ أَبِي قَتَادَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يَتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاءِ”

ابو قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے منع کیا کہ برتن میں سانس لیا جائے۔ (صحیح مسلم ح: ٧ ٢٦) وجہ استدلال یوں ہے کہ جب ایک شخص کی سانس سے نکلنے والے جراثیم اسے خود متاثر کر سکتے ہیں تو دوسروں کی کھانسی یا چھینک یا کسی اور ذریعہ سے نکلنے والے مضر مادے تو بالاولیٰ اسے متاثر کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا

“وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ”

کوڑھ زدہ شخص سے ایسے ہی بھاگو جیسا کہ شیر سے بھاگتے ہو۔ (صحیح بخاری ح: ٧ ٧٠ ٥)
ایسے ہی نبی کریم ؐ نے ایسے ملک میں داخل ہونے یا ان سے باہر نکلنے سے بھی منع فرمایا ہے جہاں طاعون یا متعدی بیماریاں پھیلی ہوئی ہوں۔ یہ حکمت عملی نبی کریم ؐ نے چودہ سو سال سے زائد عرصہ پہلے بیان فرمادی تھی جسے نظر انداز کرکے آج ترقی یافتہ ممالک ان گنت طریقوں سے اپنی عوام کو پریشانی میں مبتلا کر رہے ہیں اور تاخیر ہونے کی صورت انھیں افسوس بھی ہورہا ہے۔

حدیث نبوی میں ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرض والے علاقہ میں موجود لوگوں یا مریض کے صحت مند لوگوں سے ملنے کے بعد ان کو بھی متاثر کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اورکورونا ((COVID-19میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مریض کو خود مرض کی خبر پانچ سے چودہ روز کے درمیان میں ہوتی ہے تب تک وہ ان گنت لوگوں سے ملاقات کرکے ان کو متاثر کرچکا ہوتا ہے ، لہذا ایسی صورت میں اسلامی ممالک کا اپنی عوام کے لئے جمعہ و جماعات سے روکنا تاکہ اگر کوئی متاثر ہو تو جمعہ و جماعت میں نہ حاضر ہو چونکہ مریض کو خود علم نہیں اس لئے ان کی صحت کی فکر کرتے ہوئے اصلا اکٹھا ہونے اور میل ملاقات کے اسباب میں سے ایک سبب جمعہ و جماعت سے منع کردینا بھی اسی حدیث کے ضمن میں ہوگا ۔ (چونکہ نوازل میں احکامات جگہ اور وقت کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں لہذا اگر ہمارے ہندوستان میں بھی خدشات حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو یہاں بھی یہی کرنا چاہیئے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہی نماز کا اہتمام کریں اور جمعہ و جماعت میں حضور سے احتراز کریں سوائے چند افراد جو کہ مسجد کے بالکل قریب میں رہنے والے ہوں یا امام و موذن اور یک چند لوگ مسجد میں حاضر رہیں۔)

پھر نبی کریم ؐ کا ایک فرمان یہ بھی ہے کہ ”لا ضَررَ ولاَ ضِرَارَ” ((اس کا اصل معنی یوں سمجھیں: لا ضَرَرَ اِبْتِداء اً وَلا ضِرَارَ مُقابلةً)) نہ ہی کسی کو نقصان پہنچانے میں پہل کی جائے اور اگر ایک فرد نے دوسرے کو کسی طرح کا نقصان پہنچا دیا ہو تو وہ اس کو بدلے میں نقصان نہ پہنچائے۔
اختلاط کی صورت میں ایک بیمار شخص دوسرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور یہ نقصان کہاں تک پہنچے اس کا فیصلہ بہت ہی مشکل ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں”ممبئی لوکل کے تعلق سے خبر اڑائی گئی کہ ایک متاثر شخص نے سفر کیا اور کئی لوگوں کے پاس سے گذر کر انھیں بھی متاثر کرچکا ہے۔” یہ خبر جھوٹی ہو یا سچ مگر سچویشن سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ان میں سے کوئی شخص ہمارے قریب میں ہو اور بلا احتیاط کھانسنے اور چھینکنے کی بنیاد پر دوسروں کو بھی متاثر کرنے کا سبب بن جائے۔ معلوم ہوا کہ اختلاط اور بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جانے سے احتراز کرنا بھی اسباب وقایہ میں سے ایک ہے۔
لہذا توکل علی اللہ کو مضبوط کرتے ہوئے بکثرت استغفار و توبہ کریں، اللہ سے دعا کریں اور توکل کے ایک اہم جزء ”ہر طرح کے اسباب حفظانِ صحت” کو اپنائیں خود بھی صحت مند رہیں، دوسروں کو بھی صحت مند رکھیں۔