مدعا صرف ماب لنچنگ ہے

سلمان ملک فائز بلرامپوری

نفرت آمیز جرائم کے خلاف وزیر اعظم کو روانہ کئے گئے ۴۹؍ دانشوروں کے مکتوب کے ردعمل میں ۶۲؍دیگر ہستیوں نے بھی خودساختہ دانشوری کا نمونہ پیش کردیا ہے اور انہوں نے بھی وزیر اعظم کو خط لکھ کر ماب لنچنگ کے خلاف قانون سازی کے مطالبے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔وزیر اعظم کے نام خط لکھنا آئینی حق ہے جس پر کسی کو بھی اعتراض اور ناراضگی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔تاہم جوابی دانشوروں کا الزام ہے کہ ابتدائی ۴۹؍ دانشوروں نے مودی کو خط لکھ کر اپنی مقبولیت کا غلط استعمال کیاہےاور ملک کویہ باور کرانے کی کوشش کی ہے یہاں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پی ایم کو خط لکھنا غلط اور آئین مخالف قدم ہے اور اگر غلط ہے تو اس کے کفارے کیلئے روانہ کئے گئے ۶۲؍ جوابی دانشوروں کے مکتوب کس غیر آئینی عمل کا حصہ قراردیں گے ؟۔ ان جوابی دانشوروں کو شائد یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ جوابی خط لکھ کر انہوںنے بھی اپنے سرپر وہی الزام لے لیا جو دوسروں پر تھوپ رہے تھے۔ اگر وزیر اعظم کو خط لکھ کر ان لوگوں نے اپنی شہرت اور مقبولیت کا غلط استعمال کیا ہے تو جوابی دانشوروں نے بھی وہی کام کیا ہےاور وہ بھی اسی جرم مرتکب ٹھہرے ہیں۔جوابی خط لکھنے والوں کا الزام ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک رہا ہے اور۴۹؍ لوگوں نے اپنے مکتوب میں موجودہ حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہےکی ہے؟ ۔سب سے پہلے تو ان معزز جوابی دانشورا ن سے عرض ہے کہ جن ۴۹؍ شخصیات نے خط لکھ کر ااپنی ناراضگی اور شکایت درج کرائی ہیں انہوں نے ملک کے وزیر اعظم کے نام لکھا ہے ملک کے عوام اور شہریوں کے نام نہیں اگر موجودہ حکومت کوبدنام کرناہی مقصد ہوتا تو وزیر اعظم کے نام خط نہ لکھتے بلکہ براہ راست ملکی عوام کے نام لکھتے ۔چلئے اسی اعتراض کے پہلومیں اس بات کو بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم کے نام خط اس لئے لکھا تاکہ بڑے پیمانے پرمشہورہوکر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں اور مین اسٹریم میڈیا میں وہ موضوع بحث بن سکیں۔تو یہ اعتراض بھی بہت حد تک نامعقول ہے کیونکہ بقول آپ پی ایم کے نام خط لکھ کر انہوں نے اپنی شہرت اور مقبولیت کا غلط استعمال کیاہے اگر وہ وزیر اعظم کے نام خط نہ بھی لکھتے تو وہ اپنی شہرت کا کہیں نہ کہیں غلط استعمال کرسکتے تھےتو اس کا جواب آپ کے پاس کیا ہے ؟ ۔دوسری بات ان ۴۹؍ ہستیوں کے مکتوب کے پیش نظر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے ملک کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے ۔یہ الزام غیر معتبر اورسراسر سیاسی ہے کیونکہ اگر مذکورہ ۴۹؍ لوگوں کا یہی مقصد ہوتا ہے تو وہ مودی کو لکھے گئے خط میں ملک کے کئی اہم مسائل پر اپنی شکایت درج کراتے لیکن مکتوب میں صرف ماب لنچنگ کے نام پر پھیل رہی نفرت انگیز جرائم پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیاہےاور انہوں وزیر اعظم سے نفرت آمیز سماجی جرم پرپابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر جوابی دانشورں کو یہ لگتا ہے کہ ملک میں ماب لنچنگ کی وباء بھی اپوزیشن کی شازش ہےتو دانشوری کے عینک اتار دینا چاہئےاور ہجومی تشدد کے گنہگاروں کے اہل خانہ سے ایک ملاقات کرکے جینت سنہا جیسی ماب لنچنگ مخالف ہستی سے پھول اور مالا پہن لینا چاہئےاور یہ بھی کم پڑے تو موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ کا اخلاق احمد ماب لنچنگ معاملے پر گزشتہ سال کا ایک بیان سن لینا چاہئےہوسکتا ہے اس کے بعد ان دانشوروں کی دانشوری کے طوفانی لہر میں کچھ اعتدال آجائے ۔
جن لوگوں کا کہنا ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک ٹھاچل رہا ہےانہیں ایک بار ضرور حکومت سے سوال کرنا چاہئے کہ آخر کیا بلا آپڑی تھی کہ آرٹی آئی قانون میں ترمیم بل پاس کرلیا گیا ۔اگر سب کچھ ٹھیک ہی چل رہا ہے تو حکومت حق اطلاعات قانون کو غیر مستحکم کیوں کررہی ہے؟حکومت ۱۱؍ لاکھ سے زائد عوامی سوالات کا جواب کیوں نہیں دیتی ؟ ۔صحیح بات تو یہ کہ ملک میں کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا ہے اس کے باوجود بھی ۴۹؍ دانشوروں نے صرف ایک ہی مسئلے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور مودی کو خط لکھ کر اپنی شکایت درج کرائی ۔ جنہیں یہ لگتا ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے تودانشوری کا پیرہن اتار کر سیاسی چولہ ڈال لینا چاہئے اور ’’سب کچھ کو اور بہتر ‘‘چلتے دیکھنا ہے تو بی جے پی میں شامل ہوجانا چاہئے ۔ ملک میں کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ میڈیا دلالی کررہا ہے،الیکشن کمیشن بی جے پی کی گود میں کھیل رہی ہے،سی بی آئی اپنی رسوائی کا سامان خود ہی تیارکرچکی ہے ،آئی بی حکومت کے اشارے پر چھاپہ ماری میں مصروف ہے، سپریم کورٹ ہدایت جاری کرنے سے انکار کررہا ہے، ہائی کورٹ کا جج مسلمانوں کو پاکستان بھیج رہا ہے،میڈیائی اہلکار بی جے پی کے ترجمان بنے ہوئے ہیں،پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ انگلیاں دکھانے کا کام کررہے ہیں، کسان خود کشی پر مجبور ہیں، شیئر مارکیٹ دم توڑ رہاہے،مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے،ملک کا اقتصادی ڈھانچہ کمزرو ہوتاجارہا ہے،محتسب اداروں کی قوت کو تحلیل کیا جارہاہے، سماجی کارکنا ن کو دھمکیاں دی جارہی ہیں، سرکاری پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو دیشدروہی کہا جارہےریاستوں میں جرائم بڑھتے جارہے ہیں،معصوم بچیوں کی عصمت دری ہورہی لیکن ان چشم بصیرت سے عاری دانشوروں کے نینوں پھر بھی سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، ملک آگے بڑھ رہا ہےاور عنقریب وشو گرو بھی بن جائے گا۔
ہندوستان جیسے مخلوط سماج میں سب کچھ ٹھیک چلانے کیلئے قوت برداشت ،صبر اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ صفات نہ موجودہ حکومت میں ہےنہ حکومت کے موئدین میں اور نہ ہی ان ۶۲؍ دانشوروں میں جنہوں نے بدحواسی میں جوابی خط لکھ مارا ہے ۔یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ۴۹؍ دانشوروں نے ملک مشترکہ اور کنگا جمنی تہذیب ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،جمہورری اقدار کا تحفظ اور سماجی پیار اور محبت کے استحکام کیلئے پی ایم مودی کو خط لکھا ہے جوآئینی حق اور قانونی طاقت ہے ۔

آپ کے تبصرے

3000