دکتور عبدالباری فتح اللہ مدنی حیدرآباد میں

ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ

علم اور اہل علم کی قدر ہر زمانے میں رہی ہے، اگر علماء علماء حق کی فہرست میں آجائیں تو ان کی قدر ومنزلت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، ان کی شخصیت طلباء کے لیے مشعل راہ ہوتی ہے، ان کا اخلاق و کردار، ان کے معاملات انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں۔
علماء کی جماعت اگر یہ چاہتی ہے کہ سماج کے اندر نوجوان جو کہ قوم کا مستقبل ہیں وہ اچھے بن کر رہیں، نیک بنیں، سماج سدھارک بنیں، آج قوم کو ایسے با اخلاق نوجوانوں کی ضرورت ہے تو اس میں علماء کو ہی اہم کردار نبھانا ہوگا، وہ ایسے کہ علماء عامل بالحديث ہو جائیں، ان کا اٹھنا بیٹھنا، جاگنا سونا، ان کی تجارت ان کے معاملات، ان کا اخلاق و کردار، ان کا عوام الناس سے بہترین ربط اور طلباء سے والہانہ محبت اس میں بڑا اور کامیاب بدلاؤ لا سکتی ہے۔

اس مضمون میں ایک ایسے ہی بااخلاق، با کردار، متبع سنت عالم دین کا تذکرہ ہے جس کی شخصیت حدیث کے میدان میں ایک مقام رکھتی ہے، جس کی باتیں اہل علم و عوام دونوں کے مابین بہت مقبول ہیں، میری مراد فضیلۃ الدکتور عبدالباری فتح اللہ مدنی حفظہ اللہ ہیں، آپ شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد تو نہیں لیکن ان کے علمی کارناموں سے کافی فائدہ اٹھایا ہے، شیخ کے کئی علمی دروس میں شریک ہوچکے ہیں، سوال و جواب کے سیشن میں بھی شیخ نے شرکت کی ہے اسی طرح شیخ البانی رحمہ اللہ کے گھر پر تقریبا تین ساڑھے تین گھنٹے کی علمی ملاقات بھی کر چکے ہیں۔
6 جولائی 2019 رات 11:20 بجے جامعہ سلفیہ بنارس کے ایک فاضل نوجوان دوست فہیم شریف سلفی کے ذریعہ پتہ چلا کہ شیخ کی فلائٹ کچھ ہی دیر میں حیدرآباد کے راجیوگاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کرنے والی ہے اور ہم سب ایئرپورٹ جا رہے ہیں، ہم نے بھی جانے کی درخواست کردی۔ دراصل شیخ سے غائبانہ محبت بہت زمانے سے تھی لیکن شیخ محترم سے ملاقات کبھی نہیں ہوئی، سوچا کہ گاڑی میں واپسی پر شیخ کے علم سے بھر پور فائدہ اٹھاؤں گا۔ شیخ فہیم سلفی صاحب نے ہماری درخواست قبول کرلی۔
ایئرپورٹ پر ہم سب نے اھلا و سھلا و مرحبا کہا، شیخ سے سلام و معانقے کے بعد اپنا مختصر تعارف کرایا اور گاڑی میں سوار ہوگئے۔ عشائیہ کے لیے فہیم بھائی کے ہوٹل الربیع العربی مہدی پٹنم پہنچے، جہاں پر فہیم سلفی صاحب کے چھوٹے بھائی عطاء اللہ شریف پہلے سے موجود تھے، اس دوران ایک اچھا خاصہ وقت شیخ سے بات چیت کرنے اور آپ کے علم و تجربات سے فائدہ اٹھانے کا مل گیا۔

دوران واپسی شیخ نے موسم کا حال پوچھا تو ہم نے عرض کیا کہ یہاں رات میں ٹھنڈی بہت لگتی ہے، شیخ نے کہا ٹھنڈی ٹھنڈ کی صفت ہے اس لیے ٹھنڈ لگتی ہے بولیں نہ کہ ٹھنڈی لگتی ہے۔
شیخ کے ٹہرنے کا انتظام جس مکان میں تھا جب ہم وہاں پہنچے تو ایک بڑے اسکرین پر شیخ کے استقبال میں لکھا ہوا تھا:

” اھلا و سھلا فضیلۃ الشیخ دکتور عبدالباری فتح اللہ”

وہ منظر اور اہل خانہ کا والہانہ استقبال متاثرکن تھا۔

شیخ کی گفتگو اور لوگوں کے سوالات کا اچھے اسلوب میں جواب دینے کے انداز سے بہت خوشی ہوئی، آپ کے بولنے اور مسکرا کر جواب دینے اور سائل سے اس کے سوال کے متعلق ہی سوال کرنے کا انداز بہت اچھا لگا۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ میں ماموں فضیلۃ الشیخ عبدالسلام مدنی رحمہ اللہ کے ساتھ بیٹھا ہوں۔

شیخ کا نام اسی وقت سے ہمارے ذہن و دماغ میں ہے جب ہم طلباء کو جامعہ سلفیہ بنارس میں دوران طالب علمی سالانہ انجمن میں تشجیعی انعام کے طور پر آپ کے ذریعہ نشر کی گئی کتاب “صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم” ملی جس میں شیخ محترم کا تفصیلی اداریہ موجود ہے۔

شیخ محترم کے کئی محاضرات ہوئے جیسے مسجد یونس ملکپیٹ، مرکز کی مسجد لنگر حوض، مسجد دارالفرقان ملے پلی، مسجد ام القری اور مسجد رحمانیہ، لیکن مجھے دو ہی محاضرات میں شرکت کا موقع ملا، مسجد ام القری اور مسجد رحمانیہ۔
مسجد ام القری کے درس میں شیخ نے سنت اور سنت کی اہمیت پر درس دیا: “من اطاعنی دخل الجنۃ و من عصانی فقد ابی” کی تشریح میں شیخ نے بہت سارے مسائل کا تذکرہ اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کیا۔ شیخ نے فرمایا کہ سنت کی لڑائی میں ہی عزت ہے، یعنی ہم کو چاہیے کہ پیارے رسول کی ایک ایک سنت پر عمل کریں، عمل بالحديث کی عادت ڈالیں، نبی کی سنت پر مر مٹنے والا بنیں، اپنی زندگیوں میں سنت کو لاگو کریں، خود بھی عمل کریں اور لوگوں کو بھی دعوت دیں، اچھے اخلاق و کردار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں، جب بھی کسی سے بات کریں تو بہترین اسلوب اور اچھے انداز میں بات کریں، فتاوے کی زبان استعمال نہ کریں دلائل سے باتیں کریں، ان کے پیچھے نماز نہیں ان کے پیچھے نماز نہیں یہ کافر وہ مشرک یہ مسلمان نہیں وہ مسلمان نہیں، ان سب چیزو‌ں سے اوپر اٹھیں، نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو اپنائیں اور دیکھیں کہ رسول محترم کا دعوت و تبلیغ کا کیا انداز تھا، آپ کیسے لوگوں سے بات کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی اسلوب کو اپنانے کی ہمیشہ اور ہر حال میں ضرورت ہے۔
شیخ محترم نے کہا کہ آج مسلم سماج حدیث کا دشمن اس وجہ سے بنا ہوا ہے کیونکہ تقیلد نے اسے اپنے شکنجے میں کس لیا ہے، تقلید کے پیٹ سے ہی سنت کی مخالفت نے جنم لیا ہے اس لیے مسلم سماج کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر خاص توجہ دینی چاہیے، آج سنت سے دوری اور تقلیدی جمود نے ملت کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے۔
آپ نے یہ بات علی وجہ البصیرہ کہی کہ سنت کے شیدائیوں کو وہ بلندی ملتی ہے جو کسی اور کو میسر نہیں ہوتی اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ سنت کے محافظ بن کر اٹھے اور حالات کا جم کر مقابلہ کیا۔ تمام ائمہ محدثین کی خدمات اور ان کی قدر و منزلت کو دیکھیں، آج بھی جو لوگ احادیث کی حفاظت کرتے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں ان کو کتنی بلندیاں مل رہی ہیں اور رب کے فضل سے ملتی ہی جا رہی ہیں۔

شیخ محترم کا درس دینے کا انداز بہت ہی نرالا اور خوبصورت تھا، بات چیت کے انداز میں درس، اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کو بیان کرنا، اور بہت سارے مسائل جو آپ کی زندگی میں پیش آئے اگر وہ عوام کے لیے نفع بخش ہیں تو انھیں بیان کرنا، اچھا لگا۔

11 جولائی یعنی آج صبح ہم سب نے شیخ کو اس سفر کا آخری سلام کہا، شیخ بہت خوش تھے اور ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آپ کا چہرہ کافی مانوس لگتا ہے اللہ خوش رکھے۔

آج میں جو فرحت و انبساط اور ایک نئی تڑپ محسوس کر رہا ہوں وہ شیخ سے ملاقات کا اثر ہے۔ اللہ تعالی شیخ محترم کو بہ صحت و سلامت رکھے، آپ کو سفر کی صعوبتوں سے محفوظ رکھے اور آپ کے ادارہ جامعہ اسلامیہ دریاآباد کو اللہ تعالی سر سبز و شاداب رکھے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000