مفتی رجب علی کے حلالے کی دکان بیسیوں سال سےبڑے مزے سے چل رہی تھی، مفتی کے دونوں ہاتھوں میں لڈو تھےدنیا بن رہی تھی اور آخرت سنور رہی تھی، حلالہ کرنے والا بندہ ایڈوانس بک ہو تا اور مفتی صاحب کی مرضی کا ہوتا،مجال ہے حلال کی ہوئی زوجہ کو خود ڈکار لے، ایک یا دو راتیں ہی رنگین بنانے کی اجازت تھی، صبح ہی صبح یکمشت تین طلاق اور پچاس کی ایک گڈی برائے دار الیتامی وصول کرتےاور پہلے شوہر کی حلال کردہ بیوی احترام کے ساتھ واپس کردیتے، ساتھ ہی تاکید کردیتےکہ عدت گزرنے کے بعد آجانا دوبارہ نکاح پڑھادوں گا، اپنی بیوی کو تھالی میں سجا کر پیش کرنےوالا شوہر نامدار بھی بطور نذرانہ ایک موٹی سی رقم مفتی کے کرتے کی بغلی جیب میں ڈال دیتا، وہ شان استغنائی کے ساتھ قبول کرلیتے، اس حلالے کی بدولت مفتی صاحب کا حرم بھی نگارخانہ بنا رھتا،، وہ ایک نمبر کے کائیاں تھے، جس پر ان کا دل آجاتا، اس کا حلالہ خود کرتےاور مدعی کو یہ کہہ کر باہر کا راستہ دکھا دیتے کہ تمھاری زوجۂ سابقہ تمھارے ساتھ رہنے پر راضی نہیں ہے، میں نے تو بہت سمجھایا مگر وہ کہتی ہے کہ مجھے مجبور کیا تو پولیس کیس کردوں گی، وہ مایوس ہو کر دوسری زوجہ کی تلاش میں لگ جاتا۔ مفتی صاحب سے پنگا لینا بھی بڑے دل گردے کا کام تھا۔ وہ بیک وقت تین ہی کے قائل تھے، کوئی اگر کہتا مفتی جی اسلام میں تو چار تک کی اجازت ہے، کہتے:” اللہ وتر یحب الو تر،” سال دو سال کے بعد وہ اپنا جوٹھن کسی مرید کے حوالہ کر دیتے۔
طلاق ثلاثہ بیک مجلس سے متعلق ان کے پاس کوئی بھی فتوی لینے آتا،وہ بڑی صاف دلی سے صاحب معاملہ کو بتلا دیتے کہ بھیاتمھارے پاس دو راستے ہیں ایک جہنم کو جاتا ہے دوسرے راستے میں تھوڑی سی بے غیر تی ہے لیکن یہی بہشتی راہ ہے،دیکھو عزیز من میں کھل کر کہتا ہوں اگر تم چاہو تو کسی وہابی عالم کے پاس چلے جاؤ وہ فورا کہہ دے گا ایک بار میں تین نہیں تین سو طلاق دے دو تمھارے حق زوجیت پر کوئی داغ نہیں لگے گا،اس کے بعد وہ حدیث کی صحت اور ضعف کے دام میں تمھیں پھنسائے گا ، مفت میں تمھاری بیوی تم کو مل جائے گی، نہ ہلدی لگے گی نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے کا۔
مگر ذرا ٹھہرو، سنجیدگی سے سنو؛ ان کے پاس نہ کوئی امام ہے،نہ فقہی دلائل ہین،نہ اصولی دلائل ، نہ منطق ہے نہ فلسفہ، لے دے کرصرف قرآن اور حدیث ہے جانتے ہویہ وہابی کون ہیں؟ یہ ہمارے دین اور ایمان کے دشمن ہیں ، جو شخص ان کے سلام کا جواب دیتا ہے، وہ کافر ہوجاتا ہے، اگر تم نے وہابی مولوی کی بات مان لی اور اپنی بیوی سے رجوع کرلیا تو تم کافر ہوجاؤگے،تمھاری بیوی داشتہ اور بے نکاحی کہلائے گی اور اس سے جو بچے پیدا ہوں گے حرام ہوں گے،بچارے صاحب معاملہ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور وہ مفتی صاحب کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا۔
مفتی رجب علی کو وہابیوں سے اللہ واسطے کا بیر تھا، انھیں مسلمان تو کیا انسان بھی سمجھنے پر وہ تیار نہ تھے وہ کہتے میں پکا حنفی ہوں اپنے اسلاف کے عقیدے میں تحریف مجھے کسی حالت میں قبول نہیں، ایک بار تو اپنی اسی آتشیں نفرت کی وجہ سے جوتے اور ڈنڈے بھی کھا چکے تھے ہوایہ کہ ایک گاؤں مین وہ تقریر کرنے گئے، اپنی عادت کے مطابق وہابیوں کے خلاف شعلہ بار تقریر گر رہے تھے،اثنائے تقریر کہنے لگے، وہابیوں سے رشتہ ناطہ رکھنا حرام ہے، اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ کافر اور اس کی بیوی اس پر حرام، گاؤں والے سیدھے سادے کسان تھے وہابیوں سے ان کی پرانی رشتہ داریاں تھیں مفتی کے اس فتوی سے وہ بہت پریشان ہوئے، حاجی عبد الخالق اٹھ کھڑے ہوئے اور مولانا سے پوچھا حضرت یہ کیا کہہ رہے ہیں میری شادی تو پچاس سال پہلےایک وہابن سے ہوئی تھی وہ آج بھی اپنے مسلک پر قائم ہے میرے پانچ بچوں مین تین وہابی ہیں، کہنے لگے مذھب کے فیصلے قطعی ہوتے ہیں، تم اپنی بیوی کو ابھی علاحدہ کردو، طلاق دینے کی بھی ضرورت نہیں، اس لئے کہ وہ کبھی تمھاری بیوی تھی ہی نہیں اور تمھارے بچے تمھاری جائداد کے وارث بھی نہیں ہوں گے، مفتی کے منھہ سے یہ تکفیری راکٹ چلے ہی تھےکہ نہ جانے کس نے نعرہ بلند کیا کہ جانے نہ پائے یہ خبیث مولوی، مفتی رجب ننگے پیر بھاگے، ڈھیلوں والے اور ارہر کی کھونٹیوں والے کھیتوں میں بھاگنا معمولی بات نہیں تھی، پیر لہو لہان ہوگئے، جان بڑی پیاری ہوتی ہے، پشت پر کئ ڈنڈے اور ڈھیلے پڑے، وہ تو اماوس کی تاریکی نے ان کی جان بچا لی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لہجے میں تھوڑی نرمی آگئی، انجان جگہوں میں جانے سے کترانے لگے، ایسی شہرت کس کام کی جو ڈنڈوں اور جوتوں سے ملے۔
وہ اپنی مخصوص نوعیت کی دینی اور سماجی خد مت میں مصروف تھے کہ اچانک ستارہ گردش میں آکیا، ان کا داماد جو تین بچوں کا باپ تھا، بیوی کا نہایت تابعدار اور فرماں بردار، اس کے تھپڑوں اور چپلوں کو گلاب جامن سمجھ کر کھا جاتا، نہ جانے کس مردود نے اسے اکسایا کہ زوجہ کے پہلے ہی تھپڑ کے جواب میں اس نے تین طلاق کی گولی چلادی، یہ حادثہ اہل خانہ کے سامنے ہوا، رائی کا پربت بنا، حلقۂ مریدان انگشت بدنداں رہ گئے، واقعۂ فاجعہ کو جھٹلانا محال تھا،داماد میاں کا غصہ اترا، خسر کے پیروں سے چمٹ گئے؛ ابا کچھ کیجئیے میں زینت کے بغیر نہیں رہ سکتا، میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ بیٹی بھی رو رو کر کہنے لگی: ابا حضور پہلی بار ان کو غصہ آیا ہے، للّٰہ معاف کردیں،”
مفتی جی اس جانکاہ صدمے سے بت بنے بیٹھے تھے، زبان سے صرف اتنا نکلا:” آہ بیٹی!میں تیرا حلالہ کس سے کراؤں؟
یہ افسانہ ھے یا حقیقت