برسرِاقتدار مرکزی حکومت نے لاکھ احتجاج اور مخالفتوں کے باوجود اکثریت کے ساتھ طلاق ثلاثہ بل منظورکرالیا ہے جس سے ایک مجلس میں تین طلاق دینے کی صورت میں تین سال کی سزا اور جرمانہ دینا ہوگا۔ یہ ایک سماجی اور معاشرتی مسئلہ تھا جسے حکومت جرائم کی فہرست میں داخل کرکے مسلم خواتین کو انصاف دلانے کی بات کررہی ہے اور خود ہی اپنی پیٹھ تھپتھپارہی ہے کہ اس نے ایک تاریخ ساز فیصلہ لیا جس سے مسلم بہنوں کو ترقی ملے گی تاہم اس کے برعکس گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد وہی سماجی برتری اور خواتین کا استحصال نظر آتا ہے جو کہ خود متاثرہ خاتون کے لیے باعث اذیت ہوگا، جو ایک خاتون سمجھ نہیں رہی ہے یا سمجھ رہی ہے مجبور ہے حکومت کی عیاری کے سامنے۔ اس بل کے پاس ہونے کے بعد مسلمانوں کی ہمدردی کا مالا جپنے والی پارٹیوں کے چہرے سامنے آگئے ہیں۔
فطری طور پر انسان کے اندر تعصب موجود ہے چاہے وہ لبرل ہو ملحد ہو یا کسی جماعت، علاقے اور خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر ایک کے ذہن میں یہ بات پیوست ہے کہ اس کے معتقدات کے خلاف کی ساری چیزیں غیرمعقول ہیں۔ ملحد اور لبرل کسی خاص چیز کو خلاف مانتے ہیں اور گاہے بگاہے نسلی و علاقائی تعصب بھی سر ابھارتا رہتا ہے۔ اسی لیے ہر شخص کو کھلے دل سے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ تعصب کا نصف حصہ نہ سہی لیکن ادنی درجہ تو اس کے اندر موجود ہے۔ اب یہی تعصب کبھی کبھار أنا اور ضد کا مسئلہ بن جاتا ہے تو کبھی قتل و غارت گری کا۔ مرکز میں موجود حکومت نے مسلم خواتین کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں ترقی کے نام پر ان کا استحصال کیا اور یہ صرف مسلمانوں کی بات نہیں ہے بلکہ ہر سماج و معاشرے میں کسی نہ کسی کا استحصال ہوتا رہا ہے۔ حکومت نے طلاق کے مسئلہ کو اچک لیا اور برسوں سے خاک کھا رہی فائلوں پر پھر سے انگلی رکھی۔ یہ فائل جیسے ہی اوپن ہوئی تو خود کو سوادِاعظم کہنے والی جماعت نے أنا کا مسئلہ بنا لیا، اس قانون کے خلاف دستخطی مہم چلائی گئی، کانفرنسیں ہوئیں، یہاں تک کہ باپردہ مسلم خواتین کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر لاکھڑا کردیا گیا۔ لیکن حکمت و دانشمندی کے فقدان کے سبب لاکھ سر چٹان پر پٹختے رہے آب حیات جاری نہ ہوسکا اور ہو کیسے، جبکہ مقابل میں مسلم دشمنی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہوئی جماعت تھی، جس کا قطعی مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں کو پریشان کیا جائے۔ ماہرین قانون اس بات پر متفق ہیں کہ اس قانون کے ذریعہ ایک معاشرتی مسئلہ کو جرائم کی فہرست میں داخل کیا جارہا ہے جو بہرصورت زیادتی ہے لیکن مقابل کی ساری تدبیریں لاحاصل ہیں۔
طلاق ثلاثہ بل پاس ہوچکا ہے۔ اب صرف صدر جمہوریہ کی ہامی باقی رہ گئی ہے لیکن وہاں بھی بآسانی یہ بل پاس ہوجائے گا کیونکہ وہ بھی اسی کیڈر سے آئے ہیں جن لوگوں نے تمام مسائل کو ترک کرکے تین طلاق کو ترجیحی طور پر پارلیمنٹ سے پاس کروا لیا۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ اب واویلا کررہا ہے کہ شریعت میں مداخلت ہے اس کے ذریعہ حکومت شریعت مخالف مزید قوانین بناسکتی ہے اور یہ حقیقت ہے۔ تاہم غور کیا جائے تو ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ تو ایک خاص فکری جمود کا شکار ہوچکا ہے یا یہ کہیں کہ ہائی جیک کیا جاچکا ہے، اگر مسلم پرسنل لاء بورڈ واقعی میں مسلمانوں کا ترجمان ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا کہ بی جے پی حکومت اس مسئلہ کو ناک کا مسئلہ بناتی اور ترجیحی بنیاد پر اس کو بار بار قانونی شکل دینے کا مطالبہ کرتی اور اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم خواتین کی ہمدردی کے نام پر مسلم عورتوں کو شکار بناتی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ ہی اس قانون کو پاس کرانے کا ذمہ دار ہے ورنہ اگر انھوں نے قرآن و سنت کی صحیح تعبیر پیش کی ہوتی تو شاید ایسا دن دیکھنے کو نہیں ملتا۔ میں یہاں جان بوجھ کر اہل حدیث لفظ کا ذکر نہیں کررہا ہوں کیونکہ جب اہل حدیث سامنے آجائے تو تمام مسائل و مصائب درکنار پھر یہاں مسلکی شعلہ بھڑکنے لگتا ہے۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر مسلم پرسنل لاء بورڈ جو یقینی طور پر مسلمانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے اسے یہ صاف کردینا چاہیے کہ اس میں تمام مسالک کے لوگ شامل ہیں اور بوقت ضرورت حالات و کوائف کے مدنظر حکمت و دانائی کا ثبوت دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے۔ دوسری اور قابل توجہ بات یہ کہ اہل حدیثوں نے بھی درست طریقے سے اپنی بات نہیں رکھی اور یہ حقیقت ہے۔ اہل حدیثوں کے پاس کوئی قومی پلیٹ فارم نہیں ہے جو منظم انداز میں آج کے اس سوشل میڈیائی دور میں درست نمائندگی کرے۔ سب ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں وقت اور پیسہ صرف کررہے ہیں ورنہ کیا وجہ تھی کہ جہاں پر ان کا دبدبہ تھا اور جو اس کے بانی مبانی تھے وہیں سے چھٹی کرا دی گئی۔ اب اس کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے؟ طلاق ثلاثہ کے مسئلے پر اپنا موقف رکھنے میں جماعت اہل حدیث کلی طور پر نہ سہی تو 90 فیصد ناکام رہی ہے۔ ہم اردو اخبارات و جرائد میں کچھ بول لیتے ہیں تو بڑے طرم خان بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی پلیٹ فارم ہمارا انتظار کررہے ہیں جہاں پر ہماری نمائندگی کی ضرورت ہے۔ جماعت میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے کہ اس کی بھرپائی نہ ہوسکے لیکن حوصلہ اور رہنمائی کی کمی ہے۔ بات طویل ہوگئی ہے لیکن اس قانون کے حقیقی ذمہ دار ہم خود ہیں اس لیے روئیں تو اپنی بے عقلی اور بددماغی پر روئیں۔ واویلا کریں تو اپنی نادانستگی پر واویلا کریں۔
طلاق کی شرح کافی کم ہے لیکن سوچیں کہ بسا اوقات طلاق دینے کی نوبت آتی ہے تو ایک ساتھ کیوں چیخ چیخ کر تین طلاق ایک ساتھ دیتے ہیں جو کہ حقیقت میں واقع تو نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اب قانونی لحاظ سے جرم ہوگیا۔ کیا ذہنی طور پر معاشرے میں اس وبا کے خلاف ہم نے کبھی تحریک چلائی؟ اب جبکہ قانون عنقریب پاس ہوجائے گا تب بھی ہم اس کے لیے کیا کرر ہے ہیں؟ کیا حکومت کو کوسنے سے اس جرم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ وہ پارٹیاں جن پر مسلمان تکیہ کیے ہوئے تھے انھوں نے واک آوٹ کرکے یا پھر پارلیمنٹ میں حاضر نہ ہوکر حکومت کی منشا کو کامیاب بنادیا ہے اور ہم کچھ نہیں کرسکے۔ ہمیں اس مسلم مخالف قانون سے نجات کے طریقہ کار پر غور و فکر کرنا چاہیے، ماہرین قانون سے صلاح و مشورہ کرنا چاہیے اور پھر عزم وحوصلے اور مضبوطی کے ساتھ قدم بڑھانا چاہیے۔اسی قبیل کے دوسرے مسائل جو غیر معمولی نوعیت کے ہیں جیسے مساجد میں خواتین کا داخلہ اورحلالہ جیسی قبیح عمل پر ازسرِ نو مطالعہ کرنا چاہیے اور وقت رہتے اس میں سدھار لانے کی کوشش کی جانی چاہیے ورنہ اگلا نمبر انہی کا ہے اور آہستہ آہستہ ہماری بے وقعتی جگ ظاہر ہوتی جائے گی۔ اور یہ جان لیا جائے کہ کوئی پارٹی ہماری بہی خواہ نہیں بلکہ سب کا خدا الگ سہی، سب کا مفاد ایک ہے۔
آپ کے تبصرے