ماب لنچنگ کا شکار ہندوستان

ہلال ہدایت

ملک کی ترقی و خوشحالی، امن و امان اور دستور کی پاسداری میں ہے۔ پچھلے چند برسوں سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بنا ہوا ہے، سپریم کورٹ کے احکام کو پامال کیاجارہاہے۔ آئے دن مسلمانوں اور اقلیتوں کو ہراساں کرنے، انھیں سرِعام مار مار کر قتل کردینے کے حادثات سے ملک کی فضا مکدر ہوچکی ہے۔ یہ واقعات پورے منظم طریقے سے انجام دیے جارہے ہیں تاکہ مخصوص طبقے میں خوف یا پھر ٹکراؤ کا ماحول بنے۔ گزشتہ دنوں تبریز انصاری کو شدت پسندوں کے ذریعہ کھمبے میں باندھ کر رات بھر مارنے کے بعد پولیس کے حوالے کردیا گیا جہاں اس کی موت واقع ہوگئی۔ پورے ملک میں احتجاج ہوئے، پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی گئی یہاں تک کہ ایوانِ اقوام متحدہ میں تبریز انصاری کی سسکیاں اور اس کے بیوہ کی آہ سنائی دی۔ جس سے بین الاقوامی سطح پر ماب لنچنگ کے حوالے سے ملک کی بدنامی ہوئی لیکن مرکزی حکومت بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
جس وقت اخلاق کو بیف کے شک میں مارا گیا تھا اگر اسی وقت حکومت و انتظامیہ سختی سے قوانین پر عملداری کرتی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں شفافیت کا مظاہرہ کرتی تو شاید بعد کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا، رہ رہ کر اس طرح کے ہجومی تشدد کے واقعات منظر عام پر آتے رہے اور ہمارے دل نہیں پسیجے، بلکہ مونچھ پھلائے اپنے گھروں میں خوش وخرم بیٹھے رہے، اگر پہلے وہلے ہی میں دفاعی پوزیشن مضبوط کی گئی ہوتی تو شاید اس پر قابو پایا جاسکتا تھا اور دنیا میں علاج کس چیز کا نہیں ہے۔
ملک میں ماب لنچنگ کو بڑھاوا دینے میں بہت حد تک مین اسٹریم میڈیا کا ہاتھ ہے جس نے غیر ضروری مباحث کے ذریعہ اقلیتوں کے تئیں فضا کو مسموم کیا اور اکثریتی فرقہ کے ذہنوں میں زہر گھولنے کا کام کیا، ملک کو ایک ایسی آگ کی جانب لے جانے کی کوشش کی جس کے لاوے گاہے بگاہے بھڑک اٹھتے ہیں اور اس میں کسی نہتے اور بے بس مسلمان کی لاش کی بو محسوس کی جاتی ہے۔ ان سب کے پیچھے ایک خاص مقصد کار فرما ہے اور اس کا سیاسی فائدہ بھی اٹھایا جارہا ہے تبھی تو یہ دہشت پسند ویڈیو بناتے ہیں اور پھر دھڑلے سے شیئر کرتے ہیں۔ اگر انھیں قانون کا خوف ہوتا تو ایسا نہ کرتے۔
اسی سال مارچ کے مہینے میں نیوزی لینڈ میں ایک دہشت گرد جمعہ کے وقت مسجد میں داخل ہوکر نمازیوں کو گولی سے بھون دیتا ہے اور اس کو لائیو دکھا رہا ہوتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں میں قانون سے بچ جانے کا مکمل حوصلہ ہوتا ہے۔ دراصل قانون کے عدم نفاذ سے سماج مخالف عناصر کو شہ ملتی ہے اور اس طرح کے واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ خود ملک کے ایوان میں بیٹھے لوگ ہجومی تشدد میں ملوث شدت پسندوں کو شہ دیتے ہیں، جس سے ہجومی تشدد پر روک نہیں لگ رہی ہے۔
ماب لنچنگ کے حوالے سے گزشتہ سال 17/جولائی 2018ء کو سپریم کورٹ نے ریاستوں کو سخت احکام دیتے ہوئے قوانین بنانے اور اس پر قدغن لگانے کی وکالت کی تھی اور احکام جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے امن و امان کو برقرار رکھنے میں اہم رول ادا کرے۔ باوجود اس کے اب بھی ماب لنچنگ کے تئیں مرکزی اور ریاستی حکومتیں سرد مہری کا شکار ہیں۔ اسی ناطے کہیں نا کہیں ہجوم کو شہ ملتی ہے اور ان کے اندر نفسیاتی طور پر ایسا ہر کام کرگزرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جس میں کئی لوگ شامل ہو کر غیر قانونی امور انجام دیں یہاں تک کہ حکومتی اداروں اور ان کے عملہ کو بھی نشانہ بناتے ہیں اور بلا خوف ایسا کرتے ہیں۔ ایسے معاملوں میں شریک افراد بھیڑ کا فائدہ اٹھاکر بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم حکومت اگر دیانتداری سے کام کرے اور پیش آمدہ تشدد کے واقعات میں سختی سے نپٹے تو مستقبل میں روک لگ سکتی ہے۔ ابتدا میں امن پسند شہریوں نے احتجاج کیا اور اس پر سخت قانون بنانے کی مانگ کی تاہم اس کا اثر ایوان حکومت میں نظر نہیں آیا، الا یہ کہ اکادکا شعوری غیر شعوری طور پر بیان جاری کردیے گئے جس کا مثبت اثر سامنے نہیں آیا۔
معمولی بات پر مسلمانوں کو ہراساں کرنا اور بھیڑ کی شکل میں جمع ہو کر مار ڈالنا کون سی انسانیت ہے، دنیا کو عدم تشدد کا درس دینے والا ہندوستان کہاں ہے؟ کیا ہندوستان کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی کو خود سے سزا دی جائے؟ کیا عدلیہ اور انتظامیہ ناکام ہوچکی ہیں؟ ایک طرف بے بس انسانیت مررہی ہے اور دوسری طرف تشدد برپا کرنے والوں کو بچانے کے لیے سیاسی لیڈران سامنے آتے ہیں۔ کیا کسی مخصوص شہری کو محض رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاسکتا ہے؟ ہم کس جانب جارہے ہیں؟ کیا ہمارا ضمیر مردہ ہوچکا ہے؟ یہ ملک سب کا ہے اور ہر شہری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آواز بلند کرے۔ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیکولر اور انصاف پسند طبقے کو ساتھ لے کر چلیں، ملک میں ابھی وہ صورتحال نہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ نہ کھڑا ہو، بس متحد ہوکر جمہوری طرز احتجاج سے حکومت کو ماب لنچنگ پر روک لگانے پر مجبور کیا جائے اور تشدد پھیلانے والوں پر سخت کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا جائے، اس وقت تک نہ بیٹھا جائے جب تک کہ قانون پاس ہو۔ خیال رہے کہ ٹکراؤ اور بدلے کی پالیسی ہندوستان میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، اس لیے ایسے ماحول میں دانشمندی ہی ہمارا ہتھیار ہے۔

آپ کے تبصرے

3000