جیسے نمک کم ہو تو کھانا پھیکا اور زیادہ ہوجائے تو ناقابل برداشت ہوجاتا ہے ویسے ہی شکر کا معاملہ بھی ہے۔ افراط اور تفریط دونوں نامناسب ہیں، اعتدال ہی اللہ کو مطلوب ہے۔ بندے کا موڈ اور بندگی کی کیفیت دونوں میں میانہ روی محبوب ہے۔ یہاں تک کہ آگ، ہوا، پانی، سرد و گرم سب متوازن ہی اچھے لگتے ہیں۔ اشیاء ہوں، وسائل ہوں، موسم ہو، وسطیت ہی جچتی ہے۔ یہی دنیا و ما فیہا کا مجموعی مزاج ہے۔
تعلیم ایک ایسی نعمت ہے جس کے بغیر یہ دنیا اندھیری ہے۔ وحی الٰہی کا حرف اول یہی ہے۔ جو جتنا پڑھا لکھا ہوگا اتنا ہی وہ توازن سے قریب تر ہوگا۔ شعور کا یہی مقتضا ہے۔ اشیاء کا علم، معاملات کی سمجھ اور نتائج کی پیش بینی سب ایک ہی سلسلے کے الگ الگ لیول ہیں۔ نعمتوں کا درست استعمال، محرومیوں میں صراط مستقیم پر استقامت اور آزمائشوں میں بیسٹ آپشن کا انتخاب یہ ایسے ٹاسک ہیں جن سے کامیابی کے ساتھ گزرنا خالق کائنات کا نام لے کر کی گئی پڑھائی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
رب کی معرفت ہی اس علم کا خشت اول ہے۔ کائنات کا علم رب کی حمد و ثنا اور بندے کو صبر و شکر پر تبھی باقی رکھ سکتا ہے جب اس کی بنیاد درست ہو۔ بنیاد اسی ترتیب کے مطابق ہوگی جو قرآن میں مذکور ہے۔ اس طور بندے کے علم میں جتنا اضافہ ہوگا رب کی معرفت کا لیول اتنا بڑھتا جائے گا، اسی اعتبار سے پھر اس کا عمل بھی ہوگا۔ خالق کائنات کا عرفان ہی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اس کا مددگار ثابت ہوگا۔ تعلیم جب اللہ کے نام سے شروع ہوگی تو حمد و ثنا کا پہلو ہمیشہ غالب ہوگا اور بندہ صبر و شکر سے کام لے گا۔ پھر نہ وہ غرور میں مبتلا ہوگا کہ اسے شعور ہوگا سب اللہ کا دیا ہوا ہے اور نہ ہی شکوے میں صبح و شام کرے گا کہ اسے احساس ہوگا اللہ جب چاہتا ہے جتنا چاہتا ہے دیتا ہے۔ بندے کو جو خیر معلوم ہو وہ شر بھی ہوسکتا ہے اور جو شر لگے وہ خیر بھی نکل سکتا ہے۔ بندہ صرف گمان کرسکتا ہے یقینی علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ مثالیں دنیا میں بکھری پڑی ہیں، بہت ساری اچھی چیزیں خراب لفافوں میں مل جاتی ہیں اور کئی بری چیزوں پر اچھے اچھے کور بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ بندے کی نظر صرف ظاہری چیزیں دیکھ پاتی ہے، فاصلہ ہمیشہ اتنا کم نہیں ہوتا کہ ناک بدبو سونگھ لے اور نہ ہی ہر بری چیز بدبودار ہوتی ہے۔
جس علم کی بنیاد یہ ہو اس کی ساری تپسیا کا رخ صحیح ہوگا۔ یہ علم اور وہ ہدایت جو اس کے ساتھ ملتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زوردار بارش کی طرح بتایا ہے۔ اس کے اثرات تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک جہاں برسے وہ زمین جذب کرے اور کچھ اگائے بھی، دوسری جو جذب تو نہ کرپائے مگر روک لے اور فائدہ اوروں کو ہو اور تیسری روک بھی نہ پائے جذب کرنا تو دور کی بات، نہ خود اسے کوئی فائدہ پہنچے نہ دوسروں کو۔
ان تینوں کیسز میں علم و ہدایت اپنی جگہ مسلم ہیں، فرق اس کے حاملین میں ہے۔ یعنی ضروری نہیں اس علم کا مقصود ہر شخص پر ویسا ہی ظاہر ہو جیسا اس میں اثر اللہ نے رکھا ہے۔ بیج میں اللہ نے اگنے کی صلاحیت رکھی ہے مگر اس کے لیے ہموار زمین بھی ضروری ہے۔ پتھر پر رکھ دینے سے وہ فصل نہیں اگ سکتی جو ہموار کیے ہوئے کھیتوں میں اگتی ہے۔
علم سے تواضع آتا ہے، غرور نہیں۔ اگر اعلی تعلیم بیمار کردیتی ہے تو دو وجہ ہوسکتی ہے: ایک یہ کہ علم کی ترتیب درست نہیں ہوگی یا بندے کو کائنات کا علم ہوگا خالق کائنات کا نہیں ہوگا۔ دوسری وجہ یہ کہ بندے کا دل ہی پتھر جیسا ہوگا تو وہ بارش جیسے علم سے کیا فائدہ اٹھائے گا۔
ڈاکٹر آف فلاسفی پی ایچ ڈی کا فل فارم ہے، عربی میں اسے دکتوراہ کہتے ہیں۔ یونیورسٹی کی سب سے اعلی ڈگری ہے۔ یہ ڈگری پانے کے بعد بھی اگر کوئی عالم فاضل جیسے عادات و اطوار کا حامل نہیں ہے تو سمجھیے اسے پی ایچ ڈی لگ گئی ہے۔ کتوم ہوجائے تو تفریط کا مجرم ہوگا، باتیں بہت نمکین یا بڑی میٹھی کرنے لگے تو افراط کا۔ یہاں بھی رویے میں اعتدال ضروری ہے۔
👍👍👍
ایک ڈاکٹر نے دوسرے ڈاکٹر کو جادۂ اعتدال پر رہنے کی تلقین کی۔ لیکن وہ ہٹ دھرم ڈاکٹر جسے میں پچھلے 22 برسوں سے جانتا ہوں، اس پر آپ کی اس ناصحانہ تحریر سے بھی کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں، اللّٰہ کرے کہ محترم ایڈیٹر صاحب! آپ کی نصیحت ضائع نہ ہو۔
بقول شاعر
ناصحہ نہ کر نصیحت کیوں میرا سر کھائے ہے
میں اسی کو سمجھوں دشمن جو مجھے سمجھائے ہے
(محرر : محمد اشرف یاسین)