سوشل نیٹ ورک نے جہاں معاشرے پر بہت سے مثبت و منفی اثرات مرتب کیے ہیں وہیں دانشوروں کی ایک ایسی جماعت بھی تیار کردی ہے جو گھر بیٹھے بڑی آسانی سے ملکوں و شخصیتوں کی وہ خبریں بھی ڈھونڈھ نکالتے ہیں جس کی خود صاحب معاملہ کو بھی بھنک نہیں ہوپاتی۔ اپنے گھر تک کی سدھ بدھ نہ ہونے کے باوجود ایران و توران کے سیاسی و معاشی تجزیوں پر ان لکھاڑیوں کی وہ باریک بیں نظر ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑے سیاسی پنڈت اور کوکھیات ارتھ شاستری بھی ان کے آگے زانوۓ تلمذ تہ کرنے کو مجبور ہوجائیں۔ اسی مخصوص صنف کی ایک ٹکڑی تعصبی عینک چڑھاۓ آج کل حب علی میں اس قدر غلو کا شکار ہے کہ بغض معاویہ میں اس کے لیے ہر سرحد پار کرجانا عام سی بات ہوگئی ہے۔
چونکہ وطن عزیز میں انتخابات ختم ہوچکے ہیں اور دوبارہ وہی حکومت بھی آچکی ہے جسے یہ نہیں چاہتے تھے اس لیے اب ان کے یہاں تجزیہ نگاری کو بھی کچھ نہیں بچا ہے۔ جب کہ یہ امر واضح ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کے ترجمان یا پیشہ ور خطیب کو اگر آپ بولنے سےاچانک روک دیں تو ان کے وتھڈراول سمپٹمس اسی طرح سامنے آئیں گے جیسے کہ کسی افیمچی کو اچانک نشے سے دور کردینے پر ظاہر ہوتے ہیں۔۔۔ ایسے ہی دانشوران لکھاڑیوں کے پاس کوئی خاص کام اور موضوع نہ ہونے کا نتیجہ سامنے یوں آیا ہے کہ ان دنوں سوشل نیٹ ورکس پر ہم کچھ تصویریں اور ان سے لگے عجیب عجیب قسم کے کیپشنز دیکھتے ہیں۔ مثلا دو متوازی تصویریں، ایک میں کسی سعودی دسترخوان پر خوب سا لذیذ کھانا ہے اور دوسری میں کوئی ننگا بھوکا بچہ کسی کوڑے دان میں کھانا تلاش کررہا ہے۔ ایک تصویر میں کوئ شماغ و عقال والا شخص کسی شاندار محل میں ہے اور دوسرے میں کھلے آسماں تلے چند بے گھر افریقی نفوس ٹھٹھر رہے ہیں۔ دانشوران کی مضحکہ خیزی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب تو ایسے بھی موازنے سامنے آنے لگے ہیں کہ تصویر کے نصف حصے میں ایوان میں خادم الحرمین یا ان کے وزراء اور دوسرے نصف میں بیت المقدس اور فلسطین میں پریشان بے سہارا مسلمان ہوتے ہیں۔ آج تو میرے ایک باوقار اور صاحب فہم و خرد دوست نے بھی ایک تصویر شیئر کردی جس میں ایک طرف رئیس ائمۂ حرمین شریفین شیخ عبدالرحمان السدیس کے سامنے گولڈن رنگ کا مائک ہے اور دوسری طرف افریقہ کے ایک روتے ہوۓ معصوم مفلس بچے کی تصویر ہے اور کیپشن کچھ یوں ہے:
“لا تبكي يا صغيري لقد اشترينا ميكروفون من الذهب لكي ندعو الله أن يطعمك”
یعنی ‘میرے بچے! رو مت، ہم نے سونے کا مائکروفون خرید رکھا ہے جس میں اللہ سے دعا کریں گے کہ وہ تمھیں کھانا کھلادے’۔ بڑی دیر سے سوچ رہا ہوں کہ اپنا سر پیٹ لوں، سوشل نیٹ ورکس سے دوری برت لوں یا پھر اگنور کرکے آگے بڑھ جاؤں۔ چونکہ حقیقت امر سے مجھے کچھ حد تک واقفیت ہے سو تینوں میں سے ایک بھی نہ اپناکر لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ نہ میں قلم کار ہوں اور نہ ہی مجھے لکھنے کی مبادیات کا علم ہے، پھر بھی کوشش ہوگی کہ چند اجمالی حقائق سے روشناس کراسکوں۔
میں گزشتہ تقریبا ایک دہائی سے سعودیہ عربیہ میں ہوں اور یہاں کے مثبت و منفی دونوں ہی پہلؤں کو قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ نوکری پیشہ انسان ہوں اور اپنی محنت و قسمت کی اجرت پر جیتا ہوں اس لیے قاری میرے اوپر ‘ریال بھکتی’ کا لیبل لگانے کی قطعی کوشش نہ کرے۔ مجھے اس اعتراف سے کوئی گریز نہیں کہ اس ملک میں جہاں ہزارہا خوبیاں ہیں، وہیں ان کے کچھ اقدامات تشویش سے بھی خالی نہیں اور عین ممکن ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ان اقدامات کے منفی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ میرا ماننا ہے کہ ان منفی اقدامات و تبدیلیوں پر آوازیں اور تنقیدیں بھی اٹھنی چاہئیں تاکہ کسی بھی ممکنہ نقصان سے بچا جاسکے۔ اور یہ تنقید اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کا تعلق ارض حرمین سے ہے جس کی فکر شرق و غرب کے ہر مسلم نفس پر لازم ہے۔۔۔ البتہ، اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ اس ملک کی طرف سے نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پوری عالمی و انسانی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے کی جا رہی کوششوں کو سراہنے کے بجاۓ نکار دیا جاۓ۔
اس ملک کے ایثار کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک، اندرون ملک ان کی ظاہری رواداریاں جسے گزشتہ دس سالوں سے میری اپنی آنکھیں دیکھتی آرہی ہیں۔ دوسرے عالمی پیمانے پر ان کے ذریعہ انجام پانے والے رفاہی و فلاحی کام جو نہ صرف مسلم امت بلکہ پوری انسانی برادری پر محیط ہیں۔ اندرون ملک مروج ان کی اچھائیوں میں سے کچھ تو اس قدر خوبصورت ہیں کہ نہ چاہتے ہوۓ بھی بسا اوقات ان سے آپ کو پیار ہو ہی جاۓ گا۔
• رمضان کا مہینہ ہے۔ آپ کو افطار کے وقت کئی ٹریفک سگنلس پہ پولیس اہلکار یا ان کے عام اشخاص افطار پیکٹس لے کر آپ کی گاڑی کے شیشے پر دستک دیتے ہوۓ نظر آجائیں گے۔ آپ مکہ یا مدینہ یا اور کسی شہر کی طرف جارہے ہوں آپ کو ہائی وے کے اطراف جگہ جگہ افطار کے انتظامات ملیں گے۔ حرمین کی تو بات ہی مت پوچھیں، جنھوں نے دیکھا ہے اس کا لطف وہی بیان کرسکتے ہیں کہ حکومت اور اہل خیر اندرون حرمین اور باہر ایک سے دو کلومیٹر تک کس طرح حجاج و معتمرین کے لیے کچھ نہ کچھ لیے کھڑے رہتے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل ایک بچہ مسجد نبوی میں میرے والد محترم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دسترخوان پر بیٹھنے کی ضد کرنے لگا، ہم اگلی صفوں کی طرف بڑھنے کی فراق میں اس کا ہاتھ چھڑا کر نکلنے کی کوشش کرنے لگے تو ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو سے آگئے، سو ہمیں بالآخر اسی کے دسترخوان پر بیٹھنا پڑا۔
• سال کے بارہ مہینے سعودی محلوں میں اکثر جگہوں پر آپ کو گھروں کے باہر بڑے بڑے فریجرز مل جائیں گے جس میں لوگ زائد یا ایسے ہی کھانے لاکر رکھ دیتے ہیں تاکہ ضرورت مند وہاں سے نکال کر استعمال کرسکیں۔ مساجد میں تو پانی اور کھجوروں کی فراہمی تو ایک معمول کی چیز ہے۔
• ہر شہر میں جگہ جگہ کیبنس رکھی ہوتی ہیں جس میں آپ اپنے پرانے کپڑے، استعمال شدہ گھریلو اشیاء لے جاکر رکھ دیں تاکہ ضرورت مند اس سے استفادہ کرسکیں۔ ساتھ ہی تمام جمعیہ خیریہ کے باہر آپ کو گاڑیاں نظر آجائیں گی جس میں آپ ایسی چیزیں بیرونی ممالک میں ضرورت مندوں تک بھیجی جاسکیں۔
• آپ بیشتر ممالک اور بالخصوص ہندوستان میں چراغ لے کر ڈھونڈھنے پر بھی ایسا خوبصورت منظر نہیں دیکھ پائیں گے جہاں پینتالیس پچاس ڈگری گرمی میں کسے ہائی وے کے کنارے کوئی پولیس اہلکار آپ کی پنکچر گاڑی کی اسٹیپنی بدل رہا ہو۔ جی ہاں، اس ملک میں ایسے مناظر آپ کو آۓ دن دیکھنے کو ملیں گے۔ ہمارے ملک میں بھی میلوں، تیرتھ استھلوں پر پولیس عملے کی تعیناتی ہوتی ہے۔ آپ کہیں ایک ایسی مثال نہیں لاسکتے جہاں یہ اہلکار ضعیف شردھالؤوں کے پیروں کی جوتیاں درست کررہے ہوں یا اپنے کندھوں پر بٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا رہے ہوں۔ حاجیوں اور معتمرین کی خدمت کرتے پولیس اہلکاروں سے آپ کو ایسے دل موہ مناظر ایک دو نہیں سیکڑوں آۓ دن مل جائیں گے۔
• کہاں اور کب آپ نے کسی اعلی فوجی کو کسی عام شہری کے ساتھ کھاتے پیتے دیکھا ہے؟۔ انتخابات کے ایام میں دلتوں کی بستیوں میں نیتا بغرض مفاد فوٹو کھنچوانے ضرور چلے جایا کرتے ہیں جبکہ تحقیق پر اس کے پس پردہ بھی بے شمار کہانیاں چھپی ہوتی ہیں۔ آپ اس ملک میں ہر سال ایسے درجنوں واقعات معلوم کرسکتے ہیں جہاں یہ اہلکار اپنی تعنیاتی کے علاقے میں کسی عام اجنبی گروپ کے ساتھ بنا کسی سیاسی مفاد کے افطار و سحور کا لطف لیتے نظر آئیں گے۔
اس جیسی بے شمار ان کی وہ پیاری عادات ہیں جن کی وجہ سے ہزارہا نظریاتی اختلافات کے باوجود ان کے حق میں دعائیں دینے کو دل چاہتا ہے۔ ان احباب کے لیے جو اکثر عالم اسلام کی زبوں حالی اور مفلسی کا ٹھیکرا سعودیہ کے سر پھوڑتے رہتے ہیں کچھ اعدادوشمار سے روشناس کرانا چاہتا ہوں۔ یقین جانیے یہ ملک پوری دنیا میں رفاہی و فلاحی کاموں کے لیے جس اعلی پیمانے پر شراکت کرتا ہے اسے چند صفحات میں گنانا دشوار امر ہے پھر بھی میں چند انفرادی کوششوں کا یہاں شمار کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔
• 1996 سے 2018 کے دوران صرف ریلیف فنڈ کے تحت سعودیہ نے 79 ممالک میں 76.7 بلین امریکی ڈالر کی امداد دی ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی 489 این جی اوز کو تقریبا 929 ملین امریک ڈالر کا تعاون فراہم کیا ہے۔
• 13 مئی 2015 میں قائم شدہ کنگ سلمان ہیومنیٹیرین رلیف فنڈ کے ذریعے بیالیس مختلف ممالک میں 482 پراجیکٹس پر تقریبا 925 ملین ڈالر کی رقم خرچ کی ہے جس کا 76% حصہ یمن میں گیا ہے۔ اسی ملک سلمان رلیف فنڈ نے عورتوں کی بہبود پر 206 پروجیکٹس پر $ 341,481,000 اور بچوں کی فلاح کے 171 پروجیکٹس پر $504,962,000 کی رقم تقسیم کی ہے۔
• 2018 کے اواخر تک سعودیہ نے 561,911 یمنی، 283,449 سیریائی، 249,669 میانماری مہاجرین کو اپنے یہاں پوری عزت اور تمام تر انسانی سہولیات کے ساتھ پناہ دے رکھی ہے۔ مجموعی طور پر یہ تعداد اس ملک کی اپنی پوری آبادی کے 5.36% کے بقدر ہے۔
• 1975 سے 2002 کے درمیان صرف Overseas Development Aid کے تحت اس ملک نے 70 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ تعاون دیا ہے۔
• گزشتہ ماہ UNHCR (United Nations High Commission for Refugees) نے پناہ گزینوں کے ضمن میں سعودی عرب کے تعاون کو بڑے اچھے لفظوں میں سراہا ہے۔ اس تعلق سے ان کے کارناموں کی لمبی فہرست ہے جسے کوئی بھی قاری اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر بآسانی ملاحظہ کرسکتا ہے۔
• مختلف پروگراموں کے تحت اب تک صرف یمن 11.88 بلین ڈالر کی مدد سعودیہ سے پاچکا ہے۔
ابھی مختلف ممالک میں صرف رمضان ایڈ کے نام پر 1.8 بلین ڈالر کا تعاون دیا گیا ہے۔
• فلسطین کے لیے یہ ملک اپنی سیاسی پالیسیوں اور جدو جہد کے ساتھ ساتھ سیکڑوں رفاہی پرگرام چلا رہا ہے۔ فلسطین کے لیے اس کی خصوصی رعایات کا اندازہ آپ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ یہاں موجود فلسطینیوں کے لیے ان کے پاس خصوصی درجے ہیں جو ہم جیسے ہندوستانی یا دیگر ممالک کے یہاں کام کرنے والوں کو نہیں حاصل ہیں۔
• مختلف امور میں اقوام متحدہ کو رفاہی فنڈ دینے والے چند سرفہرست ممالک میں سے سعودی عرب ایک ہے۔
• حج و عمرہ کے دوران ان کے رفاہی و امدادی کاموں سے ہر کسی کی واقفیت ہے۔
• آج شاید ہی دنیا کا کوئی مسلم گھر ایسا ہوگا جس میں ملک فھد قرآن پروگرام کے تحت شائع شدہ قرآن کے وقف نسخے موجود نہ ہوں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی لائبریری ہو جس میں سعودی سے وقف شدہ کتب احادیث وغیرہ کا ایک ذخیرہ موجود نہ ہو۔ شاید ہی دنیا کی کوئی ایسی معروف زبان باقی رہ گئی ہو جس میں قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث و مبادیات اسلام پر کتابوں کی اشاعت اور پھر تقسیم عمل میں نہ آئی ہو۔
• نہ صرف ہند و پاک و بنگلہ دیش بلکہ بیشتر کمزور مسلم خطوں میں مساجد و مدارس یا اداروں کا جال کلی یا جزوی طور پر اسی ملک کی مرہون منت ہے۔
فہرست بہت طویل ہے، نہ احاطہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مقصود ہے۔ غرض صرف یہ ہے کہ ہمیں بلاوجہ عصبیت کی عینک لگا کر فضول کی بحثیں اور تنقیدیں نہیں کرنی چاہئیں۔ فلسطین یا کسی مسلم ملک کی بے بسی ایک سیاسی امر ہے جسے نہ تو پل بھر میں حل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ سعودیہ یا اس جیسے کسی اور ملک کی دسترس میں ہے۔ ہاں اس تعلق سے اس ملک کی جتنی کوششیں ہمیشہ سے رہی ہیں اس سے کسی ذی فہم کو انکار نہیں ہونا چاہیے۔
اختتام سے قبل ایک بار پھر اعادہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اس بات سے انکار نہیں کہ اس ملک میں، اس کے امراء میں، اس کی عوام میں ہماری آپ کی طرح انسانی فطرتوں کے تئیں بہت سی خامیاں ہیں جس پر گاہے بگاہے گفتگو و تنقید براۓ اصلاح بھی ضروری ہے۔ مگر پورے عالم اسلام اور پوری عالم انسانیت کے لیے اپنی بساط کے بقدر اس ملک کی جو بھی مخلصانہ کوششیں رہی ہیں وہ خود اپنی مثال آپ ہیں۔ راقم بہتیرے معاملات میں اس ملک اور اس کی پالیسیوں کا بہت بڑا ناقد ہے لیکن چونکہ اس نے گزشتہ ایک دہائی سے عملی طور پر اس کی اچھائیوں کو قریب سے دیکھا ہے اس لیے ان سے پردہ پوشی بھی نہیں کرسکتا۔
اور ہاں، ان کی گرفت سے قبل ہم اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے؟ کیوں نہیں دیکھتے کہ عالم اسلام، فلسطین و یمن سے پرے ہمارے گھر میں، پڑوس میں، محلے گاؤں میں بھی ہم سے ملحق زندگیاں ہیں، ہم نے ان کا حق اپنی استطاعت کے بقدر کتنا ادا کیا ہے؟ حرم کے مائیکروفون میں نہ جانے ہمیں کہاں سے سونا نظر آجاتا ہے اور افریقہ و ایشیاء کے تمام ننگے بھوکے بچوں کی وجہ سعودی امراء اور ان کے محلات ہوجاتے ہیں، مگر اپنے ہی بھائی کی مفلسی، پڑوسی کی بیماری، محلے کی بیوہ کے آنسو کبھی ہمارے لیے درد کا سبب نہیں بن پاتے۔ چھوڑیں جی! آل سعود اور سعودی کے معاملات ان کے اپنے حوالے کردیں، آپ سے اس کا حساب نہیں مانگا جاۓ گا۔ اپنی فکر تو کرلیں ہم۔ سعودی فلسطین کا تعاون کرے نہ کرے مگر کیا اس سے ہمیں اپنے اردگرد کی کھوج خبر سے بے اعتنائی کا جواز مل جاتا ہے؟
دو باتوں پر گفتگو ختم کررہا ہوں۔۔۔ حب علی ضروری ہے بالکل کریں مگر اس کے ساتھ بغض معاویہ کو مشروط نہ بنائیں۔ سعودیہ کی متعصبانہ تنقید و گرفت سے زیادہ ہم اپنی اور اپنے قرب و جوار کی فکر ضروری سمجھیں۔۔۔ پرخلوص و مؤدبانہ التماس ہے کہ تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن۔
Ma sha allah
دریا کو کوزہ میں سمیٹے ہوئے ایک نہایت عمدہ، جامع، مدلل، تجزیاتی اور شگفتہ تحریر. اللہ حق اور حقیقت سے روشناس کراتے ان ہاتھوں کو سلامت رکھے، اور مزید در مزید توفیق عطا فرمائے. فری لانسر کی ٹیم بھی بہت بہت مبارکباد کی مستحق ہے جس نے اتنی عمدہ تحریر کا انتخاب کیا.بہت بہت شکریہ.
بہت خوب ڈاکٹر صاحب
ما شاء الله بہت متوازن تحرير ہے. أفسوس کی بات ہے کہ سعودي عرب کے بارے میں لکھنے والے عام طور پر یا تو ایسے بھکت ہیں جو سعودي عرب پر تنقید کو بخاري ومسلم پر تنقید کرنے جیسا حرام سمجھتے ہیں. یہ لوگ اپنے اپروچ میں بهارت کے مودی بھکت ہی کی طرح ہیں. دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی سعوديہ دشمنی میں اتنے آگے ہیں کہ ان کو یہاں کوئی خوبی ہی نظر نہیں آتی ہے. آپ کي تحریر مثبت تنقيد کے ساتھ بحيثت ملك وقوم سعودي عرب كي خدمات كو سراہتی ہے. الله سے دعا… Read more »