کوسہ ممبرا میں اسکول پالیوشن

خان اختر جاوید

ممبرا کسی زمانے میں اپنی پراکرتک سندرتا میں اپنی مثال آپ رہا ہوگا، یہاں دھرتی ہرت ترنوں کی نوکوں سے پلک پرگٹ کرتی رہی ہوگی، ایک طرف بلند بالا پہاڑ کی چوٹیاں، دوسری طرف کھاڑی اور بیچ میں ممبرا کوسہ کا اکہرا پھیلاؤ جیسے کیچڑ اور کانٹوں کے درمیان شاخ گلاب، جیسے معشوق کی وہ جس کے بارے میں ہمارا شاعر کہتا ہے!
کہاں ہے، کس طرف ہے اور کدھر ہے

ہر طرف حسن ہی حسن کا جلوہ رہا ہوگا لیکن اب وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔ اب ممبرا کوسہ کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوچکا ہے، یہاں کے ایم ایل اے کی مونچھوں کی طرح گھنی بلڈنگوں کا ایک پرخطر جال بچھا ہوا ہے، جس طرف بھی نگاہ کریں یہاں کی سیاست کی طرح بھومافیارو عمارتوں کا ایک فلک بوس تسلسل ہے۔ سیاست کے بارے میں تو پانچ برسات کی گارنٹی لی جاسکتی ہے کہ بندہ ایک نگر کا سیوک اگر بن گیا تو پانچ برسات اسے کوئی نہیں ہلا سکتا الا اینکہ خدا خود اس سیاست کار سے راضی ہوکر اپنے پاس بلا لے لیکن ان بھومافیارو بلڈنگوں کی ایک برسات کے بعد دوسرے برسات کی کوئی گارنٹی نہیں لے سکتا، شاید کوسہ ممبرا ہی کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا:
آنسو بچا کے رکھیں منسٹر، میئر، وزیر
برسات میں گریں گی دوچار بلڈنگیں

اکثر ہشت منزلہ عمارتوں کے درمیان ایک پتلا سا روڈ، روڈ کے دونوں جانب “بھائی” پارکنگ، درمیان میں حشرات الارض کے آمدورفت کی جگہ۔
جگہ جگہ ہمارے معاشرتی مزاج کو درشاتا ہوا اسپیڈ بریکر، ان اسپیڈ بریکروں سے زیادہ ستم نما بلکہ ڈبل سے ٹرپل تعداد میں اُگے ہوئے اسکول اور اسکول پر لگا اسلام چھاپ کا نان برانڈیڈ مارکہ، یہ ہے ممبرا کوسہ میری جان..
اکثر مسلم محلوں میں جگہ جگہ ایک مشرع اور چھتنار ڈاڑھیوں والا مسلمان اپنی ٹیڑھی زبان لیے ایک illegal اور باڈونیشن اسکول چلاتا ہے اور وہ اسے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت سمجھتا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے سود، سور اور شراب تو حرام ہے لیکن ہم اسے بسم اللہ پڑھ کر کھائیں گے، پئیں گے اور لیں گے… کیونکہ اسلام ہماری چھتنار ڈاڑھی کے ستون پر قائم ہے، اب ہماری من مرضیاں۔ اس چھتنار بریک سے ہم اسلام کو جدھر چاہیں گھما دیں، مجال کس میں کہ کچھ ہمارا بگاڑ لے.. افسوس تو اس بات پر ہے کہ یہ کلاہ گرد اسے عیب بھی نہیں گردانتے انہوں نے اس کی مسلمانی جو کرلی ہے.. بڑے فخر کے ساتھ ہر محلہ، ہر گلی، ہر نکڑ اور ہر اسٹیج سے یہ ٹوپیاں اچکا اچکا کر اسلامی خدمت کا ڈھونڈرا پیٹتے ہیں.. اسلام اور اسلامک اسکول کے نام پر لیاجانے والا جبری ڈونیشن کیا ہے؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔ کیا یہ اسلام فروشی نہیں ہے؟ ان باہوش اسلام فروشوں سے بہتر معاشرے کے وہ بے ہوش چرسی ہیں جو اپنی صحت و عاقبت تو خراب کر رہے ہیں مگر جب ان کے سامنے اسلام کا نام لیا جائے تو وہ سراپا سرنگوں ہوجاتے ہیں.. شاید خدا کو یہی چرسیانہ ادا ہی بھا جائے..

ایک غریب خاتون مجھ سے کہنے لگیں (یہ ابھی ہفتہ عشرہ پہلے کی بات ہے): میں اپنے بچے کا ایڈمیشن کرانے ایک اسلام فروش اسکول میں گئی، کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے ڈڑھیل نے بڑی بےشرمی سے کہا کہ: “لاؤ پہلے پندرہ ہزار پھر تمہارے بچے کا ایڈمیشن لیں گے”۔
خاتون نے کہا کہ: “میری مالی حالت ایسی نہیں کہ میں پندرہ ہزار ایک ساتھ افورڈ کرسکوں”۔
ڈڑھیل کا جواب سن کر لاحول پڑھیں: “پھر جائیں کسی اور اسکول میں اپنے بچے کا داخلہ کرا لیں”۔
اما بعد!
خطبۂ معترضہ کے بعد اب اصل مدعے پر آتا ہوں.. ممبرا کوسہ کے بیشتر اسکولوں میں میرا آنا جانا ہوا ہے، وہاں کے اساتذہ سے ملاقاتیں ہوئیں، پرنسپل سے بھی ملا، لیکن ان اساتذہ اور پرنسپل کے تعلق سے ایک بات جو ہمیشہ میرے دل میں کھٹکتی رہی وہ یہ ہے کہ مجھے کبھی کسی پرنسپل کی میز پر یا کسی استاذ کے ہاتھ میں مطالعے کی کوئی کتاب نظر نہیں آئی، نہ ہی ان کے ہاتھ اور ٹیبل پر مجھے کوئی رسالہ نظر آیا، نہ ہی کسی اسکول میں کوئی لائبریری ہے، اگر ہے بھی تو برائے نام، صرف تبرک کے لیے، کسی کام کی نہیں..
گفتگو پر مزید بھرم یہ کھلا کہ یہ کمبخت اخبار تک نہیں دیکھتے.. ڈائجسٹ اٹھائے بورڈ پر سوال جواب لکھا دیا، یہ لو یہ استاذ مہاراج یا استانی مہارانی اپنے فرائض سے سبکدوش ہوگئے اور ہوگئیں۔ اب طلبہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اسے رٹ لیں، اگزام سے پہلے ٹیچر سے امپورٹنٹ نوٹس لے لیں اسے خوب گھس ڈالیں اور مارکس حاصل کریں، سو میں سے نائنٹی فائیو، زندہ باد ملی خادموں اور خادماؤں..
عمر تا بعد از درازے ساکنان جام جم

اب ایک کانونٹ اسکول کا حال پڑھیں جو ان ڈڑھیلوں کے نزدیک سب سے بڑے مجرم ہیں..
بائیکلہ کے ایک کانونٹ اسکول میں پڑھنے والی بچی کا میں کلینڈر چیک کر رہا تھا، اس میں لکھا تھا کہ ہر پندرہ دن میں طلبہ کو لائبریری سے ایک کتاب ایشو کرانا ضروری ہے اور پھر پندرہ دن میں پڑھ کر اسے لائبریری میں جمع کرائیں ورنہ یومیہ ایک روپیہ جرمانہ وصول کیا جائے گا.. میں نے اس بچی سے پوچھا بیٹا ایسا ہوتا بھی ہے؟ کہنے لگی انکل یہ کمپلسری ہے، لائبریری سے آپ کو کتاب ایشو کرانی ہی ہے چاہے وہ ایک معمولی سا پرچہ ہی کیوں نہ ہو بھلے آپ اسے بن پڑھیں واپس لوٹا دیں۔ اور ہمارے یہاں کا یہ حال ہے کہ طلبہ بیچارے نہیں جانتے لائیبریری کیا ہے۔
ایک استاذ ڈائجسٹ لے کر ہسٹری پڑھا رہے تھے، سبق کا عنوان تھا: ‘بھارت میں تاریخ نویسی’۔ اس میں ایک جگہ ذکر ہے کہ: “بھارت میں پینتیس سو سال قبلِ مسیح “ہڑپہ تہذیب” میں تاریخ نویسی کا ذکر ملتا ہے”۔ ایک طالب علم پوچھ بیٹھا سر یہ “ہڑپہ تہذیب” کیا ہے؟
سر نے جواب دیا: “ابے یہ ایک تہذیب ہے”۔
اس نے پھر سوال کیا: “سر تہذیب کسے کہتے ہیں؟”
کہنے لگے: “ابے کمبخت تجھے تہذیب نہیں معلوم کہاں سے اٹھ کر آگیا ہے؟”۔
طالب علم شوخ تھا اس نے پانی بھانپ لیا اور سوال کا گولہ داغا: “سر! یہ ہڑپہ کہاں پر واقع ہے؟”
میاں استاذ جھلا کر بولے: “کمبخت اوپر لکھا ہے نہ بھارت میں، پھر پوچھتا کیوں ہے؟”۔
یہ حالت ہے ہمارے ملی اسکولوں اور اس میں پڑھانے والوں کی۔ مطالعے کے ذوق سے عاری، لائبریری سے نا‌آشنا۔ یہ رٹے رٹائے جاہل ہوتے ہیں اور وہی رٹی رٹائی جہالت بچوں میں انڈیلتے ہیں.. در اصل یہ علم اور تعلیم کے نام پر معصوم ذہنوں کے قاتل ہیں
آمادہ بقتلِ من ایں شوخ ستمگارے
ایں طرفہ تماشہ بیں ناکردہ گنہگارے

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
ام ھشام

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ۔۔۔۔۔۔
آپ کی یہ تحریر حرف بہ حرف ان لوگوں کی تائید حال ہے
جنہیں تعلیم اور تعّلم کی پامالی کا ادراک بروقت ہوچکا ہے اور جو اس خسارے کا تدارک کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔
آپ نے جو بتایا حالت اس سے بھی خستہ ہے
بیشک اللہ ارحم الراحمین ہے لیکن اس سے پہلے ہم اپنی حالت پر رحم کرلیں ۔

Zubair Chaudhary

اسلام کے نام پر ممبرا میں اسکول آپ انگلیوں پر گن سکتے ہیں اور اگر ہیں بھی تو باقی اسکولوں سے کہیں بہتر اور معیاری ہیں

Shoeb ahmed khan

آپ نے میرے دل کی بات کہ دی۔ مجھے خط و کتابت پر اتنا عبور حاصل نہیں کہ میں کچھ لکھ سکوں۔ آپ ایسے ہی بےباکی سے لکھتے رھیں