میرے گاؤں کی بدلتی تصویر

سعیدالرحمن سنابلی

(یہ میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہیں جنہیں قلمبند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا. لیکن بڑے بھائی پروفیسر شمس الرب صاحب نے حکم دیا تو اس کی تعمیل میں جلدی جلدی یہ تحریر قلمبند کر کے آپ کے تبصرے اور تنقید کے حوالے کرتا ہوں. جملوں اور باتوں میں بے ترتیبی کے لئے پیشگی معذرت)

میں سعید الرحمن سنابلی؛ ایک معمولی ذہن کا طالب علم، سوشل ورک کا شوق ہے. یوں تو پیدائش سے لے کر اب تک کی عمر ممبئی میں گزری. گاؤں چھٹیاں گزارنے آنا ہوتا رہا ہے. لیکن پچھلے کچھ سالوں سے کسانوں پر سرکار کی ستم ظریفی کے چلتے کثرت سے گاؤں آنا پڑ رہا ہے. پچھلے چار مہینے سے گاؤں ہی میں ہوں. گاؤں کی حالت دوسرے گاؤں سے مختلف نہیں ہے. وہی اجڈ مزاج، آپسی ناچاقیاں، خستہ حال مکتب، علم سے دوری، گلیوں میں یتیم صورت لئے بچوں کی بھرمار، مالی پریشانیاں، لوگوں کی لاپروائیاں، عورتوں کی دین سے دوری، نماز روزہ سے آزادی.

ایک مولوی ہونے کے ناطے یہ سب دیکھ کر دل بے چین رہتا. یہ ساری صورتحال بدلی جاسکتی ہے، یہ میرا یقین تھا. لیکن بدلنے کے لئے پتہ نہیں کس مدت کا انتظار کر رہا تھا. لیکن اس بار بے چین دل کی آواز پر اپنا بیگ اٹھایا اور سیدھے گاؤں کے مکتب پہنچ گیا. بچوں کے ساتھ پہلے سے دوستانہ تعلق ہونے کی وجہ سے بچے مجھے مکتب میں دیکھ کر جھوم اٹھے. حافظ جی آگئے! حافظ جی آ گئے! کے شور سے اسکول گونج اٹھا. اور یہ شور مکتب میں میرے آخری دن تک مسلسل جاری رہا. میں نے پڑھانا شروع کیا. ابتدائی تعلیم آٹھویں جماعت تک ممبئی کے ایک عصری اسکول میں حاصل کی تھی، اس وجہ سے وہاں کا طرز تعلیم جو کہ چھوٹے بچوں کے لئے کافی مفید ثابت ہوتا ہے، اسی انداز میں پڑھانا شروع کر دیا. یہ سب بچوں کے لئے بالکل نیا اور دلچسپ تھا. چھڑی میں نے پہلے ہی دن سے استعمال نہیں کی. یہ چیز بھی بچوں کے لئے بالکل حیرت انگیز تھی کہ مولوی صاحب بنا چھڑی کے پڑھا رہے ہیں. مولوی ہونے کے ناطے دوران سبق سیاق و سباق کے حوالے سے بچوں کو نصیحت بھی کرتا (چاہے کتاب جغرافیہ کی ہو یا سائنس کی) اور موٹیویٹ بھی کرتا رہتا تھا جس کے واضح مثبت نتائج بچوں میں نظر آنے لگے. بچوں کے ویکلی اسپورٹس کی شروعات کی. اسٹوڈینٹس کلب بنایا، اسی کے تحت ہفتہ واری انجمن شروع ہوئی. بچوں نے اپنی محنت سے اپنے مایوس والدین کو حیرت میں ڈال دیا. میں مسلسل دو مہینے اس مکتب میں جی جان سے پڑھاتا رہا. اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی ٹوٹا مکتب دوسرے ہندی اسکول کے بچوں کے لئے قابل رشک بن گیا. طلباء کی تعداد 80 سے بڑھ کر 120 پہنچ گئی. دوسرے اسکول کے کئی بچے اسکول چھوڑ کر گاؤں کے مکتب میں داخل ہو گئے. بہتوں نے اگلے سال سے داخلہ لینے کا ارادہ کر لیا. میرے مکتب جانے کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اپنے بچوں اور اسکول کے معیار کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا. اب اسکول کو بہتر بنانے کے لئے مجھے کیا کیا کرنا ہے مجھے اچھے سے علم ہو چکا ہے. اس کا تیسرا اور بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پورا گاؤں مجھ پر حد درجہ یقین کرنے لگا. میری ایک آواز پر پورا گاؤں جمع ہوجاتا. میرے مشوروں کو سنتا. میرے ساتھ ہر سفر کی ہر مشکل برداشت کرنے کے لئے تیار ہو گیا.

اسی یقین کے چلتے اب میرے لئے سب کچھ کر گزرنا آسان ہو گیا. سب سے پہلے مکتب کو خود کفیل بنانے کے لئے ہر مسلمان گھر پر 10روپے سے لیکر 500 روپے تک ایک ماہانہ رقم متعین کر دی جس پر سب دل و جان سے تیار ہو گئے. اور الحمد للہ مکتب دو اساتذہ کی تنخواہ کا انتظام کرنے کا اہل ہو گیا.
اس کے بعد دوسرا اہم کام عورتوں کو اپنے مشن میں ساتھ لینے کے لئے مسجد میں عورتوں کے لئے انتظام کرنا تھا. یہ کام ہمارے نچلے متوسط طبقے پر مشتمل گاؤں کے لئے آسان نہیں تھا. لیکن جنون تھا کام کا. لگاتار تین خطبات جمعہ میں اس کی اہمیت پر مختصر گفتگو پرجوش انداز میں شامل کرتا رہا. لوگوں کو اس حوالے سے مشورہ دینے پر ابھارتا رہا. اور آخر کار ایک دیوانہ سوچنے کے لیے تیار ہوا. لیکن دیڑھ دو لاکھ فنڈ جمع کرنا معمولی بات نہیں تھی. جس سے بھی ہم کہتے ہر ایک کہتا گاؤں والے ایک چونّی نہیں دیں گے. لیکن گاؤں کے دو چار جوانوں (جنہیں لوگ ٹپوری کہہ کر ٹال دیتے ہیں) سے بات کی. سب اس کام کو کرنے پر راضی ہو گئے. پھر کیا تھا، مشن کو پر لگ گئے. فوراً گاؤں کے مختلف شہروں میں کاروبار کی غرض سے بکھرے لڑکوں کا ایک واٹساپ گروپ تیار کیا گیا.(گروپ کے اپنے الگ ہزار فائدے ہیں) گروپ کے مقصد سے آگاہ کیا گیا. اپنا ہدف لوگوں کے سامنے واضح کیا گیا. موٹیویشنل گفتگو کی گئی اور فنڈ آنا شروع ہوگیا. ہم گاؤں میں لوگوں کے گھر گھر گئے (مولوی صاحب کا گھر گھر جانا لوگوں کے لئے بڑی بات ہوتی ہے). لوگ بہت خوش ہوئے. سب نے اپنی حیثیت کے مطابق پیسے دئے. عورتوں نے راہ روک روک کر پیسے اور زیور تک دے دئے. دیکھتے ہی دیکھتے دو لاکھ سے اوپر پیسے جمع ہو گئے. عورتیں پورے جوش و خروش کے ساتھ مسجد آنے لگیں. جمعہ کا چندہ 300روپے سے اچھل کر اوسطا 2000 روپے پہنچ گیا. مسجد میں خاطر خواہ فنڈ آ گیا. عورتیں خطبہ و درس سننے لگیں اور خود کو بدلنے لگیں. اسی وسیلے سے خواتین کا آپس میں میل ملاقات کا راستہ بھی نکل آیا.

اس کے بعد اگلا ہدف زکات کے اجتماعی نظم کا تھا. فصل کٹنےوالی تھی. زکات کا اجتماعی نظام تو دور کی بات انفرادی طور پر زکات نکالنے میں بھی کوتاہی تھی. اور جو زکات نکلتی بھی تھی وہ مکتب اور مدرسے کی نذر ہو جاتی تھی. لہذا زکات کی اہمیت اور فضائل و برکات پر خطبوں میں ضمنی طور پر گفتگو شروع ہو گئی. اس کے اجتماعی نظام کے فوائد و برکات پر گفتگو کر کے لوگوں کی ذہن سازی ہونے لگی. اور فصل کٹتے ہی زکات وصول کرنے گھر گھر پہنچ گئے. الحمد للہ اتنی زکات نکلی کہ ابھی عید قریب ہے اور ہر ضرورت مند گھر میں فی کس 500 روپے تقسیم کئے گئے. آگے چل کر اس سسٹم کو اور کارآمد بنانے کے کوشش کی جائے گی. ان شاء اللہ.
اگلا ہدف مکتب کے معیار کو بلند کرنا ہے. اس پر پورا گاؤں سوچ رہا ہے. ایجنڈا گروپ پر شییر کر دیا گیا ہے. ان شاء اللہ مجھے گاؤں والوں کے جذبے اور حوصلے کو دیکھ کر اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ یہ کام بھی جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچے گا.
سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ان سب کاموں میں جوان پیش پیش ہیں. جوانوں کو ساتھ لینے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی سرزنش کم کی جائے اور اگر کی بھی جائے تو اشاروں میں کی جائے. انہیں بھی اپنی ہمدردی اور رائے مشورے کا حصہ دار بنایا جائے. جواری اور لا پرواہ جوانوں نے ہمارا آدھا بوجھ اپنے سر اٹھا لیا. جو کام ہم نہیں کر سکے وہ انہوں نے انجام دیا. امید ہے کل وہ اچھے لوگوں کے بیچ رہ کر خود کو بدل لیں گے.
الحمد للہ رمضان کا روزہ رکھنے والے اور تراویح کی نماز ادا کرنے والوں کی تعداد پچھلے سالوں کے مقابلے بہت زیادہ ہے. شب قدر میں جو جوان گلیوں میں آوارہ گردی کرتے پھرتے تھے اب مسجدوں میں عبادت کرتے نظر آتے ہیں.
مسلمانوں کے اندر اس بدلاؤ کو دیکھ کر غیروں میں چہ می گوئیاں ہوتی ہیں. ہندو عورتیں مسلمان عورتوں پر رشک کرتی ہیں. مسلمان بچے حافظ جی کو دور سے سلام کرتے ہیں تو ہندو بچے دور سے نمستے کرتے ہیں. وہ مکتب میں داخلہ نہیں لے سکتے تو مارشل آرٹس کی کلاس میں مسلمان بچوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں. مسلمانوں کی یونیٹی دیکھ کر پردھان صاحب بھی مختلف آفر کرنے لگے ہیں. کم از ہمارے گاؤں میں مسلمانوں کا ووٹ بکھرنے سے بچا رہا.
ان سب کاموں کی انجام دہی میں سب سے اہم کردار حسن نیت کا ہے. نمبر دو اس طرح کے کاموں کے لئے عوام کا بھروسہ ضروری ہے. یہ بھروسہ بے لوث خدمت سے حاصل کیا جا سکتا ہے . نمبر تین، با مقصد خطبے موٹیویشن کے لئے کافی ہیں اس لئے گاؤں اور محلے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی خطبے اور درس دینا چاہیے. نمبر چار، رہنما کے کردار کو عوام تیزی سے اپناتے ہیں. اس وجہ سے اس کا کردار ہمیشہ مصلحانہ اور بگڑی بنانے والا ہونا چاہئے. اس کے چلتے آپ کے حلقہ عوام میں یہی ایٹیٹیوڈ رواج پا جاتا ہے. پانچویں اور سب سے اہم بات، آپ جو بھی کام کریں اس میں سماج کے ہر فرد کو شریک کریں. غیروں سے مدد لے کر ممکن ہے آپ ایک بار لوگوں کو خوش کر دیں لیکن بدل نہیں سکتے ہیں. مفت میں کوئی کام نہ کریں. جو بھی کام کریں سب کے تعاون سے کریں. ایسا کرنے پر کام میں ایک اعتدال اور استقلال ہوگا اور سماج میں خود اعتمادی پنپے گی جو آگے چل کر دیرپا تبدیلیوں کی بنیاد بنے گی، ان شاء اللہ.

31
آپ کے تبصرے

3000
27 Comment threads
4 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
27 Comment authors
newest oldest most voted
عطا رحمانی

ما شاء اللہ
بہت خوب سعید بھائی! اللہ تعالی مزید ترقی دے

SAEEDUR RAHMAN CHOUDHARY

آمين. جزاكم الله خير

راشد حسن مبارکپوری

عزیزم سعید!! اظہار خوشی کیلیے میرے پاس الفاظ نہیں، آپ کی بابت مجھے بہت حسن ظن ہے، دلی دعا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے، کبھی نظر نہ لگے، اللہ کام میں اخلاص عطا فرمائے اور دنیا جہان کی ترقیاں نصیب فرمائیں.

Saeedurrahman CHOUDHARY

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے آپ جیسا انقلابی استاد پایا

ھلال ھدایت

بہت اچھا لگا ماشاءاللہ

SAEEDURRAHMAN CHOUDHARY

جزاكم الله خير

ریاض مبارک

بہت عمدہ اور قابل ستائش قدم!! اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کی کوششیں برگ وبار لائیں اور آپ کا گاؤں ایک مثالی گاؤں بن جائے! جزاک اللہ خیرا

SAEEDIRRAHMAN CHOUDHARY

آمين، جزاكم الله خيرا

Kashif Shakeel

سعید بھائی
اللہ نے آپ کو سعید بنایا۔
بہت ساری دعائیں اور محبتیں مجھ گنہگار کی طرف سے بھی۔
گڈ جاب۔ کیپ اٹ اپ۔

شمس الرب خان

سعید بھائی، سو توپوں کی سلامی قبول کریں۔ تسی گریٹ ہو، نو ڈاؤٹ! جو آپ کر رہے ہیں دراصل مثبت اور دیرپا تبدیلیاں لانے کا یہی ٹھوس راستہ ہے۔ اپنا کام جاری رکھیں۔ اللہ رب العالمین آپ کو آپ کے مشن میں کامیابی دے اور ہم سب کو بھی آپ کے ان تجربات سے سیکھنے کی توفیق دے۔ اپنے تجربات سے دنیا کو آگاہ کرتے رہیں۔ اس سے دوسروں کو بھی ایسے کام کرنے کا حوصلہ ملے گا اور سماج میں اچھی مثال قائم ہوگی۔ ہاں، جب آپ اپنے تجربات سے لوگوں کو آگاہ کریں گے تو ایک طبقہ جو… Read more »

Ilyas nomani

مولانا سعید سنابلی صاحب آپ نے بہترین نمونہ پیش کیا ہے، اللہ تعالی آپ کو اور کو اور کامیاب کرے، اور آپ کا فیض گاوں سے نکل کر قرب وجوار کے کچھ اور گانووں تک بهی پنہچے. آمین

محمد شمیم

ماشاء الله
بہت خوب
ایک اچھی شروعات اور قابل تقلید ہے اللہ تعالیٰ مزید ترقیوں سے نوازتا رہے اور آسانی پیدا فرمائے آمین

shakeel ahmad

masha allah musbat awr tamiri kam allah ap k hauslon ko jawan rakhe

یاسر ضمیر

ماشاءاللہ سعید بھائی ۔۔آپ کی اس محنت جد وجہد کوشش حوصلہ اور لگن اور ان سب سے حاصل شدہ نتائج کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا ۔۔اللہ رب العالمین ہم سب کو کم از کم انفرادی سطح پر اپنے اپنے گاؤں محلہ اور علاقہ کی تعمیر و ترقی کے لئے ممکنہ اقدامات کرنے اور لوگوں کی اصلاح و رہنمائی کے لئے وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر وسائل و ذرائع اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہر ایک شخص ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل میں اپنا کردار بخوبی انجام دے سکے۔۔۔اللہ رب العالمین آپ کو اسی طرح مسلسل… Read more »

أبو ذکــوان افـــروز شــمیم نوری

ما شاء الله تبارك الله گاؤں وغیرہ میں ایسے ہی اصلاح و انقلاب کی ضرورت ہے
اللہ تعالٰی آپ کو سدا شاد و آباد رکھے

شاہد الفائز

مجھے سعید بھائی سے مل کر یہی محسوس ہوا تھا کہ یہ ضرور کوئی بڑا کام کریگا۔ اور بندے نے بنیاد رکھ دی ہے۔

اللہ عزائم کو پورا کرے

سرفراز فیضی

دل خوش ہوگیا.
اللہ خوب خوب برکت سے نوازے.

ابو عبدالبر عبدالحی السلفی

جزاكم الله خيرا

AbdurRasheed Khan

ما شاءاللہ شیخ سعید سنابلی صاحب آپ نےبہت ہی عمدہ اور قابل ستائش قدم اٹھایا ہے
میرا مشورہ ہے کہ اسے ایک تحریک کی شکل دینے کی ضرورت ہے اگر دی فری لانسر کی ٹیم ایک خاکہ تیار کر لے کہ کس انداز میں کام کرنا ہے تو اس سے لوگوں کو رہنمائی ملے گی, میں نے کئی لوگوں سے اس سلسلے میں بات کی ہے وہ اپنے اپنے گاؤں میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ان کو رہنمائی کی ضرورت ہے

فؤاد أسلم المحمدي المدني

ماشاء الله تبارك الرحمن
اللہ قبول فرمائے
اتنا کہنا ہے کہ : ( وَأَمَّا مَا یَنفَعُ ٱلنَّاسَ فَیَمۡكُثُ فِی ٱلۡأَرۡضِۚ )

تبارک علی سلفی

ماشاء اللہ ایسے ہی کوشش کرتے رہیں سماج میں ان شا اللہ تبدیلی آئے گی

جاوید مدنی

مکتب ایسا مرکز ہے جہاں سے ہی نسلوں کی اصلاح اور سماج میں سدھار کی کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ یاد رکھیں اصل کام یہیں سے ہوگا۔ اور یہ معاشرہ کا بہت کمزور مرکز ہے مگر بنیادی ہے جو اس کو اچھے طریقہ سے سنبھال لے وہ کامیاب ہوگیا۔
کئی بڑے لوگوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج بھی وہ اپنے مکتب کے اساتذہ کو خیر کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ طالب علم اپنے اول استاذ کو نہیں بھولتا۔

جاوید مدنی

آپ بڑی مبارکبادی کے مستحق ہیں۔ اللہ آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے

Mohd shadab

Ma sha Allah good job& appreciating step for the betterment of the society May Allah make you steadfast in your job

جنيد

ماشاء الله تبارك الله
هذا من فضل ربي
سررت بقلب عميق لا اعرف كيف اظهره.
اسأل الله ان يوفقنا واياكم لما يحب ويرضي
وان يجمعنا في الجنة النعيم والفردوس

عبدالأول

ماشاء اللہ!
بہت ہی اچھا اور مناسب قدم ہے.واقعی یہ میرےدل کی بات تھی جو آپکی تحریر کے حوالے ہوئی. اللہ آپکے مقاصد پورا کرے. آمین

Nasir khan

Masaallah saeedbhai padhkar bahot khusi hoi allah aapko salamat rakhe apne gawon ke musalamaano me bahot jahiliyat thi aur mashallah aapne achche se achche muqam par lakar khada kar diya jab se aap ye sab kaam apne kandhon parliye manikoura ka raunak hi badal diye aapne aapki jitni tareef ki jaye utni kam hai allah saeed bhai ko salamat rakhe aameen summa aamee

Sawood zain

عمدہ بہت ہی عمدہ ماشاءاللہ اللہ خوب ترقی عطا فرمائے آپ کے علم میں اضافہ فرمائے آمین

سلیم صدیقی

واقعی بہت بڑا کام کیا ہے آپ نے … اللہ دارین کی سعادت بخشے

MD Alamgeer

ماشاءاللہ تحریر پڑھ کر دلی مسرت ہوئی،اور گاؤں میں میں کام کرنے کا حوصلہ ملا، آپ کے رہنما ہدایات سے فائدہ اٹھا کر ایک صالح معاشرے کی تعمیر نو میں فایدہ ہوگا ۔ان شاءاللہ

Ahmad Faizullah

ماشاءاللہ۔اللہ کرے اپ کا یہ عمل دوسروں کے لےء نمونہ بنے