ہزار ہا الفاظ کے استعمال سے کہیں زیادہ گہرے اثرات پرجوش طریقے سے ہاتھ ملا کر یا گلے لگ کر مرتب کیے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ نسبتاً کم وقت لینے والا آسان طریقہ کار ہے۔ ایک اچھے کاروباری شخص کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنی پہلی ملاقات کا تاثر اتنا گہرا چھوڑے کہ مقابل اس سے دوبارہ ملنے پر مجبور ہو جائے۔ ہر کاروباری معاملے کے آغاز میں خواہ انجام کچھ بھی ہونے والا ہو ابتدائی نوے سیکنڈ بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں: پیٹی وڈ (خرم منصور قاضی: باڈی لینگویج – موثر اظہار کا مستند فن)
کینیسکس (Kinesics) کیا ہے؟
دراصل یہ ایک غیر لسانی ترسیل ہے جس میں انسان کا برتاؤ، گرمجوشی، سرد مہری، اشارے اور جسم یا اس کے کچھ اعضاء کی حرکتیں جنھیں دیکھنے والے پر خاص اثر ہوتا ہے۔ کینیسکس کو الفاظ سے زیادہ متاثر کن مانا جاتا ہے۔ اسے ہم عام زبان میں Body Language بھی کہتے ہیں۔ لیکن کینیسکس کو سب سے پہلے متعارف کرانے والے Ray Birdwistell نے اس کے لیے کبھی باڈی لینگویج کا استعمال نہیں کیا ہے، نہ ہی اسے پسند کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماہرینِ لسانیات نے زبان کی جو تعریف کی ہے کینیسکس اس سے مختلف ہے۔ بہر حال لوگ اسے باڈی لینگویج کے نام سے جانتے ہیں۔
کینیسکس کی ابتدا
اس کی تاریخ یوں تو بہت قدیم ہے لیکن اس فن پر باقاعدہ سب سے پہلی گفتگو 1952ء میں Ray Birdwistell نے اپنی کتاب Kinesics and Context میں کی۔ غیر لسانی ترسیل میں خاص طور پر کینیسکس یا باڈی لینگویج میں عام لوگوں نے 1960ء اور 70ء کی دہائی میں دلچسپی لینی شروع کی۔ 1971ء میں ایک کتاب How to read a person like a book نیویارک سے شائع ہوئی۔ اسی طرح خود Ray نے کئی اور ماہرین کے ساتھ مل کر ایک طویل میعادی تجربہ کیا جس میں انھوں نے سماجی موصلات کا ہر ناحیہ سے جائزہ لیا ہے۔ ان کے اس کام کو “The natural history of an interview” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کینیسکس کے حوالے سے Ray کا بنیادی نظریہ
رے کے مطابق جسم کی ہر ایک حرکت کا ایک معنی ہوتا ہے۔ اور یہ حرکات دراصل انسان کے ان جذبات کی غماز ہوتی ہیں جنھیں وہ اس حالت میں محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ ایک خوف زدہ انسان کی حرکتیں ایک بے خوف انسان سے مختلف ہوتی ہیں۔ ایک خوش باش آدمی کا برتاؤ ایک پریشان حال آدمی سے مختلف نظر آئے گا۔ دوران گفتگو انسان جو کچھ بھی بے ساختہ کر رہا ہوتا ہے وہ بھی اس کے الفاظ ہی کی طرح مافی الضمیر کی ادائیگی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ رے کے مطابق غیر لسانی ترسیل کا ایک پورا گرامر ہے جسے بولی جانے والی زبانوں کے گرامر کی اصطلاح میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں Kineme کی اصطلاح Phoneme کی اصطلاح کے مشابہ ہوگی۔
رے کے مطابق آپسی گفتگو اور تعامل میں انسان 30 سے 35 فیصد الفاظ ہی کا سہارا لیتا ہے۔ باقی باتیں وہ کینیسکس یا باڈی لینگویج ہی کے ذریعہ ہی مکمل کرتا ہے۔
باڈی لینگویج اور سائن لینگویج میں فرق
لفظ باڈی لینگویج سے کچھ لوگوں کو اشتباہ ہوتا ہے کہ شاید یہ وہی ہے جسے ہم سائن لینگویج کے نام سے جانتے ہیں۔ سائن لینگویج وہ علامتی زبان ہے جس میں ہاتھ کے دونوں پنجوں کو مختلف شیپ دے کر بات کی جاتی ہے۔ اس میں باڈی کے حصے یعنی پنجوں کا استعمال ہوتا ہے جس سے کسی کو شک ہوسکتا ہے کہ یہی باڈی لینگویج ہے۔ حالانکہ باڈی لینگویج کے اپنے کوئی حروف نہیں ہیں جیسے سائن لینگویج کے ہیں۔ البتہ باڈی لینگویج یا کینیسکس Emblems کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ Emblems ان جسمانی اشاروں یا حرکتوں کو کہتے ہیں جن کی ترجمانی کسی خاص کلمہ یا محاورہ سے بھی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً گردن ہلا کر “ہاں” یا “نہیں” کا اشارہ کرنا وغیرہ۔ Emblems کے علاوہ کہیں بھی باڈی لینگویج کے لیے کوئی کلمہ اور محاورہ خاص نہیں ہے کہ باڈی لینگویج کے بجائے وہی اثر پیدا کرنے کے لیے ان کلمات یا محاوروں کا استعمال کیا جائے۔ جبکہ سائن لینگویج دراصل مختلف زبانوں کے حروف تہجی اور کلمات ہی کو پنجوں کے مختلف شیپ میں بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی تاثیر وہی ہے جو عام بولی اور لکھی جانے والی زبانوں کی ہوتی ہے۔
جسمانی قوت بیان
دوران گفتگو جسم کے مختلف اعضاء کو طرح طرح سے حرکت دینا، ان سے اشارے کرنا، آواز میں اتار چڑھاؤ پیدا کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب باڈی لینگویج ہی کا حصہ ہیں۔ مختلف اعضاء کی مختلف حرکتوں کے جدا جدا معانی اور اثرات ہوتے ہیں۔ جیسے:
چہرے کے تاثرات
چہرہ انسان کے دل کا ترجمان ہوتا ہے۔ انسان کے دل کی خوشی اس کے چہرے سے جھلکتی ہے۔ اسی طرح دل کا غم چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔ کینیسکس یا باڈی لینگویج میں چہرے کے تاثرات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ آنکھوں، بھویں، ہونٹ اور ناک کی آپس میں ہم آہنگی کے ساتھ مختلف حرکتوں کے مختلف اثرات ہوتے ہیں۔
مثلاً آنکھ کی پتلیوں پر انسان کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی چیز میں دلچسپی لیتا ہے تو پتلیاں خود بخود پھیل جاتی ہیں۔ آزمانے کے لیے آپ اپنے دوستوں سے کسی انتہائی دلچسپ موضوع پر بات کریں اور پھر کم دلچسپ موضوع پر بات کریں۔ اور دوران گفتگو ان کی آنکھوں کی پتلیوں کا مشاہدہ کرتے رہیں۔ پتلیاں پھیلتی اور سکڑتی محسوس ہوں گی۔
اسی طرح ایک عام انسان کی پلک ایک منٹ میں 6 تا 10 بار جھکتی ہے۔ لیکن جب اس کی نگاہ کسی جاذب چیز پر پڑتی ہے یا وہ دلچسپ بات کرنے والے کو سنتا ہے تو اس کے پلک جھپکنے کی شرح خودبخود کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح گفتگو میں آئی کانٹیکٹ Eye Contact رکھنا سامنے والے کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ لیکن دوران گفتگو آنکھیں نہ ملانا بات کرنے والے کو مشکوک کر دیتا ہے۔ اسی طرح چہرے کے تاثرات کے حوالے سے بہت سے دلچسپ حقائق ہیں جنھیں جان کر اور روزمرہ کی زندگی میں برت کر کوئی بھی اس کے فوائد سے محظوظ ہوسکتا ہے۔
سر اور گردن کے اشارے
ایک بااثر خطیب دوران گفتگو سر اور گردن سے خوب کام لیتا ہے۔ ایک جوکر گردن کے سہارے سر کو گھما کر مجمع کو ہنسا دیتا ہے۔ عام بول چال میں بھی سر اور گردن کی لچک سے فائدہ اٹھا کر خود کو زیادہ بااثر بنایا جا سکتا ہے۔
سر کو آگے کی طرف نیچے اوپر کرنے کا مطلب عام طور پر “ہاں” ہوتا ہے۔ یہ حرکت دوران گفتگو ہو تو اس کا مطلب بات کی تائید یا حوصلہ افزائی ہوتا ہے۔ سر کو دائیں بائیں حرکت دینے کا مطلب عام طور پر “نہیں” ہوتا ہے۔ ہندوستان میں Hed bobbles دوسرے ممالک کے لیے ایک دلچسپ تذبذب میں ڈالنے والی چیز ہے۔ Hed bobbles یعنی سر کو دائیں بائیں جھکانا۔ اس کا مطلب “ہاں، اچھا، ٹھیک ہے” ہوتا ہے۔ لیکن ایک اجنبی انسان اس سے کنفیوژ ہو جاتا ہے۔ البتہ سیاق و سباق سے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ سر کو ایک طرف جھکانا یہ گفتگو میں دلچسپی لینے کی علامت ہے تو دوسری طرف یہی چیز جستجو، شک، غیر یقینی اور سوال کی بھی علامت ہوتا ہے۔ سر کو جھکا کر اسے ایک ہاتھ سے تھامنا غور و فکر اور سوچنے کی علامت ہے۔ لیکن اگر یہی کام دوران گفتگو ہو تو بات میں دلچسپی نہ لینے کا اشارہ ہے۔ اگر سر خفیف سا آگے کو جھکا ہو اور ساتھ ہی ساتھ پیچھے کی طرف کھنچاؤ ہو تو یہ آدمی کے مشکوک ہونے کا اشارہ ہے۔
عام جسمانی حالت
جسم کے مختلف انداز بھی انسانی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ بیٹھے اور کھڑے ہونے کے مختلف طریقے انسان کے دل میں مختلف حالتوں کو بتاتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کرسی پر بالکل پیچھے ہو کر بیٹھا ہوا ہو ساتھ ساتھ چہرہ آگے کو کر کے گفتگو کے ساتھ ساتھ سر ہلائے تو اس کا مطلب ہے وہ بالکل کھلا ہوا، مطمئن اور عموماً بات کو سننے کے لیے تیار ہے۔ اس کے برعکس کرسی پر ہاتھ پہ ہاتھ اور پیر پہ پیر دھرے بیٹھا پیر کے پنجے سے ہلکے ہلکے زمین ٹھونک رہا ہو تو سمجھو وہ کافی بے صبرا اور جذباتی طور پر گفتگو سے جڑا نہیں ہے۔
لیکن کھڑے ہو کر گفتگو کے دوران ایک شخص Arms Akimbo یعنی کولہے پر دونوں ہاتھ اس انداز میں رکھے ہو کہ دونوں ہاتھوں کی کہنیاں دائیں بائیں کو نکلی ہوئی ہوں اور دونوں پیروں کے پنجے بولنے والے کی طرف ہوں مطلب وہ متوجہ اور گفتگو میں دلچسپی لے رہا ہے۔ بہر حال اس انداز میں تھوڑی سی بھی تبدیلی بہت معنی خیز ہے۔ لیکن اگر آپ اسی انداز میں دیر تک کھڑے رہیں گے تو یہ تاثر بھی جا سکتا ہے کہ آپ کو کوئی تکلیف ہے یا آپ بات کرنے والے سے تھک گئے ہیں اور جانا چاہتے ہیں۔ اس لیے اس انداز میں وقفے وقفے سے تبدیلی کرتے رہنا چاہیے، چاہے چند لمحوں ہی کے لیے کیوں نہ ہو۔
سینہ
سینہ کا انداز اور حرکت باڈی لینگویج میں بہت معنی خیز کردار ادا کرتے ہیں۔ پھولا ہوا اور آگے کی طرف نکلا ہوا سینہ پر اعتمادی کی علامت ہے۔ اس کے برعکس جو شخص سینہ دبائے بیٹھا ہو اس کا عموماً مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں اعتماد کی کمی ہے۔ اسی طرح سینے کو مختلف انداز میں چھونے کے بھی مختلف معانی ہوتے ہیں۔ کوئی شخص دوران گفتگو دونوں ہاتھوں کو سینے پہ دل کے پاس رکھے تو یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ وہ یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ جو بات وہ کہہ رہا ہے اس میں مخلص ہے۔ سینے پر دل کے پاس ہاتھ رگڑنا بے آرامی اور بے چینی کی علامت ہے۔
کندھے
“ہمارے کندھے ہمارے بارے میں رائے تشکیل دیتے ہیں۔ وہ ہماری صحت اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور بات چیت میں ہماری مدد کرتے ہیں”۔
سینوں کی طرح کندھے بھی باڈی لینگویج میں بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ کندھے سینے سے پیچھے ہوں یہ اعتماد کی نشانی ہے۔ کندھوں کو تیزی سے اوپر نیچے حرکت دینا لاعلمی کا اشارہ ہوتا ہے۔ مضبوط اور لچکدار کندھے گفتگو میں زندہ دلی کا احساس اور فطری تال میل پیدا کرتے ہیں۔
اشارے
یہ دوران گفتگو جسمانی اعضاء (ہاتھ، بازو، انگلی، سر اور پیر) کی جانتے بوجھتے یا بے اختیاری میں ہونے والی حرکت ہوتی ہے۔ کھڑے، بیٹھے یا چلتے ہوئے دوران گفتگو سننے والا ہاتھ باندھ لے تو یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ اس نے اب اپنا دماغ بند کرلیا ہے اور بولنے والے کا نقطہ نظر سننا پسند نہیں کر رہا ہے۔ اسی طرح کندھوں کو اچکا کر نہ سمجھ پانے کا اشارہ آفاقی ہے۔ پنجوں کی پوزیشن بھی انسان کی خیریت بتاتی ہے۔ کھلا اور پرسکون پنجہ اعتماد کی علامت ہوتے ہیں۔ مٹھی بند پنجے ذہنی کشیدگی اور غصہ کا اشارہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص پنجے مروڑ رہا ہو تو یہ اس کی گھبراہٹ اور اضطراب کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح انگلیوں کے اشارے بھی معنیٰ خیز ہوتے ہیں اور کافی عام بھی ہیں۔ کچھ ثقافتوں میں شہادت کی انگلی سے اشارے کرنا قابل قبول ہے لیکن کچھ ثقافتوں میں یہ دشمنی اور جارحیت کی علامت ہے۔ اسی طرح “اوکے” کہنے اور پسندیدگی کا اظہار کرنے لیے بہت سے ملکوں میں انگوٹھا دکھایا جاتا ہے لیکن بہت سی جگہوں پر انگوٹھا بے عزتی کرنے کے لیے دکھایا جاتا ہے۔ امریکہ میں بے عزتی کرنے کے لیے بیچ کی انگلی دکھائی جاتی ہے۔ ویسے اب سوشل میڈیا کے زمانہ میں بہت ساری چیزوں کی طرح انگلیوں کے اشارے بھی کامن ہوتے جا رہے ہیں۔
مصافحہ کرنا
گرمجوشی سے مصافحہ کرنے سے پہلا تاثر بہت اچھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی سے پہلی ملاقات میں ابتدا کے 90 سیکنڈ اچھا یا برا تاثر پیدا کرنے میں بہت معنی رکھتے ہیں۔ ملاقات کرتے ہی مسکراہٹ کے ساتھ گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ بھر کے مصافحہ کرنا اچھا اثر چھوڑتا ہے۔ اس کے برعکس آدھا ادھورا مصافحہ منفی اثر ڈالتا ہے۔
“ٹیکساس یونیورسٹی میں کمیونیکشن کی ایک پروفیسر ایلس فوسٹر بھی ’’باڈی لینگویج‘‘ کو دور حاضر کا ایک کامیاب نسخہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’آپ سر توڑ کوشش کے باوجود چند سیکنڈ میں ایسے جامع مدلل اور خوب صورت الفاظ جمع نہیں کرسکتے جن کے بولنے سے آپ کو حسب منشا نتیجہ حاصل ہوسکے جبکہ چند سیکنڈ کا پرجوش مصافحہ آپ کو توقعات سے بڑھ کر نتائج دے سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی عہدے پر کیوں نہ ہو اپنے مقابل سے بھرپور توجہ اور خلوص چاہتا ہے جو آگے بڑھ کر ہاتھ ملا لینے سے یقینی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔‘‘(خرم منصور قاضی: باڈی لینگویج – موثر اظہار کا مستند فن)
سانس لینا
سانس لینے کا انداز بھی انسان کی دلی کیفیت کا ترجمان ہوتا ہے۔ گہری سانس اطمینان اور اعتماد کا تاثر دیتی ہے۔ جبکہ تیزی کے ساتھ آدھی ادھوری سانس گھبراہٹ اور فکر مندی کی علامت ہے۔
کینیسکس میں ان سب کے علاوہ باڈی لینگویج کے دیگر مزید عناصر پر بھی گفتگو ہوتی ہے۔ مثلاً آواز کا اتار چڑھاؤ، آدمی کا برتاؤ، آمادگی وغیرہ۔ ان سب کا اچھے سے مطالعہ کرکے ایک عام انسان خود کو ایک بااثر شخصیت بنا سکتا ہے۔ آج کل لوگ باڈی لینگویج کی حیرت انگیز تاثیر کے تیزی سے قائل ہورہے ہیں۔ پرسنیلٹی ڈیولپمنٹ میں باڈی لینگویج ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ موٹیوشنل اسپیکر، مشہور خطباء، اسٹینڈپ کامیڈین، اچھے سروس مین اور اچھے تاجروں میں یہ بات ضرور نظر آتی ہے۔ وہ الفاظ سے زیادہ اپنی باڈی لینگویج سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔
نوٹ: پورا مضمون وکیپیڈیا پر موجود مختلف مضامین سے مستفاد ہے۔
آپ کے تبصرے